ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
"چمنِ طیبہ سنبل جو سنوارے گیسو "
از:علامہ شبنمؔ کمالی، دربھنگہ ( ماہ نامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف، مارچ 1990ء ص24)
دائرے بن گئے آنکھوں کے تمہارے گیسو
جب تصور نے خیالوں میں اتارے گیسو
دائرے بن گئے آنکھوں کے تمہارے گیسو
جب تصور نے خیالوں میں اتارے گیسو
رُخ ہے والشمس تو واللیل ہیں پیارے گیسو
کتنے محبوب ہیں خالق کو تمہارے گیسو
رشکِ گلزارِ ارم بن گئی بزمِ ہستی
شمعِ توحید میں جب تم نے سنوارے گیسو
جھک کے خورشید بھی آنکھوں میں لگائے سرمہ
وجد میں کرنے لگیں جب بھی اشارے گیسو
کیوں نہ ہونٹوں سے سدا نور کی برکھا برسے
چاند چہرہ ہے تو ہالے ہیں تمہارے گیسو
چشمِ بدخواہ کا کس طرح چلے گا جادو
عارضِ پاک کے دونوں ہیں کنارے گیسو
چاندنی رات میں تاروں کا مقدر جاگا
تم نے لہرادئیے جب دوش پہ سارے گیسو
رُخ پہ بکھرے تو ہوئی رات ، ستارے چمکے
دن نکل آیا اگر تم نے سنوارے گیسو
عطرِ گل کو کبھی خاطر میں نہ لائے کوئی
تم سنگھادو جو کبھی پیار سے پیارے گیسو
حشر میں منہ کا چھپانا بھی نہ ہوگا ممکن
جب گنہگاروں کو دیں گے یہ سہارے گیسو
قہر کی دھوپ میں تھا لوگوں کا پتّہ پانی
"چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو"
بال کا ایک بھی ٹکڑا ہے غنیمت مجھ کو
یہ کہاں بخت کہ ہوں آنکھوں میں سارے گیسو
ناز تا حشر کرے بخت پہ اپنے شبنمؔ
اُس کے چہرے پہ کبھی دال دو پیارے گیسو