بسترِ مرگ پر لیٹ جائیے

عرفان سعید

محفلین
بسترِ مرگ پر لیٹ جائیے

برینڈن امریکہ کے ایک مشہور ماہرِ نفسیات تھے۔ ایک بار ان کے پاس ایک ایسا نوجوان لایا گیا جو پے در پے ناکامیوں کے ہاتھوں شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھا، اور اپنی زندگی سے مایوس ہو کر خود کشی کی باتیں کرتا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے اس کی یہ حالت دیکھی تو کہا ،"تمہاری مشکل میں آسان کیے دیتا ہوں، مرنا تو تم چاہ ہی رہے ہو تو تمہارے قریب یہ جو بیڈ پڑا ہے ، سمجھو کہ تمہارا بسترِ مرگ ہے۔ آؤ، اس پر لیٹ جاؤ۔۔۔۔۔لیکن ذرا مرنے سے پہلے یہ تو بتاتے جاؤ کہ کیا سوچ رہے ہو؟" ڈاکٹر برینڈن کا یہ ایک مخصوص طریقۂ علاج تھا جسے وہ انتہائی مایوس اور نراس لوگوں پر استعمال کرتے تھے۔

مریض کی شفا یابی کی داستان کا تو مجھے علم نہیں ، لیکن میں تھوڑی دیر کو یہاں رک گیا، وہ سطریں جن کو اگر محفل میں ارسال کیا جائے تو غالبا لوگ انہیں پڑھ کر پسندیدہ، زبردست، متفق، وغیرہ کی درجہ بندی کر کے آگے گزر جائیں، میں چند لمحوں کو اس مقام پر رک گیا۔

موت ایک اٹل حقیقت ہے، ایک تلوار کی طرح زندگی کی گردن کے قریب مسلط ہے، ایک کانٹا ہے کہ جس کی چبھن ہر وقت تنگ کرتی رہتی ہے، ایک بے کیف سی ہوا ہے جو زندگی کا چراغ گل کر دینے کے درپے ہے۔ اس تلخ و ناگوار تصور کے باوجود کیا آپ ڈاکٹر برینڈن کے بنائے ہوئے فرضی بسترِ مرگ پر چند لمحوں کو لیٹنا پسند کریں گے؟ اس ساعت کو، جس میں فرشتۂ اجل آپ کی روح قبض کرنے کے لیے منتظر ہو، اپنے تصور کی آنکھ سے دیکھنا چاہیں گے؟ موت سے چند لمحے پہلے اپنی زندگی کے کن کن کارناموں کو یاد کریں گے؟ کون سی ایسی غلطیاں ہوں گی جن کے لیے چاہیں گے کہ ان کا وجود کائنات سے ہمیشہ کے لیے مٹا دیا جائے؟ وہ کیا خواب تھے جو خواب ہی رہ گئے؟ وہ کیا ارادے تھے کہ جن پر ایک قدم آگے نہ بڑھا سکے؟ وہ کون لوگ ہیں جنہیں آپ موت سے پہلے دیکھنا چاہیں گے؟

ان سب کا تصور کرنا گرچہ ناخوشگوار ہے، لیکن یہ انجانی گھڑی چند پلوں کی دوری پر ہے۔اب یہ ہر شخص پر منحصر ہے کہ ان سوالوں کے جواب تب تلاش کرے جب زندگی کا سالار لشکرِ اجل کے سامنے گھٹنے ٹیک دے یا کارزارِ حیات کے معرکے میں ان کے جوابات کی سعی کرے۔
(عرفان)
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
اس ساعت کو، جس میں فرشتۂ اجل آپ کی روح قبض کرنے کے لیے منتظر ہو، اپنے تصور کی آنکھ سے دیکھنا چاہیں گے؟ موت سے چند لمحے پہلے اپنی زندگی کے کن کن کارناموں کو یاد کریں گے؟ کون سی ایسی غلطیاں ہوں گی جن کے لیے چاہیں گے کہ ان کا وجود کائنات سے ہمیشہ کے لیے مٹا دیا جائے؟ وہ کیا خواب تھے جو خواب ہی رہ گئے؟ وہ کیا ارادے تھے کہ جن پر ایک قدم آگے نہ بڑھا سکے؟ وہ کون لوگ ہیں جنہیں آپ موت سے پہلے دیکھنا چاہیں گے؟

