برطانیہ میں جعلی علماءکس طرح تیار کیے جاتے ہیں۔۔

مسلمانوں کو بہت سے مسائل کے ساتھ جس ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ ہے باہمی اتحاد کی کمی،ایک خدا،ایک رسولؐ ،ایک کتاب،ایک امت ،لیکن پھر بھی امت اتنی پارہ پارہ کیوں ہے ۔ اس میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے ساتھ اسلام کے دشمنوں کی بھی محنت شامل ہے۔ زیرِ نظر تحریر ایک ایسی ہی حقیقت ہے کہ کیوں ابھی تک ہم ایک چاند پر بھی متفق نہیں ہو پارہے ہیں؟۔یہ مضمون جولائی 2010 ءکے’اُردو ڈائجسٹ ‘میں شائع ہوا تھا۔
”نواب راحت خان سعید خان چھتاری 1940 ءکی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے ۔ انگریز حکومت نے انہیں یہ اہم عہدہ اس لئے عطا کیا کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست سے لاتعلق رہ کر انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے تھے۔نواب چھتاری اپنی یادداشتیں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ایک بار انہیں سرکاری ڈیوٹی پر لندن بلایا گیا ۔ان کے ایک پکے انگریز دوست نے، جو ہندوستان میں کلکٹر رہ چکاتھا ،نواب صاحب سے کہا: ”آئیے ! آپ کو ایک ایسی جگہ کی سیر کرائوں، جہاں میرے خیال میں آج تک کوئی ہندوستانی نہیں گیا۔“نواب صاحب خوش ہوگئے ۔انگریز کلکٹر نے پھر نواب صاحب سے پاسپورٹ مانگا کہ وہ جگہ دیکھنے کیلئے حکومت سے تحریری اجازت لینی ضروری تھی۔دو روز بعدکلکٹر اجازت نامہ ساتھ لے آیا اور کہا: ”ہم کل صبح چلیں گے“ لیکن میری موٹر میں‘موٹر وہاں لے جانے کی اجازت نہیں۔
اگلی صبح نواب صاحب اور وہ انگریز منزل کی طرف روانہ ہوئے ۔شہر سے باہر نکل کر بائیں طرف جنگل شروع ہوگیا ۔جنگل میں ایک پتلی سی سڑک موجودتھی۔جوں جوں چلتے گئے جنگل گھنا ہوتا گیا ۔سڑک کے دونوں جانب نہ کوئی ٹریفک تھا، نہ کوئی پیدل مسافر۔ نواب صاحب حیران بیٹھے اِدھراُدھر دیکھ رہے تھے۔ موٹرچلے چلتے آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔تھوڑی دیربعد ایک بہت بڑا دروازہ نظر آیا ۔پھر دور سامنے ایک نہایت وسیع وعریض عمارت دکھائی دی،اس کے چاروں طرف کانٹے دار جھاڑیاں اور درختوں کی ایسی دیوار تھی، جسے عبور کرنا ناممکن تھا،عمارت کے چاروں طرف زبردست فوجی پہرہ تھا۔
اس عمارت کے باہر فوجیوں نے پاسپورٹ اور تحریری اجازت نامہ غور سے دیکھا اور حکم دیا کہ اپنی موٹر وہیں چھوڑ دیں اور آگے جو فوجی موٹر کھڑی ہے، اس میں سوار ہو جائیں،نواب صاحب اور انگریز کلکٹر پہرے داروں کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ اب پھر اس پتلی سڑک پر سفر شروع ہوا،وہی گھنا جنگل اور دونوں طرف جنگلی درختوں کی دیواریں۔نواب صاحب گھبرانے لگے تو انگریز نے کہا :”بس منزل آنے والی ہے۔“آخر دورایک اور سرخ پتھر کی بڑی عمارت نظر آئی تو فوجی ڈرائیور نے موٹر روک دی اور کہا: ”یہاں سے آگے آپ صرف پیدل جا سکتے ہیں “۔راستے میں کلکٹر نے نواب صاحب سے کہا :”یاد رکھیں ‘کہ آپ یہاں صرف دیکھنے آئے ہیں، بولنے یا سوال کرنے کی بالکل اجازت نہیں ۔“
