ذوالقرنین
لائبریرین
براہوئی نثر - تاریخ کے آئینے میں
تحقیق: عبدالرشید جتک
ترجمہ و ترتیب: ذوالقرنین
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ براہوئی ایک قدیم زبان ہے، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہدوسرے زبانوں کی طرح براہوئی ادب میں نسبتاً بہت کم کام کیا گیا ۔ یہ کمی یا کمزوری کسی قوم ، زبان میں کم علمی کی نشانی کہی جا سکتی ہے لیکن اس سے اس قوم ، زبان کی قدامت ختم نہیں کی جا سکتی۔ براہوئی زبان و سماج کی طرح براہوئی ادب بھی قدیم نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ براہوئی قوم کے قبائل زیادہ تر جنگ و جدل اور خون ریزی میں اپنا وقت ضائع کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے بھی یہ قوم علم و ادب کے رستے سے دور رہے۔ ایک وجہ یہ بھی رہا ہے کہ براہوئی قوم میں دوسرے اقوام کی طرح قوت برداشت کا بہت فقدان ہے۔ یہ وجہ بھی اسے علم و ادب سے دوری کا سبب بنا رہا۔
جہاں تک بات براہوئی نثر نگاری کا ہے تو اس سلسلے میں سب سے پہلی کتاب "خدمت دین" نظر آتی ہے جو کہ 1292 ء میں شائع ہوئی۔ جس کے بارے میں براہوئی کے نامور عالم ڈاکٹر عبدالرحمن براہوئی کہتا ہے کہ یہ براہوئی میں سب سے پہلی نثر کی کتاب ہے۔ اسی طرح نثر کی دوسری کتاب "مجہول الاسم" ہے جو 1393 ء میں شائع ہوئی۔ نثر کی تیسری کتاب " عملیات گوہر بار براہوئی" 1460ء میں شائع کی گئی۔ ان کتابوں کا تعلق براہوئی نثر کے پہلے دور سے ہے۔
براہوئی نثر کا دوسرا دور اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب انگریزوں نے بلوچستان میں قدم رکھا۔ سب سے پہلے ایک انگریز لیفٹیننٹ آرلیچ نے 1838 میں براہوئی گرامر کی کتاب رومن رسم الخط میں شائع کروایا۔ جس میں چند لوک شاعری اور قصے کہانیاں تحریر کیے گئے تھے۔ اس کے بعد 1877ء میں کراچی ہائی اسکول کے ایک استاد اللہ بخش زہری نے "ہینڈ بک آف دی براہوئی لینگوئج" شائع کیا۔ اسی سال میں کیپٹن نکلسن نے بھی براہوئی نثر میں کچھ کام کیا۔ اس کے بعد عیسائیوں کے نامی کتاب "یوحنا" جو کہ رومن رسم الخط میں 1905ء میں شائع کی گئی۔ جس کا دوسرا حصہ 1906ء میں براہوئی زبان میں بھی شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ ایک انگریز محقق گیرئرسن کی باری آتی ہے جس نے 1906ء میں "لینگوسٹک سروے آف انڈیا" نامی کتاب تحریر کیا۔ اسی طرح 1907ء میں ٹی جے ایل کی کتاب " اے براہوئی ریڈنگ بک" تین جلدوں میں شائع ہوئی، جو کہ نثر میں ایک اہم پیش رفت تھا۔ جمعیت رائے کی کتاب بھی اسی سنہ میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ مستشرقین میں سے نامی گرامی نام ڈینس برے، جس نے 1938ء میں براہوئی ڈکشنری شائع کروایا جوکہ براہوئی نثر کی بہترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 1900ء سے لے کر 1906ء تک سول سروس میں ملٹری آفیسرز کا امتحان پاس کرنے کے شرائط میں براہوئی میں امتحان پاس کرنا بھی شامل تھا۔ جسے براہوئی نثر کے لیے ایک شعوری کام کہا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ براہوئی نثری ادب کے لیے سب سے زیادہ کام فرنگی مستشرقین نے کیاجنہوں نے یہ کام اپنے مذہبی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کیا لیکن ان کا یہ کیا گیا کام براہوئی نثری ادب میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوئی۔
تیسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب مکتبہ درخانی نامی ادارہ ایک عالم مولانا محمد فاضل درخانی کی معیت میں 1860ء میں ڈھاڈر میں ایک مدرسہ کی شکل میں قائم کی گئی جس نے آگے کام کرتے ہوئے 1883ء میں ایک مکتبہ کی شکل اختیار کیا۔ جس سے وقتاً فوقتاً اشاعت کا کام جاری رہا۔ اسی مکتبہ کے ایک نامی عالم علامہ محمد عمر دین پوری نے1 191ء میں "شروط الصلوٰۃ" کا براہوئی ترجمہ پیش کیا۔ اسی طرح علامہ صاحب نے آگے کام جاری رکھتے ہوئے 1916ء میں مولانا عبدالحئی کی مدد سے قرآن پاک کا براہوئی ترجمہ پیش کیا۔ 1921ء میں علامہ دین پوری کی ایک اور کتاب " اعلان واجب البیان" شائع ہوئی جس میں قرآن پاک، احادیث نبوی ﷺ کے متعلق بیان کی گئی ہے۔ 1927ء میں علامہ دین پوری صاحب کے کتاب " مثال حال"، " تحفتہ الامراء" اور " ہدایت المستورات" شائع ہوئے جن کا تعلق دینی امور و دینی حکایات سے ہے۔ اسی طرح علامہ صاحب نے 1928ء میں قرآن پاک کے دس پاروں کی تفسیر بھی پیش کیا۔ 1929ء میں علامہ صاحب کی ایک کتاب " مُلا اُرانا" شائع ہوئی۔ 1933ء میں "قاعدہ براہوئیہ" شائع ہوئی۔ ان کے علاوہ علامہ محمد عمر دین پوری کے چند اور کتابوں کے نام یہ ہیں، " تنبیتہ الغافلین، بچھڑا، آئینہ قیامت، داستان ابلیس، شرح اصول ستہ اور ہدایت قادریہ ۔" اسی طرح علامہ عبدالمجید چوتوئی کی نثری کتاب " شمعتہ القلوب" بھی ایک نامی کتاب ہے جو 1938ء میں شائع ہوئی۔
1940ء میں علامہ عبدالباقی درخانی کی مشہور نثری کتاب "خطبات درخانی" شائع ہوئی۔ 1946ء میں خلیفہ گل محمد نوشکوی کی نثری کتاب " معلم الحج" شائع ہوئی۔ 1958ء میں نوشکوی کی کتاب " شروط الصلوٰۃ" شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ نوشکوی کی کتاب " مجربات نوشکوی" دو جلدوں میں شائع ہوئے۔ ان سب کے علاوہ مکتبہ درخانی کے چند اور مشہور علماء نے بھی براہوئی نثر میں گراں قدر خدمات سرانجام دئیے۔ جو براہوئی نثر کو آگے بڑھانے میں اہم اقدام ثابت ہوئے۔
براہوئی نثر کا چوتھا دور 1960ء سے شروع ہو تا ہے جسے براہوئی نثری ادب کا جدید دور بھی کہا جاتا ہے۔اس دور میں اخبارات و رسائل ادب کو آگے لانے میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوئے۔ اس کے بعد 1956ء میں ریڈیو پر بھی اس سلسلے میں چھوٹے چھوٹے پروگرام نشر ہونے شروع ہوئے جس کے ذریعے بھی نثری ادب کو آگے بڑھنے میں بہت مدد ملی۔
منظور بلوچ کی کتاب " ایم اے براہوئی" 1960ء سے دو سال پہلے شائع ہوئی جس میں براہوئی زبان میں چند افسانے بھی درج تھے۔ ڈاکٹر عبدالرحمٰن کی کتاب " پٹ و پول" کے مطابق دوست محمد دوست کا افسانہ " قیدی" مارچ 1957ء میں شائع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ چند رسالے جیسا کہ "ایلم" (مستونگ)، "نوائے وطن" (کوئٹہ)، "بلوچی" (کراچی)، " معلم" (کوئٹہ)، "مہر" (نوشکی) اور بہت سے دیگر رسالے بھی براہوئی نثری ادب میں گراں قدر خدمات سرانجام دیتےآ رہے ہیں۔
اسی طرح 1957ء میں غلام نبی راہی نے ڈرامہ " راجی" بنایا جسے براہوئی کا سب سے پہلے ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علامہ راہی کے چند افسانے اسی سال رسالہ معلم کوئٹہ میں شائع ہوئے جو کہ براہوئی نثری ادب کو آگے لانے میں کسی مدد سے کم نہیں۔
جب 1976ء میں ٹیلی ویژن کے نشریات شروع ہوئے تو اس نے بھی نثری ادب کو جلا بخشی۔ اس وقت کے چند مشہور ڈرامے انشائیہ، پٹ و پول، افسانہ، سفرنامہ وغیرہ ہیں۔ جن کے ذریعے بھی براہوئی نثر کو کافی مدد ملی۔