بر صغیر کا ہندو مسلم تنازع - ارشاد احمد حقانی کا کالم

سعود الحسن

محفلین
ارشاد احمد حقانی صاحب کا یہ کالم تین قسطوں میں 3، 4 اور 6 جنوری 2009 کو جنگ میں شایع ہوا ، میں آپ کے مطالہ کے لیے یہاں پیش کر رہا ہوں-

"آج میں ایک اہم اور حساس موضوع پر اظہار خیال کرنے والا ہوں :
سیفما کے سیکرٹری جنرل اور میرے عزیز دوست جناب امتیاز عالم کا عرصے تک معمول رہا ہے کہ جب وہ دفتر آتے تو سب سے پہلے میرے کمرے میں تشریف لاتے اور چائے کی پیالی پر گپ شپ ہوتی۔ وہ مجھے کہتے کہ مجھے دفتر آنے میں سب سے بڑی دلچسپی یہی ہوتی ہے کہ آپ کے ساتھ ایک نشست ہو جاتی ہے۔ سالوں پر پھیلی ہوئی ان نشستوں کے دوران کوئی دس بارہ برس پہلے میں نے ان سے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کے حوالے سے میرے ذہن میں ایک تجویز ہے لیکن میں ابھی حالات کو اس قدر سازگار نہیں سمجھتا کہ اس کو لکھ ڈالوں۔ میں نے انہیں اپنی تجویز کے خدوخال بھی بتائے لیکن خوفِ فسادِ خلق سے یہ تجویز اب تک ناگفتنی ہی رہی تھی۔ مگر اب حالات میں کچھ ایسی تبدیلی آئی ہے کہ اس تجویز کو لکھ دینے سے کوئی بڑا طوفان آنے کا اندیشہ نہیں ہے۔

یہ 1966ء کی بات ہے 1965ء کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان میں جو بے چینی پیدا ہوئی وہ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی صورت میں ڈھل چکی تھی۔ انہی دنوں لاہور میں مغربی پاکستان کے چوٹی کے تقریباً تمام سیاستدانوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا اہتمام حسب معمول نوابزادہ نصر اللہ خان نے کیا تھا۔ اس کانفرنس میں ملک کی تازہ ترین صورت حال پر، مشرقی پاکستان کی بے چینی کے پس منظر میں، تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے کانفرنس کے اکابرین کے سامنے اپنا چھ نکاتی کا فارمولا پیش کیا جسے پوری کانفرنس نے اتفاق رائے سے قطعی طور پر مسترد اور ناقابل قبول قرار دیا۔ چوہدری محمد علی سابق وزیراعظم پاکستان اس کانفرنس کے بعد بھی کچھ دیر کے لئے لاہور میں رکے۔ وہ عام طور پر گرمی اور سردی کے حوالے سے معتدل موسم کراچی اور لاہور میں گزارتے تھے۔ یہ دن ان کے لاہور میں ٹھہرنے کے تھے، میں نے ارادہ کیا کہ ان کی زیارت کی جائے، ان دنوں وہ ایک باریش بزرگ بن چکے تھے۔ میرے ساتھ میرے محترم بھائی اور ممتاز صحافی جناب مصطفی صادق بھی چوہدری صاحب سے ملنے گئے۔ راستے میں میں نے مصطفی صادق صاحب کو بتایا کہ آج میرا ارادہ چوہدری صاحب سے ایک تجویز پر گفتگو کرنے کا ہے جس پر تجویز کی نوعیت جان کر مصطفی صادق نے مجھے کہا کہ آپ چوہدری صاحب سے اس موضوع پر بات نہ کریں لیکن میں مشرقی پاکستان کی صورت حال اور پاک ہند تعلقات کی کشیدگی کی وجہ سے اپنی تجویز پر بات کرنے کے لئے بے چین تھا۔ چوہدری صاحب نے اپنی ابتدائی گفتگو میں کہا کہ وہ مشرقی پاکستان کے حالات سے انتہائی پریشان اور متفکر ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ تو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان وجہ نزاع تھا ہی اور اسی کی وجہ سے 1965ء کی جنگ ہوئی تھی۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ اس سیاق و سباق میں کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم ہندوستان سے اپنے تعلقات کو کوئی نئی شکل دینے کی کوشش کریں۔ دوسرے لفظوں میں کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم دونوں ملکوں کے تعلقات کو Reinvent کریں۔ اس کی میں نے ایک عملی شکل بھی تجویز کی جسے سن کر چوہدری صاحب نے فرمایا کہ ایسا کرنے سے پاکستان اپنی موجودہ شکل میں قائم نہیں رہے گا۔ میں نے ان کے احترام کی وجہ سے ان سے مزید بحث نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن تجویز میرے ذہن میں موجود رہی۔ پاکستان میں چونکہ ایک اچھا خاصا حلقہ ہندوستان سے کسی بھی قسم کے ہمہ جہتی اچھے تعلقات رکھنے کا حامی نہیں ہے اس لئے میں نے بھی اس موضوع کو نہ چھیڑنا ہی مناسب سمجھا۔ لیکن اب ادھر کچھ عرصے سے بعض اکابرین قوم اور بعض اہم صحافتی حلقے ہندوستان سے نئے تعلقات کے سوال پر کچھ کچھ غور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 24 مارچ 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہندوستان کے ایک مقبول اور بڑی اشاعت رکھنے والے انگریزی ہفت روزے ”انڈیا ٹو ڈے“ کے جلسے میں شرکت کی تھی جو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ اس موقع پر شہید محترمہ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا پاک ہند تعلقات کو نئے سرے سے ”ایجاد“ کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے انہوں نے Reinvent کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ان ابتدائی کلمات اور ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات اور سارک کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں نے راجیو گاندھی کو تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں سارک کو ایک ثقافتی تنظیم کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی تنظیم بھی بنانا چاہئے۔ اس کے بعد انہوں نے 1999 ء میں ہونے والی انڈ و پاک پارلیمنٹرین کانفرنس کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے شرکت کی تھی اور دونوں ملکوں کے پارلیمانی ممبران کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ پاکستان ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں کو اپنے اختلافات اور آپس کے قضیوں کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے ایک مشترک منڈی قائم کرنی چاہئے تاکہ ہم اپنے خطے سے غربت ، بھوک ، بیروزگاری اور پچھڑے پن کا خاتمہ اپنی نرم سرحدوں کے ذریعے کر سکیں۔
ادھر میاں نواز شریف بھی یہ تجویز دے چکے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ویزہ کی پابندی ختم کر دینی چاہئے۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی میں بھی کہا گیا ہے کہ
Peaceful relations with India and Afghanistan will be pursued without prejudice to outsanding disputes.
اس سے دونوں دستخط کنندگان کی ترجیح کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

