بریکنگ نیوز (مشرف بے نظیر ملاقات)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
ظفری بھائی ماشاء اللہ بہت ہی اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے اپ نے لیکن مجھے شائد یہ میری کم فہمی ہوں کہ ہم ہر چیز میں یورپ کو کیوں معیار بناتے ہیں کہ وہاں پر ہماری شناخت نہیں وہاں پر ہماری امیج خراب ہو رہی ہیں کیا اسلام کا کوئی امیج معیار حدود نہیں کیا معیار کی ڈگری ہمیں یہود و نصرا دیں گے؟

ہم تو ذلیل ہی اسی وجہ ہیں کہ یورپ کے معیار کے اپنانے کے بعد بھی ہم ان کے معیار پر پورا نہیں اتر سکے
 

ظفری

لائبریرین
واجد حسین بھائی ۔۔۔۔گستاخی معاف مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ آپ کو اس معاملے میں یورپ سے اپنا موازنہ کا پہلوکہاں نظر آگیا ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ہم بار بار اسلام کے امیج کا ہی کیوں ذکر کرتے ہیں ۔ اسلام کہیں بھی زیرِ بحث نہیں‌ ہے ۔ بات ہورہی ہے مسلمانوں اور ان کے طرزِ عمل کی ۔۔ جن کی وجہ سے اسلام پر قندزیں لگ رہیں ہیں ۔ صدیوں سے ہم مسلمانوں پر تلوار کے زور پر اسلام پھیلانے کا جو الزام ہے کیا وہ ہم اسے سچ ثابت کرنے پر نہیں تُلے ہوئے ہیں‌۔ ؟ ۔۔۔ اگر یورپ اور امریکہ ہمارے لیئے اتنے ہی غیر اہم ہیں تو پھر ہم اپنی ہر بربادی اور تباہی کے پیچھے ان کا رونا کیوں روتے دھوتے رہتے ہیں ۔ ؟ ۔۔۔ ملائیشیا ، انڈو نیشیا سے لیکر مڈل ایسٹ اور پھر افریقہ کے مراکش تک اتنی بڑی اسلامی ممالک کے نقشے میں کوئی ایسا اسلامی ملک ہے جو ہم کو ہمارے امیج کی ڈگری دے سکے ۔ کوئی امریکہ کو آنکھیں دکھا سکے ۔ دیوار پر ناک لگانے سے دیوار نظر نہیں آسکتی ۔ دیوار چاہے کتنی بڑی ہو مگر اس کو دیکھنے کے لیئے بھی ایک مناسب فاصلہ ضرروی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ان سب باتوں کو حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے یا پھر ثابت کیا جائے کہ آج ہمارا طرزِ عمل ایسا ہے کہ جسے ساری دنیا اپنے اقدار کا حصہ بنا لے ۔

اور ہماری ذلت کا سبب یہ نہیں ہے کہ ہم نے یورپ کے اقدار کو اپنانے کی کوشش کی بلکہ ہماری ذلت اور شرمناک زوال کا سبب یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی قدریں پسِ پشت ڈال دیں ہیں ۔ جہاں لوگ شریعت یا اسلامی قوانین نافذ کرنے میں یکجا نہیں ہیں ۔ جہاں مسجدوں میں بھی لوگ ڈر ڈر کر جاتے ہوں ۔ جہاں فقہی اور گروہی اختلافات ہی ایمان ِ کامل بن چکا ہے ۔ ایسے معاشرے کو نہ اسلامی اقدار کی ضرورت ہے اور نہ ہی یورپی اقدار کی ۔۔۔۔ کیونکہ یہ تو ایک ایسی پستی ہے کہ جہاں اقدار اور تہذیب کوئی معنی ہی نہیں رکھتی ۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
ظفری بھائی اپ بہت ہی کولڈ مائنڈ پرسن ہیں سنتے بھی ہیں اور سمجھاتے بھی ہیں جزاک اللہ۔۔۔
ایک بینظیر بچتی ہیں جس کی یورپ ، امریکہ میں بات سنی جاتی ہے مختلف یونیورسٹیوں میں ان کی اسپیچ کا خاص اہتمام ہوتا ہے ۔ شاید وہ یورپی یونین اور دیگر قوتوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوسکیں کہ امریکہ کو پاکستان پر حملہ سے باز رکھا جائے اور اس

