صفحہ 226
سيد محمد حسن
(شجر ہ صفحہ ۲۰۷ پرہے)
سي دحسن علی کے سب سے بڑے صا جزادے تھے۔۱۸۸۷ء ميں بروالہ سيدان ميںپيدا ہو ئے اور والد کے زير سائے تربيت حاصل کی۔مگر ابھی نو عمر ہی تھے کے والد کا انتقال ہو گيا۔سب سے بڑی اولادہونے کے باعث خاندا ن کی سربراہی کی زمہ داری ان کے کندھوںپر آپڑی ،جسے نبھانے کی انہوں نے اپنی صلاحيتوں کے مطا بق پوری کوشش کی۔ وہ بہت ٹھنڈے دل و دماغ سے اور دھمے مزاج کے آدمی تھے۔ طبیعت ميں نرمی کاعنصر غالب تھا ۔ اس کا نقصان يہ ہوا کہ خاندان کی صورت اس نہچ پر بر قرار نہ رہ سکی جس کا نمونہ انکے والد نے قائم کيا تھا۔کیونکہ معاملات کو روبراہ رکھنے کے لئے نرمی کے ساتھ ساتھ کھبی کھبارسختی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔اس کے با وجود اپنے والد کے بعد اپنے خاندان اور سادات بروالہ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے بڑا کام کیا۔ان کی حقیقی تایازاد بھائیوں کی تعداد پچاس کے قریب تھی جو سب ان کی سرداری کوتسلیم کرتے تھے اور یہ بھی سب کی سرپرستی کرتے تھے اور ہر ایک کے کام آتے تھے۔سادات بروالہ بھی انہیں سربراہ مانتے تھے اور بلاتفریق سب کا خیال رکھتے تھے۔اپنی زمینداری کے دو گائوں کے نمبردار تھے۔کرسی نشیں تھے۔ڈسٹرکٹ بورڈ کے نامزد ممبر اور سیشن کورٹ کے اسیسر تھے۔اس حیثیت میں سرکار دربار میں انہیں بڑا رسوخ حاصل تھا اور علاقہ میں ہر سرکاری کام کے لئے ان کی رائے لی جاتی تھی۔سید حسن علی کے بعد ان کے تمام صاحبزادوں کو رئس لکھا جاتاتھا اور سید محمد حسین ان کے سربراہ تھے۔تمام علاقہ میں میراں جی کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور ہر شخص ان کی عزت کرتاتھا۔انہوں نے پوری زندگی بہت اعتدال اور توازن کے ساتھ بسر کی۔سحر خیزی اور نماز روزہ کی سخت پابندی اور وظائف،تسبیح و تہلیل اور صبح کی سیر کے مشاغل پر مداومت کی۔ مطالعہ کے شائق اور بہت وسیع المطالعہ ہستی تھے۔خاص طور پر مذہبی کتب کی ایک بڑی لائبریری ان کے پاس موجود تھی۔شام کے وقت بلاناغہ کوٹھی کے سامنے میدان میں محفل جمتی تھی۔کرسیاں اور مونڈھے رکھے جاتے تھے۔حقہ بیچ میں رکھا ہوتا تھا۔قصبہ کے کچھ لوگ روزانہ کے حاضر باش تھے ان کے علاوہ کام کاج والے،ضرورتمند،مسائل اور تکالیف کے مارے آتے تھے اور حتی الامکان ہر ایک کی مدد کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
۱۹۳۰ء کے لگ بھگ ان کے پاس ذاتی سواری کے لئے کار موجود تھی۔اس وقت ان کے علاوہ اس علاقہ کا کوئی مسلمان ایسا نہیں تھا جس کے پاس کر کی سہولت موجود ہو۔
آخر عمر میں بیماری کے باعث سفر سے معذور ہوگئے تھے اس لئے اپنا کام پہلے اپنے بیٹے سید حسین کے سپرد کیا اور اس کے بعد سید احسن نے یہ کام سنبھالا پاکستان آنے کے بعد ۱۹۴۷ء بورے والا میں انتقال ہوا۔
