تنویر احمد تنویر
محفلین
مکرمی استاد الف عین، محمد یعقوب آسی اور مزمل شیخ بسمل
براہ کرم اصلاح فرمائیے
محتاط رہیے
یہ دنیا ہے بڑی ہی خراب محتاط رہیے
جناب آپ ہیں کھلتے ہوئے گلاب محتاط رہیے
بات کیجیے مگر ہوش سے میری سرکار
یہاں لوگ لیتے ہیں بہت کڑا حساب محتاط رہیے
میری بے بسی پہ نہ ہنسے اے حضور
آپ بھی آ سکتے ہیں زیرِعتاب محتاط رہیے
ضروری نہیں میکدے سے ہوکے آئے کوئی
آنکھوںسےبھی پلائی جاتی ہےشراب محتاط رہیے
حق کی بات اور یوں ڈنکے کی چوٹ پے
زندگی ہے گر پیاری جناب محتاط رہیے
امیرِ شہر سے ہوں ہمکلام بس تعریف کیجیے
بھولیے نہ دربار کے آداب محتاط رہیے
کیا ہوا جو مر گیا غریب بھوک کے ہاتھوں
حاکمِ وقت سے نہ مانگیے حساب محتاط رہیے
میرے کشمیر
چناروں کی زمین، بہاروں کی زمین
گرتے جھرنوں کے بہتے دھاروں کی زمین
اے زعفران کی خوشبو سے مہکتے گلشن
ھائے وہ ڈل کا حسن کے جیسے شرماتی دلھن
اے شہ رگ و روح ارض پاک
کتنی معتبر ہے تیری خاک
اے خطہ جنت نظیر
میرے کشمیر، میرے کشمیر
کیسے تم سے منہ موڑ لیں ہم
کیسے تمھیں تنہا چھوڑ دیں ہم
جھگڑا یہ سرحد پہ کھینچی لکیر پر نہیں
لڑائی یہ فقط کسی تحریر پر نہیں
جنگ یہ ظالم سے مکار سے ہے
رزم یہ عہد شکن سے غدار سے ہے
محاربہ یہ حق کا باطل سے ہے
مقابلہ یہ سرفروشوں کا قاتل سے ہے
اے ارض شہیداں، اے وادئ کشمیر
وعدہ ہے تجھ سے اے خطہ جنت نظیر
ستم شعار سے تجھے آزاد کرائیں گے
ہندو سے غاصب سے حساب چکائیں گے
تیرے معصوم فدائی نگاوں میں بسے ہیں
ان معصوموں کی روحوں کو چین دلائیں گے
تیری تصویرلہورنگ کی قسم
سبز ہلالی پرچم تجھ پر لہرائیں گے
بدل دیں گے ہر دستور ستم
بھر جائے گا تیرا ہر زخم
چشم عدو اشک ندامت کے روئے گی
ہم کریں گے یہ تاریخ رقم
میرے کشمیر، اے میرے کشمیر
تیرا ذرہ ذرہ ہے مجھے دلپذیر
ہر جانب فضا میں ہے مچایہ کہرام
تیرے پرچم پے ہو گا کس کانام
ان عقل کے اندوں کو میرا یہ پیغام
ھمارا ہے، ھمارا ہی رہے گا کشمیر
توڑیں گے ھم ہر ظلم کی زنجیر
میرے کشمیر، اے میرے کشمیر
تجھ بن ادھوری میرے وطن کی تصویر
میرے کشمیر، اے میرے کشمیر
ایمان و یقین کیے رہتے ہیں دل میں تنویر
ویلنٹائنس ڈے پہ لکھے گئے خاکسار کے چند الفاظ
“Valentine’s Day”
دوستو اب کہو اسے بھی ترقی ذہن کی
اب سال میں ایک دن مہر و تسلیم ہو گی
جن بہن بیٹیوں پے تھی حیا کی ردا
اب انھیں بغاوت کی تعلیم ہو گی
ورائے عقل ہے بینش انکی
مغرب پرستی نے دبا دی دانش انکی
غافل پرچارک ہیں اس پادری کے
گمراہی کا جس نے دیا پیغام
محبت کی حرمت کو
بازاروں میں کر رہے ہیں نیلام
یہ ہوس کے پجاری یہ عصمتوں کے شکاری
آج لگا کے محبت کا تماشا
نوچیں گی کتنے ہی پھول مسلیں گے کتنی کلیاں
روندیں گے گلشن ہمارا
زمانہ ھمیں کہتا ہے کہنہ اندیش
مگر یہ تو ہے رمز آشکارا
تہذیب مشرق و مغرب میں کائے کی یکسانیت
حیوانیت ہے شے الگ، چیز اور ہے انسانیت
کہ مغربی تہذیب کا اخلاق ادب
بس عریانی و مئے خواری و لہو لعب
اس دن کی حقیقت کو جاننے
ٹٹولے ہم نے بڑے بڑے تاریخ دان
سب حقائق ماورائے ادراک
سب تحریریں قیاس و گمان
وقت کا تقاضا ہے اب
کہ تازہ ہوا چلے
ان رواجوں کے بادلوں کو
