سعود الحسن
محفلین
ارشاد احمد حقانی صاحب کا یہ کالم تین قسطوں میں 3، 4 اور 6 جنوری 2009 کو جنگ میں شایع ہوا ، میں آپ کے مطالہ کے لیے یہاں پیش کر رہا ہوں-
"آج میں ایک اہم اور حساس موضوع پر اظہار خیال کرنے والا ہوں :
سیفما کے سیکرٹری جنرل اور میرے عزیز دوست جناب امتیاز عالم کا عرصے تک معمول رہا ہے کہ جب وہ دفتر آتے تو سب سے پہلے میرے کمرے میں تشریف لاتے اور چائے کی پیالی پر گپ شپ ہوتی۔ وہ مجھے کہتے کہ مجھے دفتر آنے میں سب سے بڑی دلچسپی یہی ہوتی ہے کہ آپ کے ساتھ ایک نشست ہو جاتی ہے۔ سالوں پر پھیلی ہوئی ان نشستوں کے دوران کوئی دس بارہ برس پہلے میں نے ان سے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کے حوالے سے میرے ذہن میں ایک تجویز ہے لیکن میں ابھی حالات کو اس قدر سازگار نہیں سمجھتا کہ اس کو لکھ ڈالوں۔ میں نے انہیں اپنی تجویز کے خدوخال بھی بتائے لیکن خوفِ فسادِ خلق سے یہ تجویز اب تک ناگفتنی ہی رہی تھی۔ مگر اب حالات میں کچھ ایسی تبدیلی آئی ہے کہ اس تجویز کو لکھ دینے سے کوئی بڑا طوفان آنے کا اندیشہ نہیں ہے۔
یہ 1966ء کی بات ہے 1965ء کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان میں جو بے چینی پیدا ہوئی وہ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی صورت میں ڈھل چکی تھی۔ انہی دنوں لاہور میں مغربی پاکستان کے چوٹی کے تقریباً تمام سیاستدانوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا اہتمام حسب معمول نوابزادہ نصر اللہ خان نے کیا تھا۔ اس کانفرنس میں ملک کی تازہ ترین صورت حال پر، مشرقی پاکستان کی بے چینی کے پس منظر میں، تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے کانفرنس کے اکابرین کے سامنے اپنا چھ نکاتی کا فارمولا پیش کیا جسے پوری کانفرنس نے اتفاق رائے سے قطعی طور پر مسترد اور ناقابل قبول قرار دیا۔ چوہدری محمد علی سابق وزیراعظم پاکستان اس کانفرنس کے بعد بھی کچھ دیر کے لئے لاہور میں رکے۔ وہ عام طور پر گرمی اور سردی کے حوالے سے معتدل موسم کراچی اور لاہور میں گزارتے تھے۔ یہ دن ان کے لاہور میں ٹھہرنے کے تھے، میں نے ارادہ کیا کہ ان کی زیارت کی جائے، ان دنوں وہ ایک باریش بزرگ بن چکے تھے۔ میرے ساتھ میرے محترم بھائی اور ممتاز صحافی جناب مصطفی صادق بھی چوہدری صاحب سے ملنے گئے۔ راستے میں میں نے مصطفی صادق صاحب کو بتایا کہ آج میرا ارادہ چوہدری صاحب سے ایک تجویز پر گفتگو کرنے کا ہے جس پر تجویز کی نوعیت جان کر مصطفی صادق نے مجھے کہا کہ آپ چوہدری صاحب سے اس موضوع پر بات نہ کریں لیکن میں مشرقی پاکستان کی صورت حال اور پاک ہند تعلقات کی کشیدگی کی وجہ سے اپنی تجویز پر بات کرنے کے لئے بے چین تھا۔ چوہدری صاحب نے اپنی ابتدائی گفتگو میں کہا کہ وہ مشرقی پاکستان کے حالات سے انتہائی پریشان اور متفکر ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ تو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان وجہ نزاع تھا ہی اور اسی کی وجہ سے 1965ء کی جنگ ہوئی تھی۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ اس سیاق و سباق میں کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم ہندوستان سے اپنے تعلقات کو کوئی نئی شکل دینے کی کوشش کریں۔ دوسرے لفظوں میں کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم دونوں ملکوں کے تعلقات کو Reinvent کریں۔ اس کی میں نے ایک عملی شکل بھی تجویز کی جسے سن کر چوہدری صاحب نے فرمایا کہ ایسا کرنے سے پاکستان اپنی موجودہ شکل میں قائم نہیں رہے گا۔ میں نے ان کے احترام کی وجہ سے ان سے مزید بحث نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن تجویز میرے ذہن میں موجود رہی۔ پاکستان میں چونکہ ایک اچھا خاصا حلقہ ہندوستان سے کسی بھی قسم کے ہمہ جہتی اچھے تعلقات رکھنے کا حامی نہیں ہے اس لئے میں نے بھی اس موضوع کو نہ چھیڑنا ہی مناسب سمجھا۔ لیکن اب ادھر کچھ عرصے سے بعض اکابرین قوم اور بعض اہم صحافتی حلقے ہندوستان سے نئے تعلقات کے سوال پر کچھ کچھ غور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 24 مارچ 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہندوستان کے ایک مقبول اور بڑی اشاعت رکھنے والے انگریزی ہفت روزے ”انڈیا ٹو ڈے“ کے جلسے میں شرکت کی تھی جو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ اس موقع پر شہید محترمہ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا پاک ہند تعلقات کو نئے سرے سے ”ایجاد“ کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے انہوں نے Reinvent کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ان ابتدائی کلمات اور ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات اور سارک کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں نے راجیو گاندھی کو تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں سارک کو ایک ثقافتی تنظیم کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی تنظیم بھی بنانا چاہئے۔ اس کے بعد انہوں نے 1999 ء میں ہونے والی انڈ و پاک پارلیمنٹرین کانفرنس کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے شرکت کی تھی اور دونوں ملکوں کے پارلیمانی ممبران کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ پاکستان ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں کو اپنے اختلافات اور آپس کے قضیوں کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے ایک مشترک منڈی قائم کرنی چاہئے تاکہ ہم اپنے خطے سے غربت ، بھوک ، بیروزگاری اور پچھڑے پن کا خاتمہ اپنی نرم سرحدوں کے ذریعے کر سکیں۔
ادھر میاں نواز شریف بھی یہ تجویز دے چکے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ویزہ کی پابندی ختم کر دینی چاہئے۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی میں بھی کہا گیا ہے کہ
Peaceful relations with India and Afghanistan will be pursued without prejudice to outsanding disputes.
