بزکشی۔۔۔۔ دلچسپ کھیل

زین

لائبریرین
بزکشی جری اور سخت جان قبائل کا انتہائی خطرناک مگر دلچسپ کھیل ہے ۔ طاقت اور زور آزمائی اس کھیل کا لوازمہ ہے ۔ یہ کھیل اب پاکستان میں بھی کھیلا جاتا ہے ۔

گزشتہ دنوں‌پاکستان بزکشی فیڈریشن کے زیر اہتمام کوئٹہ میں بزکشی کے تین روزہ مقابلے ہوئے ۔صوبائی دار الحکومت کوئٹہ کے مضافاتی علاقے کچلاک میں منعقدہ بزکشی کے مقابلوں میں‌کئی ٹیموں نے حصہ لیا جبکہ فائنل مقابلہ کوئٹہ اور کچلاک کی ٹیموں کے درمیان ہوا ۔
114424725_42d946fc01.jpg


بزکشی افغانستان کا قومی کھیل ہے تاہم اس کھیل کی ابتداء چنگیز خان کے دور میں ہوئی جس کا مقصد سپاہیوں کو میدان جنگ میں ہر طرح کے شدید حالات کے لیے تیار رکھنا تھا ۔ یہ کھیل وسطی ایشیاء کے کئی ممالک میں اب تک بے حد مقبول ہے ۔ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے بعد بزکشی نے یہاں بھی رواج پالیا ہے ۔

[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=CMee7vsO5Vw[/youtube]
بالی ووڈ فلم خدا گواہ میں‌ بزکشی کے کھیل کا ایک منظر


بزکشی کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے ۔ زمان و مکان کے لحاظ سے اس میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں ۔یہ کھیل اب ایک حد کے اندر کھیلا جاتا ہے ۔ میدان کے ایک سرے پر ایک گول دائرہ کھینچا جاتا ہے جس کے بیچ میں ایک ذبح شدہ بکری رکھ کر کھلاڑی جسے بزکشی کی اصطلاع میں ’’پہلوان ‘‘کہا جاتا ہے ، زورِ بازو سے اٹھاتا ہے اور میدان کے دوسرے سرے میں متعین نشان گھوم کر دوبارہ اس دائرے میں پھینکنے کی کوشش کرتا ہے اس دوران کھلاڑی کو سخت کشمکش کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بکری دائرے میں پھینکنے کے عمل کو ’’حلال ‘‘کہا جاتا ہے جو کہ ایک پوائنٹ کے برابر ہوتا ہے ۔

[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=DA_l-hkOY9o[/youtube]


گول کرنے والا کھلاڑی جب بکری ’’حلال ‘‘ کرتا ہے تو داد و تحسین کے لیے شائقین کا رخ کرتا ہے ۔ شائقین اِ نہیں نقد رقم دیتے ہیں ۔ یہی دراصل اِن کا انعام ہوتا ہے ۔اس کھیل میں کھلاڑیوں کو چوٹ آنا معمول کی بات ہے بلکہ جان کا خطرہ بھی موجود رہتا ہے ۔قوتِ بازو اور مہارت اس کھیل میں شرط ِ اول ہے ۔
asia116085282009__buzkashi___kabul.jpg

یہ کھیل گزشتہ پچیس سالوں سے کوئٹہ میں کھیلا جارہا ہے مگر بد قسمتی سے حکومتی سطح پر خاطرِ خواہ پذیرائی نہیں کی گئی ہیں۔فیڈریشن اپنی مدد آپ کے تحت بزکشی کے مقابلے منعقد کرتی ہیں۔

