عبدالرزاق قادری
معطل
اللہ کے دین کا کا م کرنے والوں کے نظام الا وقات میں برکت ہوتی ہے ۔ اگر ان کے کاموں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ایک دن میں کئی کئی کام نمٹا لیتے ہیں۔ اور ان کے علمی و دیگر خد مات دیکھ کر ہم انگشت بد نداں رہ جاتے ہیں کہ سبحان اللہ بڑی عظیم بات ہے ۔ عملی زندگی کے تھوڑے سے حصے میں اتنی زیادہ یادیں اور خزانے دنیا کے حوالے کر جاتے ہیں کہ پھر صدیوں تک لو گ ان کے کاموں سے فیض یا ب ہوتے رہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ گہما گہمی اور نفسا نفسی کا دور ہے ۔ گاؤں کے کسان بھی انتہائی مصروف نظر آتے ہیں ۔ ہر طرح کے مزدور بھی وقت کی کمی کا گلہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ دفتروں میں کام کرنے والوں کے پاس بھی وقت کی کمی ہے ۔ مارکیٹوں میں بھا گم بھاگ کا عالَم ہوتا ہے ۔ ٹر انسپورٹ کے ہر شعبے میں تیز رفتاری اور وقت کی قلت ایک اہم مسئلہ ہے ۔ لو گ اپنے روز مرہ(حلقۂ صبح و شام) کے دائرے میں اتنے پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ مادی دنیا کے غلا م محسوس ہوتے ہیں ۔ مادیت نے انہیں اپنی قید میں جکڑا ہو ا ہے۔ جب الارم بجے گا ۔ انہیں جاگنا ہو گا۔ گاڑی کے درست وقت پر مقر رہ مقام تک پہنچنا ہو گا ۔ بروقت اپنے کاروبار کا آغاز کرنا ہو گا بلکہ بعض کاموں کی نو عیت تو اتنی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ منٹو ں کیا لمحوں کی تاخیر بھی و بال جان اور سو ہان روح ہوتی ہے ۔ مثلا کھیتوں میں آب پاشی کرتے ہوئے ایک منٹ کے نصف حصے پر بھی فریقین میں لڑائی ہوجاتی ہے ۔ مزدور حضرات اپنی فیکٹری میں اگر چند لمحوں کی خطا کر بیٹھے تو ہو سکتا ہے کہ اس کی سزا صدیوں تک بھگتنا پڑے ۔ جتنی بڑی بڑی اور عظیم الجشہ مشینوں کے بیچ میں وہ مشینی انداز میں برق رفتاری کے ساتھ کام کررہے ہوتے ہیں ۔ اس دوران میں اگر لمحہ بھر کے لیے لغزش ہو جائے تو وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ اسی طرح دفتروں میں بھی عین وقت پر کمپیوٹر کو سوئچ آن ( چالو ) کر نا پڑتا ہے اور مقررہ لمحوں پر اپنے کام کا آغاز اور اختتام کرنا پڑتا ہے ۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجو د دلی سکو ن اور برکت ناپید ہے اور ایسے وقت میں ہمیں اپنا رب یاد آتا ہے۔ توجب ہم وہاں مسجد میں جاکر اللہ والوں کے اطوار دیکھتے ہیں تو وہ بالکل مطمئن اور فر حاں و شاداں نظر آتے ہیں ان کے چہرے پُر سکون ہوتے ہیں ۔وہ حلقہ شام و سحر سے نکل کر جاوداں ہو چکے ہوتے ہیں ۔ انہیں نہ تو خو ف ہو تا ہے اور نہ ہی غم اور وہ پوری یک سوئی اور دل جمعی سے اپنے کام میں مگن ہوتے ہیں ۔ اکثر اوقات ان کے پاس لو گوں کو دینے کے لیے وافر وقت میسر ہوتا ہے ۔ ان کے علمی و ادبی کار نامے لاتعداد ہوتے ہیں ۔ وہاں پر سکون کی دولت میسر ہوتی ہے تو انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اللہ کے شیرو ں کو آتی نہیں روباہی ۔ چونکہ دین کی خدمت میں کسی نہ کسی حوالے سے اللہ کا ذکر ہو تا رہتا ہے اور یہ راز تو اللہ نے بتاہی دیا ہوا ہے کہ دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے تو اس سے نظام الا وقات (ٹائم ٹیبل) میں برکت تو لازمی طور پر آجائے گی ۔ اگر ہم بھی اللہ کے ذکر کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنالیں اور نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ پر درود شریف کے نذرانے بھیجنا اپنی عادت بنا لیں تو ہمارے افکار و کر دار میں پاکیزگی آجائے گی ۔ جب کر دار صاف ستھرا ہو جائے گا تو اللہ کے ذکر کا کمال ہو گا تو طبیعت ہلکی پھلکی رہا کرے گی ۔ جب طبیعت بو جھل نہیں ہو گی تو انسان ہشاش بشاش اور فریش رہے گا ۔ ہماری کیفیت ہمیشہ تروتازہ رہے گی ۔ اگر نماز کی پابندی کی جائے تو باقی تمام کاموں کی روٹین خو د بخو د بن جاتی ہے ۔ آزمائش شرط ہے ۔ اللہ ہمیں حق کی توفیق ارزائی فرمائے ۔ آمین