برصغیر میں خطاطی کا ارتقاء

بلال

محفلین
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد اور خطاطی کی تاریخ یکساں پرانی ہے۔ یاد رکھنا چاہئیے کہ اسلامی خطاطی کی ابتدا مدینہ منورہ سے ہوئی اور اس کی ترویج تعمیمِ قرأت اور تبلیغ و اشاعتِ قرآن کے مقدس اور پاکیزہ جذبہ کی بنا پر ہوئی جو ایران اور توران کے بعد مسلمانوں کے ساتھ برصغیر پاک و ہند میں پہنچی تو یہاں پر بھی اس کی ابتداء و ترویج کے پیچھے یہی جذبہ کار فرما رہا۔ برصغیر میں اسلامی حکومت کا قیام محمد بن قاسم کی فتح سندھ(93ھ) سے شروع ہوا اور یہ سلسلہ بہادر شاہ ظفر آخری مغل تاجدار کی معطلی 1857ء کے ساتھ منقطع ہو گیا۔ اس طویل عرصے میں اسلامی خطاطی نے عروج و زوال کے کئی ادوار دیکھے۔ اس دلچسپ داستان کو تاریخی ارتقاء کی روشنی میں پڑھنے کے لیے اسے ان ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلا دور --------- 93ھ تا 113ھ
دوسرا دور --------- 413ھ تا 932ھ (1526ء)
تیسرا دور --------- 1526ء
چوتھا دور --------- 1707ء تا 1857ء
پانچواں دور --------- 1857ء تا 1947ء
چھٹا دور --------- خطاطی پاکستان میں
 

بلال

محفلین
پہلا دور --------- 93ھ تا 113ھ
دور اول کا آغاز محمد بن قاسم کے فتح سندھ سے لے کر شمال جانب سے سلطان محمود غزنوی کے فتح لاہور تک محدود ہے۔ اس دور میں اسلامی حکومت سندھ اور ملتان کے نواح تک محدود رہی۔ خطِ اسلامی قرآنی مخطوطات اور عمارتی کتبات تک محدود رہا۔
سندھ میں اس اسلامی حکومت کا آغاز محمد بن قاسم نے فتح دیبل سے کیا جو آگے بڑھتے بڑھتے الدور، ملتان اور دیپال پور تک جا پہنچا۔ یہ سلسلہ 290ھ تک قائم رہا۔ جو یعقوب بن لیث صفار پر ختم ہوا۔ اس عرصہ کی خطاطی کے بارے میں زیادہ تفصیلات کا پتہ نہیں چلتا البتہ بھنبھور کی کھدائی سے سنگِ مرمر کے جو کتبات ملے ہیں، محققین نے ان کا زمانہ 259ھ اور 394ھ مقرر کیا ہے۔ یہ کتبے کسی مسجد سے متعلق ہیں۔ ان پر کندہ عبارات اس زمانے کے نہایت اعلٰی کُوفی رسم الخط کا نمونہ ہیں۔ مخطوطات کے شواہد دستیاب نہیں جن کی روشنی میں اس عرصہ کی خطاطی کے بارے میں زیادہ سائنسی انداز میں گفتگو کی جائے۔ ان حالات میں سنگی کتبات ہی پر انحصار کرتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائے اسلام ہی سے برصغیر پاک و ہند کے ایک خطہ میں خطِ اسلامی رواج پا گیا تھا جو تیسری صدی ہجری کے اختتام تک ایک رسمی کیفیت اختیار کر گیا تھا جو معیار میں باقی اسلامی دنیا کے خطِ کوفی کے بالکل متوازی تھا۔
 