اس سے دونوں دستخط کنندگان کی ترجیح کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت اگرچہ بدقسمتی سے ممبئی کے المیے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا ایک بہت برا دور چل رہا ہے لیکن پھر بھی غنیمت ہے کہ ان سطور کے تحریر کئے جانے کے وقت کشیدگی میں کمی کے کچھ آثار پیدا ہو رہے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کا وہ عمل پھر شروع کیا جا سکے گا جو اس وقت عارضی طور پر رکا ہوا ہے اور آخرکار دونوں ملک محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے نظریات کے مطابق باہمی تعلقات قائم کر سکیں گے۔ بی بی نے اپنی شہادت سے کئی ماہ پہلے لندن میں کہا تھا کہ وہ جنوبی ایشیا کو ایک Border less خطہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ ہندوستانی وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ جغرافیائی سرحدوں کی موجودگی کے باوجود ہم عملاً انہیں غیرمتعلق بنا سکتے ہیں۔ یوں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان آج کے مقابلے پر بہت زیادہ کھلے اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی خواہش دونوں طرف موجود ہے۔ میں نے جب 1966ء میں چوہدری محمد علی صاحب سے بات کی تھی تو میرے ذہن میں بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات کا خاکہ تھا لیکن چوہدری صاحب کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے میں نے پھر اس موضوع پر کافی دیر کچھ نہ لکھنے کا فیصلہ کیا لیکن اب مذکورہ کوائف کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی نئی طرح ڈالنے کی کوشش کرنا ویسا شجر ممنوعہ نہیں سمجھا جانا چاہئے جیسا کہ بیس تیس سال پہلے تک سمجھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر کراچی کے انگریزی معاصر کی 21 دسمبر کی اشاعت میں ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے ایک مستقل تبصرہ نگار کہتے ہیں :
The passsage of time and a legacy of mistrust and hostility leave no room to think about a loose federation now. But it should still be possible for the governments of India, Pakistan and Bangladesh to form a block or union of the kind that emerged in Europe out of the hostilities of the Second World War. Evolving a common mechanism that diverts their attention and resources form the weapons of war to the poverty of their people could be the first step in that direction.
Pakistan would stand to gain more than the others because as a percentage of national income it spends twice as much on defence than India and also suffers from terrorism much more than India does. In such a collaborative arrangement 470 million Muslims of the subcontinent would count for more than they do at present, spread as they are, almost equally, over three countries.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”وقت گزرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی اور مخالفت اس بات کی گنجائش نہیں چھوڑتے کہ اب دونوں کے درمیان ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن کے سوال پر غور کیا جائے لیکن اس کے باوجود پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے لئے یہ ممکن ہونا چاہئے کہ وہ ایک بلاک یا ایک یونین ان خطوط پر قائم کر لیں جو جنگ عظیم دوئم کی دشمنیوں کے باوجود یورپ میں رونما ہوئی۔ ایسا مشترکہ طریق کار تلاش کرنا جو ان کی توجہ اور وسائل جنگی ہتھیاروں کی بجائے ان کے عوام کی غربت کی طرف مبذول کردے مذکورہ سمت میں ایک پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ اس انتظام سے دوسروں کے مقابلے پر پاکستان کو زیادہ فائدہ ہو گا کیونکہ وہ اپنے دفاع پر اپنی قومی آمدنی کا ہندوستان کے مقابلے پر دگنا استعمال کرتا ہے اور ہندوستان سے بھی بڑھ کر دہشت گردی کا شکار بنا ہوا ہے۔ اس طرح کے تعاون پر مبنی انتظام سے برصغیر کے 470 ملین مسلمان زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گے کیونکہ اس وقت وہ تقریباً مساوی تعداد میں تین ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں“۔
(دوسری قسط)
اب آیئے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھیں ۔ ایک معاصر میں لکھتے ہوئے ایک محترم دوست کہتے ہیں کہ چند ہفتے قبل مارکیٹ میں ایک کتاب آئی ہے جس کا نام ہے ۔
"The Sun Shall Rise"
اور اسے لاہور کے ایک معروف اور قدیم پبلشر نے شائع کیا ہے۔ اس کے مصنف جناب عطا ربانی ہیں جن کا ماضی ان کی حب الوطنی پر دلالت کرتا ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ رائل انڈین ایئرفورس میں شامل ہو گئے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ قائد اعظم کے پہلے ایئرایڈی کانگ مقرر کئے گئے۔ وہ لکھتے ہیں :
”پاکستان بنتے ہی 15 اگست 1947ء کو ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں قائد اعظم نے تین غلطیاں کیں۔ ان کا ایک بیورو کریٹ ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیر خزانہ بنانا پہلی ”غلطی “ تھی۔ اس ”غلطی“ نے آنے والے دنوں میں نوزائیدہ مملکت کو بے انتہا اور لاتعداد نقصانات پہنچائے۔ عطا ربانی کا کہنا ہے کہ حضرت قائد اعظم، غلام محمد کی بجائے نوابزادہ لیاقت علی خان کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ وزارتِ خزانہ کا اضافی قلمدان بھی سونپ سکتے تھے کہ لیاقت علی خان کی امانت و دیانت اور پاکستان سے کمٹمنٹ اظہر من الشمس تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ملک غلام محمد کی بجائے قائد اعظم کسی ایسے سیاستدان کا بھی بطور وزیر خزانہ تقرر کر سکتے تھے جس میں فنانس کے معاملات کو سمجھنے کی اہلیت ہوتی اور جسے سررولینڈز کی نگرانی میں مزید پالش کیا جا سکتا۔ (سر رولینڈز متحدہ ہندوستان میں وائسرائے کونسل کے آخری فنانس ممبر تھے اور قائد اعظم نے پاکستان کے لئے ان کی خدمات عاریتاً لے بھی رکھی تھیں) عطا ربانی کے بقول ملک غلام محمد کو نوزائیدہ پاکستان کا وزیر خزانہ بنایا جانا اس لئے بھی غیرمناسب تھا کہ ایک تو ان کے پاس خزانہ کے معاملات چلانے کا کوئی وسیع تجربہ اور علم نہیں تھا سوائے اس کے کہ انہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران متحدہ ہندوستان کی حکومت میں سپلائی اینڈ پرچیز کے شعبے میں چند سال گزارے تھے اور دوسرا یہ کہ ملک غلام محمد حد سے زیادہ اقتدار کا حریص تھا۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر عہدے کا متمنی رہنے والا، نہایت ضدی بیورو کریٹ اور منتقم مزاج بھی۔ اقتدار کے لئے اس کی حرص کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلد ہی اس غیرمنتخب شخص نے اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کا جال بچھا دیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اپنا راستہ ہموار کرنے لگا۔ یہ اس کی سازشوں ہی کا نتیجہ تھا کہ تھوڑے عرصے میں قائد اعظم کی رحلت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی جگہ ملک غلام محمد بیٹھا تھا۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی بدقسمتی تھی۔ چونکہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو سخت ناپسند تھا اس لئے ناپسندیدہ عناصر سے گلوخلاصی کروانے کے لئے غلام محمد نے نہایت جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ میں اس کے خلاف بغاوت کے شعلے بلند ہونے لگے۔ نوزائیدہ پاکستان جسے قدم قدم پر جمہوری فیصلوں اور مشوروں کی ضرورت تھی وہاں ملک غلام محمد کے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے آمریت کی راہ ہموار ہونے لگی۔ عطا ربانی صاحب کا کہنا ہے کہ غلام محمد نے بلاواسطہ اور بالواسطہ حکومت سازی اور حکومت کے فیصلوں میں بیورو کریسی کو شامل کیا اور آج ہمیں سیاست میں جو آلودگی نظر آ رہی ہے وہ غلام محمد کے فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ غلام محمد ہی کی وجہ سے سول بیورو کریسی کے بعد ملٹری بیورو کریسی نے بھی پر پرزے نکالنا شروع کر دیے جس نے پاکستان کو دولخت بھی کیا اور تین بار ملک فوجی جرنیلوں کے قبضے میں بھی رہا۔
پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ کو نافرمانی کی سزا نہ دینا دوسری ”غلطی“ تھی۔ اکتوبر 47ء کے اواخر میں ہمارے قبائلی سری نگر ایئر پورٹ پر قبضہ کرنے کے قریب تھے۔ آس پاس کا علاقہ بھی ان کے زیر قبضہ تھا۔ ایسے میں قائد اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس گریسی، جنہیں عارضی طور پر پاکستان آرمی کی کمان دی گئی تھی، کو حکم دیا کہ کشمیری مجاہدین اور قبائلیوں کی اعانت کے لئے ایک بریگیڈ فوج کشمیر بھیجی جائے لیکن گریسی نے قائد کے حکم کی تعمیل کے برعکس فیلڈ مارشل آکین لیک سے رابطہ کیا جو ان دنوں بھارتی فوجوں کے سربراہ تھے اور انہیں قائد اعظم کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات کا تقاضا تھا کہ قائد اعظم فوری طور پر گریسی کو سزا دیتے ہوئے عہدے سے الگ کر دیتے اور ان کی جگہ پاکستانی فوج کے کسی سینئر افسر کا تقرر عمل میں آتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سری نگر ایئر پورٹ بھی ہمارے قبائلیوں کی گرفت سے نکل گیا اور کشمیر کی مکمل فتح بھی ادھوری رہ گئی۔ اگر جنرل گریسی کو فوری سزا دے دی جاتی تو نہ بعد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تین ہلاکت خیز جنگیں ہوتیں اور نہ ہی سیاچن اور کارگل ایسی لڑائیوں کے سانحات رونما ہوتے۔ مصنف عطا ربانی نے دعویٰ کیا ہے کہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر نہ صرف جنرل گریسی کو سزا نہ دی جا سکی بلکہ قائد اعظم نے اسے لیفٹیننٹ جنرل سے ترقی دے کر فل جنرل بنا دیا اور پاکستان آرمی کے پہلے باقاعدہ سربراہ ہونے کا اعزاز بھی اسے بخش دیا۔ عطا ربانی کے دعوے کے مطابق، اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا قائد اعظم کی تیسری ”غلطی“ تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اردو بولتی تھی لیکن تقسیم ہند نے معاملات بدل دیئے۔ اب مشرقی پاکستان میں 54 فیصد پاکستانی رہتے تھے جو اردو بولنا ،لکھنا اور پڑھنا کم کم جانتے تھے۔ ان کی زبان بنگالی تھی لیکن قائد اعظم نے مارچ 1948ء کو مشرقی پاکستان پہنچ کر اردو کے قومی زبان ہونے کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ قائد اعظم نے خلوص نیت سے اور یکجہتی کے لئے یہ اعلان کیا تھا لیکن بنگالی پاکستانیوں نے اس فیصلے کو اپنے کلچر، روایات اور اپنی زبان کے خلاف حملہ سمجھا۔ پھر ہنگامے شروع ہو گئے جس میں تین طلبہ بھی ہلاک ہو گئے۔ مصنف کے مطابق اس فیصلے نے پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان حائل 1200 میل کے آبی فاصلوں کو دل کی دوریوں میں بدل دیا۔
بہت سے لوگوں کو جناب عطا ربانی کی رائے سے اختلاف ہو گا لیکن ان کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ اب ایک اور حوالہ دیکھئے بلکہ ایک Shock کے لئے تیار ہو جایئے۔ 25 دسمبر کے ”ڈان“ میں ”ڈان نیوز“ ٹی وی کی ایک تبصرہ نگار مریم چوہدری لکھتی ہیں: (وہ قائد اعظم پر I remember Jinnah کے عنوان سے ڈان ٹی وی پر اپنے پروگرام کئی بار دکھا چکی ہیں)
JINNAH was a puzzle that has yet to be solved. People can tell you the most outrageous stories about the man and swear on it being honest to God truth. Or they can churn him out to be the man they wanted him to be. So who was Muhammad Ali Jinnah? Was he a statesman that fought for the right of a people who he shared a religion with? Was he a man who married for love and then lost his daughter to a land that was home and then became foreign territory? Was he a civilian with the fire of a freedom fighter or a villain with a vendetta?
میں اس اقتباس کا ترجمہ نہیں دوں گا جو خود اسے سمجھ سکتے ہیں سمجھ لیں اور جو نہیں سمجھ سکتے بہتر ہے کہ وہ نہ ہی سمجھیں۔ مریم چوہدری اپنے انگریزی اخبار کے ایک کالم نویس اردشیر کاؤس جی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
Ardeshir Cowasjee, a columnist who met Jinnah, was a slippery one. It was difficult to get him to express his viewpoint on the man that was without a touch of bitterness. Let's just say, whenever the subject of modern-day Pakistan came up, I had to edit a lot of what Mr. Cowasjee had to say since I knew it would not pass censorship.
