ماشاءاللہ اچھی غزل ہے۔ تھوڑی بہت نوک پلک سنور جائے تو مزید اچھی ہو جائے گی۔
عزت کے جابجا اور بےجا استعمال نے غزل کا رنگ تھوڑا پھیکا کر دیا ہے، اور وزن برابر کرنے کی تگ و دو میں بہت سے مقامات پر حروف کو بھی گرا دیا گیا ہے۔ حروف کا ضرورت کے تحت لیکن قاعدے کے مطابق گرانا جائز ہے لیکن مسلسل ایسا کرنے سے کلام کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔
عزت ہماری قوم میں عزت نہیں رہی
گالی یہاں رہی تو محبت نہیں رہی
بات ٹھیک ہے کہ گالی کی وجہ سے محبت ختم ہو جاتی ہے، لیکن الفاظ کے چناؤ میں احتیاط بہتر رہتی ہے۔ دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ دوسرا مصرعہ اگر بدل کر یوں کر دیا جائے تو بہتر ہوگا
شاید کسی کو اس کی ضرورت نہیں رہی
خالق کو کوئی گالی دے تو کوئی آغا کو
اب دونوں کے یہاں پہ تو عزت نہیں رہی
گالی کی "ی" گری ہے تو آغا کا بھی "الف"
خالق کو کون گالی دیتا ہے؟ میں نے تو کسی مذہب میں ایسا نہیں دیکھا۔ اور اگر خالق کسی شخص کا نام ہے تو الگ بات ہے، لیکن خالق اور آغا کو گالی دینے کی کوئی وجہ بھی تو بیان ہو۔
آپ اس شعر میں جو کہنا چاہ رہے ہیں اس کا ابلاغ نہیں ہو رہا، دوبارہ کوشش کریں۔
ان دو کو اپنے قوم سے ہی ہار جانا ہے
اب غیر کو تو فکر ضرورت نہیں رہی
اپنے کا "ے" اور جانا کا "الف" گر رہے ہیں۔
کن دو کو اپنی قوم سے ہارنا ہے؟ وضاحت ضروری ہے۔ ابلاغ کی کمی ہے مشورہ ہے کہ دوبارہ کوشش کریں۔
عزت تو رہبروں کی یہاں کرتے ہم نہیں
افسوس ہم کو ان سے محبت نہیں رہی
پہلے مصرعہ میں روانی کی کمی ہے، اور رہبروں سے محبت کی بجائے عقیدت کی جائے تو زیادہ مناسب لگے گا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ
عزت تو رہنما کی بھی کرتے نہیں ہیں ہم
افسوس ہم کو ان سے عقیدت نہیں رہی
بے غیرتی سے ان کی ہمی جان لیتے ہیں
ضربت کی غیر کو تو ضرورت نہیں رہی
شعر سمجھ آنے تک کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ وضاحت کی درخواست ہے۔
عافی تمھاری باتیں یہاں کون مانیں گی
ان میں نصیحتوں کی تو چاہت نہیں رہی
تمہاری کی "ی" باتیں کی "تیں"، مانیں کی "نیں" گر رہے ہیں۔
عافی نصیحتیں تری سنتا نہیں کوئی
لگتا ہے اب کسی کی بھی حاجت نہیں رہی
آپ چاہیں تو حاجت کی بجائے چاہت بھی کر سکتے ہیں
بہت خوب زمین ہے، قافیہ بھی بہت جاندار ہے، بہت سے موضوعات باندھنے کی بھرپور گنجائش ہے۔ دوبارہ کوشش کریں اور مزید قافیہ پیمائی کریں۔ انشاءاللہ بہت عمدہ غزل بنے گی۔
اعتراضات پر دل چھوٹا نہ کیجیئے گا کہ اصلاحِ سخن کے لئے ضروری ہے۔