بلال

محفلین
دوسرا دور --------- 413ھ تا 932ھ (1526ء)
برصغیر میں اسلامی حکومت کا دوسرا دور سلطان محمود غزنوی کے شمال سے وارد ہو کر فتح لاہور (413ھ) کے بعد سے شروع ہو کر بابر کے فتح ہندوستان تک پھیلا ہوا ہے۔ خطِ نستعلیق کی ایجاد سے قبل کا یہ عہد برصغیر میں خطِ کوفی و نسخ اور ان کی ترمیمات تک محدود رہا۔ اس عہد میں ملکی زبان فارسی کے علاوہ عربی کا بھی رواج رہا۔ خطاطی زیادہ تر قرآنی کتابت تک محدود رہی تاہم کاغذ اور تعلیمی مدرسوں کے رواج سے یہ فن زیادہ مقبول ہوا۔ اس عہد کے نمونے مختلف مخطوطوں، عمارتی کتبوں اور سکّوں وغیرہ کی عبارات کی صورت میں ملتے ہیں۔ محمود غزنوری نے لاہور کو اپنی سلطنت میں مستقل طور پر شامل کیا۔ سلطان مسعود بن سلطان محمود کے عہد کی تصنیف تاریخِ بیہقی کے مطابق لاہور میں باقاعدہ دفتر دیوانی قائم کیا گیا۔ قلم و دوات اور کاغذ بھی عمدگی سے دستیاب ہونے لگا۔ جہاں آجکل حسن ابدال ہے وہاں باقاعدہ تعلیم اسلامی کے مدرسے بھی اس عہد میں قائم ہوئے۔ ساروغ نامی فوجی جرنیل کو ان مدارس کا مہتمم مقرر کیا گیا۔ اس زمانہ میں ملک میں عربی، فارسی زبانیں عام تھیں۔ محمد درّاق اس عہد کا ایک کاتب مذکور ہے۔ سلطان ابراہیم (متوفی 492ھ) بن سلطان مسعود بن سلطان محمود غزنوی خوشنویسی کی مہارت رکھتے تھے۔ ہر سال اپنے ہاتھ سے دو قرآن پاک لکھتے تھے۔ ایک مدینہ منورہ بھیجتے اور دوسرا مکہ مکرمہ۔ عوفی نے لباب الالباب میں سید الکتاب جمال الدین لاہوری کو عہد غزنوی کا ابن مقلہ کی روش کا کاتب لکھا ہے۔ عوفی نے معزالسلام نجیب الدین ابوبکر الترمذی خطاط کا بھی ذکر کیا ہے جس کا خط بے حد لطیف تھا۔
عہد غزنوی کے خطاطی کے مصدقہ نمونوں میں سے سلطان محمود کا ایک سکّہ ہے جو اُس نے فتح لاہور کے فوراً بعد لاہور میں مضروب کرایا تھا۔ یہ سکّہ مقامی طور پر "تنکہ" کہلایا۔ اس سکّہ کے ہر دو طرف عربی اور سنسکرت عبارتیں الگ الگ تحریر ہیں۔ اسی طرح اس عہد کا ایک مخطوطہ حضرت ابوالحسن علی ہجویری المعروف داتا صاحب نے بھی پانچویں صدی ہجری میں اسی شہر لاہور میں اپنی معروف تصنیف "کشف المحجوب" کو تحریر فرمایا۔"بہتجہ النفوس و الاسرار فی تاریخ الھجرۃ المختار" پنجاب یونیورسٹی لائبریری لاہور میں موجود ہے جسے ابوحامد نامی کاتب نے 436ھ میں لکھا۔ مزید برآں احمد آباد(گجرات کاٹھیاوار) میں کاچ نامی مسجد میں ایک کتبہ موجود ہے جو عربی نسخ میں تحریر ہے۔ ان کے علاوہ اس عہد کے دیگر مقامات سے جو سنگی تحریریں ملی ہیں ان کے تجزیہ سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ غزنوی دور کے آخر تک(586ھ) خطِ کوفی اپنی ارتقائی صورت میں اور خطِ نسخ اپنی ابتدائی صورت میں تاریخ خطاطی کا باب مرتب کر رہے تھے۔ مزیدبرآں یہاں کے کاتبوں میں ابن مقلہ اور ابنِ بوّاب کا طرزِ تحریر قابل توجہ اور جاذبِ نظر تھا۔
عہد سلاطین معزیہ میں دو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اول دارالحکومت لاہور کی بجائے دہلی قرار پایا۔ دوسرے برصغیر کی اسلامی سلطنت وسطِ ایشیا سے لے کر ہندوستان کے مرکز دہلی تک پھیل گئی۔ غوری خاندان کی ابتدائی عمارات جو دہلی، اجمیر، بدایوں، ہانسی، حصار اور کیتھل میں موجود ہیں ان میں سے بعض پر جو کتبات موجود ہیں وہ اس عہد کی خطاطی کے بہترین نمونے ہیں اور وہ قریب قریب خط کی ہر طرز پیش کرتے ہیں۔ دہلی میں قطب مینار اور مسجدِ قوۃالاسلام کے کتبات نہایت خوبصورت خطِ کوفی و ثلث کے نمونے ہیں۔ اس مسجد کے مشرقی دروازے کا کتبہ 592ھ خطِ ثلث و کوفی کا عمدہ نمونہ ہے۔ مسجد کی بائیں جانب کی درمیانی بڑی کمان کا کتبہ 554ھ کی تحریر ہے جو خطِ کوفی تزئینی میں منقش ہے۔ التمش کے مقبرے کے کتبات اعلٰی ترین خطِ کوفی کا انداز ہے۔ اسی طرح اس عہد کی خطاطی کے کچھ اور نمونے اس عہد کے سکّوں پر بھی ملتے ہیں۔ فوائدالفوائد کے مصنف کے بقول اس عہد میں کاغذ بفراوانی میسر نہ تھا۔ اس میں ایک صاحب قاضی فخرالدین ناقلہ کا بھی ذکر ملتا ہے جو کتابیں نقل کرنے پر متعین تھا۔ غیاث الدین بلبن کے عہد کی تاریخ فیروز شاہی میں مذکور ہے کہ جو کاتب قرآن مجید لکھ کر بادشاہ کے سامنے پیش کرتا وہ اسکو ہدید کرتا اور یہ نسخہ ہر اُس مستحق شخص کو دے دیتا جو قرآن پڑھنا جانتا یا اس کے مطالعہ کی خواہش کرتا۔ سلطان بلبن کے لڑکے خان شہید حاکم ملتان کے بارے میں تاریخ فرشتہ نے امیر خسرو رحمۃاللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ شہزادہ کے پاس تقریباً 20ہزار اشعار پر مشتمل ایک بیاض تھی جو اعلٰی ترین خط میں لکھی گئی تھی۔ سلطان ناصر بن محمود بن سلطان شمس الدین التمش بحیثیت کاتبِ قرآن مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں مندرجہ معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں قرآنی خطاطی اُجرت پر بھی ہوتی تھی۔ ملک قوام الدین بھی اس عہد مذکور کا ایک صاحبِ خط ہے۔ اس کی مراسلت تعجب و حیرت کا باعث بنتی۔
 