اس کا ترجمہ بھی نہیں دوں گا۔
(تیسری قسط)
اب آیئے آگے چلیں۔
28 دسمبر کے کراچی کے ایک انگریزی معاصر میں وہی تبصرہ نگار جن کا میں پہلے حوالہ دے چکا ہوں لکھتے ہیں :
Pakistan owes it to the Muslims of India who staked their own future on its creation not to add to their woes. It may be recalled that Partition became inevitable only when Nehru unilaterally retracted after the Congress and Muslim League had both accepted the Cabinet Mission Plan. Jinnah felt betrayed. For him then there was no going back despite lobying by Lord Mountbatten and Maulana Azad.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کی تخلیق کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اس لئے اب ہمیں کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جو ان کے دکھوں میں اضافے کا باعث ہو۔ یاد رہنا چاہئے کہ تقسیم ہند اس وقت ناگزیر ہوئی جب نہرو نے کابینہ مشن پلان کو اس وقت مسترد کر دیا جب مسلم لیگ اور کانگرس دونوں اسے تسلیم کر چکی تھیں۔ اس سے قائد اعظم کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بے وفائی کی گئی ہے۔ اب ان کے لئے اپنے انکار کے فیصلے سے واپس جانا ممکن نہ تھا باوجود اس کے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور مولانا آزاد نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ کابینہ مشن پلان کا استرداد ختم کر دیں“۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ قائد اعظم کابینہ مشن پلان مسترد کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم رہے حالانکہ اگر وہ ماؤنٹ بیٹن اور ابو الکلام کا مشورہ مان لیتے تو کابینہ مشن پلان شاید کسی شکل میں برقرار رہتا اور نہرو نے من مانی کرنے کی جو دھمکی دی تھی، ماؤنٹ بیٹن اور مولانا آزاد کو یقین تھا کہ وہ اس میں نرمی پیدا کرا سکیں گے اور کچھ ردوبدل بھی ممکن ہو سکے گا۔ بہرکیف تقدیر کا لکھا پورا ہوا اور ہم 1947ء کے خون کے دریا سے گزر کر پاکستان آ گئے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں نے کچھ مزید غلطیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو شاید خون کی اس ہولی کو روک سکتی تھیں۔ ہندوستان میں جب عبوری کابینہ بنی تو جناب لیاقت علی خاں کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان تھا۔ چوہدری محمد علی ان کے مشیر تھے۔ اس زمانے میں سردار پٹیل نے اپنی وزارت میں ایک چپڑاسی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ از روئے ضابطہ اس نئی تقرری کا اجازت نامہ وزارت خزانہ نے دینا تھا۔ جب ان کے پاس درخواست پہنچی تو وزارت خزانہ نے جواب دیا کہ اس نئی پوسٹ کے لئے بجٹ میں کوئی تجویز نہیں ہے اس لئے اس تقرر کی منظوری نہیں دی جا سکتی اور سردار پٹیل بہت کھسیانے اور تلخ ہوئے۔ ان کی بات مان لی جاتی تو بے شک مسلمانوں کے اندر وزارت خزانہ کی واہ واہ نہ ہوتی لیکن عبوری کابینہ خوش اسلوبی سے چلنے کے امکانات اتنے زیادہ تاریک نہ ہوتے۔ اسی طرح جب لیاقت علی خان نے پہلا بجٹ پیش کیا تو اس میں انہوں نے ہندو سرمایہ داروں (مسلمان سرمایہ دار تو بہت کم تھے) پر بھاری ٹیکس لگائے جس سے پھر مسلمانوں میں واہ واہ ہوئی (مجھے آج تک مسلمانوں کے ردعمل کی تفصیل یاد ہے) لیکن ظاہر ہے کہ ان بجٹ تجاویز نے ہندو سرمایہ کاروں (اور با ایں وجہ سیاستدانوں) میں بڑی تلخی پیدا کی اور یہ بھی ان عوامل میں سے ایک عامل بن گیا جس نے عبوری حکومت کے تجربے کو تلخ بنا دیا۔ اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگرسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ آج کی پاک ہند قیادت کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور اب بھی کسی قسم کے دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہئے۔ میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ ممتاز پاکستانی سکالر اور موٴرخ ڈاکٹر عائشہ جلال کی بھی یہی رائے ہے جو اسلام آباد سے لندن کے ایک سفر کے دوران اگست 2002ء میں انہوں نے میرے سامنے ظاہر کی ۔ سیفما نے کئی ماہ پہلے لاہور میں ساؤتھ ایشیائی صحافیوں کی ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا تھا ”ماضی میں ہم دونوں سے جو بھی غلطیاں ہوئیں اب تاریخ کی قوتیں ہمیں دھکیل رہی ہیں کہ ہم ہوشمندی اور تعاون باہمی کا راستہ اختیار کریں“۔ میرے اس تبصرے پر پاکستان اور ہندوستان کے چوٹی کے صحافیوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور جناب ایم جے اکبر نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت دانائی کی باتیں کی ہیں۔ ممبئی کے حالیہ واقعے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے خدشات کے بعد تو پاک ہند تعاون کی ضرورت مزید واضح ہو گئی ہے۔ کیا دونوں طرف کوئی سننے والا ہے؟
یوں آپ دیکھیں گے کہ میں نے 40سال پہلے 1966ء میں چوہدری محمد علی کے سامنے جو تجویز پیش کی تھی آج کی پاکستانی قیادت اس کی افادیت کو محسوس کر رہی ہے۔ جناب مصطفی صادق دو دفعہ مجھے تصدیق کر چکے ہیں کہ انہیں یہ ملاقات اور گفتگو یاد ہے۔ مجھے کہنا تو نہیں چاہئے لیکن امر واقع یہ ہے کہ جب میں نے یہ تجویز پیش کی تھی تو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی سیاست کے میدان
میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے۔ وہ قریباً 30 سال پہلے سیاست میں آئے تھے۔ "
"آج میں ایک اہم اور حساس موضوع پر اظہار خیال کرنے والا ہوں :
