بری گھڑی

صدر بازار کے فٹ پاتھ پہ آوارہ گھومتے ہوئے ہمیں سیاہ ڈائل ایک گھڑی پسند آ گئی جس کی سوئیاں سنہری تھیں۔ گھڑی فروش نے ریٹ لگایا دو سو پچاس روپے۔

ہم نے کہا غضب خدا کا ابھی تو آپ ایک سو بیس ایک سو بیس پکار رہے تھے، سیٹھ کو دیکھتے ہی ریٹ چڑھا لیا ۔۔۔۔ ؟؟

وہ بولا ، ماڑا باقی والا سب ایک سو بیس کا ہے، قسم لے لو، یہ والا 2 سو پچاس سے کم نئیں بیچتا۔

لیکن ہم نے صاف کہہ دیا کہ 2 سو سے اوپر ایک آنہ نہ دیں گے۔ وہ نہ مانا تو ہم چل دئیے۔ اس نے آواز لگائی تو مُڑ کر کہا صرف دو سو روپے۔

بالاخر اس کی مسلسل پکار اور ہماری مسلسل تکرار کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ وہ مجبور ہوا اور ہماری ضد کے آگے ہتھیار ڈال گیا، ہم 200 روپے میں گھڑی لیکر یوں شادمان لوٹے گویا قومی خزانہ لوٹ لیا ہو۔

اگلے روز ہم آستینیں چڑھا کے دفتر پہنچے۔ مقصود تھا کہ زیب و زینت عیاں ہو، خیر اندیشوں کو اچھی گھڑی کی نوید ہو اور بدگمانوں کےلئے یہ محشر کی گھڑی ثابت ہو۔

دو روز تک کسی نے نوٹس نہ لیا۔ تیسرے دن ایک حاسد کی نظر پڑ ہی گئی۔ کہاں سے لی ؟ کتنے میں لی ؟ کیوں لی جیسے لایعنی سوالات کے بعد وہ کوئلہ صِفت گھڑی ٹٹولتے ہوئے بولا اس کی سیکنڈوں والی سوئی تو اندر گری پڑی ہے اور وقت بھی نصف گھنٹہ پیچھے ہے۔

ہم نے خود پہ قابو رکھتے ہوئے اس جھٹکے کو برداشت کیا۔ پھر کسی عظیم دانشور کی طرح اس کی جاہلیت پہ نفرین کرتے ہوئے بتایا کہ نئی گھڑیوں میں اب فضول سوئیاں نہیں لگائی جاتیں۔ کمپنی سائیڈ پہ رکھ چھوڑتی ہے۔ چوبیس گھنٹے مُفت کی ٹک ٹک کون سُنے۔ رہی پیچھے رہنے کی بات تو دانشور قوم کے پیچھے ہی چلتے ہیں تاکہ قومی غلطیوں کو نوٹ کرتے رہیں۔

خیر جب وہ حاسد چلا گیا تو قدرے پریشانی ہوئی کہ گھڑی خریدتے وقت کیوں خیال نہ کیا۔ بس صورت دیکھی اور مر مٹے۔ گویا گھڑی نہ ہوئی کُڑی ہو گئی۔ اب گھڑی ساز مفت کے پیسے بٹورے گا۔ پھر خود کو اطمینان دلایا کہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ، موبائل سے وقت دیکھ لیا کریں گے اور سوئی اندر ہی تو پڑی ہے، کسی بھی وقت لگوا لیں گے۔

لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ اگلے ہی روز گھڑی کا چین سلپ ہوا، وہ زمین پہ گری اور خود ہی کھُل گئی۔ شیشہ الگ، مشین الگ، اور چین الگ۔ افراتفری میں مال اسباب سمیٹا اور جیب میں ڈال کر کھسک لئے۔ گھڑی تو خدا خدا کر کے جوڑ لی مگر سیکنڈوں والی سوئی نہ مل سکی۔ شاید موقع غنیمت جان کے فرار ہو گئی۔ خیر ویسے بھی اس کا کوئی خاص فائدہ نہ تھا۔