ان سب کا تصور کرنا گرچہ ناخوشگوار ہے، لیکن یہ انجانی گھڑی چند پلوں کی دوری پر ہے۔اب یہ ہر شخص پر منحصر ہے کہ ان سوالوں کے جواب تب تلاش کرے جب زندگی کا سالار لشکرِ اجل کے سامنے گھٹنے ٹیک دے یا کارزارِ حیات کے معرکے میں ان کے جوابات کی سعی کرے۔

خود احتسابی کا عمل جاری رہنا چاہیے تاہم ذہن میں خیال آتا ہے کہ ان سوالات کے جواب وقتِ آخر مل بھی جائیں تو شایدکچھ زیادہ فائدہ نہ ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ کارزارِ حیات کے معرکے میں ہی ان جوابات کو تلاش کر لیا جائے۔ عمدہ تحریر ہے؛ شراکت کا شکریہ!
 
اس سے مجھے ایک پرانی روٹین یاد آ گئی، افسوس کہ اب کافی عرصہ سے شرکت نہ ہو سکی۔
ہم ہر دو ماہ میں ایک رات شب بیداری کرتے تھے۔ جس میں قرآن فہمی، فہم حدیث، انفرادی عبادات کے علاوہ ایک ایکٹویٹی یہ بھی ہوتی تھی، کہ قریبی قبرستان جاتے تھے۔ اور اس میں یہی ہدایت ہوتی تھی کہ یہ سمجھتے ہوئے جائیں کہ آپ کو لے جایا جا رہا ہے۔ اور پھر غور و فکر کریں کہ اپنے موجودہ اعمال پر کہاں کھڑے ہیں۔
 
بسترِ مرگ پر لیٹ جائیے

ڈیوڈ برینڈن امریکہ کی ایک مشہور ماہرِ نفسیات تھیں۔ ایک بار ان کے پاس ایک ایسا نوجوان لایا گیا جو پے در پے ناکامیوں کے ہاتھوں شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھا، اور اپنی زندگی سے مایوس ہو کر خود کشی کی باتیں کرتا تھا۔ڈاکٹر صاحبہ نے اس کی یہ حالت دیکھی تو کہا ،"تمہاری مشکل میں آسان کیے دیتی ہوں، مرنا تو تم چاہ ہی رہے ہو تو تمہارے قریب یہ جو بیڈ پڑا ہے ، سمجھو کہ تمہارا بسترِ مرگ ہے۔ آؤ، اس پر لیٹ جاؤ۔۔۔۔۔لیکن ذرا مرنے سے پہلے یہ تو بتاتے جاؤ کہ کیا سوچ رہے ہو؟" ڈاکٹر برینڈن کا یہ ایک مخصوص طریقۂ علاج تھا جسے وہ انتہائی مایوس اور نراس لوگوں پر استعمال کرتی تھیں۔

مریض کی شفا یابی کی داستان کا تو مجھے علم نہیں ، لیکن میں تھوڑی دیر کو یہاں رک گیا، وہ سطریں جن کو اگر محفل میں ارسال کیا جائے تو غالبا لوگ انہیں پڑھ کر پسندیدہ، زبردست، متفق، وغیرہ کی درجہ بندی کر کے آگے گزر جائیں، میں چند لمحوں کو اس مقام پر رک گیا۔