سیفما کے سیکرٹری جنرل اور میرے عزیز دوست جناب امتیاز عالم کا عرصے تک معمول رہا ہے کہ جب وہ دفتر آتے تو سب سے پہلے میرے کمرے میں تشریف لاتے اور چائے کی پیالی پر گپ شپ ہوتی۔ وہ مجھے کہتے کہ مجھے دفتر آنے میں سب سے بڑی دلچسپی یہی ہوتی ہے کہ آپ کے ساتھ ایک نشست ہو جاتی ہے۔ سالوں پر پھیلی ہوئی ان نشستوں کے دوران کوئی دس بارہ برس پہلے میں نے ان سے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کے حوالے سے میرے ذہن میں ایک تجویز ہے لیکن میں ابھی حالات کو اس قدر سازگار نہیں سمجھتا کہ اس کو لکھ ڈالوں۔ میں نے انہیں اپنی تجویز کے خدوخال بھی بتائے لیکن خوفِ فسادِ خلق سے یہ تجویز اب تک ناگفتنی ہی رہی تھی۔ مگر اب حالات میں کچھ ایسی تبدیلی آئی ہے کہ اس تجویز کو لکھ دینے سے کوئی بڑا طوفان آنے کا اندیشہ نہیں ہے۔
یہ 1966ء کی بات ہے 1965ء کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان میں جو بے چینی پیدا ہوئی وہ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی صورت میں ڈھل چکی تھی۔ انہی دنوں لاہور میں مغربی پاکستان کے چوٹی کے تقریباً تمام سیاستدانوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا اہتمام حسب معمول نوابزادہ نصر اللہ خان نے کیا تھا۔ اس کانفرنس میں ملک کی تازہ ترین صورت حال پر، مشرقی پاکستان کی بے چینی کے پس منظر میں، تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے کانفرنس کے اکابرین کے سامنے اپنا چھ نکاتی کا فارمولا پیش کیا جسے پوری کانفرنس نے اتفاق رائے سے قطعی طور پر مسترد اور ناقابل قبول قرار دیا۔ چوہدری محمد علی سابق وزیراعظم پاکستان اس کانفرنس کے بعد بھی کچھ دیر کے لئے لاہور میں رکے۔ وہ عام طور پر گرمی اور سردی کے حوالے سے معتدل موسم کراچی اور لاہور میں گزارتے تھے۔ یہ دن ان کے لاہور میں ٹھہرنے کے تھے، میں نے ارادہ کیا کہ ان کی زیارت کی جائے، ان دنوں وہ ایک باریش بزرگ بن چکے تھے۔ میرے ساتھ میرے محترم بھائی اور ممتاز صحافی جناب مصطفی صادق بھی چوہدری صاحب سے ملنے گئے۔ راستے میں میں نے مصطفی صادق صاحب کو بتایا کہ آج میرا ارادہ چوہدری صاحب سے ایک تجویز پر گفتگو کرنے کا ہے جس پر تجویز کی نوعیت جان کر مصطفی صادق نے مجھے کہا کہ آپ چوہدری صاحب سے اس موضوع پر بات نہ کریں لیکن میں مشرقی پاکستان کی صورت حال اور پاک ہند تعلقات کی کشیدگی کی وجہ سے اپنی تجویز پر بات کرنے کے لئے بے چین تھا۔ چوہدری صاحب نے اپنی ابتدائی گفتگو میں کہا کہ وہ مشرقی پاکستان کے حالات سے انتہائی پریشان اور متفکر ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ تو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان وجہ نزاع تھا ہی اور اسی کی وجہ سے 1965ء کی جنگ ہوئی تھی۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ اس سیاق و سباق میں کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم ہندوستان سے اپنے تعلقات کو کوئی نئی شکل دینے کی کوشش کریں۔ دوسرے لفظوں میں کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم دونوں ملکوں کے تعلقات کو Reinvent کریں۔ اس کی میں نے ایک عملی شکل بھی تجویز کی جسے سن کر چوہدری صاحب نے فرمایا کہ ایسا کرنے سے پاکستان اپنی موجودہ شکل میں قائم نہیں رہے گا۔ میں نے ان کے احترام کی وجہ سے ان سے مزید بحث نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن تجویز میرے ذہن میں موجود رہی۔ پاکستان میں چونکہ ایک اچھا خاصا حلقہ ہندوستان سے کسی بھی قسم کے ہمہ جہتی اچھے تعلقات رکھنے کا حامی نہیں ہے اس لئے میں نے بھی اس موضوع کو نہ چھیڑنا ہی مناسب سمجھا۔ لیکن اب ادھر کچھ عرصے سے بعض اکابرین قوم اور بعض اہم صحافتی حلقے ہندوستان سے نئے تعلقات کے سوال پر کچھ کچھ غور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 24 مارچ 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہندوستان کے ایک مقبول اور بڑی اشاعت رکھنے والے انگریزی ہفت روزے ”انڈیا ٹو ڈے“ کے جلسے میں شرکت کی تھی جو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ اس موقع پر شہید محترمہ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا پاک ہند تعلقات کو نئے سرے سے ”ایجاد“ کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے انہوں نے Reinvent کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ان ابتدائی کلمات اور ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات اور سارک کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں نے راجیو گاندھی کو تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں سارک کو ایک ثقافتی تنظیم کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی تنظیم بھی بنانا چاہئے۔ اس کے بعد انہوں نے 1999 ء میں ہونے والی انڈ و پاک پارلیمنٹرین کانفرنس کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے شرکت کی تھی اور دونوں ملکوں کے پارلیمانی ممبران کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ پاکستان ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں کو اپنے اختلافات اور آپس کے قضیوں کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے ایک مشترک منڈی قائم کرنی چاہئے تاکہ ہم اپنے خطے سے غربت ، بھوک ، بیروزگاری اور پچھڑے پن کا خاتمہ اپنی نرم سرحدوں کے ذریعے کر سکیں۔
ادھر میاں نواز شریف بھی یہ تجویز دے چکے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ویزہ کی پابندی ختم کر دینی چاہئے۔ چارٹر آف ڈیمو کریسی میں بھی کہا گیا ہے کہ
Peaceful relations with India and Afghanistan will be pursued without prejudice to outsanding disputes.