اس وقت اگرچہ بدقسمتی سے ممبئی کے المیے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا ایک بہت برا دور چل رہا ہے لیکن پھر بھی غنیمت ہے کہ ان سطور کے تحریر کئے جانے کے وقت کشیدگی میں کمی کے کچھ آثار پیدا ہو رہے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کا وہ عمل پھر شروع کیا جا سکے گا جو اس وقت عارضی طور پر رکا ہوا ہے اور آخرکار دونوں ملک محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے نظریات کے مطابق باہمی تعلقات قائم کر سکیں گے۔ بی بی نے اپنی شہادت سے کئی ماہ پہلے لندن میں کہا تھا کہ وہ جنوبی ایشیا کو ایک Border less خطہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ ہندوستانی وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ جغرافیائی سرحدوں کی موجودگی کے باوجود ہم عملاً انہیں غیرمتعلق بنا سکتے ہیں۔ یوں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان آج کے مقابلے پر بہت زیادہ کھلے اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی خواہش دونوں طرف موجود ہے۔ میں نے جب 1966ء میں چوہدری محمد علی صاحب سے بات کی تھی تو میرے ذہن میں بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات کا خاکہ تھا لیکن چوہدری صاحب کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے میں نے پھر اس موضوع پر کافی دیر کچھ نہ لکھنے کا فیصلہ کیا لیکن اب مذکورہ کوائف کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی نئی طرح ڈالنے کی کوشش کرنا ویسا شجر ممنوعہ نہیں سمجھا جانا چاہئے جیسا کہ بیس تیس سال پہلے تک سمجھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر کراچی کے انگریزی معاصر کی 21 دسمبر کی اشاعت میں ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے ایک مستقل تبصرہ نگار کہتے ہیں :
The passsage of time and a legacy of mistrust and hostility leave no room to think about a loose federation now. But it should still be possible for the governments of India, Pakistan and Bangladesh to form a block or union of the kind that emerged in Europe out of the hostilities of the Second World War. Evolving a common mechanism that diverts their attention and resources form the weapons of war to the poverty of their people could be the first step in that direction.
Pakistan would stand to gain more than the others because as a percentage of national income it spends twice as much on defence than India and also suffers from terrorism much more than India does. In such a collaborative arrangement 470 million Muslims of the subcontinent would count for more than they do at present, spread as they are, almost equally, over three countries.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”وقت گزرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی اور مخالفت اس بات کی گنجائش نہیں چھوڑتے کہ اب دونوں کے درمیان ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن کے سوال پر غور کیا جائے لیکن اس کے باوجود پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے لئے یہ ممکن ہونا چاہئے کہ وہ ایک بلاک یا ایک یونین ان خطوط پر قائم کر لیں جو جنگ عظیم دوئم کی دشمنیوں کے باوجود یورپ میں رونما ہوئی۔ ایسا مشترکہ طریق کار تلاش کرنا جو ان کی توجہ اور وسائل جنگی ہتھیاروں کی بجائے ان کے عوام کی غربت کی طرف مبذول کردے مذکورہ سمت میں ایک پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ اس انتظام سے دوسروں کے مقابلے پر پاکستان کو زیادہ فائدہ ہو گا کیونکہ وہ اپنے دفاع پر اپنی قومی آمدنی کا ہندوستان کے مقابلے پر دگنا استعمال کرتا ہے اور ہندوستان سے بھی بڑھ کر دہشت گردی کا شکار بنا ہوا ہے۔ اس طرح کے تعاون پر مبنی انتظام سے برصغیر کے 470 ملین مسلمان زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گے کیونکہ اس وقت وہ تقریباً مساوی تعداد میں تین ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں“۔

(دوسری قسط)