موت ایک اٹل حقیقت ہے، ایک تلوار کی طرح زندگی کی گردن کے قریب مسلط ہے، ایک کانٹا ہے کہ جس کی چبھن ہر وقت تنگ کرتی رہتی ہے، ایک بے کیف سی ہوا ہے جو زندگی کا چراغ گل کر دینے کے درپے ہے۔ اس تلخ و ناگوار تصور کے باوجود کیا آپ ڈاکٹر برینڈن کے بنائے ہوئے فرضی بسترِ مرگ پر چند لمحوں کو لیٹنا پسند کریں گے؟ اس ساعت کو، جس میں فرشتۂ اجل آپ کی روح قبض کرنے کے لیے منتظر ہو، اپنے تصور کی آنکھ سے دیکھنا چاہیں گے؟ موت سے چند لمحے پہلے اپنی زندگی کے کن کن کارناموں کو یاد کریں گے؟ کون سی ایسی غلطیاں ہوں گی جن کے لیے چاہیں گے کہ ان کا وجود کائنات سے ہمیشہ کے لیے مٹا دیا جائے؟ وہ کیا خواب تھے جو خواب ہی رہ گئے؟ وہ کیا ارادے تھے کہ جن پر ایک قدم آگے نہ بڑھا سکے؟ وہ کون لوگ ہیں جنہیں آپ موت سے پہلے دیکھنا چاہیں گے؟

ان سب کا تصور کرنا گرچہ ناخوشگوار ہے، لیکن یہ انجانی گھڑی چند پلوں کی دوری پر ہے۔اب یہ ہر شخص پر منحصر ہے کہ ان سوالوں کے جواب تب تلاش کرے جب زندگی کا سالار لشکرِ اجل کے سامنے گھٹنے ٹیک دے یا کارزارِ حیات کے معرکے میں ان کے جوابات کی سعی کرے۔
(عرفان)
ویسے سر میں نے اپنی موت کا منظر نامہ لکھا تھا لیکن یہ خاکہ ٹائپ کا ہے اور محرکات میں اشفاق احمد کی ایک تحریر تھی ۔ یہ تصور کرنا کہ آپ مر رہے ہیں اور آپ کے اعصاب پر کون کون سے سوالات سوار ہوتے ہیں اور عالم تصور میں بعد از موت کے منا ظر سوچنا بالخصوص جن کا تعلق آپ کے عزیز و اقربا سے ہو بہت ہی عجیب صورت حال پیدا کرتا ہے۔ میں آپ کو مکالمے میں ارسال کرتا ہوں۔تحریر کا کچھ حصہ :

