بر صغیر میں علم حدیث پر تحریک استشراق کے اثرات : چوتھی قسط

استشراقی فکر کی وباء سے پر صغیر کے ایسے اہل علم بھی متاثر ہوئے کہ جنہیں بلا شبہ مخلصین کی صف میں شامی کیا جا سکتا ہے مولانا حمید الدین فراہی ، مولانا امین احسن اصلاحی اور سید ابو اعلی مودودی مرحوم کا نام نامی ان شخصیات میں لیا جا سکتا ہے ..
یہاں کچھ حوالے ڈاکٹر ابو عدنان سہیل کی کتاب سے پیش کیے جاتے ہیں
مولانا فراہی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول وفعل کے ذریعے سے قرآن مجید کے مدعا میں کسی قسم کا کوئی تغیر پیدا نہیں کرتے، بلکہ آپ کے تمام استنباطات اور اجتہادات قرآن ہی پر مبنی اور اسی کے تحت ہوتے ہیں، اس وجہ سے انھوں نے رجم کی سزا کا ماخذ قرآن مجید ہی میں متعین کرنے کی کوشش کی اور یہ رائے ظاہر کی کہ رجم کی سزا آیت محاربہ پر مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے (جس کی ایک صورت مولانا کی رائے میں ’رجم‘ بھی ہے)،
یہ اس بحث کا اصل علمی پس منظر ہے۔ جہاں تک آیت محاربہ کو رجم کی سزا کا ماخذ قرار دینے کا تعلق ہے تو اس رائے پر یقیناًبہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن میں دو سوال بنیادی نوعیت کے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا آیت محاربہ اپنے الفاظ، سیاق وسباق اور علت کی رو سے رجم کا ماخذ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کیا رجم سے متعلق احادیث اور روایات اس توجیہہ کو قبول کرتی ہیں؟
مولانا فراہی کی مذکورہ رائے کو صاحب’’ تدبر قرآن‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی نے زیا دہ وضاحت کے ساتھ موضوع بحث بنایا تو فطری طور پر علمی حلقوں میں ایک بحث پیدا ہو گئی اور طرفین سے مباحثہ واستدلال کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی تناظر میں فراہی اسکول کے معروف عالم مولانا عنایت اللہ سبحانی نے ’’حقیقت رجم‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں انھوں نے مولانا فراہی کے نقطۂ نظر کے حق میں دلائل وشواہد پیش کیے۔ ’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘ کے عنوان سے زیر نظر کتاب ڈاکٹر ابو عدنان سہیل صاحب نے مولانا سبحانی کی اسی تصنیف کے جواب میں لکھی ہے۔ (25)
’’انکار رجم: ایک فکری گمراہی‘‘

