جمال صدیقی
محفلین
برقی بدعات
بدعت کے لغوی معنی ہیں کوئی چیز ایجاد کرنا . علوم اسلامی کی کی اصطلاح میں بدعت اس نئے کام کو کہتے ہیں جو حصولِ ثواب کی نیت سےکیا جائے اور جس کی کوئی اصل قرآن اور سنت سے ثابت نہ ہو۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ہر شعبے میں بے اصل رسومات اور بدعات کی خرافات میں زیادہ مبتلا نظر آتا ہے۔ یوں تو بدعت کی ہزاروں قسمیں ہیں لیکن بدعت کی ایک دلچسپ قسم جو پچھلے چند سالوں میں نمودار ہوئی ہے میں اسے برقی بدعت کا نام دیتا ہوں ۔
اس برقی بدعت کو سمجھنے کے لئے آئیے پہلے چند سوالات پر غور کرتے ہیں ۔
سوال نمبر 1: اگر کوئی شخص سورۃ البقرہ پڑھنے کے بجائے ایک ورڈ فائل سے کاپی کر کے کسی دوسری ورڈ فائل میں پیسٹ کر دے تو کیا اسے سوۃ البقرہ پڑھنے کا ثواب حاصل ہوجائے گا؟
سوال نمبر2: اسی طرح اگر کوئی شخص پورا قرآن کاپی پیسٹ کردے تو کیا اسے پورے قرآن کی تلاوت کا ثواب حاصل ہو جائے گا؟
سوال نمبر3: اسی طرح اگر کوئی شخص کوئی مسنون ذکر سو دفعہ کاپی پیسٹ کرے تو کیا اسے ذکر اذکار کا ثواب حاصل ہو جائے گا؟
بدقسمتی سے اب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بدولت اس طرح کی باتیں عام نظر آنے لگی ہیں ۔ اگر ان برقی بدعات کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد لوگ یہ لکھتے بھی نظر آئیں کہ الحمدللہ میں نے ظہر کی نماز تکبیر تحریمہ سے لے کر تسلیم تک پوسٹ (پیسٹ) کر دی ہے اور ساتھ ہی پچاس نوافل بھی پوسٹ کر دیے ہیں۔ اللہ تعالی قبول فرمائے ۔آمین ۔
آئیے دعا اور اذکار کے اس مسئلے کو ذرا جانچیں اور اس کی روح تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔ ذکر دراصل قلب اور زبان کے عمل کا نام ہے۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف خیال ( یعنی دل) کو متوجہ کر کے زبان سے اس کی حمد و ثنا بیان کی جائے۔ خشوع و خضوع کسی بھی عبادت کی اصل روح ہوتی ہے ۔ چنانچہ توجہ اور دھیان کے بغیر (یعنی اللہ تعالی سے قلبی رابطہ پیدا کیے بغیر) محض زبان سے الفاظ ادا کر دینا خشوع و خضوع کے منافی ہے اور اس طرح کے ذکر سے مطلوبہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالی سے کوئی دعا مانگنا بھی انتہائی خشوع و خضوع کا متقاضی ہے ۔اول شرط تو یہ ہے کہ دعا مانگنے والے کو معلوم ہو کہ وہ اپنے رب سے کیا مانگ رہا ہے یعنی کوئی عربی دعا مانگتے وقت دعا کا ترجمہ یا مطلب ذہن میں ہو ۔ دوسرے یہ کہ انتہائی خلوص اور عاجزی کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو کر مانگا جائے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ توجہ کے بغیر کی گئی دعا قبول نہیں ہوتی ، رد کر دی جاتی ہے ۔ مختصر یہ کہ جس طرح نماز ایک جسمانی عبادت ہے اور اس کے کلمات کاپی پیسٹ کر دینے سےنماز ادا نہ ہوگی اسی طرح اذکار اور ادعیہ بھی محض کاپی پیسٹ کرنے سے سے ادا نہیں ہونگے۔ دل اور زبان کے تقاضے پورا کرنا ضروری ہیں۔ خشوع و خضوع کا تقاضہ تو یہ ہے کہ دعا اور ذکر کے وقت انسان اپنے اردگرد سے تعلق توڑ کر دل کو اللہ تعالی کی طرف متوجہ کرے اور اس کے حضور میں گڑگڑا کر بہت عاجزی کے ساتھ اپنی مناجات پیش کرے ۔ تنہائی کی حالت میں کی گئی عبادت میں خشوع و خضوع اور خلوصِ نیت زیادہ ہوتا ہے اور وہ زیادہ مقبول ہے ۔ چنانچہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کسی ویب سائٹ پر ہزاروں لوگوں کے سامنے اذکار اور ادعیہ کو ادھر سے ادھر کاپی پیسٹ کرنا ان تمام شرائط کے منافی ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں ایسا کرنا دراصل دکھاوے اور ریاکاری کی ایک شکل ہے۔ جس طرح آپ تنہائی میں نوافل پڑھ کر لوگوں کے سامنے اس کی تشہیر نہیں کرتے اسی طرح ذکر کی عبادت بھی دنیا سے مخفی رہنی چاہیے۔ ذکر اذکار بندے اور اللہ کے درمیان ذاتی معاملہ ہے۔ (یاد رہے کہ کسی گفتگو میں کوئی دعا یا ذکر موقع کی مناسبت سے لکھ دینا ایک دوسرا معاملہ ہے۔)
ان برقی بدعات کے کچھ مزید منفی پہلو بھی ہیں ۔ ایک تو یہ ہے کہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر اکثر اوقات عربی متن شکست و ریخت کا شکار ہوجاتا ہے جو احترام کے منافی ہے ۔ بعض اوقات کاپی کئے گئے متن کی صحت بھی مشکوک ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اکثر لوگ اسی متن کو ادھر سے آگے بڑھا دیتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر لکھی ہوئی کوئی چیز بھلا غیر معتبر اور غلط کیسے ہو سکتی ہے۔ ان برقی بدعات کا سب سے بڑا نقصان وقت کا زیاں ہے ۔ جو وقت خشو و خضوع کے ساتھ درست طریقہ سے دعا اور ذکر کرنے میں گزارا جا سکتا تھا وہ کاپی پیسٹ کے بے فائدہ عمل کی نذر ہو جاتا ہے ۔ درست طریقے سے دل اور زبان کی شمولیت کے ساتھ ایک مرتبہ پڑھا گیا مسنون ذکر ایک ہزار مرتبہ کاپی پیسٹ کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں کسی شخص کے لیے اپنا وقت قرآن کی کتابت میں صرف کرنا بھی وقت کا زیاں ہے کہ اب اس کتابت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس شخص کو اپنا وقت کسی اور ایسے کام میں لگانا چاہیے جو اس کے اور دوسرے لوگوں کے لیے فائدہ بخش ثابت ہو ۔ قرآن محض کتابت اور محض زبانی قرات کے لئے نہیں بلکہ اصلاً اس لیے اتارا گیا کہ اس کے پیغام پر عمل کیا جائے اور اپنی زندگیوں کی اصلاح کی جائے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
یہ برقی بدعات اب اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر روز واٹس ایپ اور دیگر میڈیا کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں دعائیں اور اذکار ادھر سے ادھر بھیجے جاتے ہیں۔ یہ پوسٹیں نہ جانے کتنے لوگوں کا قیمتی وقت ضائع کرتی ہیں۔ (میرے ایک جاننے والے کو محض انہی لاتعداد پوسٹوں کی وجہ سے دو دفعہ اپنا فون نمبر بدلنا پڑا) ۔ تصور کیجئے کہ کیبورڈ پر ایک کلک کے ذریعہ کسی دعا یا ذکر کو ایک شخص سے دوسرے تک پہنچانا کس طرح اصل عبادت کے مترادف ہو سکتا ہے۔ یہ تو ایک انتہائی کھوکھلا عمل ہے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے ۔ بیشک ہر بدعت بظاہر بہت خوبصورت اور اچھے عمل کی صورت میں نظر آتی ہے لیکن گناہ کا باعث ہوتی ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ جب ایک بدعت جنم لیتی ہے تو ایک سنت ختم ہوجاتی ہے۔ ایک دفعہ پھر اس تحریرکے شروع میں کیے گئے تین سوالات پر غور کیجئے اور جائزہ لیجیےکہ ہم بھی تو کہیں ان برقی بدعات کا شکار نہیں۔
تحریر: منظور احمد سلفی
++++واٹس ایپ سے منقول++++