(شجر ہ صفحہ ۲۰۷ پرہے)
سي دحسن علی کے سب سے بڑے صا جزادے تھے۔۱۸۸۷ء ميں بروالہ سيدان ميںپيدا ہو ئے اور والد کے زير سائے تربيت حاصل کی۔مگر ابھی نو عمر ہی تھے کے والد کا انتقال ہو گيا۔سب سے بڑی اولادہونے کے باعث خاندا ن کی سربراہی کی زمہ داری ان کے کندھوںپر آپڑی ،جسے نبھانے کی انہوں نے اپنی صلاحيتوں کے مطا بق پوری کوشش کی۔ وہ بہت ٹھنڈے دل و دماغ سے اور دھمے مزاج کے آدمی تھے۔ طبیعت ميں نرمی کاعنصر غالب تھا ۔ اس کا نقصان يہ ہوا کہ خاندان کی صورت اس نہچ پر بر قرار نہ رہ سکی جس کا نمونہ انکے والد نے قائم کيا تھا۔کیونکہ معاملات کو روبراہ رکھنے کے لئے نرمی کے ساتھ ساتھ کھبی کھبارسختی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔اس کے با وجود اپنے والد کے بعد اپنے خاندان اور سادات بروالہ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے بڑا کام کیا۔ان کی حقیقی تایازاد بھائیوں کی تعداد پچاس کے قریب تھی جو سب ان کی سرداری کوتسلیم کرتے تھے اور یہ بھی سب کی سرپرستی کرتے تھے اور ہر ایک کے کام آتے تھے۔سادات بروالہ بھی انہیں سربراہ مانتے تھے اور بلاتفریق سب کا خیال رکھتے تھے۔اپنی زمینداری کے دو گائوں کے نمبردار تھے۔کرسی نشیں تھے۔ڈسٹرکٹ بورڈ کے نامزد ممبر اور سیشن کورٹ کے اسیسر تھے۔اس حیثیت میں سرکار دربار میں انہیں بڑا رسوخ حاصل تھا اور علاقہ میں ہر سرکاری کام کے لئے ان کی رائے لی جاتی تھی۔سید حسن علی کے بعد ان کے تمام صاحبزادوں کو رئس لکھا جاتاتھا اور سید محمد حسین ان کے سربراہ تھے۔تمام علاقہ میں میراں جی کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور ہر شخص ان کی عزت کرتاتھا۔انہوں نے پوری زندگی بہت اعتدال اور توازن کے ساتھ بسر کی۔سحر خیزی اور نماز روزہ کی سخت پابندی اور وظائف،تسبیح و تہلیل اور صبح کی سیر کے مشاغل پر مداومت کی۔ مطالعہ کے شائق اور بہت وسیع المطالعہ ہستی تھے۔خاص طور پر مذہبی کتب کی ایک بڑی لائبریری ان کے پاس موجود تھی۔شام کے وقت بلاناغہ کوٹھی کے سامنے میدان میں محفل جمتی تھی۔کرسیاں اور مونڈھے رکھے جاتے تھے۔حقہ بیچ میں رکھا ہوتا تھا۔قصبہ کے کچھ لوگ روزانہ کے حاضر باش تھے ان کے علاوہ کام کاج والے،ضرورتمند،مسائل اور تکالیف کے مارے آتے تھے اور حتی الامکان ہر ایک کی مدد کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
۱۹۳۰ء کے لگ بھگ ان کے پاس ذاتی سواری کے لئے کار موجود تھی۔اس وقت ان کے علاوہ اس علاقہ کا کوئی مسلمان ایسا نہیں تھا جس کے پاس کر کی سہولت موجود ہو۔
آخر عمر میں بیماری کے باعث سفر سے معذور ہوگئے تھے اس لئے اپنا کام پہلے اپنے بیٹے سید حسین کے سپرد کیا اور اس کے بعد سید احسن نے یہ کام سنبھالا پاکستان آنے کے بعد ۱۹۴۷ء بورے والا میں انتقال ہوا۔