لیکن مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اب گھڑی آئے روز گرنے لگی۔ اگلے روز بھرے بازار میں چہل قدمی فرما رہے تھے کہ اچانک ہی گر گئی۔ ہم لحظہ بھر کو جھُکے تو پیچھے چلنے والا ایک مخبوط الحواس بری طرح ہم سے ٹکرایا۔ ہم آگے کی طرف گرے اور وہ توازن کھو کر فٹ پاتھ پہ بیٹھے ہوئے فقیر کو لیتا ہوا چنے کی ریڑھی میں جا گھُسا۔

یوں بازار میں "افراتفریح" پیدا ہوئی- آس پاس کھڑے لوگ متوجہ ہوئے کہ شاید بلوہ ہوا ہے۔ کچھ سنجیدہ طبیعت ہماری مدد کو لپکے کہ شاید ہارٹ اٹیک کا کیس ہے۔ کچھ مسخروں نے تالیاں بجائیں۔ ایک بولا وہ دیکھو انکل کی گھڑی چین تُڑا کے بھاگی۔ دوسرا بولا چاچا چوٹ تو نہیں آئی، گھڑی کو ؟

ہم اس واہی تباہی سے بے نیاز گھڑی کے بقیہ جات جمع کرتے رہے۔ اگر آپ عامۃ الناس کی ہر بات کو سنجیدگی سے لیں گے تو آپ کا حشر مرزا کی سائیکل جیسا ہو گا جسے پطرس بخاری مرحوم نے نہر والے پُل سے نیچے گرایا تھا۔ دنیا بھلا کس کو بخشتی ہے۔

کچھ ہی روز میں اس بات کا چرچا ہوا اور آس پڑوس، دوست دشمن، حاسد راشک سب جان گئے کہ اس بزرگ کی گھڑی گرتی ہے۔ بدخواہ ہم سے مصافحہ کی تاک میں رہتے کہ گھڑی گرے اور تماشا دیکھیں اور خیر خواہ اوٹ پٹانگ مشورے دیتے۔ کوئی کہتا صاحب پریشانی کاہے کی ؟ کوئی اچھا وکیل کیجئے اور سیکو فائیو پہ ہرجانہ کر دیجئے۔ کوئی چھوڑتا کہ رام سوامی میں ایک نوے سالہ حکیم ہیں جو دائمی قبض کا بہترین علاج کرتے ہیں، گھڑی وہاں لے جائیے۔

کبھی کوئی جان پہچان والا غیر منطقی قسم کا سوال کرتا۔
" انکل ٹائم کیا ہوا ہے ؟ "
حاسد کے جزبات بھڑکانے کو ہم بھی بازو لہرا کے آستین چڑھاتے، کچھ دیر گھڑی کو گھما پھرا کرکہتے بیٹا جی وہی جو کل اس وقت ہوا تھا۔

بالاخر ایک روز ہماری برداشت جواب دے گئی۔ غیرت کی چادر اوڑھ کر کسی اچھے گھڑی ساز کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ صدر میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا لیکن اتفاق دیکھئے کہ ریگل چوک سے صدر دواخانہ تک گھڑی ساز کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حالانکہ جن دنوں ہمارے پاس گھڑی نہ تھی، قدم قدم پہ گھڑیالی اونگھتے دکھائی دیتے تھے۔

جب خوب تھک ماند گئے تو لکی اسٹار چورنگی کی طرف چل دئیے کہ شاید کوئی واقف کار مل جائے تو کوئٹہ ہوٹل کی چائے پلادے۔ جماعت خانہ بوہری سے کچھ آگے فٹ پاتھ پہ ایک پیر مرد دکھائی پڑا جو حرکات و سکنات سے گھڑی ساز لگتا تھا۔ فوراً اس کی طرف لپکے۔ قریب جا کر بڑے احترام سے پُوچھا۔۔۔
" حضرت آپ گھڑیاں مرمت کرتے ہیں ؟ "

اس پیر مرد نے شاید ہماری بات کا برا منا لیا۔ داہنی آنکھ پہ چڑھا کھوپا اتار کے بولا نہیں میں چمڑے کے سکّے بنا کر سبزی منڈی میں بیچتا ہوں۔ آپ کو کیا کام ہے ؟؟

