محب ایک پرانی پوسٹ تمہاری نظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے دوسروں کو سمجھیئے پھر سمجھایئے ۔
ٹرین کے اُس ڈبے میں ہر کوئی خاموشی سے سفر کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی تو ایک صاحب اپنے چار بچوں کے ساتھ داخل ہوئے۔ بچوں نے آتے ہی اودھم مچانا شروع کر دیا جبکہ ان کا باپ آنکھیں بند کر کے اپنی سیٹ پر نیم دراز ہوگیا۔ بچوں کے شوروغل سے مسافر بہت پریشان ہوئے ہر کوئی یہ توقع کر رہا تھا کہ ان کا باپ مداخلت کر کے ان بچوں کو باز کرے گا مگر وہ بدستور اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اس صورت حال میں ایک مسافر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کہا، جناب، توجہ فرمائیے، براہ کرم اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائیے اور انہیں چیخ و پکار سے منع کیجیے۔ اسکی آواز سے بچوں کا باپ چونکا اور کہنے لگا، ہاں، ہاں شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے ان کو واقعی منع کرنا چاہیے۔ اصل میں ہم سب ہسپتال سے آرہے ہیں۔ جہاں ابھی دو گھنٹے قبل ان کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اور اصل میں ان بچوں کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ مسافر کی اس بات کے ساتھ ہی اُس ڈبے کا ماحول یکسر بدل گیا۔ وہ لوگ جو پہلے اسے بیزاری سے دیکھ رہے تھے، اب اسے ہمدردی سے دیکھنے لگے اور کئی ایک نے تو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ اس موقع پر اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اس بات کی کہ دوسرے کے حالات، واقعات اور خیالات نہ جاننے اور سمجھنے کی وجہ سے کس قدر غلط فہمی اور بدگمانی جنم لے سکتی ہے اور اگر یہ سب سمجھ لیا جائے تو پیش منظر اور ماحول کس طرح بدل جایا کرتا ہے۔
ہمارے گھروں، اداروں اور معاشرے میں بہت سی غلط فہمیاں، جھگڑے، مسائل محض اس بات کا شاخسانہ ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے مدمقابل یا مخاطب کو سمجھانے سے قبل کما حقہ سمجھا نہیں ہوتا۔ اس لیے معاشرتی امن اور محبت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھانے سے قبل خود ان کو سمجھیں۔ ورنہ سمجھانا مسائل کو حل کرنے کے بجائے بڑھانے کا باعث بن جائے گا۔ جب تک ہم اس بات سے آگاہ نہ ہوں کہ ہمارا مخاطب ذہنی طور پر کس مقام پر کھڑا ہے اور وہ کن مسائل میں گھرا ہوا ہے، ہمارا سمجھانا نہ صرف ایک کارِ عبث ہوتا ہے بلکہ بعض حالات میں صورت حال کو بگاڑنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ جب آپ خود یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کو اور آپ کے نقطہ نظر کو سمجھیں تو بعینہ یہی توقع دوسرے بھی آپ سے کرتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو حضور نے نہایت خوبصورت جملے میں بیان کر دیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ "جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسرے کے لیے کیوں پسند کرتے ہو؟ "
پہلے دوسروں کو سمجھیئے پھر سمجھایئے ۔
ٹرین کے اُس ڈبے میں ہر کوئی خاموشی سے سفر کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی تو ایک صاحب اپنے چار بچوں کے ساتھ داخل ہوئے۔ بچوں نے آتے ہی اودھم مچانا شروع کر دیا جبکہ ان کا باپ آنکھیں بند کر کے اپنی سیٹ پر نیم دراز ہوگیا۔ بچوں کے شوروغل سے مسافر بہت پریشان ہوئے ہر کوئی یہ توقع کر رہا تھا کہ ان کا باپ مداخلت کر کے ان بچوں کو باز کرے گا مگر وہ بدستور اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اس صورت حال میں ایک مسافر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور اس نے کہا، جناب، توجہ فرمائیے، براہ کرم اپنے بچوں کو اپنے پاس بٹھائیے اور انہیں چیخ و پکار سے منع کیجیے۔ اسکی آواز سے بچوں کا باپ چونکا اور کہنے لگا، ہاں، ہاں شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے ان کو واقعی منع کرنا چاہیے۔ اصل میں ہم سب ہسپتال سے آرہے ہیں۔ جہاں ابھی دو گھنٹے قبل ان کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اور اصل میں ان بچوں کو بھی یہ سمجھ نہیں آرہا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے ۔ مسافر کی اس بات کے ساتھ ہی اُس ڈبے کا ماحول یکسر بدل گیا۔ وہ لوگ جو پہلے اسے بیزاری سے دیکھ رہے تھے، اب اسے ہمدردی سے دیکھنے لگے اور کئی ایک نے تو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ اس موقع پر اس کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے اس بات کی کہ دوسرے کے حالات، واقعات اور خیالات نہ جاننے اور سمجھنے کی وجہ سے کس قدر غلط فہمی اور بدگمانی جنم لے سکتی ہے اور اگر یہ سب سمجھ لیا جائے تو پیش منظر اور ماحول کس طرح بدل جایا کرتا ہے۔
ہمارے گھروں، اداروں اور معاشرے میں بہت سی غلط فہمیاں، جھگڑے، مسائل محض اس بات کا شاخسانہ ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے مدمقابل یا مخاطب کو سمجھانے سے قبل کما حقہ سمجھا نہیں ہوتا۔ اس لیے معاشرتی امن اور محبت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں کو سمجھانے سے قبل خود ان کو سمجھیں۔ ورنہ سمجھانا مسائل کو حل کرنے کے بجائے بڑھانے کا باعث بن جائے گا۔ جب تک ہم اس بات سے آگاہ نہ ہوں کہ ہمارا مخاطب ذہنی طور پر کس مقام پر کھڑا ہے اور وہ کن مسائل میں گھرا ہوا ہے، ہمارا سمجھانا نہ صرف ایک کارِ عبث ہوتا ہے بلکہ بعض حالات میں صورت حال کو بگاڑنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ جب آپ خود یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کو اور آپ کے نقطہ نظر کو سمجھیں تو بعینہ یہی توقع دوسرے بھی آپ سے کرتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو حضور نے نہایت خوبصورت جملے میں بیان کر دیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ "جو تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے وہ دوسرے کے لیے کیوں پسند کرتے ہو؟ "