آئی کے عمران
محفلین
میر و غالب کی زمین میں ایک غزل
دشت جوں قیس سے پہلے تھا ،ہوا میرے بعد
کوئی دیوانہ اسے پھر نہ ملا میرے بعد
سر زمیں دشت کی آباد تمھیں سے ہو گی
قیس نے مجھ سے گلے مل کے کہا میرے بعد
آخرش توڑ دیے جام و سبو ساقی نے
رند کوئی نہ بلا نوش ملا میرے بعد
خواب میں آ کے کیا مجھ سے گلہ سوہنی نے
سنتی ہوں میں کہ بنا پختہ گھڑا میرے بعد
خوف آیا مرے انجام سے دیوانوں کو
سو کوئی اس کی گلی میں نہ گیا میرے بعد
آخرش جان گیا وہ بھی وفا کے معنی
اس ستم گر پہ مگر راز کھلا میرے بعد
میری ہر سانس ترا شکر بجا لاتی ہے
کون ایسے کرے گا حمدو ثنا میرے بعد
دشت جوں قیس سے پہلے تھا ،ہوا میرے بعد
کوئی دیوانہ اسے پھر نہ ملا میرے بعد
سر زمیں دشت کی آباد تمھیں سے ہو گی
قیس نے مجھ سے گلے مل کے کہا میرے بعد
آخرش توڑ دیے جام و سبو ساقی نے
رند کوئی نہ بلا نوش ملا میرے بعد
خواب میں آ کے کیا مجھ سے گلہ سوہنی نے
سنتی ہوں میں کہ بنا پختہ گھڑا میرے بعد
خوف آیا مرے انجام سے دیوانوں کو
سو کوئی اس کی گلی میں نہ گیا میرے بعد
آخرش جان گیا وہ بھی وفا کے معنی
اس ستم گر پہ مگر راز کھلا میرے بعد
میری ہر سانس ترا شکر بجا لاتی ہے
کون ایسے کرے گا حمدو ثنا میرے بعد