ہم نے فوراً جیب سے گھڑی نکالی اور بڑی لاچارگی سے کہا۔۔۔۔
اسے درست کر دیجئے۔ اس نے معاشرے میں ہمارا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ وقت سے کوسوں پیچھے رہتی ہے ، سیکنڈوں والی سوئی غائب ہے، بار بار رکتی ہے، آئے روز گرتی ہے۔

اس نے گھڑی ہمارے ہاتھ سے لی اور تفصیلی معائنہ کرنے لگا- کچھ دیر کی عرق ریزی کے بعد بولا:
اس پر ٹھیک ٹھاک خرچہ آئے گا۔
ہم نے چونکتے ہوئے پوچھا کتنا ؟
بولا تقریباً 60 روپےلگیں گے۔

ہم ساتھ پڑے لکڑی کے بنچ پہ ڈھیر ہو گئے۔ پھر کچھ توقف کے بعد بڑے شاہانہ انداز سے کہا ٹھیک ہے جوڑ دو۔ہم 60 روپیہ دینے کو تیار ہیں-

وہ بولا مجبوری ہے صاحب۔ گاہک کو لاگت پہلے سے بتانا پڑتی ہے۔ آجکل لوگ 10 روپے کےلئے چخ چخ کرتے ہیں۔ میں نے کہا بدقسمتی یہ ہے کہ روپے کی قدر دن بدن بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں چخ چخ بڑھ رہی ہے۔ لیکن فکر نہ کریں۔ حکومت قرض کی تلاش میں نکلی ہوئی ہے۔ کہیں سے کچھ خیرات مل گئی تو دس کا نوٹ سڑکوں پہ رُلتا دکھائی دے گا۔

جلد ہی ہم اچھےدوست بن گئے۔ وہ گزشتہ چالیس سال سے فٹ پاتھ پہ بیٹھا لوگوں کی گھڑیاں درست کر رہا تھا۔ اس کی عمر کی گھڑی ساٹھ بج کر آٹھ سال بتا رہی تھی۔ بال بچوں کے ذکر پر اس کی ٹک ٹک اچانک بند ہو گئی اور وہ ہاتھ میں پکڑی شکستہ گھڑی میں کھو گیا۔

کوئی پندرہ منٹ بعد اس نے مژدہ سنایا کہ حاجی صاحب آپ کی گھڑی درست ہو چکی۔ہم نے گھڑی کو اچھی طرح الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ واقعی درست چل رہی تھی۔ چین بھی ٹھیک ہو چکا تھا اور سرخ رنگ کی سیکنڈوں والی سوئی بھی بگٹٹ بھاگ رہی تھی۔

ہم نے 100 کا نوٹ اس مرشد پیرانہ سال کی نظر گزارا۔ وہ کُھلے کےلئے پریشان ہوا تو کہا رکھ لیجئے۔ آپ شاید جانتے نہ تھے کہ یہ گھڑی کس قدر قیمتی ہے۔ یہ صرف وقت ہی نہیں ، زمانے کی اوقات بھی بتاتی ہے۔

یہ گھڑی آج بھی ہمارے پاس ہے اور بخوبی چل رہی ہے۔ لیکن اسکے بعد نہ تو کسی نے اس کی بابت دریافت کیا نہ ہی کبھی وقت پوچھا۔ شاید اس لئے کہ اب یہ ٹھیک ہو چکی ہے اور لوگ صرف بری گھڑی پر نظر رکھتے ہیں۔

۔۔

از ظفر اعوان
 

رباب واسطی

محفلین
کچھ ہی روز میں اس بات کا چرچا ہوا اور آس پڑوس، دوست دشمن، حاسد راشک سب جان گئے کہ اس بزرگ کی گھڑی گرتی ہے۔ بدخواہ ہم سے مصافحہ کی تاک میں رہتے کہ گھڑی گرے اور تماشا دیکھیں اور خیر خواہ اوٹ پٹانگ مشورے دیتے۔ کوئی کہتا صاحب پریشانی کاہے کی ؟ کوئی اچھا وکیل کیجئے اور سیکو فائیو پہ ہرجانہ کر دیجئے۔ کوئی چھوڑتا کہ رام سوامی میں ایک نوے سالہ حکیم ہیں جو دائمی قبض کا بہترین علاج کرتے ہیں، گھڑی وہاں لے جائیے۔