اس سے دونوں دستخط کنندگان کی ترجیح کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت اگرچہ بدقسمتی سے ممبئی کے المیے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا ایک بہت برا دور چل رہا ہے لیکن پھر بھی غنیمت ہے کہ ان سطور کے تحریر کئے جانے کے وقت کشیدگی میں کمی کے کچھ آثار پیدا ہو رہے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کا وہ عمل پھر شروع کیا جا سکے گا جو اس وقت عارضی طور پر رکا ہوا ہے اور آخرکار دونوں ملک محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے نظریات کے مطابق باہمی تعلقات قائم کر سکیں گے۔ بی بی نے اپنی شہادت سے کئی ماہ پہلے لندن میں کہا تھا کہ وہ جنوبی ایشیا کو ایک Border less خطہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ ہندوستانی وزیر اعظم من موہن سنگھ بھی ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ جغرافیائی سرحدوں کی موجودگی کے باوجود ہم عملاً انہیں غیرمتعلق بنا سکتے ہیں۔ یوں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان آج کے مقابلے پر بہت زیادہ کھلے اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی خواہش دونوں طرف موجود ہے۔ میں نے جب 1966ء میں چوہدری محمد علی صاحب سے بات کی تھی تو میرے ذہن میں بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات کا خاکہ تھا لیکن چوہدری صاحب کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے میں نے پھر اس موضوع پر کافی دیر کچھ نہ لکھنے کا فیصلہ کیا لیکن اب مذکورہ کوائف کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی نئی طرح ڈالنے کی کوشش کرنا ویسا شجر ممنوعہ نہیں سمجھا جانا چاہئے جیسا کہ بیس تیس سال پہلے تک سمجھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر کراچی کے انگریزی معاصر کی 21 دسمبر کی اشاعت میں ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے ایک مستقل تبصرہ نگار کہتے ہیں :
The passsage of time and a legacy of mistrust and hostility leave no room to think about a loose federation now. But it should still be possible for the governments of India, Pakistan and Bangladesh to form a block or union of the kind that emerged in Europe out of the hostilities of the Second World War. Evolving a common mechanism that diverts their attention and resources form the weapons of war to the poverty of their people could be the first step in that direction.
Pakistan would stand to gain more than the others because as a percentage of national income it spends twice as much on defence than India and also suffers from terrorism much more than India does. In such a collaborative arrangement 470 million Muslims of the subcontinent would count for more than they do at present, spread as they are, almost equally, over three countries.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”وقت گزرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی اور مخالفت اس بات کی گنجائش نہیں چھوڑتے کہ اب دونوں کے درمیان ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن کے سوال پر غور کیا جائے لیکن اس کے باوجود پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے لئے یہ ممکن ہونا چاہئے کہ وہ ایک بلاک یا ایک یونین ان خطوط پر قائم کر لیں جو جنگ عظیم دوئم کی دشمنیوں کے باوجود یورپ میں رونما ہوئی۔ ایسا مشترکہ طریق کار تلاش کرنا جو ان کی توجہ اور وسائل جنگی ہتھیاروں کی بجائے ان کے عوام کی غربت کی طرف مبذول کردے مذکورہ سمت میں ایک پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ اس انتظام سے دوسروں کے مقابلے پر پاکستان کو زیادہ فائدہ ہو گا کیونکہ وہ اپنے دفاع پر اپنی قومی آمدنی کا ہندوستان کے مقابلے پر دگنا استعمال کرتا ہے اور ہندوستان سے بھی بڑھ کر دہشت گردی کا شکار بنا ہوا ہے۔ اس طرح کے تعاون پر مبنی انتظام سے برصغیر کے 470 ملین مسلمان زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گے کیونکہ اس وقت وہ تقریباً مساوی تعداد میں تین ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں“۔
(دوسری قسط)
اب آیئے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھیں ۔ ایک معاصر میں لکھتے ہوئے ایک محترم دوست کہتے ہیں کہ چند ہفتے قبل مارکیٹ میں ایک کتاب آئی ہے جس کا نام ہے ۔
"The Sun Shall Rise"
اور اسے لاہور کے ایک معروف اور قدیم پبلشر نے شائع کیا ہے۔ اس کے مصنف جناب عطا ربانی ہیں جن کا ماضی ان کی حب الوطنی پر دلالت کرتا ہے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ رائل انڈین ایئرفورس میں شامل ہو گئے۔ پاکستان معرض وجود میں آیا تو انہیں یہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ قائد اعظم کے پہلے ایئرایڈی کانگ مقرر کئے گئے۔ وہ لکھتے ہیں :
”پاکستان بنتے ہی 15 اگست 1947ء کو ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت میں قائد اعظم نے تین غلطیاں کیں۔ ان کا ایک بیورو کریٹ ملک غلام محمد کو ملک کا پہلا وزیر خزانہ بنانا پہلی ”غلطی “ تھی۔ اس ”غلطی“ نے آنے والے دنوں میں نوزائیدہ مملکت کو بے انتہا اور لاتعداد نقصانات پہنچائے۔ عطا ربانی کا کہنا ہے کہ حضرت قائد اعظم، غلام محمد کی بجائے نوابزادہ لیاقت علی خان کو وزارت عظمیٰ کے ساتھ وزارتِ خزانہ کا اضافی قلمدان بھی سونپ سکتے تھے کہ لیاقت علی خان کی امانت و دیانت اور پاکستان سے کمٹمنٹ اظہر من الشمس تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ملک غلام محمد کی بجائے قائد اعظم کسی ایسے سیاستدان کا بھی بطور وزیر خزانہ تقرر کر سکتے تھے جس میں فنانس کے معاملات کو سمجھنے کی اہلیت ہوتی اور جسے سررولینڈز کی نگرانی میں مزید پالش کیا جا سکتا۔ (سر رولینڈز متحدہ ہندوستان میں وائسرائے کونسل کے آخری فنانس ممبر تھے اور قائد اعظم نے پاکستان کے لئے ان کی خدمات عاریتاً لے بھی رکھی تھیں) عطا ربانی کے بقول ملک غلام محمد کو نوزائیدہ پاکستان کا وزیر خزانہ بنایا جانا اس لئے بھی غیرمناسب تھا کہ ایک تو ان کے پاس خزانہ کے معاملات چلانے کا کوئی وسیع تجربہ اور علم نہیں تھا سوائے اس کے کہ انہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران متحدہ ہندوستان کی حکومت میں سپلائی اینڈ پرچیز کے شعبے میں چند سال گزارے تھے اور دوسرا یہ کہ ملک غلام محمد حد سے زیادہ اقتدار کا حریص تھا۔ اپنی اوقات سے بڑھ کر عہدے کا متمنی رہنے والا، نہایت ضدی بیورو کریٹ اور منتقم مزاج بھی۔ اقتدار کے لئے اس کی حرص کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلد ہی اس غیرمنتخب شخص نے اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کا جال بچھا دیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اپنا راستہ ہموار کرنے لگا۔ یہ اس کی سازشوں ہی کا نتیجہ تھا کہ تھوڑے عرصے میں قائد اعظم کی رحلت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کی جگہ ملک غلام محمد بیٹھا تھا۔ یہ پاکستان کی بہت بڑی بدقسمتی تھی۔ چونکہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو سخت ناپسند تھا اس لئے ناپسندیدہ عناصر سے گلوخلاصی کروانے کے لئے غلام محمد نے نہایت جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے۔ ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ میں اس کے خلاف بغاوت کے شعلے بلند ہونے لگے۔ نوزائیدہ پاکستان جسے قدم قدم پر جمہوری فیصلوں اور مشوروں کی ضرورت تھی وہاں ملک غلام محمد کے فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے آمریت کی راہ ہموار ہونے لگی۔ عطا ربانی صاحب کا کہنا ہے کہ غلام محمد نے بلاواسطہ اور بالواسطہ حکومت سازی اور حکومت کے فیصلوں میں بیورو کریسی کو شامل کیا اور آج ہمیں سیاست میں جو آلودگی نظر آ رہی ہے وہ غلام محمد کے فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ غلام محمد ہی کی وجہ سے سول بیورو کریسی کے بعد ملٹری بیورو کریسی نے بھی پر پرزے نکالنا شروع کر دیے جس نے پاکستان کو دولخت بھی کیا اور تین بار ملک فوجی جرنیلوں کے قبضے میں بھی رہا۔
پاکستان آرمی کے پہلے سربراہ کو نافرمانی کی سزا نہ دینا دوسری ”غلطی“ تھی۔ اکتوبر 47ء کے اواخر میں ہمارے قبائلی سری نگر ایئر پورٹ پر قبضہ کرنے کے قریب تھے۔ آس پاس کا علاقہ بھی ان کے زیر قبضہ تھا۔ ایسے میں قائد اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس گریسی، جنہیں عارضی طور پر پاکستان آرمی کی کمان دی گئی تھی، کو حکم دیا کہ کشمیری مجاہدین اور قبائلیوں کی اعانت کے لئے ایک بریگیڈ فوج کشمیر بھیجی جائے لیکن گریسی نے قائد کے حکم کی تعمیل کے برعکس فیلڈ مارشل آکین لیک سے رابطہ کیا جو ان دنوں بھارتی فوجوں کے سربراہ تھے اور انہیں قائد اعظم کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات کا تقاضا تھا کہ قائد اعظم فوری طور پر گریسی کو سزا دیتے ہوئے عہدے سے الگ کر دیتے اور ان کی جگہ پاکستانی فوج کے کسی سینئر افسر کا تقرر عمل میں آتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سری نگر ایئر پورٹ بھی ہمارے قبائلیوں کی گرفت سے نکل گیا اور کشمیر کی مکمل فتح بھی ادھوری رہ گئی۔ اگر جنرل گریسی کو فوری سزا دے دی جاتی تو نہ بعد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تین ہلاکت خیز جنگیں ہوتیں اور نہ ہی سیاچن اور کارگل ایسی لڑائیوں کے سانحات رونما ہوتے۔ مصنف عطا ربانی نے دعویٰ کیا ہے کہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر نہ صرف جنرل گریسی کو سزا نہ دی جا سکی بلکہ قائد اعظم نے اسے لیفٹیننٹ جنرل سے ترقی دے کر فل جنرل بنا دیا اور پاکستان آرمی کے پہلے باقاعدہ سربراہ ہونے کا اعزاز بھی اسے بخش دیا۔ عطا ربانی کے دعوے کے مطابق، اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا قائد اعظم کی تیسری ”غلطی“ تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت اردو بولتی تھی لیکن تقسیم ہند نے معاملات بدل دیئے۔ اب مشرقی پاکستان میں 54 فیصد پاکستانی رہتے تھے جو اردو بولنا ،لکھنا اور پڑھنا کم کم جانتے تھے۔ ان کی زبان بنگالی تھی لیکن قائد اعظم نے مارچ 1948ء کو مشرقی پاکستان پہنچ کر اردو کے قومی زبان ہونے کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ قائد اعظم نے خلوص نیت سے اور یکجہتی کے لئے یہ اعلان کیا تھا لیکن بنگالی پاکستانیوں نے اس فیصلے کو اپنے کلچر، روایات اور اپنی زبان کے خلاف حملہ سمجھا۔ پھر ہنگامے شروع ہو گئے جس میں تین طلبہ بھی ہلاک ہو گئے۔ مصنف کے مطابق اس فیصلے نے پاکستان کے دونوں بازوؤں کے درمیان حائل 1200 میل کے آبی فاصلوں کو دل کی دوریوں میں بدل دیا۔
بہت سے لوگوں کو جناب عطا ربانی کی رائے سے اختلاف ہو گا لیکن ان کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ اب ایک اور حوالہ دیکھئے بلکہ ایک Shock کے لئے تیار ہو جایئے۔ 25 دسمبر کے ”ڈان“ میں ”ڈان نیوز“ ٹی وی کی ایک تبصرہ نگار مریم چوہدری لکھتی ہیں: (وہ قائد اعظم پر I remember Jinnah کے عنوان سے ڈان ٹی وی پر اپنے پروگرام کئی بار دکھا چکی ہیں)
JINNAH was a puzzle that has yet to be solved. People can tell you the most outrageous stories about the man and swear on it being honest to God truth. Or they can churn him out to be the man they wanted him to be. So who was Muhammad Ali Jinnah? Was he a statesman that fought for the right of a people who he shared a religion with? Was he a man who married for love and then lost his daughter to a land that was home and then became foreign territory? Was he a civilian with the fire of a freedom fighter or a villain with a vendetta?
میں اس اقتباس کا ترجمہ نہیں دوں گا جو خود اسے سمجھ سکتے ہیں سمجھ لیں اور جو نہیں سمجھ سکتے بہتر ہے کہ وہ نہ ہی سمجھیں۔ مریم چوہدری اپنے انگریزی اخبار کے ایک کالم نویس اردشیر کاؤس جی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
Ardeshir Cowasjee, a columnist who met Jinnah, was a slippery one. It was difficult to get him to express his viewpoint on the man that was without a touch of bitterness. Let's just say, whenever the subject of modern-day Pakistan came up, I had to edit a lot of what Mr. Cowasjee had to say since I knew it would not pass censorship.