کہیں دور لے اڑے
خاکسار،
تنویر احمد تنویر
براہ کرم اصلاح فرمائیے
محتاط رہیے
یہ دنیا ہے بڑی ہی خراب محتاط رہیے
جناب آپ ہیں کھلتے ہوئے گلاب محتاط رہیے
بات کیجیے مگر ہوش سے میری سرکار
یہاں لوگ لیتے ہیں بہت کڑا حساب محتاط رہیے
میری بے بسی پہ نہ ہنسے اے حضور
آپ بھی آ سکتے ہیں زیرِعتاب محتاط رہیے
ضروری نہیں میکدے سے ہوکے آئے کوئی
آنکھوںسےبھی پلائی جاتی ہےشراب محتاط رہیے
حق کی بات اور یوں ڈنکے کی چوٹ پے
زندگی ہے گر پیاری جناب محتاط رہیے
امیرِ شہر سے ہوں ہمکلام بس تعریف کیجیے
بھولیے نہ دربار کے آداب محتاط رہیے
کیا ہوا جو مر گیا غریب بھوک کے ہاتھوں
حاکمِ وقت سے نہ مانگیے حساب محتاط رہیے
میرے کشمیر
چناروں کی زمین، بہاروں کی زمین
گرتے جھرنوں کے بہتے دھاروں کی زمین
اے زعفران کی خوشبو سے مہکتے گلشن
ھائے وہ ڈل کا حسن کے جیسے شرماتی دلھن
اے شہ رگ و روح ارض پاک
کتنی معتبر ہے تیری خاک
اے خطہ جنت نظیر
میرے کشمیر، میرے کشمیر
کیسے تم سے منہ موڑ لیں ہم
کیسے تمھیں تنہا چھوڑ دیں ہم
جھگڑا یہ سرحد پہ کھینچی لکیر پر نہیں
لڑائی یہ فقط کسی تحریر پر نہیں
جنگ یہ ظالم سے مکار سے ہے
رزم یہ عہد شکن سے غدار سے ہے
محاربہ یہ حق کا باطل سے ہے
مقابلہ یہ سرفروشوں کا قاتل سے ہے
اے ارض شہیداں، اے وادئ کشمیر
وعدہ ہے تجھ سے اے خطہ جنت نظیر
ستم شعار سے تجھے آزاد کرائیں گے
ہندو سے غاصب سے حساب چکائیں گے
تیرے معصوم فدائی نگاوں میں بسے ہیں
ان معصوموں کی روحوں کو چین دلائیں گے
تیری تصویرلہورنگ کی قسم
سبز ہلالی پرچم تجھ پر لہرائیں گے
بدل دیں گے ہر دستور ستم
بھر جائے گا تیرا ہر زخم
چشم عدو اشک ندامت کے روئے گی
ہم کریں گے یہ تاریخ رقم
میرے کشمیر، اے میرے کشمیر
تیرا ذرہ ذرہ ہے مجھے دلپذیر
ہر جانب فضا میں ہے مچایہ کہرام
تیرے پرچم پے ہو گا کس کانام
ان عقل کے اندوں کو میرا یہ پیغام
ھمارا ہے، ھمارا ہی رہے گا کشمیر
توڑیں گے ھم ہر ظلم کی زنجیر
میرے کشمیر، اے میرے کشمیر
تجھ بن ادھوری میرے وطن کی تصویر
میرے کشمیر، اے میرے کشمیر
ایمان و یقین کیے رہتے ہیں دل میں تنویر
ویلنٹائنس ڈے پہ لکھے گئے خاکسار کے چند الفاظ
“Valentine’s Day”
دوستو اب کہو اسے بھی ترقی ذہن کی
اب سال میں ایک دن مہر و تسلیم ہو گی
جن بہن بیٹیوں پے تھی حیا کی ردا
اب انھیں بغاوت کی تعلیم ہو گی
ورائے عقل ہے بینش انکی
مغرب پرستی نے دبا دی دانش انکی
غافل پرچارک ہیں اس پادری کے
گمراہی کا جس نے دیا پیغام
محبت کی حرمت کو
بازاروں میں کر رہے ہیں نیلام
یہ ہوس کے پجاری یہ عصمتوں کے شکاری
آج لگا کے محبت کا تماشا
نوچیں گی کتنے ہی پھول مسلیں گے کتنی کلیاں
روندیں گے گلشن ہمارا
زمانہ ھمیں کہتا ہے کہنہ اندیش
مگر یہ تو ہے رمز آشکارا
تہذیب مشرق و مغرب میں کائے کی یکسانیت
حیوانیت ہے شے الگ، چیز اور ہے انسانیت
کہ مغربی تہذیب کا اخلاق ادب
بس عریانی و مئے خواری و لہو لعب
اس دن کی حقیقت کو جاننے
ٹٹولے ہم نے بڑے بڑے تاریخ دان
سب حقائق ماورائے ادراک
سب تحریریں قیاس و گمان
وقت کا تقاضا ہے اب
کہ تازہ ہوا چلے
ان رواجوں کے بادلوں کو
کہیں دور لے اڑے
خاکسار،
تنویر احمد تنویر