اب آیئے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھیں ۔ ایک معاصر میں لکھتے ہوئے ایک محترم دوست کہتے ہیں کہ چند ہفتے قبل مارکیٹ میں ایک کتاب آئی ہے جس کا نام ہے ۔
"The Sun Shall Rise"
اور اسے لاہور کے ایک معروف اور قدیم پبلشر نے شائع کیا ہے۔ اس کے مصنف جناب عطا ربانی ہیں جن کا ماضی ان کی حب الوطنی پر دلالت کرتا ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ رائل انڈین ایئرفورس میں شامل ہو گئے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ قائد اعظم کے پہلے ایئرایڈی کانگ مقرر کئے گئے۔ وہ لکھتے ہیں :
”پاکستان بنتے ہی 15 اگست 1947ء کو ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں قائد اعظم نے تین غلطیاں کیں۔ ان کا ایک بیورو کریٹ ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیر خزانہ بنانا پہلی ”غلطی “ تھی۔ اس ”غلطی“ نے آنے والے دنوں میں نوزائیدہ مملکت کو بے انتہا اور لاتعداد نقصانات پہنچائے۔ عطا ربانی کا کہنا ہے کہ حضرت قائد اعظم، غلام محمد کی بجائے نوابزادہ لیاقت علی خان کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ وزارتِ خزانہ کا اضافی قلمدان بھی سونپ سکتے تھے کہ لیاقت علی خان کی امانت و دیانت اور پاکستان سے کمٹمنٹ اظہر من الشمس تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ملک غلام محمد کی بجائے قائد اعظم کسی ایسے سیاستدان کا بھی بطور وزیر خزانہ تقرر کر سکتے تھے جس میں فنانس کے معاملات کو سمجھنے کی اہلیت ہوتی اور جسے سررولینڈز کی نگرانی میں مزید پالش کیا جا سکتا۔ (سر رولینڈز متحدہ ہندوستان میں وائسرائے کونسل کے آخری فنانس ممبر تھے اور قائد اعظم نے پاکستان کے لئے ان کی خدمات عاریتاً لے بھی رکھی تھیں) عطا ربانی کے بقول ملک غلام محمد کو نوزائیدہ پاکستان کا وزیر خزانہ بنایا جانا اس لئے بھی غیرمناسب تھا کہ ایک تو ان کے پاس خزانہ کے معاملات چلانے کا کوئی وسیع تجربہ اور علم نہیں تھا سوائے اس کے کہ انہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران متحدہ ہندوستان کی حکومت میں سپلائی اینڈ پرچیز کے شعبے میں چند سال گزارے تھے اور دوسرا یہ کہ ملک غلام محمد حد سے زیادہ اقتدار کا حریص تھا۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر عہدے کا متمنی رہنے والا، نہایت ضدی بیورو کریٹ اور منتقم مزاج بھی۔ اقتدار کے لئے اس کی حرص کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلد ہی اس غیرمنتخب شخص نے اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کا جال بچھا دیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اپنا راستہ ہموار کرنے لگا۔ یہ اس کی سازشوں ہی کا نتیجہ تھا کہ تھوڑے عرصے میں قائد اعظم کی رحلت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی جگہ ملک غلام محمد بیٹھا تھا۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی بدقسمتی تھی۔ چونکہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو سخت ناپسند تھا اس لئے ناپسندیدہ عناصر سے گلوخلاصی کروانے کے لئے غلام محمد نے نہایت جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ میں اس کے خلاف بغاوت کے شعلے بلند ہونے لگے۔ نوزائیدہ پاکستان جسے قدم قدم پر جمہوری فیصلوں اور مشوروں کی ضرورت تھی وہاں ملک غلام محمد کے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے آمریت کی راہ ہموار ہونے لگی۔ عطا ربانی صاحب کا کہنا ہے کہ غلام محمد نے بلاواسطہ اور بالواسطہ حکومت سازی اور حکومت کے فیصلوں میں بیورو کریسی کو شامل کیا اور آج ہمیں سیاست میں جو آلودگی نظر آ رہی ہے وہ غلام محمد کے فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ غلام محمد ہی کی وجہ سے سول بیورو کریسی کے بعد ملٹری بیورو کریسی نے بھی پر پرزے نکالنا شروع کر دیے جس نے پاکستان کو دولخت بھی کیا اور تین بار ملک فوجی جرنیلوں کے قبضے میں بھی رہا۔

پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ کو نافرمانی کی سزا نہ دینا دوسری ”غلطی“ تھی۔ اکتوبر 47ء کے اواخر میں ہمارے قبائلی سری نگر ایئر پورٹ پر قبضہ کرنے کے قریب تھے۔ آس پاس کا علاقہ بھی ان کے زیر قبضہ تھا۔ ایسے میں قائد اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس گریسی، جنہیں عارضی طور پر پاکستان آرمی کی کمان دی گئی تھی، کو حکم دیا کہ کشمیری مجاہدین اور قبائلیوں کی اعانت کے لئے ایک بریگیڈ فوج کشمیر بھیجی جائے لیکن گریسی نے قائد کے حکم کی تعمیل کے برعکس فیلڈ مارشل آکین لیک سے رابطہ کیا جو ان دنوں بھارتی فوجوں کے سربراہ تھے اور انہیں قائد اعظم کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات کا تقاضا تھا کہ قائد اعظم فوری طور پر گریسی کو سزا دیتے ہوئے عہدے سے الگ کر دیتے اور ان کی جگہ پاکستانی فوج کے کسی سینئر افسر کا تقرر عمل میں آتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سری نگر ایئر پورٹ بھی ہمارے قبائلیوں کی گرفت سے نکل گیا اور کشمیر کی مکمل فتح بھی ادھوری رہ گئی۔ اگر جنرل گریسی کو فوری سزا دے دی جاتی تو نہ بعد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تین ہلاکت خیز جنگیں ہوتیں اور نہ ہی سیاچن اور کارگل ایسی لڑائیوں کے سانحات رونما ہوتے۔ مصنف عطا ربانی نے دعویٰ کیا ہے کہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر نہ صرف جنرل گریسی کو سزا نہ دی جا سکی بلکہ قائد اعظم نے اسے لیفٹیننٹ جنرل سے ترقی دے کر فل جنرل بنا دیا اور پاکستان آرمی کے پہلے باقاعدہ سربراہ ہونے کا اعزاز بھی اسے بخش دیا۔ عطا ربانی کے دعوے کے مطابق، اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا قائد اعظم کی تیسری ”غلطی“ تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اردو بولتی تھی لیکن تقسیم ہند نے معاملات بدل دیئے۔ اب مشرقی پاکستان میں 54 فیصد پاکستانی رہتے تھے جو اردو بولنا ،لکھنا اور پڑھنا کم کم جانتے تھے۔ ان کی زبان بنگالی تھی لیکن قائد اعظم نے مارچ 1948ء کو مشرقی پاکستان پہنچ کر اردو کے قومی زبان ہونے کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ قائد اعظم نے خلوص نیت سے اور یکجہتی کے لئے یہ اعلان کیا تھا لیکن بنگالی پاکستانیوں نے اس فیصلے کو اپنے کلچر، روایات اور اپنی زبان کے خلاف حملہ سمجھا۔ پھر ہنگامے شروع ہو گئے جس میں تین طلبہ بھی ہلاک ہو گئے۔ مصنف کے مطابق اس فیصلے نے پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان حائل 1200 میل کے آبی فاصلوں کو دل کی دوریوں میں بدل دیا۔

