فراز برسوں کے بعد دیکھا، اک شخص دلرُبا سا ۔۔۔

برسوں کے بعد دیکھا ، اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پر نام تھا بھلاسا

اَبرو کھچے کھچے سے ، آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رُکی رُکی سی ، لہجہ تھکا تھکا سا

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا

پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جُدا سا

اگلی محبتوں نے وہ نامُرادیاں دیں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا

تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا

ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقاََ
اپنا بھی حال ہے اب لوگوں فراز کا سا​
 
آخری تدوین:
Top