بس ان ہی الفاظ نے کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں پھر معذرت چاہتا ہوں کہ اپ سے بحث کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں صرف اپنی "software debugging" کے لیے بات بڑھا رہوں کہ جہاں کہی میری applets یا کمانڈ کنٹرول کام نہیں کر رہا تو اس کو صحیح کر لوں یا جہاں پر میرا سسٹم ہینگ ہو رہا ہو تو اس کی تصحیح کر لوں
ایک بار پھر بہت ہی شکریہ


واجد
 

ساجداقبال

محفلین
ظفری حقیقت یہی ہےکہ جن خطرات کی طرف آپ توجہ دلا رہے ہیں، وہیں ہمارے اصل مسائل ہیں۔ لیکن آپ نے جنرل مشرف سے جھوٹی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ اگر آپکا خیال ہے کہ وہ ملکی خطرات پر ان سے گفت و شنید کر رہے تو معذرت کے ساتھ، خبریں تو کچھ اور کہہ رہی ہیں۔ جیسا کہ:
تاہم ذرائع نے کہا ہے کہ بات چیت جاری رہے گی اور مذاکرات کے نتیجہ خیز نہ ہونے کی وجہ وردی کا معاملہ ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر مشرف اگلے پانچ سال تک وردی میں صدر رہنا چاہتے ہیں لیکن بینظیر چاہتی ہیں کہ ان کو اگلی پارلیمان سے سویلین صدر کے طور پر منتخب کرایا جائے۔
مکمل خبر۔۔۔
انہیں صرف اپنی صدارت اور وردی کی فکر ہے۔ ان کا خیال یہی ہے کہ پاکستان کے سب مسائل کا حل صرف اور صرف انہی کے پاس ہے اور اسی سوچ نے پاکستان کو آج بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ ملکی مسائل پر کیا مل بیٹھیں گے ہمارے یہ ”لیڈر““۔ جنرل کو اگلی مدت صدارت کیلیے حمایت چاہیے اور بینظیر کے قبیل کے سیاستدانوں کو اقتدار میں شراکت۔ اگر آپ کہیں کہ سورج مغرب سے بھی نکل سکتا ہے تو شاید میں مان بھی لوں لیکن ہمارے ان لیڈران کی قومی مفاد کیلیے کوئی اتحاد اور مفاہمت۔۔۔یہ بات میں کبھی نہ مانوں۔
ہمیں اپنے مسائل اور خطرات کا خود ہی تدارک کرنا ہوگا جس کیلیے ضروری ہے کہ ہم اپنے پسندیدہ لیڈران کی حمایت چھوڑ کر خود ہی کو مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔ ہمیں پہلے آغاز یہی سے کرنا ہوگا کہ فی الحال یہ فورم ہی وہ واحد جگہ ہے جہاں ہم ”ایک جگہ“ مل کے بیٹھتے ہیں۔ ہماری آراء، تجاویز ممکن ہے کچھ زیادہ دانشوارانہ نہ ہوں لیکن وہ ہمارے مفاد پرستوں لیڈران سے اسلئے بہتر ہونگی کہ ابھی ہمارے دل و دماغ میں اس ملک کو بچانے اور پروان چڑھانے کی خواہش زندہ ہے نہ کہ اسے لوٹ‌کر باہر سے باہر بھاگ جانے کی۔ میں سب دوستوں سے تعاون کی درخواست کرتا ہوں۔
 

آصف

محفلین
ظفری حقیقت یہی ہےکہ جن خطرات کی طرف آپ توجہ دلا رہے ہیں، وہیں ہمارے اصل مسائل ہیں۔ لیکن آپ نے جنرل مشرف سے جھوٹی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔

مجھے ساجد سے اتفاق ہے۔ ہمیں (غیر آئینی) صدر پرویز مشرف کے سیاہ کارناموں کو کسی بھی حالت میں فراموش نہیں کرنا چاہئیے۔ اس قماش کے لوگوں سے امیدیں وابستہ کرنا دانشمندی نہیں ہے۔

امریکہ کبھی بھی جمہوری پاکستان پر حملہ کرنے کا نہیں سوچے گا۔ البتہ پرویز مشرف جیسے غاصبوں کی موجودگی میں ہر ایرا غیرا یہ جرات کر سکتا ہے۔ پرویز مشرف کے ہاتھوں پاکستان کی بے توقیری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ متحدہ عرب امارات میں اس کا استقبال امارات کے ڈپٹی سپہ سالار نے کیا ہے! جو شخص بے نظیر سے (خفیہ) ملاقات کیلئے عمرہ کا بہانہ بنا سکتا ہے، اس سے ملک و قوم کے دفاع کی امیدیں!!! چہ معنی دارد؟
 