بہت سے لوگوں کو جناب عطا ربانی کی رائے سے اختلاف ہو گا لیکن ان کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ اب ایک اور حوالہ دیکھئے بلکہ ایک Shock کے لئے تیار ہو جایئے۔ 25 دسمبر کے ”ڈان“ میں ”ڈان نیوز“ ٹی وی کی ایک تبصرہ نگار مریم چوہدری لکھتی ہیں: (وہ قائد اعظم پر I remember Jinnah کے عنوان سے ڈان ٹی وی پر اپنے پروگرام کئی بار دکھا چکی ہیں)
JINNAH was a puzzle that has yet to be solved. People can tell you the most outrageous stories about the man and swear on it being honest to God truth. Or they can churn him out to be the man they wanted him to be. So who was Muhammad Ali Jinnah? Was he a statesman that fought for the right of a people who he shared a religion with? Was he a man who married for love and then lost his daughter to a land that was home and then became foreign territory? Was he a civilian with the fire of a freedom fighter or a villain with a vendetta?

میں اس اقتباس کا ترجمہ نہیں دوں گا جو خود اسے سمجھ سکتے ہیں سمجھ لیں اور جو نہیں سمجھ سکتے بہتر ہے کہ وہ نہ ہی سمجھیں۔ مریم چوہدری اپنے انگریزی اخبار کے ایک کالم نویس اردشیر کاؤس جی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
Ardeshir Cowasjee, a columnist who met Jinnah, was a slippery one. It was difficult to get him to express his viewpoint on the man that was without a touch of bitterness. Let's just say, whenever the subject of modern-day Pakistan came up, I had to edit a lot of what Mr. Cowasjee had to say since I knew it would not pass censorship.
اس کا ترجمہ بھی نہیں دوں گا۔

(تیسری قسط)

اب آیئے آگے چلیں۔
28 دسمبر کے کراچی کے ایک انگریزی معاصر میں وہی تبصرہ نگار جن کا میں پہلے حوالہ دے چکا ہوں لکھتے ہیں :
Pakistan owes it to the Muslims of India who staked their own future on its creation not to add to their woes. It may be recalled that Partition became inevitable only when Nehru unilaterally retracted after the Congress and Muslim League had both accepted the Cabinet Mission Plan. Jinnah felt betrayed. For him then there was no going back despite lobying by Lord Mountbatten and Maulana Azad.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کی تخلیق کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اس لئے اب ہمیں کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جو ان کے دکھوں میں اضافے کا باعث ہو۔ یاد رہنا چاہئے کہ تقسیم ہند اس وقت ناگزیر ہوئی جب نہرو نے کابینہ مشن پلان کو اس وقت مسترد کر دیا جب مسلم لیگ اور کانگرس دونوں اسے تسلیم کر چکی تھیں۔ اس سے قائد اعظم کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بے وفائی کی گئی ہے۔ اب ان کے لئے اپنے انکار کے فیصلے سے واپس جانا ممکن نہ تھا باوجود اس کے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور مولانا آزاد نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ کابینہ مشن پلان کا استرداد ختم کر دیں“۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ قائد اعظم کابینہ مشن پلان مسترد کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم رہے حالانکہ اگر وہ ماؤنٹ بیٹن اور ابو الکلام کا مشورہ مان لیتے تو کابینہ مشن پلان شاید کسی شکل میں برقرار رہتا اور نہرو نے من مانی کرنے کی جو دھمکی دی تھی، ماؤنٹ بیٹن اور مولانا آزاد کو یقین تھا کہ وہ اس میں نرمی پیدا کرا سکیں گے اور کچھ ردوبدل بھی ممکن ہو سکے گا۔ بہرکیف تقدیر کا لکھا پورا ہوا اور ہم 1947ء کے خون کے دریا سے گزر کر پاکستان آ گئے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں نے کچھ مزید غلطیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو شاید خون کی اس ہولی کو روک سکتی تھیں۔ ہندوستان میں جب عبوری کابینہ بنی تو جناب لیاقت علی خاں کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان تھا۔ چوہدری محمد علی ان کے مشیر تھے۔ اس زمانے میں سردار پٹیل نے اپنی وزارت میں ایک چپڑاسی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ از روئے ضابطہ اس نئی تقرری کا اجازت نامہ وزارت خزانہ نے دینا تھا۔ جب ان کے پاس درخواست پہنچی تو وزارت خزانہ نے جواب دیا کہ اس نئی پوسٹ کے لئے بجٹ میں کوئی تجویز نہیں ہے اس لئے اس تقرر کی منظوری نہیں دی جا سکتی اور سردار پٹیل بہت کھسیانے اور تلخ ہوئے۔ ان کی بات مان لی جاتی تو بے شک مسلمانوں کے اندر وزارت خزانہ کی واہ واہ نہ ہوتی لیکن عبوری کابینہ خوش اسلوبی سے چلنے کے امکانات اتنے زیادہ تاریک نہ ہوتے۔ اسی طرح جب لیاقت علی خان نے پہلا بجٹ پیش کیا تو اس میں انہوں نے ہندو سرمایہ داروں (مسلمان سرمایہ دار تو بہت کم تھے) پر بھاری ٹیکس لگائے جس سے پھر مسلمانوں میں واہ واہ ہوئی (مجھے آج تک مسلمانوں کے ردعمل کی تفصیل یاد ہے) لیکن ظاہر ہے کہ ان بجٹ تجاویز نے ہندو سرمایہ کاروں (اور با ایں وجہ سیاستدانوں) میں بڑی تلخی پیدا کی اور یہ بھی ان عوامل میں سے ایک عامل بن گیا جس نے عبوری حکومت کے تجربے کو تلخ بنا دیا۔ اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگرسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ آج کی پاک ہند قیادت کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور اب بھی کسی قسم کے دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہئے۔ میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ ممتاز پاکستانی سکالر اور موٴرخ ڈاکٹر عائشہ جلال کی بھی یہی رائے ہے جو اسلام آباد سے لندن کے ایک سفر کے دوران اگست 2002ء میں انہوں نے میرے سامنے ظاہر کی ۔ سیفما نے کئی ماہ پہلے لاہور میں ساؤتھ ایشیائی صحافیوں کی ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا تھا ”ماضی میں ہم دونوں سے جو بھی غلطیاں ہوئیں اب تاریخ کی قوتیں ہمیں دھکیل رہی ہیں کہ ہم ہوشمندی اور تعاون باہمی کا راستہ اختیار کریں“۔ میرے اس تبصرے پر پاکستان اور ہندوستان کے چوٹی کے صحافیوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور جناب ایم جے اکبر نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت دانائی کی باتیں کی ہیں۔ ممبئی کے حالیہ واقعے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے خدشات کے بعد تو پاک ہند تعاون کی ضرورت مزید واضح ہو گئی ہے۔ کیا دونوں طرف کوئی سننے والا ہے؟

