راشد احمد
محفلین
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین۔11جون 2009 ء)برطانیہ میں انتہا پسندوں سے تعلق کے الزام میں دو ماہ تک زیر حراست رہنے والے پاکستانی طالب علم طارق الرحمان جمعرات کو واپس اسلام آباد پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے واپس نہ جانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قید کے دوران ہمارے جائے نماز اور قرآن پاک کی بھی بے حرمتی کی جاتی اور سراغ رساں کتوں سے تلاشی لی جاتی تھی جو ہمارے لیے قابل برداشت نہیں اس لیے میں نے احتجاجا برطانیہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا-وہ جمعرات کی صبح اسلام آباد پہنچنے پر اخبار نویسوں سے بات چیت کررہے تھے-اس موقع پر ان کے وکیل امجد ملک نے صحافیوں کو بتایا کہ ان لوگوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا مگر ان کے خلاف کچھ ثابت نہ ہونے پر الزامات واپس لے کر انہیں رہا کیاگیا اور ان کی بے دخلی کے احکامات بھی واپس لے لیے گئے تھے لیکن انہوں نے احتجاجا واپس آنے کا فیصلہ کیا-طارق الرحمان نے ایک تحریری بیان پڑھتے ہوئے کہا کہ میں 62دن کے بعد جیل سے نکلا ہوں ایک ایسی جیل سے جو برطانیہ کی بدنام زمانہ جیل ہے اور ہمیں وہاں بغیر کسی جرم اور گناہ کے رکھا گیا اللہ کا شکر ہے کہ اس عذاب سے نکل آیا ہوں جس کیلئے میں اپنے وکیل امجد ملک اور پاکستانی میڈیا کا شکر گزار ہوں-انہوں نے کہا کہ جب ہم گرفتار ہوئے تو یورپی چینل نے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا مگر جب کوئی الزام باقی نہ رہا تو وہ خاموش ہو گئے میں پاکستانی ہائی کمشن کا بھی شکر گزار ہوں وہ ہمیں جیل میں ملنے آئے اور حکومت کی طرف سے سپورٹ کیا- تاہم حکومت کو اس سے زیادہ کچھ کرنا چاہئے تھا طارق الرحمان نے کہا کہ ہمیں جیل میں کٹیگری اے میں رکھا گیا جہاں دو دو تین تین قتل کرنے والے مجرم رکھے جاتے ہیں اور انہیں لمبی سزائیں ہوتی ہیں-اگر ہم نماز پڑھتے تو جیل افسر جائے نماز کے اوپر سے گزرتے جب ہم روکتے تو وہ کہتے یہ ہماری ڈیوٹی ہے-یہ لوگ ہمارے جائے نماز اور قرآن پاک کی بھی کتوں سے تلاشی لیتے جو میں برداشت نہیں کر سکتا تھا اور میں نے کہا کہ میں اب مزید یہاں نہیں رہ سکتا-انہوں نے بتایا کہ باقی ساتھیوں کی حالت بھی خراب ہے تاہم وہ لوگ چاہتے ہیں کہ ڈگری مکمل کرنے دیا جائے-ہم نہ جانتے کہ ہمیں کیوں قید رکھا گیا اور کیا الزامات تھے-جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو طارق الرحمان نے کہا کہ جس ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہ جسمانی تشدد سے کہیں زیادہ سخت تھا-ان کے وکیل امجد ملک نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ طارق الرحمان اب واپس نہیں جانا چاہتے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہرجانے کا دعوی کریں گے تو انہوں نے کہا کہ 9 کیس زیر التواء ہیں اگر ان میں بھی ہم جیت جاتے ہیں تو پھر ہرجانے کی بات آئے گی-انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کس چیز کو انتہا پسندی سمجھتے ہیں کیا نماز پڑھنا بھی انتہا پسندی ہے-ہم اپنے گرفتاری ساتھیوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی کوشش کریں گے انہوں نے بتایا کہ ان لوگوں کو جب گرفتار کیا گیا تو ایک برطانوی شہری کو بھی ان کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد میں تعصب اور جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا گیا-انہوں نے کہا کہ وہ مزید دو طلباء عبدالوہاب اور شعیب خان کا کیس لڑ رہے ہیں جبکہ دیگر طلباء کے مقدمات دوسرے وکلاء لڑ رہے ہیں-
بشکریہ اردو پوائنٹ
بشکریہ اردو پوائنٹ