عمارت کے شروع میں دالان تھا ،اس کے پیچھے متعدد کمرے تھے ۔دالان میں داخل ہوئے تو ایک باریش نوجوان عربی کپڑے پہنے سر پر عربی رومال لپیٹے ایک کمرے سے نکلا۔ دوسرے کمرے سے ایسے ہی دو نوجوان نکلے ۔ پہلے نے عربی لہجے میں ”السلام علیکم“ کہا۔دوسرے نے ”وعلیکم السلام !کیا حال ہے ؟“نواب صاحب یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن انگریز نے فوراً اشارے سے منع کردیا۔چلتے چلتے ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے ،دیکھا کہ اندر مسجد جیسا فرش بچھاہے ،عربی لباس میں ملبوس متعدد طلبہ فرش پر بیٹھے ہیں، ان کے سامنے استاد بالکل اسی طرح بیٹھے سبق پڑھا رہے ہیں، جیسے اسلامی مدرسوں میں پڑھاتے ہیں۔طلباءعربی اور کبھی انگریزی میں استاد سے سوال بھی کرتے ۔نواب صاحب نے دیکھا کہ کسی کمرے میں قرآن کا درس ہورہا ہے ،کسی جگہ بخاری کا درس دیا جارہا ہے اور کہیں مسلم شریف کا ۔ایک کمرے میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان مناظرہ ہورہا تھا۔ ایک اور کمرے میں فقہی مسائل پر بات ہورہی تھی ۔سب سے بڑے کمرے میں قرآن مجید کا ترجمہ مختلف زبانوں میں سکھایا جارہا تھا۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ ہر جگہ باریک مسئلے مسائل پر زور ہے ۔مثلاً وضو،روزے،نماز اور سجدہ سہو کے مسائل ، وراثت اور رضاعت کے جھگڑے ،لباس اور داڑھی کی وضع قطع،چاند کانظر آنا،غسل خانے کے آداب ،حج کے مناسک،بکرا ،دنبہ کیساہو،چھری کیسی ہو ،دنبہ حلال ہے یا حرام،حج بدل اور قضاءنمازوں کی بحث،عید کا دن کیسے طے کیاجائے اورحج کا کیسے؟پتلون پہنناجائزہے یا ناجائز ؟عورت کی پاکی کے جھگڑے ،امام کے پیچھے سورة الفاتحہ پڑھی جائے یا نہیں ؟تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟وغیرہ ۔
یہ سب دیکھ کر وہ واپس ہوئے تو نواب چھتاری نے انگریز کلکٹر سے پوچھا: ”اتنے عظیم دینی مدرسے کو آپ نے کیوں چھپارکھا ہے؟“انگریز نے کہا: ”ارے بھئی ،ان سب میں کوئی مسلمان نہیں، یہ سب عیسائی ہیں،تعلیم مکمل ہونے پرانہیں مسلمان ملکوںخصوصاًمشرق وسطیٰ،ترکی،ایران اور ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔وہاں پہنچ کر یہ کسی بڑی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ۔پھر نمازیوں سے کہتے ہیں کہ وہ یورپی مسلمان ہیں ۔انہوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں تعلیم پائی ہے اور وہ مکمل عالم ہیں ۔یورپ میں اتنے اسلامی ادارے موجود نہیں کہ وہ تعلیم دے سکیں،وہ سردست تنخواہ نہیں چاہتے ،صرف کھانا،سر چھپانے کی جگہ درکار ہے۔وہ مؤذن،پیش امام ،بچوں کیلئے قرآن پڑھانے کے طورپراپنی خدمات پیش کرتے ہیں ،تعلیمی ادارہ ہو تو اس میں استاد مقررہوجاتے ہیں۔جمعہ کے خطبے تک دیتے ہیں۔“
نواب صاحب کے انگریز مہمان نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا کہ اِس’ عظیم مدرسے‘ کے بنیادی اہداف یہ ہیں:
(۱) مسلمانوں کو وظیفوں اور نظری مسائل میں الجھاکر قرآن سے دور رکھا جائے۔
(۲) حضوراکرم ﷺ کا درجہ جس طرح بھی ہوسکے ،گھٹایا جائے۔اس انگریز نے یہ انکشاف بھی کیا کہ 1920ء میں توہینِ رسالت کی کتاب لکھوانے میں یہی ادارہ شامل تھا۔اسی طرح کئی برس پہلے مرزاغلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی بناکر کھڑا کرنے والایہی ادارہ تھا ۔اسکی کتابوں کی بنیاد لندن کی اسی عمارت سے تیار ہوکر جاتی تھی۔ خبر ہے کہ سلمان رشدی کی کتاب لکھوانے میں بھی اسی ادارے کا ہاتھ ہے۔