مجھے ساجد سے اتفاق ہے۔ ہمیں (غیر آئینی) صدر پرویز مشرف کے سیاہ کارناموں کو کسی بھی حالت میں فراموش نہیں کرنا چاہئیے۔ اس قماش کے لوگوں سے امیدیں وابستہ کرنا دانشمندی نہیں ہے۔

امریکہ کبھی بھی جمہوری پاکستان پر حملہ کرنے کا نہیں سوچے گا۔ البتہ پرویز مشرف جیسے غاصبوں کی موجودگی میں ہر ایرا غیرا یہ جرات کر سکتا ہے۔ پرویز مشرف کے ہاتھوں پاکستان کی بے توقیری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ متحدہ عرب امارات میں اس کا استقبال امارات کے ڈپٹی سپہ سالار نے کیا ہے! جو شخص بے نظیر سے (خفیہ) ملاقات کیلئے عمرہ کا بہانہ بنا سکتا ہے، اس سے ملک و قوم کے دفاع کی امیدیں!!! چہ معنی دارد؟

شاید صدر پرویز مشرف غیر ائینی نہیں۔
اپ لوگوں کو صورت حال کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ امریکہ افغانستان پر کھڑا ہے اور حملہ کی دھمکیاں‌دے رہا ہے۔ بھارت کبھی بھی دوست نہیں‌رہا۔ ایران خود مشکل میں‌ہے اور عراق اتحادیوں‌کے قبضے میں‌ہے۔ پاکستان میں‌ خودکش حملے ہورہے ہیں۔ اور بغاوت کی سی کیفیت ہے۔ اس وقت مشرف اور بے نظیر کی ملاقات خوش ائیند ہے۔

مشرف کے کارنامے تو مہوش بہن ہے بہتر بیان کرسکتیں‌ ہیں۔ مگر یہ نہ بھولیں‌کہ مشرف کو پاکستان کی عوام نہیں‌بلکہ فوج لے کر ائی تھی۔ میں‌پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ مشرف انفرادی طور پر کچھ نہیں‌بلکہ یہ فوج کا چہرہ ہے ۔ اسی لیے تو وہ وردی نہیں‌اتارتا۔ اس وقت مشرف کے خلاف کام کرنے کا فائدہ فوج کے دشمن اٹھائیں‌گے۔

میں‌پہلے بھی کہہ چکا ہوں‌کہ اپ اور ہم کچھ نہیں‌کرسکتے ۔ صرف تبصرے کرسکتے ہیں‌تاکہ صورت حال کا درست اندازہ ہو اور بس۔ اس وقت میرے خیال میں‌پاکستانی فوج کے خلاف کچھ کرنا مناسب نہیں۔
یہ درست ہے کہ حالات کی بہتری الیکشن کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ میرے مطابق الیکشن کا نتیجہ کچھ ایسا ہوگا۔
سندھ۔ 60 فی صد پیپلز پارٹی ، 35 فی صد ایم کیو ایم
پنجاب: 50 فی صد پیپلز پارٹی باقی 50 فیصد ن اور ق لیگ
سرحد: 60 فی صد مولانا فضل الرحمان باقی پیلز پارٹی
بلوچیستان: 40-50 فی صد پیپلز پارٹی باقی دیگر سردار

تو مشرف عوامی لیڈر سے ہی بات کررہا ہے۔ ایسا کیا برا کررہا ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
ہمت علی بھائی، ملاقات یقینآ خوش آئند ہوتی اگر ملک و قوم کی کسی مفاد پر بات ہوتی۔ وہاں تو اقتدار کی بندربانٹ پر بات ہوئی جس پر اتفاق نہ ہو سکا۔ اگر قومی خطرات و مسائل پر بات ہوتی تو کون اختلاف کر سکتا تھا کہ پاکستان اسوقت شدید خطرات سے دوچار ہے۔
سرحد: 60 فی صد مولانا فضل الرحمان باقی پیلز پارٹی
سرحد میں پیپلز پارٹی کا کیا کام؟؟؟ ایجنسیوں والے الیکشن ہوئے تو پھر سوچا جا سکتا ہے۔
 