یہاں دو مثالوں پر اکتفا کرونگا کہ جن میں سید مودودی رح جیسی شخصیت نے مدار اپنی عقل اور علم کو بنایا اور سند حدیث کو ثانوی حیثت دی ........
کچھ احادیث پر وارد اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے مولانا مودودی نے لکھا کہ :
” ان مختلف احادیث میں سے کسی میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیویوں کی تعداد ٦٠ ، کسی میں ٧٠، کسی میں ٩٠ ، کسی میں ٩٩ اور کسی میں ١٠٠ بیان کی گئی ہیں. اور سب کی سندیں مختلف ہیں . اتنی مختلف سندوں سے جو بات محدثین کو پہنچی ہو ، اسکے متعلق یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ بالکل بے اصل ہوگی ، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کو سمجھنے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے کوئی غلطی ہوئی ہے یا وہ پوری بات سن نہیں سکے ہوں ، ممکن ہے حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہو حضرت سلیمان علیہ السلام کی بہت سی بیویاں تھیں جنکی تعداد یہودی ٦٠، ٧٠، ٩٠، ٩٩ اور ١٠٠ تک بیان کرتے ہیں اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے سمجھا ہو کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بیان ہے. اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے قول کی اس طرح بیان کیا ہو کہ ” میں اپنی بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی سے ایک مجاہد پیدا ہوگا ” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ یہ سمجھے ہوں کہ ” ایک رات میں جاؤں گا ” اس طرح کی غلط فہمیوں کی مثالیں متعدد روایات میں ملتی ہیں جن میں سے باق کو دوسری روایتوں میں ایسا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں اور اس طرح کی چند مثالوں کو لیکر پورے ذخیرہ احادیث کو ساقط الاعتبار قرار دینا کسی معقول آدمی کا کام نہیں ہو سکتا. رہا انشا الله کا معاملہ ، تو یہ کسی روایت میں بھی نہیں کہا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جن بوجھ کر انشا الله کہنے سے احتراز کیا تھا . اس لئے اس میں توہین انبیا کا کوئی پہلو نہیں ہے. ” کسی نے کہا ، انشا الله بھی ساتھ کہئے .لیکن آپ نے پرواہ نہ کی ” حدیث میں جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ :
فقال له صاحبه انشاء الله فلم یقل ” انکے ساتھی نے ان سے کہا ، انشاء الله مگر انہوں نے نہ کہا ” اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے منہ سے یہ بات نکلی تو پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے خود کہا ” انشاء اللہ ” اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے کہ دینے کو کافی سمجھ لیا اور اپنی زبان سے اس کا اعادہ نہ کیا(26).
( رسائل و مسائل – جلد دوئم -صفحہ ٢٧-٢٨ )
سوال: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعۂ ہجرت جب کہ ان کی بیوی ان کے ساتھ تھی اور ایک ظالم بادشاہ نے بد فعلی کا ارادہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس ظالم کو اپنی قدرت قاہرہ کے ساتھ اس ارادہ سے باز رکھا۔ آپ نے یہاں بھی اختلاف کیا ہے اور اس واقعہ کو لغو قرار دیا ہے۔

جواب: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ کے مسئلے پر میں نے دو جگہ بحث کی ہے۔ ایک ’’رسائل و مسائل حصہ دوم‘‘ صفحہ ۳۵ تا ۳۹۔ دوسرے تفہیم القرآن، بسلسلہ تفسیر سورہ انبیا، حاشیہ نمبر ۶۰۔ ان دونوں مقامات پر میں نے وہ دلائل بھی بیان کر دئے ہیں جن کی بنا پر میں اس روایت کے مضمون کی صحت تسلیم کرنے میں متامل ہوں۔ اگر میرے ان دلائل کو دیکھ کر آپ کا اطمینان ہو جائے تو اچھا ہے، اور نہ ہو تو جو کچھ آپ صحیح سمجھتے ہیں، اس کو صحیح سمجھتے رہیں۔ اس طرح کے معاملات میں اگر اختلاف رہ جائے تو آخر مضائقہ کیا ہے۔ آپ کے نزدیک حدیث کا مضمون اس لئے قابل قبول ہے کہ وہ قابل اعتماد سندوں سے نقل ہوئی ہے اور بخاری، مسلم، نسائی اور متعدد دوسرے اکابر محدثین نے اسے نقل کیا ہے۔ میرے نزدیک وہ اس لئے قابل قبول نہیں ہے کہ اس میں ایک نبی کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے، اور یہ کوئی ایسی معمولی بات نہیں ہے کہ چند راویوں کی روایت پر اسے قبول کر لیا جائے۔ اس معاملہ میں، میں اس حد تک نہیں جاتا جہاں تک امام رازیؒ گئے۔ وہ تو کہتے ہیں کہ ’’انبیاء کی طرف جھوٹ کو منسوب کرنے سے بدرجہا بہتر یہ ہے کہ اس روایت کے راویوں کی طرف اسے منسوب کیا جائے‘‘۔ (تفسیر کبیر، جلد ۶، صفحہ ۱۱۳) اور یہ کہ ’’نبی اور راوی میں سے کسی ایک کی طرف جھوٹ منسوب کرنا پڑ جائے تو ضروری ہے کہ وہ نبی کی بجائے راوی کی طرف منسوب کیا جائے‘‘۔ (تفسیر کبیر، جلد ۷، صفحہ ۱۴۵) مگر میں اس روایت کے ثقہ راویوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے جھوٹی روایت نقل کی ہے، بلکہ صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی نہ کسی مرحلے پر اس کو نقل کرنے میں کسی راوی سے بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے۔ اس لئے اسے نبی ﷺ کا قول قرار دینا مناسب نہیں ہے۔ محض سند کے اعتماد پر ایک ایسے مضمون کو آنکھیں بند کرکے ہم کیسے مان لیں جس کی زد انبیا علیہم السلام کے اعتماد پر پڑتی ہے؟

