بروالہ سیدان 234 تا 237

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 234

سید چراغ علی شاہ رح
(شجرہ صفحہ ۲۰۲ پر ہے)

سید غلام محمد کے خاندان میں دنیٰوی مراتب کی بلندیاں حاصل کرنے والی شخصیات تو کء پیدا ہوئیں۔مگر روحانی مراتب کی بلندیاں جس ہستی کو نصیب ہوئیں وہ صرف سید چراغ علی شاہ تھے۔وہ سید جبردین کے گھر ۱۸۹۶ء میں پیدا ہوئے۔مقامی سکول میں تعلیم پائی اور اس کے بعد پٹوار سکول میں داخلہ مل گیا۔ان کے والدین اور گھر والوں کے لئے یہ بڑی مسرت اور اطمئنان کی بات تھی کہ انہیں پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے میں داخلہ مل گیا۔اس تربیت کی تکمیل پر ان کی ملازمت یقینی تھی اور اس زمانہ میں چھوٹی موٹی سرکاری ملازمت بھی بڑے اعزاز اور خاندان کے لئے بڑے سہارے کا باعث بنتی تھی۔
اپنے لڑکپن اور جوانی کے زمانہ میں سید چراغ علی شاہ کی شخصیت خاندان کے گھرانوں میں بڑی ہر دلعزیز رہی تھی۔ان کے اندر ہر قسم کے معاشرتی خاندانی گھریلو کاموں میں پر جوش حصہ لینے اوردوسروں کا ہاتھ بٹانے کا خاص جذبہ موجود تھا۔گھر کے کاموں میں وہ اپنے بزرگوں اور بھائیوں کے ساتھ برابر کا حصہ لیتے تھے۔اور گھر کے اندر خواتین کے کاموں میں وہ اپنے بزرگوں اور بھائیوں کے ساتھ برابر کا حصہ لیتے تھے۔اور گھر اندر خواتین کے اندر خواتین کے کاموں میں بھی اسی طرح حصہ دار بنتے تھے۔چرخہ کات دیتے تھے۔آٹا پیس دیتے تھے اور اسی قسم کے اکثر کام کردیا کرتے تھے۔غرض یہ کہ خاندان کے ایک انتہائی فعال اور مستعدد فرد کی حیثیت سے انہیں قابل اعتماد سمجھا جاتاتھا۔ساتھ ہی تعلیم میں بھی وہ اپنے ہم عمروں سے آگے تھے۔اور مذہب کی جانب خاص رحجان رکھتے تھے۔ان تمام خصوصیات نے انہیں خاندان کے نوجوانوں میں ایک برتر مقام عطاکر دیا تھا اور خاندان کے بزرگ ان کے مستقبل سے بڑی توقعات وابستہ کیا کرتے تھے۔
پٹوار کا تربیتی کورس کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد وہ اپنی تقرری کے منتظر تھے۔اور اس کا پروانہ جلد ہی مل جانے کی امید تھی کہ ایک روایت کے مطابق انہی دنوں انہیں ایک خواب نظر آیا۔جیسے ایک بہت بڑوسیع کھلی اور کھلی جگہ ہے مگر وہاں مخلوق کا اس قدر ہجوم ہے کہ راستے چلنا دشوار ہے۔خواب ہنگامہ اور رونق سماں ہے۔یہ اس جگہ کے بارے میں کسی سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اچانک ایک بزرگ شخصیت ان کے سامنے آجاتی ہے۔یہ ان سے ہی اپنا سوال پوچھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کیا تمہیں پتہ ہے کہ یہ علاوالدین علی اور احمد صابر کلیری رح کا عرس ہے۔کیا تم یہاں حاضری نہیں دوگے؟ ایک دفعہ تو انہوں نے اس خواب پر دھیان نہیں دیا مگر ایک ہفتہ میں یہ خواب دوبارہ اور سہ بارہ بھی نظر آیا تو انہیں کرید ہوئی۔معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ربیع الاول کے مہینے کا آغاز تھااور کلیر شریف کا عرس واقعی شروع ہوچکاتھا۔ایک اندرونی تشویش نے انہیں وہاں جانے کے لئے تیار کردیا اور ایک ہفتے کے سفر کا سامان لے کر روانہ ہوگئے۔
پیران کلیر پہنچے تو دیکھا کہ ہمالیہ کی بلند و بالا چوٹیوں کے سرسبز و خوشنما دامن میں،گنگا کی شفاف چمکدار پانی والی بہت چوڑی اور بڑی نہر کے دائیں کنارے پر ایسا ہی کھلا اور وسیع میدان ہے جیسا خواب میں نظر آیا تھا اور اس میدان میں امخلوق کی بھیڑ بھی اسی طرح تھی۔عارضی دکانیں اور بازار سجے ہوئے تھے اور خیموں اور تنبوئوں کا شہر آباد تھا۔تھوڑا سا آگے بڑھنے پر مزار کا احاطہ آگیا۔اس کے اندر داخل ہونے پر پتہ چلا کہ اس قدر وسیع ہے کہ اس کے اندر کئی عمارتیں سمائی ہوئی تھیں۔مزار کی خوبصورت عمارت احاطے کے جنوب کے حصہ میں بنی ہوئی تھی اور اس کے شمال مغرب میں وسیع مسجد تھی۔احاطے کی دیوار کے ساتھ چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے تھے جو درویشوں اور زائرین سے بھرے ہوئے تھے۔اس کے علاوہ بھی احاطے
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۳۵


