بزم نثار کولکاتا کے ایک ادبی اجلاس میں ایک مقالہ ہم نے بھی پڑھا تھا ۔ اس اجلاس کی رپورٹ آج 27۔اگست کے روزنامہ آزاد ہند کولکاتا میں شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے اقتباسات حاضر ہیں۔ اجلاس کی مکمل روداد کے لیے یہ لنک
بزم نثار (Bazm-e-Nassaar) کولکاتا کی جانب سے 15/اگست 2013 جمعرات کے دن بعد نماز مغرب انجمن مفید الاسلام گرلس ہائی اسکول میں تقریب یوم آزادی بھی منائی گئی اور شام عید ملن بھی۔ صدارت ڈاکٹر محمد منصور عالم کی تھی اور میزبانی اصغر انیس کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے حیدرآباد کے رہنے والے ریاض میں مقیم انجینئر سید مکرم نیاز مع اپنی اہلیہ کے مدعو تھے۔ ان کے علاوہ شگفتہ یاسمین غزل اور عرش منیر نے بھی شرکت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
محترمہ شگفتہ یاسمین غزل نے مقالہ "کیفی اعظمی کی شاعری میں عورت کا تصور" ، جناب تفضل حسین ایڈوکیٹ نے افسانہ "یقین" ، جناب جاوید نہال حشمی نے افسانہ "لہو کا درد" ، محترمہ عرشِ منیر نے خورشید اکبر کے تعلق سے مضمون "میں اپنے درد سبھی شاعری کو دے جاؤں" ، محترمہ فرح عندلیب نے مضمون "گھریلو عورت کے لیے انٹرنیٹ کی ضرورت افادیت اور حدود" ، محترم سید مکرم نیاز نے انٹرنیٹ سے متعلق مقالہ ، جناب محمود یسین نے افسانہ "بڑا صاحب" اور پھر صدر جلسہ جناب پروفیسر محمد منصور عالم نے مقالہ "پروفیسر عباس علی خان بےخود کا نثری شناخت نامہ" پیش کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
وقت کی کمی نے تاثرات کا دور حسب روایت خاطرخواہ طور پر چلنے نہیں دیا بلکہ صرف صدر جلسہ کی آراء پر اکتفا کرنا پڑا جنہوں نے اپنی مقالہ خوانی سے قبل فرمایا کہ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ کرم کیا کہ مجھے مکرم سے ملوا دیا ۔ میں پورا اتفاق کرتا ہوں محترمہ عرش منیر سے کہ آج کل اردو دنیا میں کس قدر بے ایمانی ، دھاندلی اور حق تلفی رائج ہو گئی ہے ۔ آپ نے پڑھنے والوں کے یہاں تلفظ کی بعض خامیوں کی نشاندہی کی ۔ انگریزی کے لفظ Quote & Unquote کی جگہ قول اور حول پڑھنے کی تاکید کی ۔ شگفتہ یاسمین غزل کو مشورہ دیا کہ عام موضوعات پر قلم نہ اٹھائیں ویسے انھوں نے اشعار بر محل اور موزوں رقم کئے ہیں ۔ تفضل حسین کے افسانے پر مختصر تبصرہ کیا اور جاوید کے افسانے کی تعریف کی ۔ عرش منیر کی اس بات سے اتفاق ظاہر کیا کہ ان دنوں لوگوں کو تاحیات خدمات کا ایوارڈ دینا ایک فیشن بن گیا ہے ۔ تبصرہ نگار کسی افسانہ نویس کو پریم چند سے بڑا بنا دیتا ہے تو کسی شاعر کو غالب کا ہم پلہ ۔ فرح عندلیب کے مقالے کے علاوہ ان کی مقالہ خوانی کی بھی تعاریف کی اور کہا اگر چہ عام طور پر حیدرآبادیوں کے لیے ق کو خ اور خ کو ق پڑھنے کا رواج ملتا ہے لیکن عندلیب سے کہیں بھی ایسی بدعت نہیں ہوئی ۔ محمود یٰسین صاحب سے معذرت چاہتے ہوئے اعتراف کیا کہ ان کی افسانہ خوانی کے وقت وہ کسی اور خیال میں کھو چکے تھے ۔
مکرم صاحب کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل کہا کہ بزم نثار والے آپ پر نثار ہیں ۔ آپ نے اپنے مقالے کے توسط سے ایسی ایسی باتیں بتائیں اور سنائیں ہیں جن کی نہ صرف آج سخت ضرورت ہے بلکہ یہ ایسی گراں قدر پیش کش ہے کہ جس کے لیے اردو کے تمام ادباء ، شعراء اور ناقدین کو چاہیے کہ آپ کو سلام کریں ۔ امید کرتا ہوں کہ اردو دنیا میں مکرم صاحب کا نام مقدم ہو جائے ۔ آپ نے فرمایا جب سے بزم نثار قائم ہوئی ہے لوگ اس کی جانب متوجہ ہورہے ہیں اور وہ لوگ بھی نثر لکھنے لگے ہیں جنہوں نے اس کی طرف یکسوئی سے توجہ مبذول نہیں کی تھی ۔ انہوں نے بزم نثار اور ایران سوسائٹی کی جانب سے دونوں اداروں کی چند مخصوص مطبوعات مکرم نیاز کی خدمت میں پیش کیں ۔