یہ تو صرف میڈیا سے معلوم ہوتا ہے کہ کیا بات ہورہی ہے۔ میڈیا غلط بھی ہوسکتا ہے۔
معذرت اے این پی اور پیپلز پارٹی کا اندازہ کرلیں سرحد میں۔ افتاب شیرپاو بھی تو پیپلز پارٹی میں‌تھا پہلے۔ یہ تو صرف اندازہ ہے۔ مقصد یہ تھا کہ بہرحال پیپلز پارٹی قومی جماعت ہے اور اس کی لیڈر سے صدر کی ملاقات خوش ایند ہے۔ کیا برا ہے اگر ملک کی بڑی جماعت برسر اقتدار اجاے۔ فو ج تو جاتے جاتے جائے گی ورنہ انقلاب سے جائے گی۔ اس صورت میں ملک کی تباہی ائے گی۔ لہذا یہ صورت بہتر ہے کہ ملک کی بڑی پارٹی اقتدار میں ائے۔
 

سید ابرار

محفلین
یزید وقت پرویز مشرف اور بے نظیر کے درمیان ملاقات کے پس منظر مین ڈاکٹر شاھد مسعود کا یہ کالم یقینا کافی دلچسپ ہے
rishtajk7.gif

rishta1rm8.gif
 

ظفری

لائبریرین
واجد بھائی ۔۔ میں بھی اس پروسس سے گذر چکا ہوں ۔ مگر جب سے میں نے شخصیت پرستی کا بھوت اپنے سر سے اتارا ہے ۔ زمینی حقائق واضع ہوتے چلے گئے ہیں ۔ یہاں امریکہ میں مجھے کوئی بنیاد پرست کہتا ہے تو میں فخر سے کہتا ہوں کہ ہاں میں بنیاد پرست ہوں ۔ کیونکہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرنا اسلام سے انحراف کرنا ہے ۔۔ ہاں اگر کوئی مجھے انتہا پسند کہے تو میں اس کی سختی سے تردید کرتا ہوں کہ کوئی موقف پر ڈٹا رہے اور کسی کے صحیح موقف کو نہ مانے تو یہ انتہا پسندی کی ایک شکل ہے ۔ لہذا کسی اچھے انسان کی غلط باتوں اور کسی غلط انسان کی اچھی باتوں کی نشاندہی کرنا یا ان کی تعریف و تنقید کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔

بینظیر اور مشرف سب سیاسی شعبدہ باز ہیں ۔ اس کا ذکر میں اپنے پہلے کئی پیغام میں کر چکا ہوں ۔ لہذا اگر وہ اپنی سیاسی شعبد گری میں کمی کرکے کچھ لمحے ملک کی سالمیت کے بارے میں سوچنے میں صرف کر رہے ہیں ( جیسا کہ تاثر ہے ) تو ہمیں تھوڑا بہت ان کو کریڈٹ دینا چاہیئے ۔ ہم تنقید کے پلڑے تو اٹھائے پھرتے ہیں مگر ہم اس مشکل وقت کا کوئی حل پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ حتیٰ کہ ہم اب تک کوئی ایسا لیڈر بھی پیش نہیں کر سکے ہیں جو مشرف یا کسی اور سیاسی شعبدہ باز کا متبادل ہو ۔ اپنے موقف پر ڈٹے رہنا اور اپنی بات کو ہی صحیح جاننا ۔۔ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ کچھ ناپسندیدہ لوگ اگر کچھ اچھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر ہم ان کی ہمنوائی نہیں کر سکتے تو کم از کم کچھ عرصےصبرو تحمل سے دیکھیں کہ ان کے ان اقدام سے کیا تبدیلیاں رونما ہوتیں ہیں ۔ اگر کوئی مثبت پیش رفت ہوتی ہے تو یہ خوش آئند ہے اگر نہیں ۔۔۔ تو یہ کونسی بڑی بات ہوگی کہ آج سے پہلے کس نےاور کب ، ملک اور قوم کے حق میں صحیح اور مثبت فیصلے کیے ہیں ۔

میں پھر معذرت چاہتا ہوں کہ اپ سے بحث کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں صرف اپنی "software debugging" کے لیے بات بڑھا رہوں کہ جہاں کہی میری applets یا کمانڈ کنٹرول کام نہیں کر رہا تو اس کو صحیح کر لوں یا جہاں پر میرا سسٹم ہینگ ہو رہا ہو تو اس کی تصحیح کر لوں۔


واجد بھائی ۔۔ گستاخی معاف مجھے یہ ” software debugging" کا مسئلہ نہیں لگ رہا ۔۔۔ بلکہ یہ Hardware میں کہیں گڑبڑ لگ رہی ہے ۔ ;)
 