میں ان دلائل سے بے خبر نہیں ہوں جو اس روایت کی حمایت میں اکابر محدثین نے پیش کئے ہیں، مگر میں نے ان کو تشفی بخش نہیں پایا ہے۔ جہاں تک فعلہ کبیرھم ھذا اور انی سقیم کا تعلق ہے، ان دونوں کے متعلق تو تمام مفسرین و محدثین اس پر متفق ہیں کہ یہ حقیقتاً جھوٹ کی تعریف میں نہیں آتے۔ آپ تفسیر کی جس کتاب میں چاہیں، ان آیات کی تفسیر نکال کر دیکھ لیں اور ابن حجر، عینی، قسطلانی وغیرہ شارحین حدیث کی شرحیں بھی ملاحظہ فرما لیں۔ کسی نے بھی یہ نہیں مانا ہے کہ یہ دونوں قول فی الواقع جھوٹ تھے۔ رہا بیوی کو بہن قرار دینے کا معاملہ تو یہ ایسی بے ڈھب بات ہے کہ اسے بنانے کے لئے محدثین نے جتنی کوششیں بھی کی ہیں، وہ ناکام ہوئی ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے اس بحث کو جانے دیجئے کہ جس وقت کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے، اس وقت حضرت سارہ کی عمر کم از کم ۶۵ برس تھی اور اس عمر کی خاتون پر کوئی شخص فریفتہ نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بادشاہ حضرت سارہ کو حاصل کرنے کے درپے ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آخر کس مصلحت سے کہا کہ یہ میری بہن ہیں؟ اس صورت حال میں بیوی کو بہن کہہ کر آخر کیا فائدہ ہوسکتا تھا؟ شارحین حدیث نے اس سوال کے جو جوابات دئے ہیں، ذرا ملاحظہ ہوں:

۱۔ اس بادشاہ کے دین میں یہ بات تھی کہ صرف شوہر والی عورتوں ہی سے تعرض کیا جائے، اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیوی کو بہن اس امید پر کہا کہ وہ حضرت سارہ کو بے شوہرعورت سمجھ کر چھوڑ دے گا۔

۲۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیوی کو بہن اس لئے کہا کہ بادشاہ عورت کو چھوڑنے والا تو ہے نہیں، اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس کا شوہر ہوں تو جان بھی جائے گی اور بیوی بھی، اور اگر بہن کہوں گا تو صرف بیوی ہی جائے گی، جان بچ جائے گی۔

۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اندیشہ ہوا کہ سارہ کو بیوی بتائیں گے تو یہ بادشاہ مجھ سے زبردستی طلاق دلوائے گا، اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ میری بہن ہے۔

۴۔ اس بادشاہ کے دین میں یہ بات تھی کہ بھائی اپنی بہن کا سوہر ہونے کے لئے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ حقدار ہے، اس لئے انہوں نے بیوی کو بہن اس امید پر بتایا کہ یہ سارہ کو میرے لئے ہی چھوڑ دے گا۔ (27)
خدارا غور کیجئے کہ ان توجیہات نے بات بنائی ہے یا بگاڑ دی ہے؟ آخر کس تاریخ سے یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ دنیا میں کوئی دین ایسا بھی گزرا ہے جس میں بے شوہر عورت کو چھوڑ کر صرف شوہر دار عورت ہی سے تعرض کرنے کا قاعدہ مقرر ہو؟ اور یہ نبی کی سیرت و شخصیت کا کیسا بلند تصور ہے کہ وہ جان بچانے کے لئے بیوی کی عصمت قربان کرنے پر راضی ہو جائے گا؟ اور یہ کس قدر معقول بات ہے کہ زبردستی طلاق دلوائے جانے کے اندیشہ سے بیوی کو بہن کہہ کر دوسرے کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ بے طلاق ہی اس سے استفادہ کرلے؟ اور یہ کتنی دل لگتی بات ہے کہ بادشاہ بھائی کو تو بہن کا شوہر ہونے کے لئے زیادہ حق دار مان لے گا مگر خود شوہر ہونے کے لئے حق دار نہ مانے گا؟ اس طرح کی لاطائل سخن سازیوں سے ایک مہمل بات کو ٹھیک بٹھانے کی کوشش کرنے سے کیا یہ مان لینا زیادہ بہتر نہیں ہے کہ نبی ﷺ نے ہرگز یہ بات نہ فرمائی ہوگی اور کسی غلط فہمی کی بنا پر یہ قصہ غلط طریقے سے نقل ہو گیا ہے۔

