اقتباسات برگیڈئیر صدیق سالک شہید کی کتاب " میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا "سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
گرچہ تازہ داشتن ،داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
الشمس و البدر
" ۔۔۔ان اسلام پسند اور محب وطن عناصر کو دو گرہوں میں منظم کیا گیا عمر رسیدہ افراد پر مشتمل امن کمیٹیاں قائم کی گئیں اور صحت مند نوجوانوں کو رضا کار بھرتی کرلیا گیا یہ کمیٹیاں ڈھاکہ کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی قائم کی گئیں اور ہر جگہ فوج اور مقامی لوگوں کے درمیان رابطے کا مفید ذریعہ ثابت ہوئیں ان کمیٹیوں کے چیرمین اور ارکان شرپسندوں کے غصے کا کئی بار ہدف بنے اور ان میں سے ۲۵۰ افراد ، زخمی یا اغوا ہوئے۔​
رضاکاروں کی تنظیم کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ ان سے پاک فوج کی افرادی قوت میں اضافہ ہوگا اور دوسرے مقامی لوگوں میں دفاع وطن میں شرکت کا احساس پیدا ہوگا اس تنظیم کی مطلوبہ نفری ایک لاکھ تھی مگر ان میں سے بمشکل پچاس ہزار افراد کو فوجی تربیت دی جاسکی ۔ ستمبر کے مہینے میں پی پی پی کا ایک وفد ڈھاکہ گیا اور اس نے جنرل نیازی سے شکایت کی کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں پر مشتمل نئی فوج کھڑی کر لی ۔جنرل نیازی نے مجھے بلا کر کہا کہ آئیندہ سے رضاکاروں کو ' الشمس ' اور ' البدر ' کے نام سے پکارا کرو تاکہ پتہ چلے کہ ان کا تعلق صرف ایک پارٹی سے نہیں ۔ میں نے تعمیل ارشاد کی ۔ البدر و الشمس رضا کاروں نے پاکستان کی سلامت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں ۔ وہ ہر وقت پاک فوج کے ہر حکم پر لبیک کہتے تھے انہیں جو کام سونپا جاتا ، وہ پوری ایمانداری اور بعض اوقات جانی قربانی سے ادا کرتے ۔ اس تعاون کی پاداش میں تقریباً پانچ ہزار رضاکاروں یا ان کے زیر کفالت نے شر پسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھایا ۔ ان کی بعض قربانیاں روح کو گرما دیتی تھیں مثلاً نواب گنج تھانے میں واقع ایک گاؤں گالمپور میں شر پسند وں کی سرکوبی کے لیے ایک فوجی دستہ بھیجا گیا جس کی رہنمائی کے لیے ایک رضاکار ان کے ساتھ بھیجا گیا ۔ مشن کامیاب رہا اور باغیوں کو ٹھکانے لگا دیا گیا لیکن جب وہ واپس اپنے گھر پہنچا ' تو پتہ چلا کہ اس کے تینوں بیٹوں کو شہید اور اس کی اکلوتی بیٹی کو اغوا کر لیا ۔ اسی طرح گماسپور (راجشاہی) میں ایک پل کی حفاظت کے لیے ایک رضا کار تعینات تھا اسے باغیوں نے آ دبوچا اور سنگینیں مار مار کر کر مجبور کرنے لگے کہ ' جئے بنگلہ ' کا نعرہ لگاؤ مگر وہ آخر تک پاکستان زندہ باد کہتا رہا ۔ رضا کار اسلحے اور تربیت کے لحاظ سے مکتی باہنی سے کمزور تھی ان کو بمشکل دو چار ہفتوں کی ٹریننگ دی گئی تھی جبکہ مکتی باہن آٹھ ہفتوں کی بھرپور تربیت لے چکی تھی ۔ اول الذکر کے پاس ۳۰۳ کی دقیانوسی رائفلیں تھیں جبکہ موئخر الذکر نسبتاً جدید ساز و سامان سے لیس تھی اس تفاوت کی وجہ سے رضا کار شاذ و نادر ہی شرپسندوں کا مقابلہ کرتے چنانچہ انہیں عموماً پاک فوج کے ساتھ ہی کسی مشن پر روانہ کیا جاتا اور اپنے طور پر انہیں کوئی مہم سپرد نہ کی جاتی ۔۔۔"​
 
ظاہر بات ہے کہ مشرقی پاکستان نہ فوج کی طاقت سے اور ہتھیاروں کی طاقت سے پاکستان میں شامل ہوا تھا اور نہ ان کی طاقت سے شامل رکھا جا سکتا تھا۔ وہ اگر شامل ہوا تھا تو اسلامی احساسات کی بنا پر، مسلمان ہونے کے جذبات کی بنا پر شامل ہوا تھا، اپنے ارادے سے شامل ہوا تھا، کسی نے اسے فتح کرکے شامل نہیں کیا تھا۔ اور آخرکار آپ نے اسلام سے اپنے انحراف کی بناپر ان کے اندر مسلمان ہونے کے احساس کو دبا دیا بلکہ مٹا دیا، تو ظاہر ہے کہ فوج کی طاقت سے ان کو مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کی فوج کے مقابلے میں وہ نہیں لڑسکتے تو انھوں نے ہندستان کو دعوت دی، اس کی مدد حاصل کی اور اس کے ذریعے سے علیحدہ ہوگئے۔
(مولانا مودودی کی دو اہم تقاریر، مرکزی مجلسِ شوریٰ سے خطاب، ۱۲۔۱۷فروری ۱۹۷۲ء، ص ۶۔۱۰سے اقتباس)
 
Top