تاسف برسی اشفاق احمد 7 ستمبر، 2004ء

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زبیر مرزا

محفلین
برسی اشفاق احمد 7 ستمبر، 2004ء

اردو ادب کے حوالے جب بات کی جاتی ہے تو پاکستان کے نامور ادیب اشفاق احمد کے ذکر کے بناء ادب کی تاریخ نامکمل اور ادھوری معلوم ہوتی ہے۔
اشفاق احمد ایک افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، فلسفی ادیب اور دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین براڈ کاسٹر بھی تھے۔ فنون لطیفہ کے علاوہ انہیں اولیاء اللہ اور صوفی ازم سے خاص لگاؤ تھا۔
اشفاق احمد بائیس اگست انیس سو پچیس
میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں غازی آباد میں حاصل کی۔ تقسیم کے بعد ہجرت کرکے لاہور آبسے اور گورنمٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد ریڈیو آزاد کشمیر سے منسلک ہوگئے۔ اس کے بعد اشفاق احمد نے دیال سنگھ کالج لاہور میں بحیثیت لیکچرار ملازمت اختیارکی۔ دو سال بعد آپ روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ وطن واپسی کے بعد آپ نے ادبی مجلہ "داستان گو" جاری کیا جو اردو کے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتاہے۔ فن اور ادب کی خدمت کرتے ہوئے کچھ ہی عرصے میں آپ مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ جنرل ضیاء کے دور حکومت میں آپ وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گئے۔ اردو زبان اور لاہور کی لذت سے لبریز پنجابی الفاظ کو ادبی تناظر کے جس قالب میں اشفاق احمد نے ڈھالا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہیں کہانی لکھنے پر جتنا عبور تھا اسی طرح بہترین قصہ گو بھی تھے۔ جس کی مثال پروگرام "زاویہ" میں نوجوانوں کی بھرپور تعداد میں شرکت اور آپ کے گھر پر منعقدہ محفلیں ہیں جن میں ہر عمر اور ادب کا متوالا اپنی شرکت کو باعث افتخار سمجھتا تھا۔
اشفاق احمد نے ساٹھ کی دہائی میں ایک فیچر فلم ''دھوپ اور سائے'' بھی بنائی تھی۔ گوکہ فلم زیادہ پذیرائی حاصل نہ کرسکی لیکن اپنے مشہور گیت کی بدولت یادوں میں محفوظ ہے۔
انیس سو تریپن میں شائع ہونے والے افسانے ''گڈریا '' نے ان کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے.
اشفاق احمد کی تصانیف میں ایک محبت سو افسانے ، اجلے پھول، سفر در سفر، کھیل کہانی، ایک محبت سو ڈرامے، طوطا کہانی اور زاویہ جیسی بہترین شاہکار شامل ہیں اور ان کا ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہونے والا پروگرام "تلقین شاہ" آج بھی نئے لکھنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے۔
اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
اشفاق احمد کو ادب کی دنیا میں جو مقام نصیب ہوا وہ کم ہی ادیبوں کو نصیب ہوتا ہے۔بابا کے چاہنے والے آج بھی ان کی تحریروں کی صورت آُن کو اپنے ساتھ پاتے ہیں کیونکہ دانشور کبھی مرتا نہیں وہ اپنی تحریراور سوچ کی صورت ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔بابا کی سوچ اور ہدایت کے چراغ تو سدا روشن رہیں گے اور ان کے دعائیہ الفاظ تو زبان زدعام ہوگئے ہیں
اللہ تعالٰی اشفاق احمد کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور ان پر رحمتیں نازل فرمائے
AshfaqAhmed.jpg


392168_501233709905529_1827268930_n.jpg
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سب سے پہلے تو
حق مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا
آج ٹی وی پہ سنا کہ بانو قدسیہ صاحبہ(اللہ پاک اُن کو صحت و تندرستی کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے) فرما رہی تھیں کہ وہ ایک غیرت مند انسان تھے۔ علامہ اقبال کے بعد میرے نزدیک تو پچھلی صدی کے دوسرے بڑے انسان ہیں وہ اردو ادب کے حوالے سے۔
 