یوں آپ دیکھیں گے کہ میں نے 40سال پہلے 1966ء میں چوہدری محمد علی کے سامنے جو تجویز پیش کی تھی آج کی پاکستانی قیادت اس کی افادیت کو محسوس کر رہی ہے۔ جناب مصطفی صادق دو دفعہ مجھے تصدیق کر چکے ہیں کہ انہیں یہ ملاقات اور گفتگو یاد ہے۔ مجھے کہنا تو نہیں چاہئے لیکن امر واقع یہ ہے کہ جب میں نے یہ تجویز پیش کی تھی تو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی سیاست کے میدان
میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے۔ وہ قریباً 30 سال پہلے سیاست میں آئے تھے۔ "
 

طالوت

محفلین
حقائق جو بھی ہوں ، "باڈر لیس" ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔ یہ بلاک افغانستان ، ایران اور وسط ایشائی ریاستوں کے ساتھ مل کر بنایا بھی جا سکتا ہے ۔۔ اور سارک کے رکن ممالک کے ساتھ مل کر بھی ۔۔ مگر بھارت کے ساتھ ایسے معاملات کا مطلب موجودہ حالات اور پاکستانیوں کی نفسیات کے حساب سے ، باقی ماندہ انڈسٹری کو بھی ختم کرنے کے مترادف ہوگا ۔۔
مزید یہ کہ ہمارے "مکا باز" صدر بھی کچھ ایسے ہی کارنامے سرانجام دے رہے تھے جس پر ابراہیم مغل (پاکستان کسان فورم کے چئیر مین) کے وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ " آج ہم بگھہلیار ڈیم پر خاموش ہیں ، مزید گیارہ ڈیموں کا منصوبہ زیر غور ہے ، وہ ہمارا پانی مکمل طور پر بند کر دیں گے کہ بھئی آلو ٹماٹر تو تم ہمارے کھاتے ہی ہو ، باقی ماندہ اشیاء بھی ہمی سے سستے داموں لے کر کھاؤ تمھیں بھلا کیا ضرورت ہے پانی کی یا محنت کرنے کی"
اچھے تعلقات ضرور ہوں ، مگر اس میں عوامی و ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے ۔۔ ورنہ پھر آٹے کی قطاریں فلور ملوں پر نہیں ، مونا باؤ اور واہگہ پر لگا کریں گی۔۔ کہ ہندوستان ہم سے سات گنا بڑا ملک ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت شاید 20 گنا زیادہ ۔۔
وسلام
 