بعض حضرات اس موقع پر یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر اس طرح کے دلائل سے محدثین کی چھانی پھٹکی ہوئی ایک صحیح السند روایت کے مضمون کو مشکوک ٹھہرا دیا جائے تو پھر ساری ہی حدیثیں مشکوک قرار پا جائیں گی۔ لیکن یہ خدشہ اس لئے بے بنیاد ہے کہ متن کی صحت میں شک ہر روایت کے معاملے میں نہیں ہوسکتا، بلکہ صرف کسی ایسی روایت ہی میں ہو سکتا ہے جس میں کوئی بہت ہی نامناسب بات نبی ﷺ کی طرف منسوب ہوئی ہو اور وہ کسی توجیہ سے بھی ٹھیک نہ بیٹھتی ہو۔ اس طرح کی بعض روایتوں کے متن کو مشکوک ٹھہرانے سے آخر ساری روایتیں کیوں مشکوک ہو جائیں گی؟ پھر یہ امر بھی غور طلب ہے کہ جن نامناسب باتوں کی کوئی معقول توجیہ ممکن نہ ہو، ان کا نبی ﷺ کی طرف منسوب ہو جانا زیادہ خطرناک ہے، یا یہ مان لینا کہ محدثین کی چھان پھٹک میں بعض کوتاہیاں رہ گئی ہیں، یا یہ کہ بعض ثقہ راویوں سے بھی نقلِ روایات میں کچھ غلطیاں ہوگئی ہیں؟ بتائیے، ایک صاحب ایمان آدمی ان دونوں باتوں میں سے کس بات کو قبول کرنا زیادہ پسند کرے گا؟(28)
(ترجمان القرآن۔ ربیع الثانی ۱۳۷۵ھ، دسمبر ۱۹۵۵ء)
مقصود مقالہ
پیش نظر مقالے میں ہمار مقصود تھا کہ مستند تاریخی حوالوں سے یہ بات کا جائزہ لیا جائے کہ کس طرح صلیبی فکر کی جانب سے اٹھائی گئی تحریک استشراق کو ماضی قریب میں عالمی استعمار کی حمیت اور تائید حاصل ہوئی اور کس انداز میں مغربی مستشرقین نے بر صغیر کے اہل علم کو اپنی استشراقی فکر سے متاثر کیا اور انہوں نے وہ ارادی و غیر ارادی طور پر وہ تمام امور اپناتے گئے کہ جن کی وجہ سے ایک امت اسلامی ماخذات کی بابت غلط فہمیوں کا شکار رہی .
سفارشات
دور جدید میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ استعمار اور استشراق کے تعلق کو واضح انداز میں بیان کیا جاوے اور علوم اسلامی کے حوالے سے انکے اعتراضات کو سامنے رکھ کر جدید انداز میں تحقیقی کام کیا جائے اہل علم کی ایک جماعت جمع ہو کہ جو مسلکی جماعتی اور گروہی تعصبات سے بلند ہوکر خالص تحقیقی انداز میں مستشرقین کے ان اعتراضات کے حوالے سے بات کرے کہ جنہیں دور جدید " قرانیوں " یا مستغربین نے من و عن حاصل کیا اور انکی نشرو اشاعت کا کام کر رہے ہیں .


کتابیات
1) (سیرۃ المصطفیٰ۱۱۶:۱، بحوالہ سیرت ابن ہشام(
2) " مقالات سرسید، صفحہ 41"
3) ہمارے ہندوستانی مسلماناز ولیم ولسن ہنٹر، آئی سی ایس آفیسر بنگال، مترجم ڈاکٹر صادق حسین، دفتر اقبال اکیڈیمی، ظفر منزل، تاج پورہ، لاہور ۱۹۴۴ء، صفحہ: ۲۳۴ و ۲۳۵
4) )نثار احمد ، ڈاکٹر ، مستشرقین اور مطالعہ سیرت ، نقوش ادارہ فروغ اردو ، لاہور،۱۹۸۵ء ، ۱۱/ ۴۹۴۔(
5) )اکر م ،ڈاکٹر محمد ، استشراق ، ص ۵۶۷ ،تکملہ دائرہ معارف اسلامیہ ،شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور،۲۰۰۲ء،مادہ شرق۔ (
6) (Asish Nandy: The Entimate Enemy. Oxford Delhi, Eight Impression 1994 , P.34)
7) بحوالہ: ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘ اسلام آباد۔ اپریل ۲۰۰۹ء
8) (Masks of Conquest by Gauri ViswanathanPublished by Faber & Faber, London, U.K. (1990))
9) (Muslims and Missionaries in Pre-mutiny India. Front Cover. Avril Ann Powell. Psychology Press, 1993 - Religion - 339 pages)
10) [مقالات گارسن وتاسی ۔ مقالہ ١٩٧٤ مترجمہ پروفیسر عزیز احمد صاحب شعبہ انگریزی جامعہ عثمانیہ] بحوالہ تراشے مولانا مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم
11) (تفصیلی حالات ملاحظہ کیجئے، موسوعۃ المستشرقین، تالیف عبدالرحمن بدوی)
12) (نظریہ عامۃ فی تاریخ الفقہ لعلی حسن عبدالقادر: ۱۲۶)
13) (مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامی، بحوث مجمعیۃ السنۃ النبویۃ فی العصر: ۸/۱۴۷۴)
14) (مسلم، باب سفرالمرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ، حدیث نمبر:۲۳۸۳)
15) (السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی:۱۹۲)
16) پاکستان میں مرزائیت صفحہ 25 تا 27 از مرتضیٰ احمد خان مکیش
17) The Life of Muhammad,William muir,Smith Elder &Co London,1861,p34.
18) ۔قادری، عبدالغنی، پروفیسر، ریاض الحدیث، لاہور، ۱۹۶۹ئ، ص۱۵۹
19) ۔ٹونکی، ولی حسن، مفتی ، عظیم فتنہ، کراچی، اقراء روضۃ الاطفال، ناظم آباد، ۱۹۸۴ء ص۲۶
20) ۔محمد عاشق الٰہی، مفتی، فتنہ انکار حدیث اور اس کا پس منظر، لاہور ادارہ اسلامیات، ۱۹۸۶ء ص۷
21) (ضمیمہ نزولِ مسیح:۳۰)
22) عثمانی، محمد تقی، مولانا، درس ترمذی، کراچی مکتبہ دارالعلوم کراچی، ۱۹۸۰ء ص۲۶
23) مودودی، ابوالاعلیٰ، مولانا، سنت کی آئینی حیثیت، لاہور اسلامک پبلیکیشنز، ۱۹۶۳ء ص۱۶
24) پانی پتی، محمد اسماعیل، مقالات سرسید، لاہور مجلس ترقی ادب، ج۱۳، ص۱۷
25) مصنف : ڈاکٹر ابوعدنان سہیل :ضخامت : ۱۲۸ ناشر : مکتبۂ قدوسیہ، رحمان مارکیٹ، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہور
26) ( رسائل و مسائل – جلد دوئم -صفحہ ٢٧-٢٨ )
27) (فتح الباری، جلد ۶، صفحہ ۲۴۷۔ عینی جلد ۱۵، صفحہ ۲۴۹۔ قسطلانی جلد ۵، صفحہ ۲۸۰)
28) (ترجمان القرآن۔ ربیع الثانی ۱۳۷۵ھ، دسمبر ۱۹۵۵ء)


 