ساجداقبال

محفلین
ظفری بھائی ، آپ کی باتیں درست ہیں لیکن قومی مفاہمت کا یہ کونسا طریقہ ہے جسمیں قوم سے چھپا کر چیزیں طے کی جارہی ہیں۔ قوم کو تو پھر کھڈے لائن لگا کر اعتماد میں لینے کی زحمت نہیں کی گئی۔ آپ مانیں نہ مانیں یہ صرف اقتدار کی بندربانٹ کے سودے ہیں، جو اگر طے ہو جائیں تو انہیں قومی مفاد کا نام دے دیا جائیگا۔
 

سید ابرار

محفلین
بینظیر اور مشرف سب سیاسی شعبدہ باز ہیں ۔ اس کا ذکر میں اپنے پہلے کئی پیغام میں کر چکا ہوں ۔ لہذا اگر وہ اپنی سیاسی شعبد گری میں کمی کرکے کچھ لمحے ملک کی سالمیت کے بارے میں سوچنے میں صرف کر رہے ہیں ( جیسا کہ تاثر ہے ) تو ہمیں تھوڑا بہت ان کو کریڈٹ دینا چاہیئے ۔ ہم تنقید کے پلڑے تو اٹھائے پھرتے ہیں مگر ہم اس مشکل وقت کا کوئی حل پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔

نہ بے نظیر بھٹو کو ”ملک پاکستان کی سالمیت“ کی ”فکر“ ہے اور نہ ”نواز شریف“ کو ، اور نہ ”یزید وقت پرویز مشرف“ کو ، سب اس وقت ان ”پتلیوں“ کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی ”باگ ڈور“ امریکہ بھادر کے ہاتھوں میں ہیں ، اور وہ بخوبی ان کو ”استعمال“ کررہا ہے ، اور سب ”بخوشی“ اس کا سا تھ دے رہے ہیں ، ہر ایک کے آگے اپنے اپنے ”مفادات“ ہیں ، بھر حال کسی کے مدنظر ملک پاکستان کی ”سالمیت“ نھیں ہے ، ہاں اپنے اقتدار کی ”سالمیت “ کی فکر ہر ایک کو ضرور ہے ،

اور جھاں تک مذکورہ ”صورتحال“ سے بچنے کے لئے ، مذکورہ ”رہنماؤں “ پر ” دوبارہ اعتماد کو، ایک ”حل“ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ،تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ”بارش“ سے بچنے کے لئے کوئی ”پرنالہ“ کے نیچے کھڑا ہوجائے ،
 

ظفری

لائبریرین
ظفری حقیقت یہی ہےکہ جن خطرات کی طرف آپ توجہ دلا رہے ہیں، وہیں ہمارے اصل مسائل ہیں۔ لیکن آپ نے جنرل مشرف سے جھوٹی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔ اگر آپکا خیال ہے کہ وہ ملکی خطرات پر ان سے گفت و شنید کر رہے تو معذرت کے ساتھ، خبریں تو کچھ اور کہہ رہی ہیں۔

ساجد بھائی آپ کا میرے بارے میں تجزیہ غلط ہے ۔ میں نے مشرف سے کوئی امیدیں نہیں باندھیں ہیں ۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ اگر مشرف اس وقت ملک کا حکمران ہے ( خواہ اس کی نوعیت کیسی بھی ہو ) تو یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو بیرونی اور اندرونی خطروں سے بچائے ۔ ملک کے اندر اس وقت انار کی پھیلی ہوئی ہے ۔ کسی کو اپنے قبلے کا صحیح رخ نہیں معلوم ۔ اور بیرونی خطرات کی نوعیت کا بھی سب کو علم ہے ۔ ایسے وقت میں کسی ایسے شخص کا اثر و رسوخ چاہیئے جس کی بین الاقوامی طور پر کوئی ساکھ ہو ۔ بینظیر سے ہمارے کتنے ہی اختلافات ہوں ۔ مگر ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ بینظیر مغرب میں اپنا ایک اثر رکھتی ہے ۔ ( مغرب کا حوالہ میں باربار اس لیئے دے رہا ہوں کہ اگر یورپی یونین امریکہ پر زور ڈالے تو پاکستان پر حملے کی یہ دھمکی غیر موثر ثابت ہوسکتی ہے ۔اس کے علاوہ کسی ایسے ملک کا نام مجھے بتائیے جو امریکہ پر کسی قسم کا دباؤ ڈال سکتا ہو ) ۔ اور ایک خاص بات جو سب کی نظروں سے شاید اوجھل ہو کہ آج پاکستان کے پاس جو نیوکلئیر پاور اور مزائل ٹیکنالوجی ہے وہ انہی باپ بیٹی کی کوشش کی بدولت ہے کہ نیو کلئیر پاور بھٹو کی کوششوں کا نیتجہ ہے اور میزائل ٹیکنالوجی بینظیر کے دور میں پاکستان کے ہاتھ لگی ہے ۔