نایاب

لائبریرین
حق مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا آمین
بلا شک اپنی گفتگو میں اک روشن مینارہ نور تھا ۔
سادہ سے لفظوں سے بہت پیچیدہ تصوف کی گھتیاں سلجھا گیا ۔
آہ آٹھ سال گزر گئے اس روشن ہستی کو ہم سے بچھڑے ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
میں آج کام میں نہ الجھا ہوتا تو اشفاق صاحب کے حوالے سے مجلہ 'راوی' کے اشفاق نمبر میں شائع ہونے والے مضامین یہاں شئیر کردیتا۔ انشاءاللہ جلد ہی میں اس خصوصی شمارے کے مضامین محفل میں پیش کروں گا!
 

زونی

محفلین
میرے والد بتایا کرتے تھے کہ دیال سنگھ کالج میں انہیں اشفاق صاحب( روم جانے سے قبل ) کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ھے،،،، با کمال استاد تھے ،،،لیکن اتفاق کی بات کہ انہیں بھی دنیا سے گزرے نو سال بیت گئے ہیں :)
 

زبیر مرزا

محفلین
میرے والد بتایا کرتے تھے کہ دیال سنگھ کالج میں انہیں اشفاق صاحب( روم جانے سے قبل ) کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ھے،،،، با کمال استاد تھے ،،،لیکن اتفاق کی بات کہ انہیں بھی دنیا سے گزرے نو سال بیت گئے ہیں :)
اللہ تعالٰی انہیں جنت لفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے- اس پر مجھے یاد آیا کہ جب اشفاق احمد صاحب کا انتقال ہوا مجھے میرے والد صاحب نے
پاکستان سے فون کرکے اطلاع دی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے مجھے اشفاق احمد صاحب کس قدرعزیز ہیں
 

زبیر مرزا

محفلین
میں آج کام میں نہ الجھا ہوتا تو اشفاق صاحب کے حوالے سے مجلہ 'راوی' کے اشفاق نمبر میں شائع ہونے والے مضامین یہاں شئیر کردیتا۔ انشاءاللہ جلد ہی میں اس خصوصی شمارے کے مضامین محفل میں پیش کروں گا!
انتظار رہے گا اس مضمون کا- عاطف بھائی کیا مجھے بانوآپا کا فون نمبر مل سکتا ہے اگر ممکن ہو تو
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میرے والد بتایا کرتے تھے کہ دیال سنگھ کالج میں انہیں اشفاق صاحب( روم جانے سے قبل ) کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ھے،،،، با کمال استاد تھے ،،،لیکن اتفاق کی بات کہ انہیں بھی دنیا سے گزرے نو سال بیت گئے ہیں :)
اللہ تعالٰی انہیں جنت لفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے-​
 

نایاب

لائبریرین
میرے والد بتایا کرتے تھے کہ دیال سنگھ کالج میں انہیں اشفاق صاحب( روم جانے سے قبل ) کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ھے،،،، با کمال استاد تھے ،،،لیکن اتفاق کی بات کہ انہیں بھی دنیا سے گزرے نو سال بیت گئے ہیں :)
اللہ تعالی والد مرحوم کو جنت عالیہ میں بسیرا عطا فرمائے آمین
 