بشکریہ : ماہنامہ ’الحیاۃ‘ انڈیا۰۰۰۰فروری2016
 
مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے والا تھامس لارنس نامی برطانوی جاسوس تو بہت مشہور کردار ہے۔
ان پہ بننے والی مووی" لارنس آف عربیہ" دیکھی تھی۔۔۔حیرت ہے اس بندے نے بغاوت کو منظم کرنے کے لیے اپنا مذہب، زبان، لباس سب ترک کر دیا تھا
 
ایسے مضامین پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ نواب صاحب سے پوچھنا تھا کہ کیا ممکن نہیں کہ جنگ جمل اور صفین کو بھی اسی ادارہ کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔
 
ایسے مضامین پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ نواب صاحب سے پوچھنا تھا کہ کیا ممکن نہیں کہ جنگ جمل اور صفین کو بھی اسی ادارہ کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔
نواب صاحب کے قلم نے کہیں تخصیص نہیں کی کہ ازل کے سارے شر پسند اسی ادارے کی پیداوار ہیں۔۔۔بس اپنا تجربہ بیان کیا۔۔
 
مسلمانوں کو بہت سے مسائل کے ساتھ جس ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ ہے باہمی اتحاد کی کمی،ایک خدا،ایک رسولؐ ،ایک کتاب،ایک امت ،لیکن پھر بھی امت اتنی پارہ پارہ کیوں ہے ۔ اس میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے ساتھ اسلام کے دشمنوں کی بھی محنت شامل ہے۔
یہی حقیقت ہے۔ اس کا ثبوت انگریزی جاسوس ہمفرے کے اعترافات ہیں جس میں ایک ڈیڑھ صدی قبل مسلمانوں میں رونما ہونے والی فرقہ بندی کرانے کا صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے۔ یہ اعترافات اردو میں بنام "ہمفرے کے اعترافات" عربی میں " اعترافات الجاسوس الانکلیزی" اور انگلش میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ انھیں پڑھیں اور آج مسلمانوں کے حالات پر غور کریں تو دنگ رہ جائیں۔ دل دھک سے ہوجاتا ہے۔ آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ اللہ مسلمانوں کو قرآن و سنت سے ثابت اعتقادات حَقّہ، نظریات و معمولات پر جمع فرمائے۔ کچھ ایسی جماعتیں بھی ہیں جن کا وجود ڈیڑھ صدی سے قبل نہیں ملتا انھیں بھی چاہیے کہ اپنے احوال پر نظر ثانی کریں کہ کہیں وہ اسی تخریب کاری کا شکار تو نہیں، اور خود کو اس راہ کی طرف گامزن کر لیں جو طریق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور حکم خداوندی ہے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔
 
یہی حقیقت ہے۔ اس کا ثبوت انگریزی جاسوس ہمفرے کے اعترافات ہیں جس میں ایک ڈیڑھ صدی قبل مسلمانوں میں رونما ہونے والی فرقہ بندی کرانے کا صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے۔ یہ اعترافات اردو میں بنام "ہمفرے کے اعترافات" عربی میں " اعترافات الجاسوس الانکلیزی" اور انگلش میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ انھیں پڑھیں اور آج مسلمانوں کے حالات پر غور کریں تو دنگ رہ جائیں۔ دل دھک سے ہوجاتا ہے۔ آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ اللہ مسلمانوں کو قرآن و سنت سے ثابت اعتقادات حَقّہ، نظریات و معمولات پر جمع فرمائے۔ کچھ ایسی جماعتیں بھی ہیں جن کا وجود ڈیڑھ صدی سے قبل نہیں ملتا انھیں بھی چاہیے کہ اپنے احوال پر نظر ثانی کریں کہ کہیں وہ اسی تخریب کاری کا شکار تو نہیں، اور خود کو اس راہ کی طرف گامزن کر لیں جو طریق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور حکم خداوندی ہے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔
آمین۔۔۔احوال پر نظر ثانی کی ضرورت سب کو ہی ہے۔۔
 
میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ترقی یافتہ دنیا کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ تیسری دنیا کے جاہلوں کے ان عامیانہ اختلافات میں اسقدر دلچسپی لے؟ ترقی یافتہ دنیا کو اور بہت سےعظیم مسائل ہیں۔ دنیا پر دھونس جمانے اور اثر رکھنے کے لئے
عثمان بھائی مخالف قوتیں اسلام اور مسلمان کے نام سے ہمیشہ سے ہی خوفزدہ رہی ہیں پھر چائے وہ متحد ہوں یا غیر متحد ۔۔قلیل ہوں یا کثیر۔۔۔البتہ درست ہے کہ ہمیں تاویلات میں نہیں الجھنا چاہیے۔۔۔
 
اختلاف کو ہوا دینے کیلئے عالم تیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اپنے علماء کافی ہیں، ان کو پیسے دیجئے اور تماشا دیکھیے۔ بڑے بڑے جلالی علماء کو دیکھ لیجئے، سب کے سب ہمارے ہی مدرسوں سے پڑھے ہوئے ہیں، یا پھر برادر اسلامی ممالک سے۔ البتہ ایسی باتیں کرکے مذہبی علماء کا ایک طبقہ اپنے افعال سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ جب ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جائے تو کہہ دیتے ہیں یہ تو کفار کی سازش ہے۔ بریلویوں کو پوچھیے وہ کہیں گے، وہابی انگریز نے پیدا کئے، وہابیوں کو پوچھیے وہ آپ کو رانڈ انسٹیٹیوٹ کی تحریریں دکھا دیں گے کہ صوفی آئیڈیالوجی کو پروموٹ کیا جائے۔ شیعوں کی بات کر لیجئے، آپ کو بتایا جائے گا کہ کیسے خمینی کو فرانس میں انقلاب کیلئے تیار کیا گیا۔
 
ان پہ بننے والی مووی" لارنس آف عربیہ" دیکھی تھی۔۔۔حیرت ہے اس بندے نے بغاوت کو منظم کرنے کے لیے اپنا مذہب، زبان، لباس سب ترک کر دیا تھا
اس میں حیرت کی بات نہیں، یہ جاسوسوں کی مجبوری ہوتی ہے۔
لارنس دشمنوں کے لئے ہیرو اور ہمارے لئے ولن۔
 

ابو ہاشم

محفلین
موضوع سے قطع نظر، میں نواب چھتاری کے نام سے یہاں آیا۔ موصوف سن اسی کی دہائی تک، یعنی اپنے انتقال تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر رہے۔ ان کے بارے میں کوئی الزام یا تو بہتان ہے، یا غلط فہمی۔

”نواب راحت خان سعید خان چھتاری 1940 ءکی دہائی میں ہندوستان کے صوبے اتر پردیش کے گورنر رہے ۔

دونوں بیانات میں کافی تفاوت ہے کہاں 1940 میں اترپردیش کی گورنری اور کہاں اسی کی دہائی میں علی گڑھ یونیورسٹی کی چانسلر شپ؟

نواب صاحب یہ واقعہ جس سے بیان کیا وہ کس حد تک ثقہ آدمی ہے (یا تھا)؟
نواب صاحب نے یہ واقعہ اور کس کس کو بتایا؟
اس کی تحقیق ہونی چاہیے
 

سید عمران

محفلین
اختلاف کو ہوا دینے کیلئے عالم تیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اپنے علماء کافی ہیں، ان کو پیسے دیجئے اور تماشا دیکھیے۔ بڑے بڑے جلالی علماء کو دیکھ لیجئے، سب کے سب ہمارے ہی مدرسوں سے پڑھے ہوئے ہیں، یا پھر برادر اسلامی ممالک سے۔ البتہ ایسی باتیں کرکے مذہبی علماء کا ایک طبقہ اپنے افعال سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ جب ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جائے تو کہہ دیتے ہیں یہ تو کفار کی سازش ہے۔ بریلویوں کو پوچھیے وہ کہیں گے، وہابی انگریز نے پیدا کئے، وہابیوں کو پوچھیے وہ آپ کو رانڈ انسٹیٹیوٹ کی تحریریں دکھا دیں گے کہ صوفی آئیڈیالوجی کو پروموٹ کیا جائے۔ شیعوں کی بات کر لیجئے، آپ کو بتایا جائے گا کہ کیسے خمینی کو فرانس میں انقلاب کیلئے تیار کیا گیا۔
ویسے آپ کا نظریہ کہاں کا تیار شدہ ہے؟؟؟
 
Top