بلال

محفلین
علاوہ ازیں عہد بلبن کے فرامین کے سرنامے پر طغرا نما بادشاہ کے القاب وغیرہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ گویا اس عہد کے اختتام تک یہاں پر علم و آداب کا موحول قائم ہو گیا اور تاج الماثر، تاریخ فخرِمدتبر، آواب الحرب والشجاعتہ، لباب الالباب، طبقاتِ ناصری، فوائد الفوائد، احمد انجالی(435ھ) کا تخقہ الواصلین جیسی اہم تصنیفات اعلٰی کتابت کی صورت میں تخلیق ہوئیں۔
ساتویں صدی ہجری کے اختتام پر عہد خلیجی کا آغاز ہوا۔ اس کے قیام سے یہاں پر پیش رو اسلامی سلطنت کی نسبت زیادہ معیاری اسلامی ماحول قائم ہوا جس کے نتیجہ میں جملہ اسلامی فنون کی بھی ترقی ہوئی۔ جہاں تک خطاطی کا تعلق ہے اس کا معیار بھی خاصا بلند ہوا۔ اس عہد کے نمونے، عمارتی کتبات، مخطوطات، ملفوظات، فرامین اور سکہ جات پر موجود عبارات کی صورت میں مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں۔ تاریخ فیروز شاہی میں اس عہد کے بعض مصور و مطلا اور مذہب مخطوطوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ملک علاؤالدین اور شہاب الدین خطاطوں کا تذکرہ بھی موجود ہے بلکہ اس عہد میں بعض ایسے اداروں کا حوالہ بھی ملتا ہے جو خطاطی کے نمونے تیار کرتے تھے۔ اس عہد کا ایک نمونہ بیانہ میں ایک کتبہ متعلق مغیث الدین ہے جو اعلٰی خطِ ثلث میں ہے۔ اس عہد کے نمونوں کے تجزیہ سے طرز نسخ و ثلث مقبول عام نظر آتی ہے۔
تغلق عہد میں خطاطی کی یہی کیفیت نظر آئی ہے۔ بقول برنی اس عہد میں ہر شہر میں امدادی مساجد قائم ہوگئی تھیں جن میں کتاب خانوں کا قیام لازمی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ کتب اکثر ماہرین خطاطوں کی لکھی ہوئی ہوتی تھیں۔ بقول فرشتہ شہزادوں کو عام طور پر ابتدا میں خطاطی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ سلطان محمد تغلق مکاتیب اور مراسلت عربیہ و فارسی قلم برداشتہ لکھتا تھا۔ اور ایسا خطاط تھا کہ بڑے بڑے اساتذہ فن اس کے کام کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔ ابن حجر عسقلانی کے بقول اعلٰی اساتذہ فن کے نمونوں کو یہاں پر درآمد بھی کیا جاتا تھا۔ اور پھر ان کو بڑی احتیاط سے شاہی کتب خانوں میں محفوظ کر لیا جاتا۔
اسی طرح راجپوتانہ مارواڑ کے علاقہ میں مقامِ ناگور سے ملنے والے کتبات میں خواجگی بن منہاج الاصفی کا کتبہ 786ھ گجرات کاٹھیاں وار میں دریائے نربدا کے کنارے مقام بھروچ کی عید گاہ۔ کتبہ متعلق محمد تغلق، احمد آباد میں دروازہ شاہ پور میں کے اندر مسجد کا کتبہ عبدالحئی بن علی 934ھ، مدرسہ خواجہ محمود گاواں کے پیشانی پر علی الصوتی کا کتبہ 886ھ، بیدر میں چشمہ شاہی پر درویش حسینی مشہدی کا کتبہ 910ھ، احمد شاہ ولی بہمنی کے گنبد کا کتبہ۔ خواجگی شیرازی 984ھ، مقام تھانیسر خاندیس کتبہ مصطفٰے خان 861ھ، برہان پور میں عادل شاہ بن مبارک شاہ فاروقی کی تعمیر کردہ مسجد کے کتبہ پر کاتب کا نام مصطفٰے بن نور خطاطی کی تاریخ کو پیش کرتے ہیں۔
یہ کتبات بطرز طغرا، بخطِ کوفی، ثلث اور نسخ وغیرہ میں ہیں اور معیاری خطاطی کا اعلٰی نمونہ ہیں۔ لاہور عجائب گھر میں عہدِ فیروز شاہی کا ایک کتبہ قدیم نسخ کا نمونہ ہے جو بوبا نور ترینی لوسیانی نے ایک مسجد پر 770ھ میں نصب کرایا تھا۔ اس کتبہ کو حسن جرجیس نامی شخص نے کندہ کیا تھا۔ مشہور کاتب عبداللہ ہروی(متوفی 880ھ) اسی عہد میں بغداد کی تباہی کے بعد ہندوستان میں آئے اور یہاں امراء اور وزراء کے مقرب ہوئے۔ اس نادرِ روزگار خطاط نے 45 قرآن مجید اپنی یاد گار چھوڑے۔
عہد لودھی کی خطاطی کا ارتقاء ہمیں اس عہد کے عمارتی کتبات، شاہی فرامین، سکّوں اور مخطوطات کے مشاھدات سے ملتا ہے۔ اس عہد میں علم و فضل کی شاہی سرپرستی جاری رہی۔ اعلٰی پائے کی لائبریریوں کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ بابر نے اپنی توزک میں ایک کتب خانے کا ذکر کیا ہے جو نہایت نادر اور کمیاب قلمی مخطوطوں کا مجموعہ تھی۔ بابر نے اس کا کچھ حصہ اپنے لیے رکھا اور کچھ حصہ ہمایوں اور کامران کو دیا۔ اس عہد کے عمارتی کتبات "بیانہ" کے مقام پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ لاہور عجائب گھر میں سکندر شاہ کے زمانے کا ایک کتبہ بخطِ ثلث موجود ہے۔ اس زمانے کے رسم الخط کی نسبت یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ زیادہ تر ایک رُخ کی نسخ ہے اور یہاں کے لوگ ابھی خطِ نستعلیق کے عادی نہیں۔
 

