برقعہ ، پگڑی - تسلیمہ نسرین ، خشونت سنگھ

حیدرآبادی

محفلین
خشونت سنگھ ، ہندوستان کے ایک معروف صحافی ، ادیب اور دانشور ہیں ۔ لگتا ہے اب ان کی عمر کے زوال نے ان کی سوچوں پر بھی یلغار کر دی ہے ۔ ورنہ آج سے کچھ سال قبل تک بھی آپ جناب ایک ایسی اعتدال پسند اور انسانیت نواز شخصیت کے طور پر متعارف تھے جس کا ایقان تمام مذاہب کے یکساں احترام پر رہا ہو ۔ کچھ عرصے سے آپ نے اسلام اور مسلم شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی کا محاذ سا کھول لیا ہے جو ان کی اُس متعصبانہ ذہنیت کا اظہار ہے جس پر غالباََ اب تک پردہ پڑا ہوا تھا ۔

انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ کے 17۔ فبروری 2007ء کے شمارے میں خشونت سنگھ اپنے مخصوص کالم کے تحت بدنام زمانہ تسلیمہ نسرین کے برقعہ جلا دینے والے غیر معقول مشورہ کی تائید کرتے ہوئے اپنی مضحکہ خیز منطق کے مطابق یوں رقم طراز ہیں ‫:


مسلمان عورتوں کا گھر سے باہر برقعہ پہن کر نکلنا ، ہندو اور مسلم میں تفریق پیدا کرتا ہے اور یہ تفریق نمایاں نظر آتی ہے ۔ یہ مسلمانوں کے لئے اچھا نہیں ہے ۔ اس سے مسلم عورتیں ، ہندو خواتین سے الگ تھلگ نظر آتی ہیں اور برقعہ ، جہالت اور پچھڑے پن کی علامت ہے ۔

مجلس علماء ، مرٹھواڑہ ، اورنگ آباد کے ناظم مولانا محمد عبداللہ قاسمی نے خشونت سنگھ کی اس متنازعہ تحریر پر شدید ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے درج ذیل بیان جاری کیا ہے ‫:
بنگالی ناول نگار تسلیمہ نسرین کی حمایت میں برقعہ کو جہالت اور پچھڑے پن کی علامت سے تعبیر کرنے کے لئے جو خودساختہ معیار خشونت سنگھ نے بتایا ہے اس کو سامنے رکھ کر اگر انہیں یہ مسورہ دیا جائے کہ ‫:
ملک میں ہندوؤں کے ساتھ سکھ بھی رہتے ہیں ۔ جب وہ پگڑی باندھ کر نکلتے ہیں تو عوام کے درمیان الگ تھلگ نظر آتے ہیں ۔ یہ پگڑی ہندو اور سکھ میں تفریق پیدا کرتی ہے اور یہ تفریق نمایاں نظر آتی ہے ۔ برقعے کو جہالت اور پچھڑے پن کی علامت بتانے والے خشونت سنگھ پہلے خود اپنے سماج کو مشورہ دیں کہ سر سے پگڑی اتار دیں تاکہ وہ دوسری قوموں کے ساتھ یکساں نظر آئیں ۔ یہ پگڑی کس چیز کی علامت ہے ؟ بقول خشونت سنگھ ، کسی کا الگ تھلگ رہنا سماج میں اچھا نہیں ہے تو پگڑی کو جہالت اور پچھڑے پن کی علامت سمجھ کر اس کے استعمال کو ترک کر دینا چاہئے ۔ کیا خشونت سنگھ اس کے لئے تیار ہیں ؟
شائد تسلیمہ نسرین کی حمایت میں خشونت سنگھ اس درجہ مغلوب ہو گئے تھے کہ انہیں اس بات کا تک احساس نہ ہو سکا کہ جو مشورہ وہ دے رہے ہیں وہ پلٹ کر ان پر بھی آ سکتا ہے ۔

خشونت سنگھ کے لئے ہمارا نیک مشورہ یہ ہے کہ کسی کی بےجا حمایت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے ماننے والوں کے جذبات کو وہ مجروح نہ کریں ۔ اسلام میں خواتین کے لئے پردہ کا جو حکم ہے ، اس کی اہمیت و افادیت کا پہلے تفصیلی مطالعہ کریں اور حقائق کا ادراک کریں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
حیدرآبادی نے کہا:
مسلمان عورتوں کا گھر سے باہر برقعہ پہن کر نکلنا ، ہندو اور مسلم میں تفریق پیدا کرتا ہے اور یہ تفریق نمایاں نظر آتی ہے ۔ یہ مسلمانوں کے لئے اچھا نہیں ہے ۔
تعجب ہے کہ موصوف نے ہندوازم کے ذات پات کے نظام کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ تفریق کی بات نہ کرتے۔

ان کو ہندوتوا والے دہشتگرد نظر نہیں آتے، سانحہ گجرات ، بابری مسجد، کشمیر میں ہندوں کی دہشگردی اور سمجھوتہ ایکسپریس میں مسلمانوں کے قتل عام والے کیوں نظر نہیں آتے جو تفریق پھیلانے کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔
 
جب کسی کا دماغ خراب ہوتا ہے تو ایسا ہذیان ہی منہ سے نکلتا ہے!

ہر کوئی اپنے آپ کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھ کر بات کرتا ہے!

شکر ہے اسلام کی چوکیداری کے لئے مسلمان موجود ہیں ابھی
 

ابن جمال

محفلین
میرے خیال سے خوشونت سنگھ کے بارے لکھنے والے اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
ہم مسلمانوں کا ایک الگ اورعجیب سامزاج اورمذاق ہوچلاہےجس بات کی تردید دلائل کے ذریعہ ہونی چاہئے ہم اس پر احتجاج اورشوروغل کرنے لگتے ہیں۔ کیاہمارے پاس پردہ کے حق میں معقول دلائل کی کمی ہے جو ہم دلائل کے بجائے بڈھے اورکھوسٹ ہونے کا طعنہ دیئے جارہے ہیں۔ معقول انداز میں بھی اس بات کی تردید کی جاسکتی ہے۔خوشونت سنگھ نے ہی متعدد مرتبہ اسلام اورمسلمانوں کی اپنے کالموں میں حمایت بھی کی ہے۔خدا ہم سب کو نیک توفیق دے۔
 

شیہک طاہر

محفلین
میرے خیال سے خوشونت سنگھ کے بارے لکھنے والے اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
ہم مسلمانوں کا ایک الگ اورعجیب سامزاج اورمذاق ہوچلاہےجس بات کی تردید دلائل کے ذریعہ ہونی چاہئے ہم اس پر احتجاج اورشوروغل کرنے لگتے ہیں۔ کیاہمارے پاس پردہ کے حق میں معقول دلائل کی کمی ہے جو ہم دلائل کے بجائے بڈھے اورکھوسٹ ہونے کا طعنہ دیئے جارہے ہیں۔ معقول انداز میں بھی اس بات کی تردید کی جاسکتی ہے۔خوشونت سنگھ نے ہی متعدد مرتبہ اسلام اورمسلمانوں کی اپنے کالموں میں حمایت بھی کی ہے۔خدا ہم سب کو نیک توفیق دے۔
آپ کے خیالات دل کو چھو گئے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس کا اس معاشرے میں فقدان ہے۔ ہم بھی حواس باختہ ہیں۔
 
خشونت سنگھ اب اس دنیا میں نہیں رہے
آج سنگھ کی چتا کو 4 بجے دہلی کے لودھی آڈیٹوریم میں آخری رسومات ادا کی گئی ۔
 
Top