آپ شاید جانتے نہ تھے کہ یہ گھڑی کس قدر قیمتی ہے۔ یہ صرف وقت ہی نہیں ، زمانے کی اوقات بھی بتاتی ہے

لاجواب عبدالقیوم چوہدری صاحب
بہت اعلیٰ
 
صدر بازار کے فٹ پاتھ پہ آوارہ گھومتے ہوئے ہمیں سیاہ ڈائل ایک گھڑی پسند آ گئی جس کی سوئیاں سنہری تھیں۔ گھڑی فروش نے ریٹ لگایا دو سو پچاس روپے۔

ہم نے کہا غضب خدا کا ابھی تو آپ ایک سو بیس ایک سو بیس پکار رہے تھے، سیٹھ کو دیکھتے ہی ریٹ چڑھا لیا ۔۔۔۔ ؟؟

وہ بولا ، ماڑا باقی والا سب ایک سو بیس کا ہے، قسم لے لو، یہ والا 2 سو پچاس سے کم نئیں بیچتا۔

لیکن ہم نے صاف کہہ دیا کہ 2 سو سے اوپر ایک آنہ نہ دیں گے۔ وہ نہ مانا تو ہم چل دئیے۔ اس نے آواز لگائی تو مُڑ کر کہا صرف دو سو روپے۔

بالاخر اس کی مسلسل پکار اور ہماری مسلسل تکرار کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ وہ مجبور ہوا اور ہماری ضد کے آگے ہتھیار ڈال گیا، ہم 200 روپے میں گھڑی لیکر یوں شادمان لوٹے گویا قومی خزانہ لوٹ لیا ہو۔

اگلے روز ہم آستینیں چڑھا کے دفتر پہنچے۔ مقصود تھا کہ زیب و زینت عیاں ہو، خیر اندیشوں کو اچھی گھڑی کی نوید ہو اور بدگمانوں کےلئے یہ محشر کی گھڑی ثابت ہو۔

دو روز تک کسی نے نوٹس نہ لیا۔ تیسرے دن ایک حاسد کی نظر پڑ ہی گئی۔ کہاں سے لی ؟ کتنے میں لی ؟ کیوں لی جیسے لایعنی سوالات کے بعد وہ کوئلہ صِفت گھڑی ٹٹولتے ہوئے بولا اس کی سیکنڈوں والی سوئی تو اندر گری پڑی ہے اور وقت بھی نصف گھنٹہ پیچھے ہے۔

ہم نے خود پہ قابو رکھتے ہوئے اس جھٹکے کو برداشت کیا۔ پھر کسی عظیم دانشور کی طرح اس کی جاہلیت پہ نفرین کرتے ہوئے بتایا کہ نئی گھڑیوں میں اب فضول سوئیاں نہیں لگائی جاتیں۔ کمپنی سائیڈ پہ رکھ چھوڑتی ہے۔ چوبیس گھنٹے مُفت کی ٹک ٹک کون سُنے۔ رہی پیچھے رہنے کی بات تو دانشور قوم کے پیچھے ہی چلتے ہیں تاکہ قومی غلطیوں کو نوٹ کرتے رہیں۔

خیر جب وہ حاسد چلا گیا تو قدرے پریشانی ہوئی کہ گھڑی خریدتے وقت کیوں خیال نہ کیا۔ بس صورت دیکھی اور مر مٹے۔ گویا گھڑی نہ ہوئی کُڑی ہو گئی۔ اب گھڑی ساز مفت کے پیسے بٹورے گا۔ پھر خود کو اطمینان دلایا کہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ، موبائل سے وقت دیکھ لیا کریں گے اور سوئی اندر ہی تو پڑی ہے، کسی بھی وقت لگوا لیں گے۔

لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ اگلے ہی روز گھڑی کا چین سلپ ہوا، وہ زمین پہ گری اور خود ہی کھُل گئی۔ شیشہ الگ، مشین الگ، اور چین الگ۔ افراتفری میں مال اسباب سمیٹا اور جیب میں ڈال کر کھسک لئے۔ گھڑی تو خدا خدا کر کے جوڑ لی مگر سیکنڈوں والی سوئی نہ مل سکی۔ شاید موقع غنیمت جان کے فرار ہو گئی۔ خیر ویسے بھی اس کا کوئی خاص فائدہ نہ تھا۔

لیکن مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ اب گھڑی آئے روز گرنے لگی۔ اگلے روز بھرے بازار میں چہل قدمی فرما رہے تھے کہ اچانک ہی گر گئی۔ ہم لحظہ بھر کو جھُکے تو پیچھے چلنے والا ایک مخبوط الحواس بری طرح ہم سے ٹکرایا۔ ہم آگے کی طرف گرے اور وہ توازن کھو کر فٹ پاتھ پہ بیٹھے ہوئے فقیر کو لیتا ہوا چنے کی ریڑھی میں جا گھُسا۔

یوں بازار میں "افراتفریح" پیدا ہوئی- آس پاس کھڑے لوگ متوجہ ہوئے کہ شاید بلوہ ہوا ہے۔ کچھ سنجیدہ طبیعت ہماری مدد کو لپکے کہ شاید ہارٹ اٹیک کا کیس ہے۔ کچھ مسخروں نے تالیاں بجائیں۔ ایک بولا وہ دیکھو انکل کی گھڑی چین تُڑا کے بھاگی۔ دوسرا بولا چاچا چوٹ تو نہیں آئی، گھڑی کو ؟

ہم اس واہی تباہی سے بے نیاز گھڑی کے بقیہ جات جمع کرتے رہے۔ اگر آپ عامۃ الناس کی ہر بات کو سنجیدگی سے لیں گے تو آپ کا حشر مرزا کی سائیکل جیسا ہو گا جسے پطرس بخاری مرحوم نے نہر والے پُل سے نیچے گرایا تھا۔ دنیا بھلا کس کو بخشتی ہے۔

کچھ ہی روز میں اس بات کا چرچا ہوا اور آس پڑوس، دوست دشمن، حاسد راشک سب جان گئے کہ اس بزرگ کی گھڑی گرتی ہے۔ بدخواہ ہم سے مصافحہ کی تاک میں رہتے کہ گھڑی گرے اور تماشا دیکھیں اور خیر خواہ اوٹ پٹانگ مشورے دیتے۔ کوئی کہتا صاحب پریشانی کاہے کی ؟ کوئی اچھا وکیل کیجئے اور سیکو فائیو پہ ہرجانہ کر دیجئے۔ کوئی چھوڑتا کہ رام سوامی میں ایک نوے سالہ حکیم ہیں جو دائمی قبض کا بہترین علاج کرتے ہیں، گھڑی وہاں لے جائیے۔

کبھی کوئی جان پہچان والا غیر منطقی قسم کا سوال کرتا۔
" انکل ٹائم کیا ہوا ہے ؟ "
حاسد کے جزبات بھڑکانے کو ہم بھی بازو لہرا کے آستین چڑھاتے، کچھ دیر گھڑی کو گھما پھرا کرکہتے بیٹا جی وہی جو کل اس وقت ہوا تھا۔

بالاخر ایک روز ہماری برداشت جواب دے گئی۔ غیرت کی چادر اوڑھ کر کسی اچھے گھڑی ساز کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ صدر میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا لیکن اتفاق دیکھئے کہ ریگل چوک سے صدر دواخانہ تک گھڑی ساز کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حالانکہ جن دنوں ہمارے پاس گھڑی نہ تھی، قدم قدم پہ گھڑیالی اونگھتے دکھائی دیتے تھے۔

جب خوب تھک ماند گئے تو لکی اسٹار چورنگی کی طرف چل دئیے کہ شاید کوئی واقف کار مل جائے تو کوئٹہ ہوٹل کی چائے پلادے۔ جماعت خانہ بوہری سے کچھ آگے فٹ پاتھ پہ ایک پیر مرد دکھائی پڑا جو حرکات و سکنات سے گھڑی ساز لگتا تھا۔ فوراً اس کی طرف لپکے۔ قریب جا کر بڑے احترام سے پُوچھا۔۔۔
" حضرت آپ گھڑیاں مرمت کرتے ہیں ؟ "