بلال

محفلین
تیسرا دور --------- 1526ء
برصغیر میں خطاطی کے ارتقاء کا تیسرا دور بابر کی فتح ہندوستان (932ھ) سے شروع ہو کر وفات اورنگ زیب (1707ء) پر ختم ہوتا ہے۔ اس دور میں خطاطی نے عروج کے جو دن دیکھے وہ اسے نہ تو پہلے اور نہ بعدہ، نصیب ہو سکے۔ اکثر مغل حکمران یا تو خود ماہر خطاط تھے یا پھر خطاطی کے دلدادہ تھے۔ انہوں نے اس فن کی نشوو ترقی کے لئے دیگر فنون کی طرح توجہ دی۔ خطاط اساتذہ کی سرپرستی کی اور ان کے فن پاروں کو شاہی لائبریریوں کی زینت بنایا۔ آرائش عمارات میں اس عہد میں خطاطی جس پیمانے پر استمال ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دھات و روغنی برتنوں، روغنی ٹائلوں، پیپر میشی اور لکڑی کی بنی ہوئی اشیاء کے ظاہری حُسن کو خطاطی کے مختلف نمووں سے اجاگر کیا گیا۔ خطاطی کے اس دور کو برصغیر کی تاریخ میں سنہری دور کا نام دینا چاہئے۔ خطِ بابری اس خاندان کے پہلے حکمران شہنشاہ بابر کی ایجاد تھا۔ اسی زمانے میں خطِ نستعلیق پہلی بار برصغیر میں وارد و رائج ہوا۔ اس خط کی ترویج نے برصغیر کی خطاطی کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔ اس نووارد خط کے بانکپن، شستگی، نزاکت و لطافت سے فنِ خطاطی میں مصوری سے کہیں زیادہ دلکشی اور رعنائی پیدا ہو گئی۔ اپنی ان خوبیوں کی بنا پر یہ خط بہت جلد خطِ نسخ سے کہیں زیادہ مقبول عام ہو گیا۔ خطِ شکستہ کی ایجاد عہدِ شاہ جہانی کے ذہین کاتب مرزا محمد حسین نے کر کے اس عہدکی خطاطی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس عہد میں ہمیں بکثرت نسخ، تستعلیق کتابہ نویس مل جاتے ہیں جن کی تحریریں اس فن کے انتہائی کمال کا نمونہ ہیں۔
بابر خود خطِ بابری کا موجد تھا اور مولانا شہاب الدین ہروی(942ھ) اس کے عہد کے مشہور خطاط تھے۔ ان کے لکھے ہوئے بعض کتبے حضرات خواجہ نظام الدین رحمۃاللہ علیہ کے مزار پر موجود ہیں۔ ہمایوں کے زمانہ درگارہ(937ھ تا 963ھ) میں مولانا شہاب الدین کے علاوہ سلطان علی مشہور کاتب تھے۔ ان کے بیٹے کمال ابن شہاب الدین کی کتابت کا ایک عمدہ نمونہ لاہور عجائب گھر میں موجود ہے۔ عہد اکبری (963ھ تا 1014ھ) میں شاہی سرپرستی میں خطاطی کے فن کو قابلِ قدر ترقی ملی۔ محمد اصغر ہفت قلم (م973ھ) خواجہ عبدالصد شیریں قلم، علامہ میر فتح اللہ شیرازی(م990ھ) محمد حسین کشمیری زریں قلم، مظفر علی، خنجر بیگ چغتائی، راجہ ٹوڈرمل، میرزا عبدالرحیم خانخاناں، میرزا عزیز کوکلتاش، رائے منوہر، ملّا عبدالقادر اخوند، محمد یوسف کابلی، خواجہ ابراہیم حسین، عبدالرحیم عنبریں قلم، میر معصوم قندھاری، حسین بن احمد چشتی، پنڈت جگن ناتھ، ملا علی احمد مہر کن خصوصی فابل ذکر کاتب ہیں۔ عہد جہانگیری (1014ھ تا 1037ھ) میں میر خلیل اللہ شاہ، میر عبداللہ تبریزی مشکیں قلم (م1035ھ) خواجہ محمد شریف، میرزا محمد حسین موجد خطِ شکتہ (م1026ھ) شاہزادہ خسروبن جہانگیر بادشاہ، شاہزادہ پرویز بن جہانگیر، محمود بن اسحاق شہابی الہروی، احمد علی راشد، عبدالکریم وغیرہ نامور خطاط پیدا ہوئے۔ دور شاہجہانی میں (1037ھ تا 1076ھ) میں خطاطی کو بہت فروغ ہوا۔ تاج محل آگرہ کی فن خطاطی اس فن کا زندہ جاوید مُرقّع ہے۔ عبدالحق شیرازی عرف امانت خان، آقا عبدالرشید دیلمی، عبدالباقی یا قوت رقم وغیرہ اس عہد کے سر بر آوردہ خطاط ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر خود بڑے خطاط تھے۔ انہوں نے زمانہ شاہزادگی میں ایک قرآن پاک تحریر کیا جسے مطلاومذہّب کروا کر مسجد نبوی کے لیے ارسال کیا۔ تخت نشینی کے بعد بھی ایک مصحّف پاک لکھا۔ اسے بھی مطلّا و منقش کروا کر کعبتہ اللہ کی نذر کیا۔ عہد عالمگیری میں ہدایت اللہ زریں رقم، سید علی جواہر رقم، محمد باقر، میرزا محمد جعفر کفایت خان وغیرہ بلند پایہ خوشنویس تھے۔ اکثر مغل شاہزادے اور شہزادیاں بھی خوشنویسی سے لگاؤ رکھتے تھے۔
اگر ہم اس دور کی خطاطی کا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس عہد کی خطاطی ایرانی طرز کی مقلد اور متاثر ہے اور اس میں دوائر، مدات اور نقاط وغیرہ میں ایرانی طرز تحریر کا تتبع عام ہے۔ اس عہد کے خطاطوں نے بالخصوص طرزِ نستعلیق میں حُسن اور اس سے کہیں زیادہ پاکیزگی آمیز رعنائی پیدا کی۔ بلا شبہ مغلیہ دور کا یہ زمانہ برصغیر میں خطاطی کے ارتقا کی نشاۃ اولٰی ہے۔
 