سعود الحسن

محفلین
ڈاکٹر صفدر محمود کا جواب - 7 اور 8 جنوری کے جنگ میں شایع ہوا

میں خاصی دیر سے قلم پکڑے بیٹھا ہوں اور فیصلہ نہیں کرپاتا کہ اس موضوع کو چھیڑوں یا خاموش رہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ اب کسی بحث میں الجھنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ اول تو اسرائیلی فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھارہے ہیں ان کی تفصیل پڑھ کر دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے ،دوم اس ضمن میں اقوام متحدہ کا رویہ اور مسلم ممالک کی بے بسی خون کے آنسو رلاتی ہے اور سوم ہندوستان کی ہر روز تازہ دھمکیاں اور مجرموں کو ہمارے حوالے کرو کی رٹ اداسی کے بادلوں کو مزید گہرا کردیتی ہے ،اس لئے جی نہیں چاہتا کہ ایک بار پھر پرانے اور گھسے پٹے موضوعات کو لے کر بیٹھ جاؤں لیکن کیا کروں کہ مہربان چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ آپ نے یقینا یہ شعر سن رکھا ہوگا۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
کوئی لکھاری قائداعظم یا پاکستان کے بارے میں ایسی ویسی بات لکھ دے تو قارئین اور مہربان دوستوں کا اصرار شروع ہوجاتا ہے کہ اس کی وضاحت کرو، اس کا جواب دو۔ گزشتہ دنوں میرے نہایت محترم بزرگ دوست ارشاد حقانی صاحب نے اپنے کالم میں علوی صاحب کی کتاب کے حوالے سے قائد اعظم کی تین غلطیوں کا ذکر کیا تو مجھے فون اور ای میلیں آئیں کہ اس کاجوب دو لیکن میں نے سبھی حضرات کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ لوگوں کو خود فیصلہ کرنے دیں اور خود غورو خوض کے بعد نتائج اخذ کرنے دیں۔ میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کئی بار کرچکا ہوں۔ کچھ اسی طرح کا واقعہ آج بھی ہوا۔ میں نے ابھی اخبارات نہیں پڑھے تھے کہ ایک بزرگ دوست کافون آیا۔ علیک سلیک کے بعد فرمانے لگے کیا تم نے حقانی صاحب کا کالم پڑھ لیا ہے۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ ابھی نہیں۔ وہ مشفق بزرگ بولے کہ ذرا ان کا کالم پڑھ لیں اور پھر کہا کہ میں سوچا کرتا تھا کہ وہ صرف قائد اعظم سے ناراض ہیں لیکن آج ان کا کالم پڑھ کر اندازہ ہوا ہے کہ وہ پاکستان سے بھی ناراض ہیں اور پاکستان کے قیام پر بھی خوش نہیں۔ میں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ میں محترم حقانی صاحب کو پاکستان کا قیمتی اثاثہ سمجھتا ہوں اس لئے مجھے آپ کی یہ رائے سن کر دکھ ہوا ہے، کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو پاکستان کو عظیم نعمت اور قائد اعظم کو گزشتہ صدی کا عظیم ترین سیاسی رہنماسمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میں نے نہ قائد اعظم کو دیکھا، نہ سنا اور نہ ہی قیام پاکستان کے وقت آگ اور خون کے سمندر سے گزرا اس لئے میری عقیدت اور محبت کے چشمے کتابوں کے مطالعے اور ان موضوعات کو خلوص نیت سے سمجھنے کی کوششوں سے پھوٹتے ہیں۔ بہرحال میں برادرم حقانی صاحب کا کالم پڑھ لوں تو بات ہوگی۔ انہوں نے تاکید کی کہ میں اس موضوع پرلکھوں۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ کیا آپ مجھے حقانی صاحب سے ”سطحیت“کا خطاب دلوانا چاہتے ہیں؟میرے وہ مشفق بزرگ ہنسے اور یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ ذرا حقانی صاحب کے اس فقرے پر غور کرنا تو تمہیں احساس ہوگا کہ وہ قیام پاکستان کے مخالف ہیں۔ پھر انہوں نے یہ فقرہ پڑھ کر مجھے سنایا”اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگریسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے…میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے“۔ میرے ان بزرگ کا کہنا تھا کہ چونکہ حقانی صاحب کے بقول، پاکستان کابینہ مشن پلان کی ناکامی کے نتیجے کے طور پرمعرض وجود آیا تھاجبکہ حقانی صاحب کا دل کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر دکھ سے بھرا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے اور قیام پاکستان پر خوش نہیں ہیں۔
فون بند ہوا تو میں نے اخبارات کا پلندہ اٹھایا اور حقانی صاحب کا کالم حسب معمول پڑھا۔اصل ”حرف تمنا“کی وضاحت تو حقانی صاحب ہی کرسکتے ہیں لیکن مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ محترم حقانی صاحب کے اس کالم سے کم از کم یہی تاثر ابھرتا ہے اور اگر یہ حقیقت ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ،کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔ البتہ میں موقع کی مناسبت سے چند مختصر گزارشات کرنے کی اجازت چاہتاہوں ،کیونکہ کالم طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کچھ عرصہ قبل میں نے حقانی صاحب سے عرض کی تھی کہ آپ اپنے کالم میں تین بار محترمہ عائشہ جلال کی کتاب کو حرف آخر قرار دے چکے ہیں ،کیونکہ وہ آپ کے نقطہ کے قریب ہے اور آپ کے بقول ہندوستانی صحافی گپتا نے بھی آپ سے یہی کہا تھا لیکن اصولی بات یہ ہے کہ تحقیق کے میدان میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا، حرف آخر صرف الہامی کتابیں ہوتی ہیں۔ دوم عائشہ نے یہ ڈاکٹریٹ کا تھیسس ہندو پروفیسر انیل کی سربراہی میں لکھا تھا اور وہ اپنے سپروائزر کی سوچ کے جبر کا شکار تھی ورنہ اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول میں دشواریاں پیش آتیں، چنانچہ اسی پس منظر میں آج سے چند برس قبل جب عائشہ کو لمسز (lums)میں بطور مہمان مقرر بلایا گیا تو اسے طلبہ کے سامنے اپنی کتاب سے کچھ صفحات پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ عائشہ نے اپنی اسی کتاب”جناح، ہول سپکوس مین“سے ایک آدھ صفحہ پڑھا اور فوراً یہ اعلان کیا کہ اس کتاب کے چھپنے کے بعد اور مزید مطالعے اور غوروخوض کے نتیجے کے طور پر میرے نظریات میں تبدیلی آچکی ہے جبکہ ہم اسے حرف آخرکا درجہ دے رہے تھے۔ حقانی صاحب گپتا اور عائشہ جلال کابینہ مشن پلان کو سودے بازی سمجھتے ہیں ،کیونکہ وہ قائد اعظم کے الفاظ کے پس پردہ محرکات تلاش کرتے ہیں جبکہ میں ایک سادہ لوح قسم کا طالبعلم ہوں اور قائد اعظم کے الفاظ پر مکمل بھروسہ کرتاہوں ۔ (جاری ہے)
 