بزم نثار (Bazm-e-Nassaar) کولکاتا کی جانب سے 15/اگست 2013 جمعرات کے دن بعد نماز مغرب انجمن مفید الاسلام گرلس ہائی اسکول میں تقریب یوم آزادی بھی منائی گئی اور شام عید ملن بھی۔ صدارت ڈاکٹر محمد منصور عالم کی تھی اور میزبانی اصغر انیس کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے حیدرآباد کے رہنے والے ریاض میں مقیم انجینئر سید مکرم نیاز مع اپنی اہلیہ کے مدعو تھے۔ ان کے علاوہ شگفتہ یاسمین غزل اور عرش منیر نے بھی شرکت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
محترمہ شگفتہ یاسمین غزل نے مقالہ "کیفی اعظمی کی شاعری میں عورت کا تصور" ، جناب تفضل حسین ایڈوکیٹ نے افسانہ "یقین" ، جناب جاوید نہال حشمی نے افسانہ "لہو کا درد" ، محترمہ عرشِ منیر نے خورشید اکبر کے تعلق سے مضمون "میں اپنے درد سبھی شاعری کو دے جاؤں" ، محترمہ فرح عندلیب نے مضمون "گھریلو عورت کے لیے انٹرنیٹ کی ضرورت افادیت اور حدود" ، محترم سید مکرم نیاز نے انٹرنیٹ سے متعلق مقالہ ، جناب محمود یسین نے افسانہ "بڑا صاحب" اور پھر صدر جلسہ جناب پروفیسر محمد منصور عالم نے مقالہ "پروفیسر عباس علی خان بےخود کا نثری شناخت نامہ" پیش کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
وقت کی کمی نے تاثرات کا دور حسب روایت خاطرخواہ طور پر چلنے نہیں دیا بلکہ صرف صدر جلسہ کی آراء پر اکتفا کرنا پڑا جنہوں نے اپنی مقالہ خوانی سے قبل فرمایا کہ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے یہ کرم کیا کہ مجھے مکرم سے ملوا دیا ۔ میں پورا اتفاق کرتا ہوں محترمہ عرش منیر سے کہ آج کل اردو دنیا میں کس قدر بے ایمانی ، دھاندلی اور حق تلفی رائج ہو گئی ہے ۔ آپ نے پڑھنے والوں کے یہاں تلفظ کی بعض خامیوں کی نشاندہی کی ۔ انگریزی کے لفظ Quote & Unquote کی جگہ قول اور حول پڑھنے کی تاکید کی ۔ شگفتہ یاسمین غزل کو مشورہ دیا کہ عام موضوعات پر قلم نہ اٹھائیں ویسے انھوں نے اشعار بر محل اور موزوں رقم کئے ہیں ۔ تفضل حسین کے افسانے پر مختصر تبصرہ کیا اور جاوید کے افسانے کی تعریف کی ۔ عرش منیر کی اس بات سے اتفاق ظاہر کیا کہ ان دنوں لوگوں کو تاحیات خدمات کا ایوارڈ دینا ایک فیشن بن گیا ہے ۔ تبصرہ نگار کسی افسانہ نویس کو پریم چند سے بڑا بنا دیتا ہے تو کسی شاعر کو غالب کا ہم پلہ ۔ فرح عندلیب کے مقالے کے علاوہ ان کی مقالہ خوانی کی بھی تعاریف کی اور کہا اگر چہ عام طور پر حیدرآبادیوں کے لیے ق کو خ اور خ کو ق پڑھنے کا رواج ملتا ہے لیکن عندلیب سے کہیں بھی ایسی بدعت نہیں ہوئی ۔ محمود یٰسین صاحب سے معذرت چاہتے ہوئے اعتراف کیا کہ ان کی افسانہ خوانی کے وقت وہ کسی اور خیال میں کھو چکے تھے ۔
مکرم صاحب کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل کہا کہ بزم نثار والے آپ پر نثار ہیں ۔ آپ نے اپنے مقالے کے توسط سے ایسی ایسی باتیں بتائیں اور سنائیں ہیں جن کی نہ صرف آج سخت ضرورت ہے بلکہ یہ ایسی گراں قدر پیش کش ہے کہ جس کے لیے اردو کے تمام ادباء ، شعراء اور ناقدین کو چاہیے کہ آپ کو سلام کریں ۔ امید کرتا ہوں کہ اردو دنیا میں مکرم صاحب کا نام مقدم ہو جائے ۔ آپ نے فرمایا جب سے بزم نثار قائم ہوئی ہے لوگ اس کی جانب متوجہ ہورہے ہیں اور وہ لوگ بھی نثر لکھنے لگے ہیں جنہوں نے اس کی طرف یکسوئی سے توجہ مبذول نہیں کی تھی ۔ انہوں نے بزم نثار اور ایران سوسائٹی کی جانب سے دونوں اداروں کی چند مخصوص مطبوعات مکرم نیاز کی خدمت میں پیش کیں ۔