بدعت کے لغوی معنی ہیں کوئی چیز ایجاد کرنا . علوم اسلامی کی کی اصطلاح میں بدعت اس نئے کام کو کہتے ہیں جو حصولِ ثواب کی نیت سےکیا جائے اور جس کی کوئی اصل قرآن اور سنت سے ثابت نہ ہو۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ہر شعبے میں بے اصل رسومات اور بدعات کی خرافات میں زیادہ مبتلا نظر آتا ہے۔ یوں تو بدعت کی ہزاروں قسمیں ہیں لیکن بدعت کی ایک دلچسپ قسم جو پچھلے چند سالوں میں نمودار ہوئی ہے میں اسے برقی بدعت کا نام دیتا ہوں ۔
اس برقی بدعت کو سمجھنے کے لئے آئیے پہلے چند سوالات پر غور کرتے ہیں ۔
سوال نمبر 1: اگر کوئی شخص سورۃ البقرہ پڑھنے کے بجائے ایک ورڈ فائل سے کاپی کر کے کسی دوسری ورڈ فائل میں پیسٹ کر دے تو کیا اسے سوۃ البقرہ پڑھنے کا ثواب حاصل ہوجائے گا؟
سوال نمبر2: اسی طرح اگر کوئی شخص پورا قرآن کاپی پیسٹ کردے تو کیا اسے پورے قرآن کی تلاوت کا ثواب حاصل ہو جائے گا؟
سوال نمبر3: اسی طرح اگر کوئی شخص کوئی مسنون ذکر سو دفعہ کاپی پیسٹ کرے تو کیا اسے ذکر اذکار کا ثواب حاصل ہو جائے گا؟
بدقسمتی سے اب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بدولت اس طرح کی باتیں عام نظر آنے لگی ہیں ۔ اگر ان برقی بدعات کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد لوگ یہ لکھتے بھی نظر آئیں کہ الحمدللہ میں نے ظہر کی نماز تکبیر تحریمہ سے لے کر تسلیم تک پوسٹ (پیسٹ) کر دی ہے اور ساتھ ہی پچاس نوافل بھی پوسٹ کر دیے ہیں۔ اللہ تعالی قبول فرمائے ۔آمین ۔
آئیے دعا اور اذکار کے اس مسئلے کو ذرا جانچیں اور اس کی روح تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔ ذکر دراصل قلب اور زبان کے عمل کا نام ہے۔ یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف خیال ( یعنی دل) کو متوجہ کر کے زبان سے اس کی حمد و ثنا بیان کی جائے۔ خشوع و خضوع کسی بھی عبادت کی اصل روح ہوتی ہے ۔ چنانچہ توجہ اور دھیان کے بغیر (یعنی اللہ تعالی سے قلبی رابطہ پیدا کیے بغیر) محض زبان سے الفاظ ادا کر دینا خشوع و خضوع کے منافی ہے اور اس طرح کے ذکر سے مطلوبہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اسی طرح اللہ تعالی سے کوئی دعا مانگنا بھی انتہائی خشوع و خضوع کا متقاضی ہے ۔اول شرط تو یہ ہے کہ دعا مانگنے والے کو معلوم ہو کہ وہ اپنے رب سے کیا مانگ رہا ہے یعنی کوئی عربی دعا مانگتے وقت دعا کا ترجمہ یا مطلب ذہن میں ہو ۔ دوسرے یہ کہ انتہائی خلوص اور عاجزی کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو کر مانگا جائے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ توجہ کے بغیر کی گئی دعا قبول نہیں ہوتی ، رد کر دی جاتی ہے ۔ مختصر یہ کہ جس طرح نماز ایک جسمانی عبادت ہے اور اس کے کلمات کاپی پیسٹ کر دینے سےنماز ادا نہ ہوگی اسی طرح اذکار اور ادعیہ بھی محض کاپی پیسٹ کرنے سے سے ادا نہیں ہونگے۔ دل اور زبان کے تقاضے پورا کرنا ضروری ہیں۔ خشوع و خضوع کا تقاضہ تو یہ ہے کہ دعا اور ذکر کے وقت انسان اپنے اردگرد سے تعلق توڑ کر دل کو اللہ تعالی کی طرف متوجہ کرے اور اس کے حضور میں گڑگڑا کر بہت عاجزی کے ساتھ اپنی مناجات پیش کرے ۔ تنہائی کی حالت میں کی گئی عبادت میں خشوع و خضوع اور خلوصِ نیت زیادہ ہوتا ہے اور وہ زیادہ مقبول ہے ۔ چنانچہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کسی ویب سائٹ پر ہزاروں لوگوں کے سامنے اذکار اور ادعیہ کو ادھر سے ادھر کاپی پیسٹ کرنا ان تمام شرائط کے منافی ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں ایسا کرنا دراصل دکھاوے اور ریاکاری کی ایک شکل ہے۔ جس طرح آپ تنہائی میں نوافل پڑھ کر لوگوں کے سامنے اس کی تشہیر نہیں کرتے اسی طرح ذکر کی عبادت بھی دنیا سے مخفی رہنی چاہیے۔ ذکر اذکار بندے اور اللہ کے درمیان ذاتی معاملہ ہے۔ (یاد رہے کہ کسی گفتگو میں کوئی دعا یا ذکر موقع کی مناسبت سے لکھ دینا ایک دوسرا معاملہ ہے۔)
ان برقی بدعات کے کچھ مزید منفی پہلو بھی ہیں ۔ ایک تو یہ ہے کہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر اکثر اوقات عربی متن شکست و ریخت کا شکار ہوجاتا ہے جو احترام کے منافی ہے ۔ بعض اوقات کاپی کئے گئے متن کی صحت بھی مشکوک ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اکثر لوگ اسی متن کو ادھر سے آگے بڑھا دیتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر لکھی ہوئی کوئی چیز بھلا غیر معتبر اور غلط کیسے ہو سکتی ہے۔ ان برقی بدعات کا سب سے بڑا نقصان وقت کا زیاں ہے ۔ جو وقت خشو و خضوع کے ساتھ درست طریقہ سے دعا اور ذکر کرنے میں گزارا جا سکتا تھا وہ کاپی پیسٹ کے بے فائدہ عمل کی نذر ہو جاتا ہے ۔ درست طریقے سے دل اور زبان کی شمولیت کے ساتھ ایک مرتبہ پڑھا گیا مسنون ذکر ایک ہزار مرتبہ کاپی پیسٹ کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں کسی شخص کے لیے اپنا وقت قرآن کی کتابت میں صرف کرنا بھی وقت کا زیاں ہے کہ اب اس کتابت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس شخص کو اپنا وقت کسی اور ایسے کام میں لگانا چاہیے جو اس کے اور دوسرے لوگوں کے لیے فائدہ بخش ثابت ہو ۔ قرآن محض کتابت اور محض زبانی قرات کے لئے نہیں بلکہ اصلاً اس لیے اتارا گیا کہ اس کے پیغام پر عمل کیا جائے اور اپنی زندگیوں کی اصلاح کی جائے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
یہ برقی بدعات اب اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر روز واٹس ایپ اور دیگر میڈیا کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں دعائیں اور اذکار ادھر سے ادھر بھیجے جاتے ہیں۔ یہ پوسٹیں نہ جانے کتنے لوگوں کا قیمتی وقت ضائع کرتی ہیں۔ (میرے ایک جاننے والے کو محض انہی لاتعداد پوسٹوں کی وجہ سے دو دفعہ اپنا فون نمبر بدلنا پڑا) ۔ تصور کیجئے کہ کیبورڈ پر ایک کلک کے ذریعہ کسی دعا یا ذکر کو ایک شخص سے دوسرے تک پہنچانا کس طرح اصل عبادت کے مترادف ہو سکتا ہے۔ یہ تو ایک انتہائی کھوکھلا عمل ہے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے ۔ بیشک ہر بدعت بظاہر بہت خوبصورت اور اچھے عمل کی صورت میں نظر آتی ہے لیکن گناہ کا باعث ہوتی ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ جب ایک بدعت جنم لیتی ہے تو ایک سنت ختم ہوجاتی ہے۔ ایک دفعہ پھر اس تحریرکے شروع میں کیے گئے تین سوالات پر غور کیجئے اور جائزہ لیجیےکہ ہم بھی تو کہیں ان برقی بدعات کا شکار نہیں۔
تحریر: منظور احمد سلفی
++++واٹس ایپ سے منقول++++