سعود الحسن

محفلین
col7.gif
 

سعود الحسن

محفلین
اس ہی موضوع پر ڈاکٹر صفدر محمود کا تیسرا کالم جنگ 14 جنوری 2009

میں اس اصول کا قائل ہوں کہ جب ایک اصولی بحث علمی سطح سے گر کر ذاتی سطح پر آجائے تو اسے سمیٹ دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ میں اگرچہ ایک گناہگار اور کمزور انسان ہوں لیکن اس ضمن میں حضرت علیکا وہ فیصلہ میرے لئے مشعل راہ ہے جو اس واقعے سے جنم لیتا ہے کہ جب حضرت علی اپنے دشمن کو گرا کرسینے پر بیٹھ گئے تو اس نے حضرت علی کے منہ مبارک پر تھوک دیا اور پھر حضرت علی پیچھے ہٹ گئے، لیکن میں قائد اعظم اور کابینہ مشن پلان کے حوالے سے بحث کو سمیٹتے ہوئے فقط یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اپنے بزرگ دوست ارشاد حقانی صاحب کا ادب ملحوظ خاطر ہے ۔ میں نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کی عزت کرتا ہوں اوراسی طرح میں ڈاکٹر عائشہ جلال کا بھی احترام کرتا ہوں اور ان کو اعلیٰ درجے کی سکالر اور مصنف سمجھتا ہوں لیکن اس ساری کہانی میں جو اصل نقطہ تھا وہ یہ کہ میں محترم حقانی صاحب کی مانند نہ ہی ڈاکٹر عائشہ کی کتاب کو حرف آخر سمجھتا ہوں ، نہ ہی بے شمار لکھاریوں کی مانند ان کے نقطہ نظر سے متفق ہوں۔ حقانی صاحب بار بار کہتے ہیں کہ قائد اعظم کابینہ مشن پلان قبول کرکے پاکستان سے دستبردار ہوگئے تھے جبکہ قائد اعظم نے مسلم لیگ کونسل اورور کنگ کمیٹی کے سینکڑوں اراکین جو سارے ہندوستان کے سرکردہ مسلمان لیڈروں پرمشتمل تھیں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بار بار کہا تھا کہ ہماری حتمی اور آخری منزل پاکستان کا حصول ہے اور مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان کے بیج نظر آرہے ہیں،چنانچہ جب مسلم لیگ کی کونسل اور ورکنگ کمیٹی نے اس پلان کو منظور کرتے ہوئے قرارداد پاس کی تو اس میں بھی کہا کہ کابینہ مشن پلان پاکستان کے حصول کا ذریعہ ہے اور ہم بہرحال پاکستان لے کر ہی دم لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قائد اعظم اور ان کے سینکڑوں ساتھی جھوٹ بول رہے تھے؟کیا وہ کوتاہ نظر تھے اور کیا ان کے ان الفاظ میں پاکستان سے دستبرداری ڈھونڈھنے والے ان سے زیادہ بصیرت اور ویژن رکھتے ہیں؟دراصل یہ کانگریسی پراپیگنڈہ تھا ورنہ ہندوستان کے مسلمان قائد اعظم کی دیانت، سچائی اور حق گوئی پر اندھا یقین رکھتے تھے جس کا ثبوت 1945-46ء کے انتخابات تھے جس میں مسلم لیگ نے پاکستان کے نعرے پر بہت بڑی اکثریت جیتی تھی۔ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ ان انتخابات کے بعد پاکستان کی منزل سے دستبرداری ممکن نہیں رہی تھی کیونکہ مسلمانان ہند نے اپنا فیصلہ سنادیا تھا۔
کل کراچی سے مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کے ایک قریبی ساتھی کا فون آیا۔ مولانا ظفر احمد انصاری قائد اعظمکے رفقاء میں سے تھے اور جون1946ء کے اس اجلاس میں موجود تھے جس نے کابینہ مشن پلان کو قبول کیا۔ ان صاحب نے اس بات کی تصدیق کی کہ مولانا انصاری مرحوم ڈاکٹر عائشہ کی کتاب پڑھ کر بہت رنجیدہ خاطر تھے، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس پلان کو حصول پاکستان کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر قبول کیا تھا اور ہم کسی صورت بھی مطالبہ پاکستان سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ تحقیق کی دنیا میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا ، نت نئے کاغذات اور دستاویزات کھلتی رہتی ہیں اور اسی طرح نتائج اور توضیحات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ باسٹھ برس گزرنے کے بعد قیام پاکستان پر ناراضگی کا اظہار کرنا اور بہانے بہانے قائد اعظم کی کردار کشی کرکے نوجوانوں کو پاکستان کی بنیاد سے بدظن کرنا محب وطن حضرات کا شیوہ نہیں۔ اس حوالے سے مجھے چند ماہ قبل شائع ہونے والی ایک کتاب پڑھ کر خوشی ہوئی۔ کتاب کا نام ہےThe Charismatic leader -Jinnahاور اس کتاب کے مصنف قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق ہیڈ آف دی ہسٹری ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر سکندر حیات نے حوالوں اور تحقیق سے عائشہ کے نقطہ نظر کی نفی کی ہے اور تاریخی ریکارڈ کو درست کیا ہے۔ ڈاکٹر سکندر حوالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عائشہ کا کابینہ مشن پلان کے ضمن میں نقطہ نظر درست نہیں۔ بہت سے دلائل اور حوالوں کے بعد ڈاکٹر سکندر یہ کہتے ہیں کہJinnah was convinced that the foundation and basis of Pakistan are there in the scheme.یہ بات بھی یاد رکھیئے کہ اگر کانگریس کو کابینہ مشن پلان سے پاکستان کے قیام کی بو نہ آتی تو نہرو کبھی بھی اسے مستردنہ کرتا۔ نہرو نے اس پلان کومسترد کرتے ہوئے گروپنگ کے خطرے کا اظہار کیا تھا جو ٹرانسفر آف پاور جلد آٹھ ،صفحہ نمبر26پر واضح طور پر موجود ہے اور اسی خطرے سے یہ امکان جنم لیتا تھا کہ پاکستان پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے بغیر معرض وجود میں آجائے گا۔ اسی لئے اس نے پلان کومسترد کیا تھا۔