ابن جمال

محفلین
مضمون میں کوئی جان نہیں ہے، یہ بات کسی بھی طرح سے ثابت نہیں کی گئی مولانا فراہی یامولانامودودی پر استشراقی تحریک کے اثرات تھے، یہ سب جانتے ہیں کہ یہ حضرات فکر ونظر کے بعض گوشوں میں منفرد تھے لیکن اس انفرادیت یاشاذ کو استشراقی تحریک وفکر سے متاثرماننے کے لائق دلائل مضمون نگار پیش نہیں کرسکے۔علماء قدیم ہوں یاجدید ہرایک کچھ نہ کچھ انفرادی رائے رکھتاہے، یااپنی ذاتی تحقیق کی وجہ سے اس کاخیال دوسروں سے مختلف ہوتاہے،اس کا یہ معنی نہیں کہ استشراقی تحریک کا پرتو ان کی فکر پر پڑاہے۔
 
مضمون میں کوئی جان نہیں ہے، یہ بات کسی بھی طرح سے ثابت نہیں کی گئی مولانا فراہی یامولانامودودی پر استشراقی تحریک کے اثرات تھے، یہ سب جانتے ہیں کہ یہ حضرات فکر ونظر کے بعض گوشوں میں منفرد تھے لیکن اس انفرادیت یاشاذ کو استشراقی تحریک وفکر سے متاثرماننے کے لائق دلائل مضمون نگار پیش نہیں کرسکے۔علماء قدیم ہوں یاجدید ہرایک کچھ نہ کچھ انفرادی رائے رکھتاہے، یااپنی ذاتی تحقیق کی وجہ سے اس کاخیال دوسروں سے مختلف ہوتاہے،اس کا یہ معنی نہیں کہ استشراقی تحریک کا پرتو ان کی فکر پر پڑاہے۔
جیساکہ میں نے عرض کی مولانا مودودی رح اور مولانا اصلاحی رح کا شمار مخلصین میں ہوتا ہے یہاں ان اثرات کا تذکرہ نہیں کہ جو براہ راست ہوں بلکہ وہ اثرات جو کسی واسطے سے پہنچیں ...

مولانا فراہی کی قربت سر سید احمد خان سے اور انپر سر سید کے اثرات تاریخ کا حصہ ہیں اور یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ سر سید استشراقی فکر سے شدید متاثر تھے ...

سید مودودی اور مولانا اصلاحی کا تعلق چونکہ براہ راست مولانا فراہی سے رہا اسلئے کہیں نہ کہیں کچھ اثرات ان حضرات کے ہاں دکھائی دیتے جیسا کہ رجم کے حوالے سے ان کا نظریہ یا پھر حروف مقطعات کی بحث وغیرہ ...

اسی طرح تاریخ لکھتے وقت ان حضرات نے متعدد جگہ اسلامی مورخین کی رائے سے ہٹ کر مستشرقین کی آراء کو لیا ہے .
 

ابن جمال

محفلین
مولانا فراہی کی قربت سر سید احمد خان سے اور انپر سر سید کے اثرات تاریخ کا حصہ ہیں

