ارتضی عافی
محفلین
اسلام و علیکم استادان گل با امید دیراں بعد حاضرم
اس عشق کوکبھی بھی تو ارماں نہ کرنا یار
اے فاعلن مجھے تو پشیماں نہ کرنا یار
اس عشق کے وجود سے ہم آج خوش ہے
اے دوست تم اسے کبھی ویراں نہ کرنا یار
یہ لوگ عشق میں مجھے کافر بھی کہتے ہیں
تم مجھ کو دل دے کے یوں مسلماں نہ کرنا یار
ہر وقت مجھ کو بوسہ ہی لیتے ہو سرِ عام
تم ایسا کر کے یارو کو حیراں نہ کرنا یار
یہ دل مرا ترا ہے اسے رکھنا اپنے پاس
اس کو سکون دینا پریشاں نہ کرنا یار
عافی کو رکھنا خوش اسے پیار دینا تو
اے فاعلن تو عافی پہ احساں نہ کرنا یار
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
محمد ریحان قریشی الف عین سر اصلاح در کار است
اس عشق کوکبھی بھی تو ارماں نہ کرنا یار
اے فاعلن مجھے تو پشیماں نہ کرنا یار
اس عشق کے وجود سے ہم آج خوش ہے
اے دوست تم اسے کبھی ویراں نہ کرنا یار
یہ لوگ عشق میں مجھے کافر بھی کہتے ہیں
تم مجھ کو دل دے کے یوں مسلماں نہ کرنا یار
ہر وقت مجھ کو بوسہ ہی لیتے ہو سرِ عام
تم ایسا کر کے یارو کو حیراں نہ کرنا یار
یہ دل مرا ترا ہے اسے رکھنا اپنے پاس
اس کو سکون دینا پریشاں نہ کرنا یار
عافی کو رکھنا خوش اسے پیار دینا تو
اے فاعلن تو عافی پہ احساں نہ کرنا یار
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
محمد ریحان قریشی الف عین سر اصلاح در کار است