سلمی صاحبہ کے بعد اب محترمہ ریحانہ کے لیے موصوف کا نذرانہء شاعرانہ ۔
جہاں ریحانہ رہتی تھی ۔
یہی وادی ہے وہ ہمد م ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِس وادی کی شہزادی تھی اور شاہانہ رہتی تھی
کنول کا پُھول تھی ، سنسار سے بیگانہ رہتی تھی
نظر سے دُور ، مثلِ نکہت ِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
انہی صحراؤں میں وہ اپنے گلّے کو چراتی تھی
انہی چشموں پہ وہ ہر روز ،منہ دھونے کو آتی تھی
انہی ٹیلوں کے دامن میں وہ آزادانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے تلے، وہ جو کھنڈر سے جھلملاتے ہیں
یہ سب ریحانہ کے معصوم افسانے سُناتے ہیں
وہ ان کھنڈروں میں اِک دن، صورتِ افسانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
مرے ہمدم ، یہ نخلستان، اِک دن، اُس کا مسکن تھا
اِسی کے خرمئی آغوش میں اُس کا نشیمن تھا
اسی شاداب وادی میں وہ بے باکانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہ پُھولوں کی حسین آبادیاں ، کاشانہ تھیں اُس کا
وہ اِک بُت تھی یہ ساری وادیاں بُت خانہ تھیں اُس کا
وہ اس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
تباہی کی ہوا اس خاکِ رنگیں تک نہ آئی تھی
یہ وہ خطّہ تھا ، جس میں نو بہاروں کی خدائی تھی
وہ اِس خطّے میں مثلِ سبزہء بیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
اسی ویرانے میں اِک دن بہشتیں لہلہاتی تھیں
گھٹائیں گِھر کے آتی تھیں،ہوائیں مُسکراتی تھیں
کہ وہ بن کر بہارِ جنّتِ ویرانہ، رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہ ویرانہ، گُزر، جس میں نہیں ہے کاروانوں کا
جہاں ملتا نہیں نام و نشاں تک ساربانوں کا
اِسی ویرانے میں اِک دن ،مری ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں آباد تھی اِک دن ، مرے افکار کی ملکہ
مرے جذبات کی دیوی، مرے اشعار کی ملکہ
وہ ملکہ، جو برنگِ عظمتِ شاہانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
صبا، شاخوں میں نخلستاں کی، جس دم سرسراتی ہے
مجھے ہر لہر سے ریحانہ کی آواز آتی ہے
یہیں ریحانہ رہتی ہے، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
فضائیں گونجتی ہیں اب بھی اُن وحشی ترانوں سے
سُنو، آواز سی آتی ہے اُن خاکی چٹانوں سے
کہ جن میں وہ برنگِ نغمہء بیگانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
مرے ہمدم ، جنونِ شوق کا اظہار کرنے دے
مجھے اس دشت کی اِک اِک کلی سے پیار کرنے دے
جہاں اِک دن، وہ مثلِ غنچہء مستانہ رہتی تھی!
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
بربِّ کعبہ ، اُس کی یاد میں عُمریں گنوا دوں گا!
مَیں اس وادی کے ذرّے ذرّ ے پر سجدے بچھا دوں گا
جہاں وہ جانِ کعبہ ، عظمتِ بُت خانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ اِس ٹیلے پر اکثر عاشقانہ گیت گاتی تھی!
پُرانے سُورماؤں کے فسانے گُنگناتی تھی
یہیں پر، منتظر میری وہ بے تابانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
کھجوروں کے حسیں سائے زمیں پر لہلہاتے تھے
ستارے جگمگاتے تھے، شگوفے کِھلکِھلاتے تھے
فضا میں منتشر اِک نکہتِ مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں بستی تھی اے ہمدم ، مرے رومان کی بستی
مرے افسانوں کی دُنیا ، مرے وجدان کی بستی
یہیں ریحانہ بستی تھی، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
شمیمِ زُلف سے اُس کی ،مہک جاتی تھی کُل وادی
نگاہِ مست سے اُس کی ،بہک جاتی تھی کُل وادی
ہوا میں پر فشاں ، روحِ مَے و میخانہ رہتی تھی!
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ گیسوئے پریشاں ، یا گھٹائیں رقص کرتی تھیں
فضائیں وجد کرتی تھیں ، ہوائیں رقص کرتی تھیں
وہ اِس فردوسِ وجد و رقص میں مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
گدازِ عشق سے لبریز تھا ، قلبِ حزیں اُس کا
مگر آئینہ دارِ شرم تھا، رُوئے حسیں اُس کا
خموشی میں چھپائے نغمہء مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
اُسے پھولوں نے میری یاد میں بیتاب دیکھا ہے
ستاروں کی نظر نے ، رات بھر بے خواب دیکھا ہے
وہ شمع ِ حُسن تھی ، پر صورتِ پروانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
یہیں ہمرنگِ گُلہائے حسیں ، رہتی تھی ریحانہ
مثالِ حُورِ فردوسِ بریں ، رہتی تھی ریحانہ
یہیں رہتی تھی ریحانہ، یہیں ریحانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم ،جہاں ریحانہ رہتی تھی
پیامِ دردِ دل ، اختر دئیے جاتا ہوں وادی کو
سلامِ رُخصتِ غمگیں ، کئے جاتا ہوں وادی کو
سلام ، اے وادیء ویراں ،جہاں ریحانہ رہتی تھی