میں زائرین کا وہ ہجوم تھاکہ کھوے سے کھوا چلتا تھا۔
سید چراغ علی شاہ نے مسجد میں جاکر نماز ادا کی۔مزار پر حاضر ہوکر فاتحہ پڑھی اور اس کے بعد ذرا رونق میلہ دیکھنے کی خاطر ہی ادھر ادھر گھومنے لگے۔ساتھی ہی یہ بھی سوچ رہے تھے کہ یہاں قیام کے لئے کیا بندوبست ہوسکے گا۔پھرتے پھراتے وہ مزار کی پاسنتی کی جانب پہنچے تو جنوب کے دروازہ سے ملحق دائیں جانب حجرہ پر نظر پڑتے ہی گویا حیرت سے اپنی جگہ کھڑے رہ گئے۔سامنے وہی بزرگ بیٹھے تھے جو خواب میں انہیں پیران کلیر شریف کی حاضری کا حکم دیتے رہے تھے۔یکبارگی تو انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔مگر جب شک کی گنجائش نہیں رہی تو انہوں نے آگے بڑھ کر ان بزرگ کی قدم بوسی کی۔ادھر بھی گویا انتظار ہی ہورہا تھا۔انتہائی محبت اور شفقت سے گلے لگالیا اور اپنے بالکل قریب بٹھالیا۔
اب کہاں کی پٹوار اور کیسی ملازمت۔یہاں تو گھر بار اور خاندان تک کا ہوش نہیں رہا۔اس مرد خدا کی نظر نے وہ اثر کیا کہ دل کی دنیا ہی تبدیل ہوگئی اور سید علی شاہ بروالہ واپس آنے کی بجائے ان بزرگ کے قدموں سے وابستہ ہوکر ہمیشہ کے لئے وہیں رہ گئے۔دنیا سے قطع تعلق کرلیا۔ دقرویشی اختیار کرلی اور اللہ سے ایسی لو لگائی کہ صرف اسی کا ہوکر ساری زندگی بسر کردی۔دنیا اور اس کے تمام ملائق کو دامن سے جھاڑ یک کے آستانے سے رشتہ جوڑ لیا۔اس کے بعد بروالہ سے ان کاکوئی خاص تعلق باقی نہیں رہا۔بڑی مدتوں کے بعد کبھی دوچار دن کے لئے بروالہ آیا کرتے تھے۔وہ بھی خاندان کے بہت اصرارپر۔خاندان کے لوگ البتہ اکثر ان کے پاس جاتے رہتے تھے۔
sیہ بزرگ جن کی کیمیااثر نے سید چراغ علی شاہ کی زندگی آناً فاناً تبدیل کرکے رکھ دی۔حضرت محبوب الٰہی شاہ صاحب رح تھے۔وہ بہار کے علاقہ کے رہنے والے تھے۔طبیعت میں استغنا اور لاتعلقی بچپن ہی سے موجود تھی۔نوجوانی کے زمانہ میں گھر سے نکلے اور اس کے بعد تمام عمر سیاحت،ریاضت،عبادت اور درویشی میں بسر کی۔اس دوران بے شمار بزرگوں سے فیض اٹھایا مگر اصل حصہ انہیں پانی پت سے حاصل ہوا۔وہاں طویل عرصہ تک جلال الدین رح کی خانقاہ میں مقیم رہے اور اسی درسگاہ کے سجادہ حضرت شاہ نظام پتی رح سے سلسلہ چشتیہ صابریہ کی نعمت خلافت حاصل کی۔انہی دنوں حضرت بعلی شاہ قلندر پانی پت کی خانقاہ میںغوث علی شاہ پانی پت رح صاحب تذکرہ غوثیہ کا قیام تھا۔ان سے بھی فیضیاب ہوئے اور سلسلہ قادریہ کی نعمت واجازت ان سے نصیب ہوئی۔اس کے بعد بھی ان کی درویشی اور قلندری کا طریقہ جاری رہا۔علائق دنیا سے تمام عمر آزاد رہے۔نہ کہیں گھر بنایا نہ کبھی ایک جگہ مستقل قیام کیا۔کچھ عرصہ دھنپورہ کے عقیدت مندوں کی التجا پر وہاں رہتے رہے۔یہ گائوں ضلع سہارنپور کے بالائی حصہ میں گنگا کے کنارے پر آباد ہے۔دریا میں جب بھی پانی زیادہ آجاتا تھا تو اس کا سیلاب گائوں کو اپنی زد میں لے کر بڑا نقصان پہنچاتا تھا۔جن دنوں یہ وہاں مقیم تھے۔گاؐں سے باہر ایک جھونپڑی بناکر رہتے تھے۔اتفاقاً دریا میں سیلاب آگیا تو لوگ پریشان ہوکر ان کے پاس پہنچے۔انہوں نے سب کو تسلی دی اور پانی جھونپڑی کے نزدیک پہنچا تو انہوں نے اٹھ کر اپنا عصا پانی کے سامنے گاڑ دیا۔یہ پانی کے لئے ایک حد تھی کہ اس سے آگے نہ بڑھے۔کہا جاتا ہے کہ بعد میں بھی مدتوں یہ حد قائم رہی اور کتنا ہی سیلاب آجاتا،مگر پانی اس مقام سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔
اس برگزیدہ ہستی نے تمام عمر قلندری،درویشی اور آزاد منشی میں بسر کرنے کے بعد آخر عمر میں حضرت صابر جی رح کی درگاہ کو اپنا ملجا بنایا۔یہاں ان کے لئے وہی حجرہ مخصوص کردیا گیا۔جس میں سید چراغ علی شاہ کی ان سے ملاقات ہوئی۔یہ حجرہ اب تک بھی انہی کے روحانی وارثوں کے لئے مخصوص ہے۔یہاں قیام کے دوران ایک قریبی گائوں بیڑپور کے لوگ عقیدت میں داخل ہوئے۔یہ گائوں حضرت صابر جی رح کی درگاہ سے
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۳۶