آج صبح بیگم نے دفتر جانے کے لیے آواز دی تو میں بے حس و حرکت پڑا رہا۔ اس کی غصے میں مدغم شکوے بھری آواز ابھری :
”پھر کہیں گے دیر کرادی۔۔۔خود جب تک ناشتہ سر پر نہ ہو اٹھتے نہیں“
پھر اس کے سیڑھیوں کی جانب بڑھتے قدموں کی آواز آئی ، وہ ناشتہ بنا نے جا رہی تھی۔ ناشتہ سر پر لاکھڑی ہوئی، عارش کو آواز دی کہ اٹھ جائے اور اس سے پہلے کے مجھے اور جلی کٹی سناتی، میرے بے حس و حرکت جسم پر کچھ غور کرتی میری جانب بڑھی۔میری بے نور کھلی آنکھیں آسمان کو تک رہی تھیں۔ اس پر گھبراہٹ طاری ہوئی اور بڑی شدت سے مجھے جھنجھوڑا۔۔۔لیکن میں جا چکا تھا۔اس سے بہت دور۔۔۔کبھی نہ لوٹنے کے لیے۔۔۔میرے نہ ہونے سے کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔۔۔سب کچھ ویسا ہی تھا ، نہ سورج نے راستہ تبدیل کیا تھا نہ سڑک پر جاتے لوگوں کا رش کم ہوا تھا اور نہ ہی مجھ تک پہنچنے والے پیغامات کے جوابات نہ دینے کے سبب کوئی طوفان اٹھا کھڑا ہوا تھا۔۔۔کچھ بھی تو فرق نہیں پڑاتھا۔۔۔بس میں جا چکا تھا۔
کل شب سوتے ہوئے اچانک دل کی حرکت بند ہونے سے میری روح پرواز کرچکی تھی اور اب میرا لاشہ میرے بستر پر پڑا تھاجس کے کنارے بیٹھی بدحواس بیگم رو رہی تھی۔ وہ میری موت کی تصدیق نہیں کرنا چاہتی تھی البتہ اس کے شور سے محلے دار جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ چند لوگوں نے مل کر محلے کے ڈاکٹر کو ڈھونڈا،کسی نے ریسکیو والوں کو کال کی جنھوںنے ڈاکٹر سے پہلے پہنچ کر میری موت کی تصدیق کردی۔اب میرے لاشے کے گرد رش بڑھنے لگا تھا۔بچے حیرت سے ایک دوسرے کا اور کبھی میرا اور کبھی میری بیگم کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ ڈیڈھ سال کی حیافاطمہ اس افرا تفری کو دیکھ کر بری طرح رونے لگی تھی اور ساڑھے تین سالہ عارش بڑھتے رش کو دیکھ کر باہر کی جانب بھاگ گیا تھا ۔ کسی بچے نے اپنی ماں سے سن کر اسے بتایا تھا کہ اس کے بابا فوت ہوگئے ہیں جس پر وہ دوبارہ سے میرے قریب آگیا تھا اوراپنی ماں کو دیکھ کر رونے لگا تھا ۔ بچوں کو دیکھ کر لوگوں کے افسوس اور میری بیگم کے رونے میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ باہر کھڑا پڑوسی دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ اچھا انسان تھا میرے ساتھ جھگڑ ا ہوا پولیس بھی آئی لیکن اس نے معاف کردیا تھا۔ دوسرا کہہ رہا تھا کہ ہاں مجھے بھی کبھی موٹرسائیکل سے نہیں روکا۔۔۔ایسی ہی چہ میگوئیاں مجھ تک پہنچنے لگی تھیں۔۔۔ کچھ دیر میں سسرال اور میر ے بہن بھائیوں کو اطلاع ہوچکی تو وہ بھی تیزی سے پہنچنے لگے تھے۔
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ جب میں مروں گا تو اپنے بہت سے دوستوں سے ملاقات کروں گا. یہ سوچ کر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے، اسی لئے ہر وقت مرنے کے لئے تیار رہتا ہوں
میرے خیال میں بستر پر لیٹنے یا قبرستان جانے کی بجائے کسی پاکستانی گورنمنٹ اسپتال کی ایمرجینسی میں چند گھنٹے گزار لیں وہی ڈپریشن سے نکالنے کیلئے کافی ہوگا
 

عرفان سعید

محفلین
اس سے مجھے ایک پرانی روٹین یاد آ گئی، افسوس کہ اب کافی عرصہ سے شرکت نہ ہو سکی۔
ہم ہر دو ماہ میں ایک رات شب بیداری کرتے تھے۔ جس میں قرآن فہمی، فہم حدیث، انفرادی عبادات کے علاوہ ایک ایکٹویٹی یہ بھی ہوتی تھی، کہ قریبی قبرستان جاتے تھے۔ اور اس میں یہی ہدایت ہوتی تھی کہ یہ سمجھتے ہوئے جائیں کہ آپ کو لے جایا جا رہا ہے۔ اور پھر غور و فکر کریں کہ اپنے موجودہ اعمال پر کہاں کھڑے ہیں۔
خوب یاد کروایا تابش بھائی۔بعض دفعہ سخت سردیوں کی راتوں میں میرا بھی جانا ہوا ہے۔ ایک رقت سی طاری ہو جاتی تھی۔ زندگی کی حقیقت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا تھا۔
اب قبرستان کے قریب سے گزر ہو تو بانگ درا میں اقبال کی نظم "خفتگانِ خاک سے استفسار" بھی یاد آ جاتی ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
یہ تصور کرنا کہ آپ مر رہے ہیں اور آپ کے اعصاب پر کون کون سے سوالات سوار ہوتے ہیں اور عالم تصور میں بعد از موت کے منا ظر سوچنا بالخصوص جن کا تعلق آپ کے عزیز و اقربا سے ہو بہت ہی عجیب صورت حال پیدا کرتا ہے۔
ایسا ہی ہے، آجکل غور و فکر کی جو سمت ہے اس میں سوچتا ہوں کہ کائنات کے اسرار کی دنیا تک رسائی کی سواری موت ہے۔
 