سید مودودی اور مولانا اصلاحی کا تعلق چونکہ براہ راست مولانا فراہی سے رہا
سرسید اگر استشراق سے متاثر تھے تو کیااس کا مطلب یہ ہواکہ ہروہ شخص جو سرسید سے ملاجلا،قریب رہا، سب پر استشراق کااثرپڑگیا، مولانا حمیدالدین فراہی کے بارے میں سید سلیمان ندوی نے لکھاہے کہ ان سے جب سرسید نے اپنی تفسیر کا عربی ترجمہ کرنے کیلئے کہاتوانہوں نے صاف منع کردیا اورکہاکہ گناہ کے کام میں ،میں تعاون نہیں کرسکتا،یہ جواب انہوں نے سرسید کو منہ پر دیاتھاکیاایسی بات کہنے والا سرسید سے متاثر ہوسکتاہے،آپ نے تو محض ایک ہی تلوار سے سب کو شہید کردیا ،ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑازمانے میں
سرسید سے قریب علامہ شبلی بھی تھے،وہ بھی استشراق سے متاثر،
سرسید سے قریب فراہی تھے وہ بھی استشراق سے متاثر
فراہی سے قریب مودودی تھے وہ بھی استشراق سے متاثر،
سرسید سے قریب حالی تھے وہ بھی استشراق سےمتاثر
علامہ سید سلیمان ندوی شبلی سے بہت متاثر تھے،اس لئے وہ بھی استشراق سے متاثر
عبدالماجد دریابادی شبلی سے متاثر تھے،اس لئے وہ بھی استشراق سے متاثر
سرسیداورمولانا قاسم ناناتوی طالب علمی کے زمانہ میں رفیق تھے کسی حد تک وہ بھی استشراق سے متاثر
یادش بخیر میاں نذیرحسین صاحب بھی سرسید کے ملنے جلنے والوںمیں سے تھے بلکہ بقول سرسید انہوں ہی انہوں نے وہابی بنایاتھاتو وہ بھی استشراق سے متاثر ۔
سرسید سے مولاناابوالکلام آزاد بہت متاثر تھے جیساکہ انہوں نے اپنی خود نوشت میں اعتراف کیاہے ،لہذا وہ بھی استشراق سے متاثر ،اگراس طرح کی فہرست سازی بغیر کسی دلیل اور قاعدہ وضابطہ کے ہوگی تو برصغیر کے تمام عالم کو استشراق سے متاثر قراردیاجاسکتاہے۔
اولاتو یہ بتاناچاہئے کہ استشراق سےمتاثر ہونے کے اور اپنی ذاتی رائے اورشاذ خیال رکھنے کے حدود کیاہیں
پھر اس کی تصنیفات سے دلائل دینے چاہئے، قریبی اورمعاصر علماء کی شہادت پیش کرنی چاہئے اورپھر کوئی نتیجہ اخذ کرناچاہئے،لیکن یہ سب کچھ نہیں، بس فلاں فلاں کا قریبی تھا،اس کے ساتھ رہاتھا،اس لئے وہ بھی فلاں جیساہے۔
کسی مضمون پر لکھنے سے پہلے اچھاخاصا اورموضوع کے تمام اطراف کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔امید ہے کہ آئندہ اس پر توجہ دیں گے۔
 
سرسید اگر استشراق سے متاثر تھے تو کیااس کا مطلب یہ ہواکہ ہروہ شخص جو سرسید سے ملاجلا،قریب رہا، سب پر استشراق کااثرپڑگیا، مولانا حمیدالدین فراہی کے بارے میں سید سلیمان ندوی نے لکھاہے کہ ان سے جب سرسید نے اپنی تفسیر کا عربی ترجمہ کرنے کیلئے کہاتوانہوں نے صاف منع کردیا اورکہاکہ گناہ کے کام میں ،میں تعاون نہیں کرسکتا،یہ جواب انہوں نے سرسید کو منہ پر دیاتھاکیاایسی بات کہنے والا سرسید سے متاثر ہوسکتاہے،آپ نے تو محض ایک ہی تلوار سے سب کو شہید کردیا ،ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑازمانے میں
سرسید سے قریب علامہ شبلی بھی تھے،وہ بھی استشراق سے متاثر،
سرسید سے قریب فراہی تھے وہ بھی استشراق سے متاثر
فراہی سے قریب مودودی تھے وہ بھی استشراق سے متاثر،
سرسید سے قریب حالی تھے وہ بھی استشراق سےمتاثر
علامہ سید سلیمان ندوی شبلی سے بہت متاثر تھے،اس لئے وہ بھی استشراق سے متاثر
عبدالماجد دریابادی شبلی سے متاثر تھے،اس لئے وہ بھی استشراق سے متاثر
سرسیداورمولانا قاسم ناناتوی طالب علمی کے زمانہ میں رفیق تھے کسی حد تک وہ بھی استشراق سے متاثر
یادش بخیر میاں نذیرحسین صاحب بھی سرسید کے ملنے جلنے والوںمیں سے تھے بلکہ بقول سرسید انہوں ہی انہوں نے وہابی بنایاتھاتو وہ بھی استشراق سے متاثر ۔
سرسید سے مولاناابوالکلام آزاد بہت متاثر تھے جیساکہ انہوں نے اپنی خود نوشت میں اعتراف کیاہے ،لہذا وہ بھی استشراق سے متاثر ،اگراس طرح کی فہرست سازی بغیر کسی دلیل اور قاعدہ وضابطہ کے ہوگی تو برصغیر کے تمام عالم کو استشراق سے متاثر قراردیاجاسکتاہے۔
اولاتو یہ بتاناچاہئے کہ استشراق سےمتاثر ہونے کے اور اپنی ذاتی رائے اورشاذ خیال رکھنے کے حدود کیاہیں
پھر اس کی تصنیفات سے دلائل دینے چاہئے، قریبی اورمعاصر علماء کی شہادت پیش کرنی چاہئے اورپھر کوئی نتیجہ اخذ کرناچاہئے،لیکن یہ سب کچھ نہیں، بس فلاں فلاں کا قریبی تھا،اس کے ساتھ رہاتھا،اس لئے وہ بھی فلاں جیساہے۔
کسی مضمون پر لکھنے سے پہلے اچھاخاصا اورموضوع کے تمام اطراف کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔امید ہے کہ آئندہ اس پر توجہ دیں گے۔
گو کہ آپ کے سوالات کا تفصیلی جواب ہو سکتا ہے کہ جو ایک مکمل مضمون کا متقاضی ہے لیکن اختصار سے کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں ...