تین چار فرلانگ کے فاصلہ پر مغرب کی جانب کی جانب آباد ہے۔یہ لوگ بڑے اصرار کے ساتھ انہیں اپنے گائوں لے گئے۔مگر اپنے معمول اور مزاج کے مطابق انہوں نے گائوں کے اندر قیام کرنے سے انکار کردیا۔چنانچہ گائوں کے جنوب میں ایک قطعئہ زمین مالکان نے ان کے لئے وقف کردیا۔یہ قطعئہ زمین ناہموار اور ناقابل کاشت تھااس لئے انہوں نے اسی کو پسند فرمایا۔یہاں انہوں نے اپنے معمول کے مطابق ایک جھونپڑی ڈلوائی اور رہائش اختیار کرلی۔سید چراغ علی شاہ بھی ان کی خدمت میں موجود رہے۔
یہ گویا ایک سہولت اور آرام کے کسی بھی وسیلہ کے بغیر عین جنگل میں زندگی گزارنے کا تجربہ تھا جو سید چراغ علی شاہ کو کرنا تھا۔دور گائوں کے کنوئیں سے مشکینو میں پانی بھرلانا۔آگ جلانے کے لئے لکڑیاں جمع کرنا۔روٹی پکانا۔آنے جانے والوں کی خاطر خدمت کرنا۔یہ سب کام ان کے ذمہ تھا۔جھونپڑی کے گرد آم کے چند درخت لگائے گئے تھے۔یہ جگہ دن بدن پر رونق بنتی چلی گئی۔حضرت محبوب الٰہی شاہ صاحب رح کا حلقہ ارادت اس علاقہ میں روز بروز وسیع ہوتا چلا گیا۔اس علاقہ میں مسلمان راجپوت بڑے زمیندار تھے۔ان کے بہت سے آدمی حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔بلکہ چند لوگ تو وہاں مقیم رہ کر تربیت بھی پاتے رہے لیکن تربیت کی خصوصی توجہ سید چراغ علی شاہ رح کے لئے مقدر تھا۔خلافت اور سجادگی انہیں عطا کی گء۔
حضرت محبوب الٰہی شاہ صاحب رح کا مزار ان کی جھونپڑی کے نزدیک ہی بنا۔سید چراغ علی شاہ ان کے صحیح جانشین ثابت ہوئے۔انہوں نے ساری عمر اپنے پیر خانہ کی خدمت میں بسر کردی اور اسے ترقی دے کر روحانی مرکز میں تبدیل کردیا۔مزار پختہ مقبرہ تعمیر کرایا۔اس سے ملحق ایک وسیع مسجد بنوائی۔اس کے ساتھ پختہ رہائشی مکانات تعمیر کرائے۔ایک پختہ کنواں بنوایا۔غیر آباد جگہ کو ہموار کراکے باغ لگوایا۔مزید جائداد حاصل کرکے درگاہ وقف میں اضافہ کیا۔قرآن مجید کی تعلیم کے لئے مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔اس طرح ان کی کوشش سے اس جگہ نے بڑی ترقی کی اور ان کا حلقہ ارادت بھی دور دور تک پھیلا۔علاقہ کے بڑے بڑے لوگ ان کے عقیدت مندوں میں شامل ہوئے۔
سید چراغ علی شاہ رح نے تمام زندگی اسی مقام پر بسر کی۔ایک جانب تو وہ اپنے پیر خانہ کو مسلسل بنوانے اور سنوارنے میں مصروف رہے اور آخر کار اسے ایک اہم مرکز کی حیثیت دیدی۔دوسری جانب عبادت،ریاضت،زہد،تقوٰی اور پارسائی کے پیہم عمل سے روحانی مدارج کی وہ بلندیاں حاصل کیں کہ اس علاقہ میں اپنے زمانہ کے ولی کامل ہوئے۔ان کی بزرگی اور روحانی بلندی کو نہ صرف اس علاقہ میں تسلیم کیا جاتاتھا بلکہ دور دراز سے آنے والی روحانی شخصیات بھی انہیں خراج عقیدت پیش کرتی تھیں۔ان کی ذات مرجع خاص و عام اور لوگوں کے لئے ہدایت کا منبع تھی۔دور دور سے لوگ اپنی دینی اور دنیٰوی مشکلات و مسائل کے پشتارے لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور اس بوجھ سے نجات کے لئے ان کی ذات کا سہارا تلاش کرتے تھے۔گویا ان کی ذات پورے علاقہ کے لئے منبع فیض تھی۔اس طرح ایک نہایت بھرپور زندگی گزارکر ۲۶ جنوری ۱۹۶۹ء کو واصل بحق ہوے۔اور اپنے مرشد بزرگوار کے پہلو میں ان کی آخری آرامگاہ بنی۔
انہیں اپنی جوانی کے زمانہ میں حج کے فرض کی ادایگی کی سعادت نصیب ہوئی۔حج کے لئے گئے تو پورا سال حرمین شریفین میں قیام کا موقعہ ملااور وہاں کے فیوض وبرکات سے جھولیاں بھر بھر کر نصیبہ پایا۔اس ایک سال کا کچھ عرصہ مکہ مکرمہ میں گزارا اور باقی زمانہ مدینہ منورہ میں قیام رہا۔اس دوران بلند درجہ علماء،برگزیدہ صوفیاء اور اعلٰی مراتب بزرگوں کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقعہ ملا۔اور حرمین شریفین کے عرش آسا ماحول میں عبادت
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۳۷