دراصل یہ موضوع طویل بحث کا متقاضی ہے اور تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ،جبکہ قارئین اس کی باریکیوں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس لئے میں نے نہایت اختصار سے اپنا نقطہ نظر واضح کردیا ہے، جن قارئین کو اس موضوع میں دلچسپی ہے وہ خود مطالعے کی بنیاد پر نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔ کابینہ پلان کے ساتھ ساتھ بہت سے دوستوں نے عطا ربانی کی کتاب کے حوالے سے قائد اعظم کی تین غلطیوں پر تبصرہ کرنے پر اصرار کیا ہے۔ عطار بانی صاحب ہمارے محترم رضا ربانی کے والد گرامی ہیں اور قائد اعظم کے اے ڈی سی رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قائد اعظم نے غلام محمد کو وزیر خزانہ مقرر کرکے ،مشرقی پاکستان میں اردو کو قومی زبان قرار دے کر اور جنرل گریسی کو برطرف نہ کرکے غلطیاں کیں۔ قائد اعظم بہرحال سیاستدان تھے ان کے فیصلوں پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن قائد اعظم کا خلوص نیت شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ آج یہ اندازہ کرنا محال ہے کہ پاکستان کن حالات میں قائم ہوا۔ خزانہ خالی، ذرائع آمدنی محدود، ہندوستان کا پاکستان کے حصے کے اثاثے دینے سے انکار، کشمیر کی جنگ وغیرہ۔ ان جان گسل حالات سے نکلنے کے لئے ایک ماہر مالیات کی ضرورت تھی۔ربانی صاحب کا غلام محمد کی مالی صلاحیتوں پر تبصرہ بے بنیاد ہے، کیونکہ غلام محمدحیدر آباد کے مشیر مالیات رہے تھے اور قائد اعظم نے ان کو ایک ماہر مالیات کی حیثیت سے وزیر خزانہ لگایا تھا اور غلام محمد نے اگلے ہی برسوں میں فالتو بجٹ پیش کرکے دنیا کو حیران کردیا۔قائد اعظم اور لیاقت علی کے دور میں انہیں پر پرزے نکالنے کا موقع نہ ملا، کیونکہ انہوں بیوروکریسی کے منہ زور گھوڑے کی طنابیں کس کر رکھی ہوئی تھیں۔ لیاقت علی خان نے ان کو نکالنے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن وہ خود شہید ہوگئے جس کے بعد غلام محمد نے اپنے کارنامے دکھائے ،جو نہایت قابل مذمت ہیں۔ اس لئے اس میں قائد اعظم کا کیا قصور؟پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا ،کیونکہ یہ واحد زبان تھی جو پورے ملک میں سمجھی اور بولی جاتی تھی لیکن انہوں نے اپنی تقریرمیں واضح کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کے لئے بنگالی ہی صوبائی زبان ہوگی۔ اسی بنیاد پر محمد علی بوگرہ کے بنائے گئے دستور میں بنگالی اور اردو کو قومی زبانیں قرار دیا گیا اور پھر اس اصول کو1956ء کے آئین کا حصہ بنا کر نزاع کی وجہ رفع کردی گئی۔ قائد اعظم کا یہ اعلان خلوص نیت پر مبنی تھا اور حالات کا تقاضا تھا۔ جنرل گریسی کو ڈسمس نہ کرنے کا فیصلہ بھی زمینی حقائق کا حصہ تھا جس پر شجاع نواز نے اپنی تازہ کتاب”کراس سوارڈز“میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جنرل گریسی کو نکالنے کا مطلب پاکستانی فوج کو فوری طور پرسارے انگریز فوجی افسروں سے محروم کرکے ایک ایسا فوری خلاء پیدا کرنا تھا جو تباہ کن ثابت ہوتا اور آج لوگ اسے قائد اعظم کی فاش غلطی قرار دے رہے ہوتے۔ دراصل2009ء میں 1947ء کی مجبوریوں ، حقیقتوں اور مسائل کو سمجھنا مشکل کا م ہے اور اسی لئے دنیا بھر کے مورخ قیام پاکستان اور بقائے پاکستان کومعجزے سے کم نہیں سمجھتے اور اس معجزے کے لئے قائداعظم کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اے کاش!ربانی صاحب نے 1947ء کی مشکلات کا ادراک حاصل کرنے کے لئے چودھری محمد علی کی کتاب ”ظہور پاکستان“ پڑھ لی ہوتی تو شاید ان کی ہوائی سوچ میں پختگی آگئی ہوتی۔ یہاں ہوائی سے مراد ایئر فورس ہے ،کیونکہ ربانی صاحب کا تعلق ایئر فورس سے تھا۔ یہ حضرات کیاجانیں کہ قائد اعظم اور پاکستان آغاز میں کس تلاطم کے ظالم تھپیڑوں میں ڈبکیاں کھارہے تھے اور کس سنگلاخ وادی سے گزررہے تھے۔
اگر چہ میں نے اپنی طرف سے بحث سمیٹ دی لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں قائد اعظم کی کردارکشی کرنے والوں اور قیام پاکستان کے بارے میں شکوک و شہبات پیدا کرنے والوں کا جواب نہیں دوں گا، اگر یہ جرم ہے تومیں اس جرم کی سزا بھگتنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوں ،کیونکہ قائد اعظم میرا لیڈر اور پاکستان میرا ملک ہے۔
 
Top