تلمیذ

لائبریرین
برسی اشفاق احمد 7 ستمبر، 2004ء
اشفاق احمد کی تصانیف میں ایک محبت سو افسانے ، اجلے پھول، سفر در سفر، کھیل کہانی، ایک محبت سو ڈرامے، طوطا کہانی اور زاویہ جیسی بہترین شاہکار شامل ہیں اور ان کا ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہونے والا پروگرام "تلقین شاہ" آج بھی نئے لکھنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے۔
مرحوم کی شخصیت سے متعلق آپ کی تحریر بہت جامع ہے۔ تاہم، میرے خیال میں ' کھیل کہانی' نام سے ان کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ غالباً آپ کی مراد 'کھیل تماشا' سے ہے۔
میں نے اب تک ان کے بارے بےمیں شمار تحاریرکا مطالعہ کیا ہے اور تقریباً سب میں ان کی بجا طور پر تعریف و توصیف کی گئی ہے جس کے بلا شبہ وہ مستحق ہیں۔پوری دنیا میں اردو ادب کے شائقین ان کی کتابیں نہایت ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہاں اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمیں ان کی زندگی کے بعد شائع ہونے والی کتاب 'بابا صاحبا' کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔اس کتاب کے تقریباً نصف سے زیادہ حصے کو پڑھنے سے وہی لطف آیا جو ان کی دیگر کتابیں پڑھ کرآتا ہے لیکن اس کے بقیہ حصے سےمیں اتنا بیزار ہوا کہ بیان نہیں کر سکتا۔اس حصے میں عبارت کا اعادہ اتنی کثرت سے ہے کہ بعض مقامات پر ایک ہی عبارت تین مرتبہ شامل کر دی گئی ہے۔ پروف ریڈنگ کی اغلاط الگ ہیں۔صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ سب کتاب کے صفحات میں اضافہ کرنے کی غرض سے کیا گیا تاکہ کتاب کی قیمت بڑھائی جا سکے (قیمت اس وقت نو سو روپےتھی اور رعایت کے بعدسات سو پچاس روپے کی ملی تھی)۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو ایسا ہرگز نہ ہوتا اور ان کی تصنیف کامل احتیاط کے ساتھ مناسب تدوین کاری کے بعدپڑھنے والوں تک پہنچتی۔
کتابوں کی طباعت کے ضمن میں اس بے پنا ہ اور بلا جوازتجارتی فائدے کا رجحان پبلشنگ کی دنیا میں آج بھی جاری و ساری ہے بلکہ دن بدن بڑھ رہاہے۔جس نےاچھی کتابیں پڑھنے کے شائقین کی بہت حوصلہ شکنی کی ہے۔ میرے پاس معیاری اور مشہور مصنفین کی ایسی کتابیں موجود ہیں جومیں نے اچھے وقتوں میں دس پندرہ روپے یا تیس چالیس روپےمیں خریدی تھیں۔بلکہ اگلے روز میں پیر فضل گجراتی مرحوم کی پنجابی شاعری کی کتاب 'ٹکوراں' نکال کر دیکھ رہا تھا جس پر 'مُل دو روپے' لکھا ہوا تھا۔ یہ بات آج کل کے نوجوانوں کے لئے یقیناً حیرانی کا باعث ہوگی۔
پیسے کی یہ ہوس ہمیں نہ جانے کہاں لے جائے گی۔ برقی کتابیں ہی ایک امید ہے جو قارئین میں کتاب خوانی کے جذبے کو زندہ رکھ سکتی ہے، تاہم ان تک ہر کسی کی رسائی بھی نہیں ہے۔

آخر میں یہ کہ میری یہ تحریر اس دھاگے کے لئے شاید موزوں نہ ہو، لیکن میں اس بات کے لئے ایک الگ دھاگہ نہیں کھولنا چاہتا تھا۔

زیادہ آداب!!
 

زبیر مرزا

محفلین
جی کھیل تماشا اشفاق احمد صاحب کا ایک منفردناول ہے جو ایک موسیقار کی کہانی ہے - ویسے میں کچھ مواد فیس بُک سے لیا ہے اس تحریر کا
تلمیذ کوئی حرج نہیں اور نا ہی آپ کی تحریر اس دھاگے سے ہٹ کر ہے -
 
اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
ویسے آپکو معلوم ہے بابا اشفاق کی قبر کہاں پر ہے؟
اب پتہ چلا ہے کہ باباجی کی قبر قبرستان جی بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہے۔
انشااللہ کسی دن ضرور حاضری دوں گا اور فاتحہ خوانی کروں گا
 

تلمیذ

لائبریرین
میں آج کام میں نہ الجھا ہوتا تو اشفاق صاحب کے حوالے سے مجلہ 'راوی' کے اشفاق نمبر میں شائع ہونے والے مضامین یہاں شئیر کردیتا۔ انشاءاللہ جلد ہی میں اس خصوصی شمارے کے مضامین محفل میں پیش کروں گا!

بٹ صاحب، احباب کے علم میں اضافے کی خاطر اپنا وعدہ پورا کیجئے۔ عنایت ہوگی جناب!!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top