میرا مقدمہ اس بنیاد پر نہیں ہے کہ فلاں شخصیت کا فلاں سے تعلق تھا اسلیے انکی تحریر میں کچھ استشراقی اثرات دکھائی دیے بلکہ میں نے اسے صرف ایک سبب کے طور پر بیان کیا ہے ...

دوسری جانب میرے مقالے میں وہ اعتراضات کہ جو مستشرقین کی تحریر میں موجود ہیں انہیں مستغربین کی تحریر میں دکھایا ہے اب اگر قاری استشراقی اشکالات سے واقف ہو گا تو اسے واضح طور پر معلوم ہو جاوے گا کہ فلاں شخصیت کی تحریر میں موجود اشکال در اصل فلاں مشتشرق کی تحریر میں پہلے سے موجود ہے ...

مثال کے طور پر آپ نے فراہی صاحب کی بات کی تو جناب من احادیث مبارکہ پر جو اعتراض مرحوم نے فرمائے اور جس انداز میں اپنی تحریر میں انہوں نے معجزات وغیرہ کا انکار کیا دراصل وہ مستشرقین سے ہی مستعار تھے دور جدید میں غامدی صاحب انہی افکار کے پرچارک ہیں ...

جرجی زیدان ( ١٨٦١ء – ١٩١٤ء ) کی مشہور کتاب “تمدن اسلام “ کا تعلق بھی ایسی ہی کتابوں میں ہے جسے اس وقت اسلامی دنیا میں بھی بڑی پذیرائی ملی تھی ۔ تاہم علامہ شبلی نعمانی ( ١٨٥٧ء – ١٩١٤ء ) نے اس کی زہر ناکیوں کا پردہ فاش کیا۔ چنانچہ انہوں نے عربی میں ہی “ الانتقاد علی کتاب التمدن الاسلامی “ لکھی جو ١٩١٢ء میں لکھنؤ سے طبع ہوئی ۔ علامہ شبلی کا یہ مقالہ بہت مشہور ہوا تھا اور اسے علمی دنیا میں وقعت کی نظر سے دیکھا گیا تھا ۔بعد ازاں انہوں نے اس کی تلخیص اردو میں کی تھی ...

سید مودودی رح کی کتاب " خلافت و ملوکیت " میں بنو امیہ کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اعتراض خاص طور پر سیاسی ضرورتوں کیلئے جھوٹی احادیث گھڑنے والا اعتراض آپ کو من و عن " تمدن اسلامی " میں مل جاوے گا ...


اسی طرح کی بے شمار دوسری تفصیلات ہیں جنکا تذکرہ طوالت کے خوف سے چھوڑتا ہوں ..

دوسری بات مجھے سید مودودی رح یا ان شخصیت سے کوئی اختلاف نہیں ہے جیسے کہ بار بار عرض کر چکا ہوں یہ حضرت مخلصین میں سے تھے میں نے صرف ان تفردات کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے کہ وہ انکی تصانیف میں کہاں سے ان موجود ہوئے ..
 
Top