ترے گریز کا ایک اس جہاں میں چرچا ہے
ہمارے شوق کا سات آسماں میں چرچا ہے
وہ داستانِ ستم تجھ سے رکھتی ہے نسبت
کہ جس کا خلق کی ہر ہر زباں میں چرچا ہے
ہے ابتدائے محبت کہ اس پری وش کا
خیال و خواب و یقین و گماں میں چرچا ہے
میں اس شفیعِ امم کی نہ کیوں کروں توصیف
کہ جس کے فقر کا بزمِ شہاں میں چرچا ہے
یہ کون شخص ہے کہلاتا ہے مدثر جو
اس آدمی کا گروہِ بتاں میں چرچا ہے
ہمارے شوق کا سات آسماں میں چرچا ہے
وہ داستانِ ستم تجھ سے رکھتی ہے نسبت
کہ جس کا خلق کی ہر ہر زباں میں چرچا ہے
ہے ابتدائے محبت کہ اس پری وش کا
خیال و خواب و یقین و گماں میں چرچا ہے
میں اس شفیعِ امم کی نہ کیوں کروں توصیف
کہ جس کے فقر کا بزمِ شہاں میں چرچا ہے
یہ کون شخص ہے کہلاتا ہے مدثر جو
اس آدمی کا گروہِ بتاں میں چرچا ہے