buzkashi_80065345.jpg


untitled.jpg

اس حوالے سے ایک رپورٹ‌وائس آف امریکہ کی ۔

افغانستان پر 1978 ءکی روسی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان اوربالخصوص بلوچستان آنے والے افغان مہاجرین نے جہاں ایک طرف پہلے سے ہی بنیادی سہولتوں سے محروم مقامی آبادی کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا تودوسری طرف افغان ہنرمندوں سے یہاں کے لوگوں کو بہت کچھ سیکھنے کا بھی موقع ملا اورسستی لیبر بھی میسر آگئی۔ ان مہاجرین نے بلوچستان جیسے خشک وبے آب صوبے میں نہ صرف زراعت کی ترقی میں بنیاد ی کردار ادا کیا بلکہ یہاں نئی سبزیاں اورپھل بھی متعارف کرائے۔اس کے ساتھ ساتھ پناہ گزینوں نے افغانستان میں کھیلے جانے والے کھیلوں سے بھی مقامی لوگوں کو آشنا کرایا جس میں توپ گولہ اوربزکشی قابل ذکر ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق صوبے کے اکثر مقامات پر نوجوان طبقہ بزکشی کے کھیل میں کافی دلچسپی لے رہاہے۔ بلوچستان میں اس کھیل کی سر پرستی ملک موسیٰ جان کررہے ہیں ان کاکہنا ہے کہ ایک ٹیم کیلئے کم ازکم دس سدھائے ہوئے گھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اوراس وقت صوبے میں چار باقاعدہ تربیت یافتہ ٹیمیں موجود ہیں جن کے درمیان ہر جمعہ کے روز کچلاغ کے مقام پرمقابلے منعقد ہوتے ہیں اور سہ ماہی ٹورنامنٹ بھی کرائے جاتے ہیں۔بزکشی کے ایک ماہر ڈاکٹرعبدالباقی نے بتایاکہ صدیوں پرانے اس کھیل کاآغاز منگولیا سے ہوا اور چنگیز خان کے جنگجوو¿ں نے اسے مرکزی ایشائی خطوں تک پھیلایا جہاں سے یہ افغانستان پہنچا۔ان کاکہناتھا کہ بزکشی سیکھنے کے لئے کھلاڑی کادلیرہو نا لازمی ہے۔ اس کھیل میں مخالف ٹیموں کے کھلاڑی ایک مردہ بکرے یابکری کوایک دوسرے سے چھینتے ہیں اورتقریباً چالیس پچاس گز دور ایک پول کے پاس لے جاتے ہیں جس سے نمبر ملتے ہیں یا گول ہوتاہے بکرے کو فارسی زبان میں ”بز“ کہتے ہیں اوراسی وجہ اس کھیل کانام بزکشی پڑ گیا کھیلنے سے پہلے بکرے کوذبح کیاجاتاہے اور سر علیحدہ کرنے کے بعد کھلاڑی گھوڑوں کودوڑاتے ہوئے نیزوں کی مدد سے بکر ے کواٹھاتے ہوئے مخالف کھلاڑی سے دور لے جاتے ہیں۔بعض کھلاڑیوں نے بتایاکہ دوسری چیزوں کے ساتھ بکرے بھی مہنگے ہوگئے ہیں اوراب وہ بزکشی کے کھیل میں بچھڑے استعمال کرتے ہیں۔ صوبائی سرپرست ملک موسی ٰ جان نے کہاکہ حکومت کی جانب سے انہیں کوئی تعاون حاصل نہیں اوراب تک وہ اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہے ہیں اورکوئٹہ کے قریب کچلاغ میں بزکشی کا گراو¿نڈ بھی خود بنایاہے ان کاکہناتھاکہ اگر حکومت کاتعاون حاصل ہو تووہ اس کھیل کو ملک کے دوسروں حصوں میں بھی فروغ دیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ زین۔ بڑی دلچسپ تحریر ہے اور بڑا دلچسپ کھیل ہے لیکن انفرادی طور پر اس کو کھیلنا خاصا مہنگا ہے۔
 

زین

لائبریرین
یہ انفرادی طور پر مطلب کیاِ؟۔ انفرادی طور پر تو یہ کھیل کھیلا ہی نہیں‌جاتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
بھئی میرا مطلب ہے اگر میں شرکت کرنا چاہوں تو مجھے ایک تو تگڑا قسم کا گھوڑا چاہیے جو کہ اچھا خاصا مہنگا ہو گا۔ یہ نہیں کہ پورا ہفتہ تانگے میں جوت کے رکھو اور ایک دن اس پر زین کس لو، اور پھر بکرے کی قیمت میں بھی شراکت کرنا ہو گی، ویسے کھیل کے اختتام پر اس بکرے کا گوشت کھانے کے قابل بھی رہتا ہے کہ نہیں؟
 

زین

لائبریرین
نہیں پتہ اور پوچھا بھی نہیں میں نے ۔
میں نے یہ کھیل صرف ایک بار دیکھا ہے ۔ وہ بھی تین چار دن پہلے
 

زین

لائبریرین
بھائی۔ جانور کو نزدیک سے نہیں دیکھا ۔
تاہم یہ پتہ چلا کہ جانور کا گوشت کھانے کے قابل ہوتا ہے لیکن لوگ اسے کھاتے نہیں۔
کھیل سے پہلے جانور کے ہاتھ پاؤں آدھے کاٹ دیتے ہیں‌اور پیٹ سے انتڑیاں‌(شاید اسی طرح‌لکھا جاتا ہے) وغیرہ نکال کر دوبارہ سی لیتے ہیں‌۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہ تو ٹھیک ہے کہ اس کے پائے الگ کر دیتے ہیں اور اندر سے بھی صاف کر لیتے ہیں، یعنی صرف کھال سمیت گوشت رہنے دیتے ہیں، لیکن اس کے گوشت کو بعد میں نہ کھانا اسراف میں آتا ہے۔ خیر یہ ان کے رسم و رواج میں شامل ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں۔
 

عزیزامین

محفلین
مجھے بھی اس سے اتفاق ہے

وہ تو ٹھیک ہے کہ اس کے پائے الگ کر دیتے ہیں اور اندر سے بھی صاف کر لیتے ہیں، یعنی صرف کھال سمیت گوشت رہنے دیتے ہیں، لیکن اس کے گوشت کو بعد میں نہ کھانا اسراف میں آتا ہے۔ خیر یہ ان کے رسم و رواج میں شامل ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں۔
مجھے بھی آپکی رائے سے اتفاق ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ زین جی تحریر بہت اچھی شکریہ آج سے مجھے فخر ہے کہ میں آپکا دوست ہوں
 
Top