تو ساجد بھائی میری ساری گفتگو کا ماخذ یہ ہے کہ اگر یہ دونوں حضرات اپنے کسی مفادات کے ساتھ ملک کی سلامتی و سالمیت کے لیئے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے ۔ ملک سلامت رہا تو ان کا بھی کبھی نہ کبھی کوئی تدارک ہو جائے گا ۔ یا پھر ایسے حالات میں ہم مولانا فضل الرحمن ، لیاقت بلوچ یا قاضی احمد حیسن سے کہیں کہ آئیں اور ملک سنبھالیں اور امریکہ سے پنجہ شکنی کریں ۔
 

ظفری

لائبریرین
نہ بے نظیر بھٹو کو ”ملک پاکستان کی سالمیت“ کی ”فکر“ ہے اور نہ ”نواز شریف“ کو ، اور نہ ”یزید وقت پرویز مشرف“ کو ، سب اس وقت ان ”پتلیوں“ کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی ”باگ ڈور“ امریکہ بھادر کے ہاتھوں میں ہیں ، اور وہ بخوبی ان کو ”استعمال“ کررہا ہے ، اور سب ”بخوشی“ اس کا سا تھ دے رہے ہیں ، ہر ایک کے آگے اپنے اپنے ”مفادات“ ہیں ، بھر حال کسی کے مدنظر ملک پاکستان کی ”سالمیت“ نھیں ہے ، ہاں اپنے اقتدار کی ”سالمیت “ کی فکر ہر ایک کو ضرور ہے ،

اور جھاں تک مذکورہ ”صورتحال“ سے بچنے کے لئے ، مذکورہ ”رہنماؤں “ پر ” دوبارہ اعتماد کو، ایک ”حل“ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ،تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ”بارش“ سے بچنے کے لئے کوئی ”پرنالہ“ کے نیچے کھڑا ہوجائے ،

کیا آپ کے پاس ان دونوں لیڈروں کا کوئی متبادل لیڈر موجود ہے ۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ :rolleyes:
 

سید ابرار

محفلین
کیا آپ کے پاس ان دونوں لیڈروں کا کوئی متبادل لیڈر موجود ہے ۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ :rolleyes:
ایم ایم اے کے قائدین بھر حال اپنی ”چند خامیوں“ کے باوجود نہ صرف پاکستان کے لئے بھترین قائد ثابت ہوسکتے ہیں بلکہ ملک پاکستان کی ”حفاظت “ کا فریضہ بھی ان سے بھتر کوئی ادا نھیں کرسکتا ، کم از کم ”نازک حالات“ میں یہ نہ ملک چھوڑ کر امریکہ کا رخ کریں گے اور نہ انگلینڈ یا سعودی عرب ،

جھاں تک میاں نواز شریف کی بات ہے تو ان کی ہزار ”خامیاں “ ایک طرف ،لیکن انھوں نے پاکستان کو ”ایٹمی طاقت“ ظاھر کرکے مسلم دنیا میں جو خوشیوں کی لھر دوڑائی ہے ، اس سے دل تو یھی چاہتا ہے کہ ان کی ”غلطیوں “ سے پردہ پوشی کرلی جاے بشرطیکہ وہ ”توبہ “ کے لئے تیار ہوجائیں ،

میری رائے تو یہ ہے کہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر ایم ایم اے اور مسلم لیگ نواز شریف کو متحدہ الائنس بنا کر انتخابات میں حصہ لینا چاہئے ،
 