بلال

محفلین
چوتھا دور --------- 1707ء تا 1857ء
خطاطی کے ارتقاء کے چوتھے دور کا آغاز اورنگ زیب کی وفات(1707ء) کے ساتھ شروع ہوا جو 1857ء کو اختتام پذیر ہوا۔ یہ دور برصغیر میں مرہٹوں کی لوٹ مار، سکھوں کی سکھ گردی اور بیرونی حملہ آوروں کی لپیٹ میں رہا۔ مغلوں کی سلطنت کی مرکزی کمزوری کے بعد دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل ہو گیا۔ مغلوں کے ابتدائی عروج کے بعد لاہور ملک کا دوسرا دارالسلطنت تھا۔ اکثر امراء یہیں مقیم رہے۔ مغل سربراہ بھی یہاں پر اپنا قیام عموماً کرتے تھے۔ حکمرانوں کی اس نقل و حرکت کی وجہ سے درباری کاتب دوسرے شہروں کے کاتبوں اور ان کے فن سے باخبر رہتے۔ اثرات چھوڑتے اور اثرات قبول کرتے۔ مزید برآں ایران کی طرف سے خطاط حضرات کا داخلہ برابر جاری رہا۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اس دور میں ایرانی اور ہندوستانی اور خود ہندوستان کے مختلف شہروں کی خطاطی میں بڑی یکسانیت پائی جاتی تھی۔ اس دور میں مرکز کی کمزوری، شاہی سرپرستی کی کمی اور ایران سے آمدورفت کے سلسلے کا گھٹنا ایسے اسباب تھے جن کی بنا پر خطاطی میں انفرادی صلاحیتیں اور مقامی رنگ زیادہ زور سے بروئے کار آیا۔ شاہی سرپرستی سے محرومی کی بنا پر انفرادی وسائل اور ریاستی سرپرستی پر انحصار کا دور آیا۔ ان حالات میں عہد گزشتہ کی شانِ خطاطی برقرار نہ رہ سکی تاہم اس عہد میں چند خطاط ایسے نامور پیدا ہوئے کہ انہوں نے خطاطی کی دنیا میں ایک منفرد مقام پیدا کیا۔ محمد افضل لاہوری "آقائے ثانی"، میر پنجہ کش دہلوی اور حافظ نوراللہ لکھنوی اس دور کے آسمانِ خطاطی کے درخشاں ستارے ہیں۔ محمد حفیظ خاں، محمد مقیم، میر محمد موسٰی سرہندی، نواب مرید خاں، مولوی حیات خاں، قاضی عصمت اللہ خاں، میر گدائی، حافظ ابوالحسن، میر کرم علی، حافظ مسعود، عنایت اللہ مبروص، فیض اللہ خاں، میر سوزؔ(مشہور اردو شاعر)، حافظ نور اللہ، قاضی نعمت اللہ لاہوری، مولائ صاحب، میر محمد حسین، حافظ ابراہیم، غلام علی خاں، حافظ لقاءاللہ دہلوی، میر ابوالحسن المشہور بہ میر کلن، میر زین العابدین، میر مہدی، شاہ وارث علی، خواجہ غلام نقشبند، مولانا غلام محمد ہفت قلمی دہلوی مؤلف "تذکرہ خوشنویساں" عمادالملک غازی الدین، فیروز جنگ خطاط ہفت قلم، آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ اور ان کے نامور شاگرد حافظ امیرالدین و مولانا ممتاز علی نزہت رقم، خط نستعلیق کے جلیل القدر خوش نویس سید محمد امیر رضوی عرف میر پنجہ کش شہید جنگ آزادی 1857ء اور ان کے تلامذہ میں آغامیرزا دہلوی اور عباداللہ بیگ جیسے بلند پایہ خوش نویس پیدا ہوئے۔ بدرالدین علی خاں مرصّع رقم جو مہر کنی میں بے مثال تھے اس زمانہ کے کاتب تھے۔ اس عہد میں لکھنئو حافظ نوراللہ اور قاضی نعمت اللہ کے وجود سے خطاطی کے ایک منفرد سکول کی حیثیت سے اُبھرا جو لاہور اور دہلی کی خطاطی کی روش سے یکسر مختلف پرانی ایرانی روشِ خط کا پیرو تھا۔
 