دریاضت کے ذریعہ روحانی بلندیوں کا حصول آسان بنا۔ایک سال وہاں قیام کے بعد دوسرے حج کی سعادت حاصل کی اور اس کے واپس تشریف لائے۔آخر عمر میں ان کی خواہش تھی کہ ایک دفعہ پھر سے حج کے لئے جانے کا موقعہ مل سکے۔لیکن صحت کی خرابی کے باعث ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔
اپنے دادا پیر سید غوث علی شاہ صاحب پانی پتی رح اور اپنے مرشد حضرت محبوب الٰہی شاہ صاحب رح کی طرح انہوں نے بھی تجرد کی زندگی گزاری جانشینی کے بارے میں سوچاگیاتو تمام ارادت مندوں اور وابستگان سلسلہ نے آصرار کیا کہ ان کے اپنے خاندان کا ہی کوئی فرد یہاں آنا چاہئے اس مقصد کو لےکر وہ بروالہ تشریف لائے تو تمام خاندان کے افراد نے اپنے اپنے بچے پیش کردئے مگر قرعہ فال بنام من دیوانہ زوند کے مصداق انہوں نے راقم الحروف کو منتخب فرمایا۔اور صرف چار پانچ سال کی عمر میں راقم کو ان کے پاس رہنے کے لئے بھیجدیا گیا۔۱۹۴۸ء تک کی زندگی اسی درسگاہ میں گزری کبھی ملنے ملانے کی غرض سے بروالہ آجاتاتھا ور وہاں کافی دنوں بھی ٹھرتاتھا۔مگر راقم کا اصل گھر وہی درگاہ تھی۔قیام پاکستان،تبادلہ آبادی اور ہجرت کے وقت راقم وہیں تھا۔قیام پاکستان کے ایک سال بعد پاکستان پہنچا۔مرشد بزرگوار بھی ۱۹۵۶ میں ایک دفعہ پاکستان تشریف لائے تھے۔راقم اکثر و بیشتر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور کء کء ماہ وہاں مقیم رہتا تھا۔ان کے بعد راقم پر وہاں کے سجادہ اور متولی کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں عائد ہیں ان کی ادائیگی کے لئے جب بھی موقعہ ملے وہاں جاتارہتاہے
 
Top