ساجداقبال

محفلین
لبرل فاشزم . . . . قلم کمان . . . …حامد میر

حامد میر کا صورتحال کا تجزیہ:
جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان رابطے تو بہت پرانے تھے لیکن براہ راست ملاقات کا کریڈٹ چوہدری اعتزاز احسن کو جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو پچھلے دو سال سے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ براہ راست ملاقات پر اصرار کر رہی تھیں لیکن جنرل صاحب ہچکچا رہے تھے۔ وہ اپنی پوزیشن مضبوط اور بے نظیر بھٹو کی پوزیشن کمزور سمجھ رہے تھے کیونکہ موصوفہ سوئس عدالتوں کے مقدمات میں پھنسی ہوئی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف کے روّیے میں تبدیلی کی وجہ سپریم کورٹ کا 20 جولائی کا فیصلہ ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی وکلاء نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا مقدمہ سپریم کورٹ سے جیت کر جنرل پرویز مشرف کی اخلاقی و سیاسی پوزیشن کو اتنا کمزور کردیا کہ وہ صرف بے نظیر بھٹو نہیں بلکہ نواز شریف کے ساتھ سمجھوتے پر راضی ہو گئے لیکن بے نظیر کے برعکس نواز شریف نے اس شخص کو ملنے سے انکار کردیا جسے انہوں نے خود 1998ء میں سنیارٹی کے اصول نظر انداز کرتے ہوئے چیف آف دی آرمی اسٹاف بنایا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب جنرل پرویز مشرف کے ایک معتمدِ عزیز نے چوہدری اعتزاز احسن کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہا پسندوں کے مقابلے پر لبرل قوتوں کا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ملاقات کا اصل مقصد یہ تھا کہ لبرل ازم کے نام پر چوہدری اعتزاز احسن اپنے موٴکل جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ساتھ چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کی مشکلات کم کردیں۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اگر چوہدری اعتزاز احسن یہ بات مان لیتے اور جان بوجھ کر مقدمہ ہار جاتے تو کیا کچھ حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اصول پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کی تحریک کے نتیجے میں عدلیہ قوم کی امیدوں کا مرکز بن چکی ہے، عدلیہ مضبوط ہوگی تو آئین و قانون مضبوط ہوگا اور آئین و قانون کی بالادستی ہی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ چوہدری صاحب کے انکار نے کئی صاحبان اقتدار کو غصے کی آگ میں مبتلا کردیا اور پھر اس غصے کا اظہار قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے رکن شیخ وقاص اکرم کے ذریعہ کروایا گیا جنہوں نے چوہدری اعتزاز احسن کو فاشسٹ قرار دیا حالانکہ چوہدری صاحب نے پوری زندگی میں کبھی چڑیا تک نہیں ماری۔ شیخ وقاص اکرم کی تقریر سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ عنقریب سپریم کورٹ چوہدری اعتزاز احسن کے موٴکل جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف فیصلہ سنانے والی ہے اور اس کے بعد چوہدری صاحب کو غدّاری کے الزام میں پکڑ کر جیل میں پھینک دیا جائے گا لیکن 20 جولائی کو سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان سب منصوبوں پر پانی پھیردیا۔ اس فیصلے کے ایک ہفتے کے اندر اندر جنرل پرویز مشرف ابوظبی میں ایک ایسی عورت کے سامنے بیٹھنے پر مجبور ہوگئے جس کے باپ کو انہوں نے ہمیشہ فاشسٹ کہا۔ جب سے ابو ظبی میں جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی ہے میں نے جنرل صاحب کی کتاب ” ان دی لائن آف فائر “ کا صفحہ 58 بار بار پڑھا اور بار بار سوچا ہے کہ جنرل پرویز مشرف جیسے لبرل شخص نے ذوالفقار علی بھٹو کو فاشسٹ کیوں کہا ؟ اپنی مشہور زمانہ کتاب میں جنرل پرویز مشرف نے لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ترقی پسندانہ نظریات کے نام پر آمرانہ طرز کی حکومت قائم کی کیونکہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اور جتنا نقصان بھٹو نے پاکستان کو پہنچایا کسی دوسرے نہیں پہنچایا۔ اپنی کتاب میں جنرل پرویز مشرف نے بھٹو کو فاشسٹ کے علاوہ منافق بھی قرار دیا اور لکھا ہے کہ بھٹو نے محض مذہبی طبقے کو خوش کرنے کیلئے شراب و جوئے پر پابندی لگائی اور اتوار کی بجائے جمعہ کی چھٹی کروا دی۔ یہ سب پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خیال میں لبرل صرف وہی ہے جو مذہبی طبقے کو ساتھ لیکر چلنے کی بجائے اس پر چڑھ دوڑے۔ بھٹو صاحب کے کئی اقدامات سے لبرل عناصر خوش نہ تھے۔ جب 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے کئی ماہ کی بحث کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو کچھ لبرل دانشوروں نے بھٹو کو فاشسٹ کہنا شروع کردیا حالانکہ یہ فیصلہ ایک شخص نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے کیا تھا۔ اگر بھٹو فاشسٹ ہوتے تو ان کے اپنے دور حکومت میں تھانہ اچھرہ لاہور میں ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج نہیں ہوسکتا تھا لیکن اس کے باوجود ایک باوردی جرنیل پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم اور ایٹمی پروگرام کے بانی کو ملکی تاریخ کا بدترین حکمران قرار دیتا ہے۔ اب جبکہ جنرل صاحب لبرل قوتوں کے اتحاد کے نام پر فاشسٹ کی بیٹی سے ملاقات کرچکے ہیں تو یہ سوال اہم ہے کہ کیا فاشسٹ کی بیٹی کے ساتھ مل کر وہ واقعی مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے میں کامیاب ہو سکیں گے ؟ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا مرکز صوبہ سرحد اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے ہیں۔ ان علاقوں میں آج کل بے نظیر بھٹو کی سیاسی طاقت کا یہ عالم ہے کہ صوبائی اسمبلی کے بعض حلقوں میں پیپلز پارٹی کے پاس امیدوار نہیں ہیں۔ قبائلی علاقوں میں اس پارٹی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے تو پھر مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں طاقت استعمال کی جائے گی اور بے نظیر بھٹو طاقت کے استعمال کی حمایت کریں گی۔ دوسرے الفاظ میں مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ لبرل فاشزم کے ذریعہ کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستان کو خانہ جنگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ پیپلز پارٹی ایک لبرل جماعت ضرور ہے لیکن اس جماعت کو چاہئے کہ مذہبی طبقے کے ساتھ اعلان جنگ کرنے کی بجائے اہم قومی امور پر اسے ساتھ لیکر چلے بالکل ویسے ہی جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین پر مذہبی جماعتوں کا تعاون حاصل کیا تھا۔ پاکستان میں کچھ لبرل فاشسٹ ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پیپلز پارٹی کو اس ایجنڈے کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں جو جارج ڈبلیو بش کا ایجنڈا ہے۔ یہ لبرل فاشسٹ کہتے ہیں کہ ہم تو بڑے امن پسند لوگ ہیں ہمارے پاس مذہبی انتہا پسندوں کی طرح اسلحہ ہے اور نہ ہی خودکش بمبار ہیں لیکن اردو اخبارات نہ جانے کیوں ہمیں بدنام کرتے ہیں حالانکہ ہم تو جمہوریت پسند لوگ ہیں۔ جمہوریت پسند تو فاشزم کا بانی مسولینی بھی تھا جس نے 1922ء سے 1943ء تک اٹلی پر حکومت کی۔ مسولینی کا قریب ترین اتحادی جرمنی کا حکمران ہٹلر تھا۔ دونوں خود کو جمہوریت پسند کہتے تھے لیکن اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ صرف بندوق کی زبان میں بات کرتے تھے۔ آج کے لبرل حکمران بھی اپنے مخالفین کو غدّار یا مذہبی انتہاپسند قرار دیکر پوری ریاستی طاقت ان کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ اس لبرل فاشزم کے ردعمل میں عراق سے افغانستان تک مسلح مزاحمت ہونے لگے تو پھر مذہبی انتہا پسندی کا رونا روتے ہیں۔ ان لبرل فاشسٹوں سے جب پوچھا جائے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے دنیا محفوظ ہونے کی بجائے مزید غیر محفوظ کیوں ہو رہی ہے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ان کی کج فہمی کا یہ عالم ہے کہ اسلام آباد کی لال مسجد پر زبردستی سفید رنگ پھیر کر سمجھتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات سے صاف نظر آتا ہے کہ لبرل قوتوں کے اتحاد کے نام پر فاشسٹ روّیہ اختیار کرنا اور معاشرے کو دو طبقوں میں تقسیم کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل صرف اور صرف حقیقی جمہوریت کا قیام اور آئین و قانون کی بالادستی ہے۔ اگر جمہوریت کے نام پر مسولینی اور ہٹلر بننے کی کوشش کی گئی تو یہ لبرل فاشزم تباہی کے سوا ہمیں اور کچھ نہ دے گا۔
 
Top