بلال

محفلین
پانچواں دور --------- 1857ء تا 1947ء
خطاطی کی پانچویں دور میں لاہور، دہلی اور لکھنئو دبستانِ خطاطی کی حیثیت سے امتیازی صورت اختیار کرنے لگے۔ لکھنئوی روش کو جہاں پر حافظ نوراللہ نے چھوڑا تھا منشی شمس الدین اعجاز رقم نے اس کو آگے بڑھایا۔
دہلی سکول میر پنجہ کش، حافظ امیرالدین اور مولوی ممتاز علی نزہت رقم کی روش کو نہیں بھُولا تھا کہ بیسویں صدی کے آغاز میں ضلع گوجرانوالہ کے نواح موضع جنڈیالہ سے محمد الدین مرحوم دہلی تشریف لے گئے۔ ان کے صاحبزادے محمد یوسف جو اس وقت پندرہ سولہ سال کے تھے ۔ا ن کے ہمراہ دہلی گئے۔ اس ذہین و فطین خطاط کی وجہ سے دہلی طرزِ تحریر میں باقی سکولوں سے امتیاز حاصل کر گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد محمد یوسف دہلوی ہجرت کر کے کراچی آگئے اور اس طرز کو وہاں رواج دیا۔ اس وقت کراچی میں عبدالمجید، سید امتیاز علی اور عبدالرشید رستمِ قلم اس طرز کے بہترین نمائندے ہیں۔
لاہور دبستانِ خطاطی میں امام ویردی رحمۃاللہ علیہ سے خطاطی کی نشاۃِ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ جلی خط میں ان کا انداز منفرد اور دلنشین تھا۔ خطِ نستعلیق میں مولوی سید احمد ایمن آبادی اور فتح علی ملتانی ان کے بہترین مقلد تھے۔ عبدالمجید پرویں رقم نے اس کو آگے بڑھایا، انکی جدت پسندطبیعت، خلاق ذہن اور نرم و نازک انگلیاں لاہوری سکول کے قیام کا باعث بنیں۔ ان کا یہ نیا طرزِ تحریر، حروف کی ساخت اور پیوندوں کی دل کش ترمیموں پر مشتمل تھا جس میں بے ساختگی، گداز، لوچ اور روانی تھی۔ حروف اُجلے اُجلے، نکھرے نکھرے اور خُوب اُجاگر ہوتے۔ دبستانِ لاہور کا مُوجد یہ عظیم خطاط 1946ء میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔
 

بلال

محفلین
چھٹا دور --------- خطاطی پاکستان میں
قیام پاکستان کے بعد خطاطی ایک پیشہ کی حیثیت اختیار کرنے پر مجبور ہوئی۔ منشی تاج الدین زریں رقم مرحوم نے طرزِ پروینی کو فروغ دیا۔ ابتدائے قیام پاکستان میں حاجی دین محمد مرحوم نستعلیق طغرا نویسی، انتہائی جلی و زود نویسی میں لاثانی تھے۔ محمد صدیق الماس رقم مرحوم لاجواب نستعلیق نویس تھے۔ ابن پرویں رقم مرحوم خطاطی میں اپنے والد کے پیروکار تھے۔ لاہور اس وقت حافظ محمد یوسف سدیدی، سید انور حسین نفیس رقم، صوفی خورشید عالم مخمورؔسدیدی خورشید رقم، خوشی محمد ناصر قادری خوش رقم اور ان کے شاگردوں کی وجہ سے پورے پاکستان کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ چنانچہ طرزِ پروینی جسے اب طرزِ لاہوری کہا جاتا ہے، کراچی کے سوا پاکستان کے تمام شہروں میں جاری و ساری ہے۔ حافظ محمد یوسف سدیدی کی پاکیزہ طغیت، پاکیزہ خطاطی کی صورت میں اظہار کرتی ہے۔ ان کی نرم و نازک انگلیاں جب ذہین ذہن کے اشارے پر چلتی ہیں تو کوفی، کوفی مرصّع، کوفی مقفّل، کوفی مربّعی، ثلث، ریحان، نسخ، نستعلیق، شکستہ، دیوانی، رقاع، تعلیق اور نہ جانے کیسے کیسے حسین و جمیل خط تخلیق کرتی ہیں۔ مقبرہ قطب الدین ایبک پر ان کی تحریروں کے کندہ کتبات عہد ایبکی کی تصویر سامنے لاکھڑی کرتے ہیں۔ ان کی تحریریں نہ معلوم کتنی مساجد کی پیشانیاں آراستہ کر چکی ہیں اور کتنے مزاروں اور قبروں کی لوحوں کی زینت بن چکی ہیں۔ ان کے تلامذہ میں رشید بٹ(راولپنڈی) محمد سلیم ساغرؔ(کراچی) محمد یوسف چوھدری(فیصل آباد) محمد اقبال یوسفی(ملتان) ظہور ناظم، علی احمد صابر، خالد یوسفی، خورشید عالم گوہر قلم وغیرہ شامل ہیں۔ سید انور حسین نفیس رقم کاراہورِ قلم بھی جملہ طرزِ خطاطی میں رواں ہے۔ انکا نستعلیق، ثلث اور نسخ تو آنکھوں سے چومنے کی جی چاہتا ہے۔ "نفائس القلم" کے عنوان سے ان کے کتبات کا نہایت حسین مرقع شائع ہو چکا ہے۔ خط اور خطاطی کی تاریخ میں ان کا گہرا مطالعہ گاہ بگاہ مضامین کی صورت میں قارئین کے استفادہ کا باعث بنتا رہتا ہے۔ آپ کے والد سید اشرف علی زیدی سید القلم قرآنی نسخ کے خطاط ہیں۔ ان کے تلامذہ کا حلقہ خاصا وسیع ہے جن میں اصغر انیس(کامونکی) انور حسین، طالب حسین، عبدالرشید اور محمد جمیل حسن نمایاں ہیں۔ خوشی محمد ناصر قادری خوش رقم، پرویں رقم کے تلامذہ میں سب سے نمایاں اور نستعلیق میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ صوفی خورشید عالم خورشید رقم خطِ نستعلیق کے بہترین استاد ہیں۔ آپ کے خط (خفی و جلی) میں غضب کی صفائی اور نوک پلک پائی جاتی ہے۔ تاج الدین زریں رقم مرحوم کی وفات کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ آپ کے حلقہ تلمذ میں محمد اکرام الحق، محمد صدیق گلزار، غلام رسول طاہر، محمد اقبال اور منظور انور سر فہرست ہیں۔ علاوہ ازیں لاہور کے شریف گلزار، خلیفہ احمد حسین سہیل رقم، حاجی محمد اعظم منور قلم، جمیل احمد تنویر رقم، محمد بخش جمیل رقم، ایم ایم شریف آرٹسٹ(پشاور) چوھدری محمد صدیق، محمد خالد اور محمد یوسف نگینہ(فیصل آباد) اس وقت قابلِ ذکر خوشنویس موجود ہیں۔

انجمؔ رحمانی

حوالہ : کتاب "رہنمائے خوشنویسی" ترتیب و تالیف "ایم ایم صابری"
 

arifkarim

معطل
شکریہ بلال۔ آپ کا خطاطی ‌سے شوق قابل تعریف ہے۔ :) آپ شاید آج کل کی ڈیجیٹل خطاطی کلک، میر عماد، اور تصمیم کا ذکر کرنا بھول گئے؟ یہ بلا شبہ خطاطی کا ساتواں‌دور ہے!
 

بلال

محفلین
شکریہ بلال۔ آپ کا خطاطی ‌سے شوق قابل تعریف ہے۔ :) آپ شاید آج کل کی ڈیجیٹل خطاطی کلک، میر عماد، اور تصمیم کا ذکر کرنا بھول گئے؟ یہ بلا شبہ خطاطی کا ساتواں‌دور ہے!

پسند کرنے کا بہت شکریہ عارف بھائی۔۔۔ یہ دھاگہ شروع کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ خطاطی کے ارتقاء کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کی جا سکیں۔۔۔
آج کل میں خطاطی کے ساتواں دور کے متعلق معلومات اکٹھی کر رہا ہوں وہ بھی انشاءاللہ جلد ہی یہاں پوسٹ کروں گا اور الف نظامی بھائی کی پوسٹ سے کافی معلومات ملی ہیں۔۔۔
ایک زمانہ تھا جب صرف شوق کی خاطر خطاطی کا فن کسی حد تک سیکھا بھی تھا۔۔۔ لیکن وقت کسی اور طرف لے گیا۔۔۔
 

تلمیذ

لائبریرین
دھاگہ تازہ کرنے کا شکریہ، جناب۔ جزاک اللہ!
مجھ جیسے کئی اہل محفل کے لئے یہ بیش بہا معلومات نئی ہیں۔
 
Top