آہ !
معلوم نہیں کس کی نظر لگ گئی حیدرآباد کو؟
ہم نے بچپن سے لے کر پچیس سال گزار دئے حیدرآباد میں۔ مگر کبھی ایسے بم دھماکے نظر میں نہیں آئے۔ جو واقعہ کسی حد تک یاد ہے وہ غالباََ 1985ء کے فسادات ہیں جب "عابڈز" پر مسلمانوں کی دکانوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا تھا۔ اور کئی ہفتوں تک اس واقعے کے زیر اثر ہماری اپنے ہندو دوستوں کے تعلقات میں کشیدگی رہی تھی۔
اس دفعہ کے دھماکوں میں تو کافی اموات ہوئی ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
لمبینی پارک جیسے تفریحی مقام پر دھماکے ۔۔۔۔ دہشت گردی ہی کی علامت ہیں ، وہ دہشت گردی جس کا کوئی دین و مذہب نہیں ہوتا !
ہمارے محلے کا بھی ایک بارہ سالہ لڑکا گوکل چاٹ پر اپنی جان گنوا بیٹھا۔
برسوں پراناگوکل چاٹ ختم ہو گیا !! وہ چاٹ بھنڈار جہاں ہم نے بلا لحاظ مذہب اپنے کئی دوستوں کے ساتھ بارہ تیرہ سال کی عمر سے چاٹ کا مزہ لیا۔ (چونکہ ہمارا اسکول بھی وہیں تھا)۔ ہر سال جب بھی چھٹی پر حیدرآباد جانا ہوتا تو ہم اپنے کسی نہ کسی دوست کو وہاں بلا لیا کرتے تھے ملاقات بھی ہو جاتی اور گوکل چاٹ بھی۔
معلوم نہیں کیا بلائیں ہمارے پیارے شہر کو گھیر چکی ہیں؟
اس دفعہ کی ٹرپ میں حالاتِ حاضرہ کی تفصیلات معلوم ہو سکیں گی شائد۔