کچھ صراحت فرمائیں گے؟ سمجھنے سے قاصر ہوں۔
اہلِ تصوف کے ہاں یہ تصورات رائج ہیں جن سے وہ اسرارِ کائنات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ان میں اول تو فنا فی الشیخ ہونا ہے اور بعد ازاں ہی کچھ فنا فی اللہ ۔ دوسرا ملامتی رنگ اپنانا ہے۔ اس میں صوفیا خود کو بالکل مٹا دیتے ہیں، اپنی حیثیت کو ختم کردیتے ہیں اور ایسے کام جان بوجھ کر بھی کرتے ہیں جن سے لوگ ان سے نفرت کریں ، انھیں برا بھلا کہیں اور وہ اس دنیا سے بالکل ہی کنارہ کش ہوجائیں جب کہ کچھ صوفیا انھی مراحل کی تکمیل کے لیے خود کو دنیا سے الگ کر لیتے ہیں اور تنہائی میں چلے کاٹتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نے قبور بھی بنائی ہوتی ہیں اور باقاعدہ ان میں عبادات کرتے ہیں اور خود کو بند کر لیتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ خوراک کی مقدار اتنی کم کردیتے ہیں کہ زندگی سے بہت ہی واجبی سا تعلق رہ جائے اور عبادات کے ذریعے بالخصوص مراقبہ تکنیک کے ذریعے روحانی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ یہ سارے کام اپنی ہستی کو فنا کرنے کے لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی حیثیت ختم ہوجائے اور وہ موت سے قبل موت ایسے مراحل سے ہمکنار ہوجائیں یعنی اتنے تنہا کہ بس وہ رہ جائیں اور ان کا ذاتِ باری تعالیٰ سے تعلق۔ اسی طرح موت کے تصورات اور خود کو ان کیفیات میں مبتلا کرنا بھی ایسے مشاغل میں شامل ہے جس سے انسان دنیا دوری اور قرب خداوندی حاصل کرتا جاتا ہے۔ ایسے ہی صوفیا میں سے دامادِ حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر کے داماد صابر پیا ؒ نے اپنا جنازہ خود پڑھایا تھا۔یہ در اصل بہت طویل مراحل ہیں اور ان کے بعد جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس کا مختصر سا بیان حضرت فرید الدین عطار ؒ کی کتاب تذکرۃ الاولیا میں موجودہے۔
البتہ: علامہ محمد اقبال نے ایسے روحانی مراتب کے لیے نظریہ خودی پیش کیا ہے جس کی اولین شکل ان کی کتاب رموز بےخودی میں ہے۔ اس میں خودی کی پرورش کے لیے اطاعت الہٰی ضبط نفس اور ان کے نتیجے میں نیابت الہٰی کا حصول ہے جب کہ اپنے چوتھے خطبے
THE HUMAN EGO–HIS FREEDOM
AND IMMORTALITY
میں اس حوالےباقاعدہ باب قائم کیا ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
اہلِ تصوف کے ہاں یہ تصورات رائج ہیں جن سے وہ اسرارِ کائنات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ان میں اول تو فنا فی الشیخ ہونا ہے اور بعد ازاں ہی کچھ فنا فی اللہ ۔ دوسرا ملامتی رنگ اپنانا ہے۔ اس میں صوفیا خود کو بالکل مٹا دیتے ہیں، اپنی حیثیت کو ختم کردیتے ہیں اور ایسے کام جان بوجھ کر بھی کرتے ہیں جن سے لوگ ان سے نفرت کریں ، انھیں برا بھلا کہیں اور وہ اس دنیا سے بالکل ہی کنارہ کش ہوجائیں جب کہ کچھ صوفیا انھی مراحل کی تکمیل کے لیے خود کو دنیا سے الگ کر لیتے ہیں اور تنہائی میں چلے کاٹتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نے قبور بھی بنائی ہوتی ہیں اور باقاعدہ ان میں عبادات کرتے ہیں اور خود کو بند کر لیتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ خوراک کی مقدار اتنی کم کردیتے ہیں کہ زندگی سے بہت ہی واجبی سا تعلق رہ جائے اور عبادات کے ذریعے بالخصوص مراقبہ تکنیک کے ذریعے روحانی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ یہ سارے کام اپنی ہستی کو فنا کرنے کے لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی حیثیت ختم ہوجائے اور وہ موت سے قبل موت ایسے مراحل سے ہمکنار ہوجائیں یعنی اتنے تنہا کہ بس وہ رہ جائیں اور ان کا ذاتِ باری تعالیٰ سے تعلق۔ اسی طرح موت کے تصورات اور خود کو ان کیفیات میں مبتلا کرنا بھی ایسے مشاغل میں شامل ہے جس سے انسان دنیا دوری اور قرب خداوندی حاصل کرتا جاتا ہے۔ ایسے ہی صوفیا میں سے دامادِ حضرت بابا فرید مسعود گنج شکر کے داماد صابر پیا ؒ نے اپنا جنازہ خود پڑھایا تھا۔یہ در اصل بہت طویل مراحل ہیں اور ان کے بعد جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس کا مختصر سا بیان حضرت فرید الدین عطار ؒ کی کتاب تذکرۃ الاولیا میں موجودہے۔
البتہ: علامہ محمد اقبال نے ایسے روحانی مراتب کے لیے نظریہ خودی پیش کیا ہے جس کی اولین شکل ان کی کتاب رموز بےخودی میں ہے۔ اس میں خودی کی پرورش کے لیے اطاعت الہٰی ضبط نفس اور ان کے نتیجے میں نیابت الہٰی کا حصول ہے جب کہ اپنے چوتھے خطبے
THE HUMAN EGO–HIS FREEDOM
AND IMMORTALITY
میں اس حوالےباقاعدہ باب قائم کیا ہے۔
تفصیلی وضاحت کے لیے مشکور ہوں۔
 

ام اویس

محفلین
موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔ عموما چالیس سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد انسان موت کے بارے میں سوچنے لگتا ہے اور بڑھتی عمر کے ساتھ یہ سوچ بڑھتی جاتی ہے لیکن مرنے والے کو کب پتہ چلتا ہے کہ یہ آخری سانس ہے اور کب یقین آتا ہے کہ بس اب سب کچھ ختم اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔
مرنے کے دوران اور مرنے کے بعد کیا گزرتی ہے اس کی دوسرے کو خبر نہیں ہوتی ۔ جس کے سامنے جان جا رہی ہو وہ بھی جان نہیں پاتا ۔ الله ہی جانتا ہے کب انسان کو اپنی آخری سانس کا یقین ہوتا ہے اگرچہ بعض حالات و حادثات میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ شاید یہی آخری سانس ہے
 

زیک

مسافر
عموما چالیس سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد انسان موت کے بارے میں سوچنے لگتا ہے
جب میں چالیس کا ہوا تو بیگم اکثر آدھی رات کو جگا کر یاد کرایا کرتی تھی کہ اب موت قریب ہے میں نے کیا انتظام کیا۔ شکر پینتالیس تک یہ جگانا ختم ہوا
 
Top