اس کا ترجمہ بھی نہیں دوں گا۔
(تیسری قسط)
اب آیئے آگے چلیں۔
28 دسمبر کے کراچی کے ایک انگریزی معاصر میں وہی تبصرہ نگار جن کا میں پہلے حوالہ دے چکا ہوں لکھتے ہیں :
Pakistan owes it to the Muslims of India who staked their own future on its creation not to add to their woes. It may be recalled that Partition became inevitable only when Nehru unilaterally retracted after the Congress and Muslim League had both accepted the Cabinet Mission Plan. Jinnah felt betrayed. For him then there was no going back despite lobying by Lord Mountbatten and Maulana Azad.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کی تخلیق کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اس لئے اب ہمیں کوئی ایسی بات نہ کرنی چاہئے جو ان کے دکھوں میں اضافے کا باعث ہو۔ یاد رہنا چاہئے کہ تقسیم ہند اس وقت ناگزیر ہوئی جب نہرو نے کابینہ مشن پلان کو اس وقت مسترد کر دیا جب مسلم لیگ اور کانگرس دونوں اسے تسلیم کر چکی تھیں۔ اس سے قائد اعظم کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ بے وفائی کی گئی ہے۔ اب ان کے لئے اپنے انکار کے فیصلے سے واپس جانا ممکن نہ تھا باوجود اس کے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور مولانا آزاد نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ کابینہ مشن پلان کا استرداد ختم کر دیں“۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ قائد اعظم کابینہ مشن پلان مسترد کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم رہے حالانکہ اگر وہ ماؤنٹ بیٹن اور ابو الکلام کا مشورہ مان لیتے تو کابینہ مشن پلان شاید کسی شکل میں برقرار رہتا اور نہرو نے من مانی کرنے کی جو دھمکی دی تھی، ماؤنٹ بیٹن اور مولانا آزاد کو یقین تھا کہ وہ اس میں نرمی پیدا کرا سکیں گے اور کچھ ردوبدل بھی ممکن ہو سکے گا۔ بہرکیف تقدیر کا لکھا پورا ہوا اور ہم 1947ء کے خون کے دریا سے گزر کر پاکستان آ گئے۔ اس ضمن میں بعض لوگوں نے کچھ مزید غلطیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو شاید خون کی اس ہولی کو روک سکتی تھیں۔ ہندوستان میں جب عبوری کابینہ بنی تو جناب لیاقت علی خاں کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان تھا۔ چوہدری محمد علی ان کے مشیر تھے۔ اس زمانے میں سردار پٹیل نے اپنی وزارت میں ایک چپڑاسی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ از روئے ضابطہ اس نئی تقرری کا اجازت نامہ وزارت خزانہ نے دینا تھا۔ جب ان کے پاس درخواست پہنچی تو وزارت خزانہ نے جواب دیا کہ اس نئی پوسٹ کے لئے بجٹ میں کوئی تجویز نہیں ہے اس لئے اس تقرر کی منظوری نہیں دی جا سکتی اور سردار پٹیل بہت کھسیانے اور تلخ ہوئے۔ ان کی بات مان لی جاتی تو بے شک مسلمانوں کے اندر وزارت خزانہ کی واہ واہ نہ ہوتی لیکن عبوری کابینہ خوش اسلوبی سے چلنے کے امکانات اتنے زیادہ تاریک نہ ہوتے۔ اسی طرح جب لیاقت علی خان نے پہلا بجٹ پیش کیا تو اس میں انہوں نے ہندو سرمایہ داروں (مسلمان سرمایہ دار تو بہت کم تھے) پر بھاری ٹیکس لگائے جس سے پھر مسلمانوں میں واہ واہ ہوئی (مجھے آج تک مسلمانوں کے ردعمل کی تفصیل یاد ہے) لیکن ظاہر ہے کہ ان بجٹ تجاویز نے ہندو سرمایہ کاروں (اور با ایں وجہ سیاستدانوں) میں بڑی تلخی پیدا کی اور یہ بھی ان عوامل میں سے ایک عامل بن گیا جس نے عبوری حکومت کے تجربے کو تلخ بنا دیا۔ اگر یہ تلخ تجربہ یا تجربات نہ ہوئے ہوتے تو کانگرسی قیادت کابینہ مشن پلان کی نامنظوری تک شاید نہ جاتی لیکن قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ آج کی پاک ہند قیادت کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے اور اب بھی کسی قسم کے دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہئے۔ میں آج بھی جب کابینہ مشن پلان کی ناکامی پر غور کرتا ہوں تو میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ ممتاز پاکستانی سکالر اور موٴرخ ڈاکٹر عائشہ جلال کی بھی یہی رائے ہے جو اسلام آباد سے لندن کے ایک سفر کے دوران اگست 2002ء میں انہوں نے میرے سامنے ظاہر کی ۔ سیفما نے کئی ماہ پہلے لاہور میں ساؤتھ ایشیائی صحافیوں کی ایک کانفرنس بلائی تھی جس میں تقریر کرتے ہوئے میں نے کہا تھا ”ماضی میں ہم دونوں سے جو بھی غلطیاں ہوئیں اب تاریخ کی قوتیں ہمیں دھکیل رہی ہیں کہ ہم ہوشمندی اور تعاون باہمی کا راستہ اختیار کریں“۔ میرے اس تبصرے پر پاکستان اور ہندوستان کے چوٹی کے صحافیوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا اور جناب ایم جے اکبر نے تو کہا تھا کہ آپ نے بہت دانائی کی باتیں کی ہیں۔ ممبئی کے حالیہ واقعے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے خدشات کے بعد تو پاک ہند تعاون کی ضرورت مزید واضح ہو گئی ہے۔ کیا دونوں طرف کوئی سننے والا ہے؟
یوں آپ دیکھیں گے کہ میں نے 40سال پہلے 1966ء میں چوہدری محمد علی کے سامنے جو تجویز پیش کی تھی آج کی پاکستانی قیادت اس کی افادیت کو محسوس کر رہی ہے۔ جناب مصطفی صادق دو دفعہ مجھے تصدیق کر چکے ہیں کہ انہیں یہ ملاقات اور گفتگو یاد ہے۔ مجھے کہنا تو نہیں چاہئے لیکن امر واقع یہ ہے کہ جب میں نے یہ تجویز پیش کی تھی تو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی سیاست کے میدان
میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے۔ وہ قریباً 30 سال پہلے سیاست میں آئے تھے۔ "