اس پیر مرد نے شاید ہماری بات کا برا منا لیا۔ داہنی آنکھ پہ چڑھا کھوپا اتار کے بولا نہیں میں چمڑے کے سکّے بنا کر سبزی منڈی میں بیچتا ہوں۔ آپ کو کیا کام ہے ؟؟

ہم نے فوراً جیب سے گھڑی نکالی اور بڑی لاچارگی سے کہا۔۔۔۔
اسے درست کر دیجئے۔ اس نے معاشرے میں ہمارا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ وقت سے کوسوں پیچھے رہتی ہے ، سیکنڈوں والی سوئی غائب ہے، بار بار رکتی ہے، آئے روز گرتی ہے۔

اس نے گھڑی ہمارے ہاتھ سے لی اور تفصیلی معائنہ کرنے لگا- کچھ دیر کی عرق ریزی کے بعد بولا:
اس پر ٹھیک ٹھاک خرچہ آئے گا۔
ہم نے چونکتے ہوئے پوچھا کتنا ؟
بولا تقریباً 60 روپےلگیں گے۔

ہم ساتھ پڑے لکڑی کے بنچ پہ ڈھیر ہو گئے۔ پھر کچھ توقف کے بعد بڑے شاہانہ انداز سے کہا ٹھیک ہے جوڑ دو۔ہم 60 روپیہ دینے کو تیار ہیں-

وہ بولا مجبوری ہے صاحب۔ گاہک کو لاگت پہلے سے بتانا پڑتی ہے۔ آجکل لوگ 10 روپے کےلئے چخ چخ کرتے ہیں۔ میں نے کہا بدقسمتی یہ ہے کہ روپے کی قدر دن بدن بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں چخ چخ بڑھ رہی ہے۔ لیکن فکر نہ کریں۔ حکومت قرض کی تلاش میں نکلی ہوئی ہے۔ کہیں سے کچھ خیرات مل گئی تو دس کا نوٹ سڑکوں پہ رُلتا دکھائی دے گا۔

جلد ہی ہم اچھےدوست بن گئے۔ وہ گزشتہ چالیس سال سے فٹ پاتھ پہ بیٹھا لوگوں کی گھڑیاں درست کر رہا تھا۔ اس کی عمر کی گھڑی ساٹھ بج کر آٹھ سال بتا رہی تھی۔ بال بچوں کے ذکر پر اس کی ٹک ٹک اچانک بند ہو گئی اور وہ ہاتھ میں پکڑی شکستہ گھڑی میں کھو گیا۔

کوئی پندرہ منٹ بعد اس نے مژدہ سنایا کہ حاجی صاحب آپ کی گھڑی درست ہو چکی۔ہم نے گھڑی کو اچھی طرح الٹ پلٹ کر دیکھا۔ وہ واقعی درست چل رہی تھی۔ چین بھی ٹھیک ہو چکا تھا اور سرخ رنگ کی سیکنڈوں والی سوئی بھی بگٹٹ بھاگ رہی تھی۔

ہم نے 100 کا نوٹ اس مرشد پیرانہ سال کی نظر گزارا۔ وہ کُھلے کےلئے پریشان ہوا تو کہا رکھ لیجئے۔ آپ شاید جانتے نہ تھے کہ یہ گھڑی کس قدر قیمتی ہے۔ یہ صرف وقت ہی نہیں ، زمانے کی اوقات بھی بتاتی ہے۔

یہ گھڑی آج بھی ہمارے پاس ہے اور بخوبی چل رہی ہے۔ لیکن اسکے بعد نہ تو کسی نے اس کی بابت دریافت کیا نہ ہی کبھی وقت پوچھا۔ شاید اس لئے کہ اب یہ ٹھیک ہو چکی ہے اور لوگ صرف بری گھڑی پر نظر رکھتے ہیں۔

۔۔

از ظفر اعوان
بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔
 
Top