محمد علم اللہ
محفلین
محمدعلم اللہ اصلاحی
دھوپ شدت کی تھی، اتنی زیادہ کہ ایک قدم بھی چلنے کی ہمت نہ تھی۔ شاید اسی وجہ سے جو سڑک کل تک اژدحام کا منظر ہوا کرتی تھی آج بالکل خالی خالی تھی، اکا دکا آدمی ہی نظر آ رہے تھے۔ انھیں بھی میری ہی طرح ہی کہیں اہم کام کے لئے جانا ہوگا۔ ورنہ اتنی گرمی میں گھروں سے لوگ باہر عموماً نہیں نکلتے بلکہ اپنے اپنے مکانوں میں دبکے پڑے اے۔سی اور کولر کے کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ آج رکشے والے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ پسینے سے شرابور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ جب ضرورت نہ ہو تو کم بخت رکشے والے ہر جگہ چیختے نظر آئیں گے: ”بٹلہ ہاوس“ ، ”اوکھلا ہیڈ“ ، ”غفار منزل“ ، لیکن پتا نہیں آج انھیں کیا ہو گیا ہے؟ اگر ضروری کام نہ ہو تا تو اتنی چلچلاتی دھوپ اور چہروں کو جھلسا دینے والی گرمی میں میں کبھی باہر نہ نکلتا، لیکن کبھی کبھی بہت ساری چیزوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں بھی یہی سوچ کر نہ چاہتے ہوئے بھی بدقت تمام پیدل چل کر ”لاجپت نگر“ کے لئے جامعہ کے بس اسٹاپ پر پہنچا تھا۔ دھوپ سے بچنے کے لئے میں اسٹاپ پر بنی کرسی نما سیٹ پر بیٹھ گیا۔
کچھ اور لوگ بھی بس کے انتظار میں تھے، کچھ مختلف موضوعات پر اپنے احباب سے گفتگو میں محو تھے تو کچھ گرمی کی شدت سے موسم کو کوس رہے تھے۔ ایک دو نوجوان جو چہرے بشرے سے طالب علم معلوم ہوتے تھے ہنسی مذاق اور ایک دوسرے سے ”تفریح لینے“ میں مصروف تھے۔ بغل ہی میں ایک نوجوان اخبار بینی میں منہمک تھا۔ اخبار بینی کا شوق تو مجھے بھی ہے، لیکن میرا ذہن خدا جانے کیوں آج اس جانب نہیں جا رہا تھا۔ میں تو ایک اور ہی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔
میں دراصل اس بوڑھے کو دیکھ رہا تھا جو مجھ سے چند قدم آگے ہی اپنا رکشا لئے کھڑا تھا۔انتہائی لاغر اور کمزور ، رکشے کے کیریر پر اک گندی سی پانی کی بوتل لٹک رہی تھی۔ بوڑھے نے اس میں سے پانی کے چند گھونٹ اپنے حلق میں ڈالے، شاید وہ گرمی سے بہت پریشان تھا، ا س کے کرتے پر نمکین پسینا جذب ہونے سے سفید سفید دھاریاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ بار بار اپنے کندھے پر پڑے ایک گمچھے سے پسینا پونچھتا اور بڑی پر امید نگاہوں سے کبھی دائیں ،کبھی بائیں تو کبھی بس اسٹاپ کی طرف نظر دوڑاتا۔ شاید وہ سواری کی تلاش میں تھا، لیکن کوئی سواری تھی ہی نہیں، بجلی کے بنے رکشے اس کے سامنے سے ہارن بجاتے ہوئے گزر جاتے اور وہ دیکھتا رہ جاتا۔ میں اسے دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ اس ضعیفی میں وہ کیوں کر گرمی میں رکشا چلانے پر مجبور ہے؟ کیا اس کا کوئی نہیں دنیا میں؟ اس نے اور بہت سارے پیشے چھوڑ کر یہی پیشہ کیوں اختیار کیا؟ پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے بیٹے اور باپ میں نہ بنتی ہو اور بیٹوں نے بوڑھے کو فالتو چیز سمجھ کر گھر سے ہی نکال دیا ہو۔ آخر وہ کس کے لئے اتنی محنت کر رہا ہے؟ کیا محض اپنے لئے یا پھر اپنے گھر والوں کے لئے؟ اس بڑھاپے میں تو اسے آرام کرنا چاہیے تھا۔
میں نہ جانے کیا کیا سوچنے لگ گیا، میرے خیالات کا تسلسل تو تب ٹوٹا جب دو لڑکوں نے رکشے والے سے کہیں جانے کے لئے کہا۔ بوڑھا ابھی جواب دینے ہی والا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکا بول پڑا:
”ابے اس گرمی میں کہاں جائے گا یہ بڈھا؟ کہیں راستے میں مر مرا گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔“
دوسرے نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کی اور لڑکے آپس میں گپیں لگاتے ہوئے آ گے بڑھ گئے۔
ابھی ان لڑکوں نے کچھ ہی قدم آگے بڑھائے ہونگے کہ دو لڑکیاں سامنے والی سڑک کو عبور کرتے ہوئے رکشے والے تک آئیں اور اس سے کہیں جانے کے لئے کہا۔ دونوں میں سے ایک لڑکی کسی اونچے گھرانے کی دکھائی دے رہی تھی۔ بوڑھے نے بڑی آس سے ”ہاں“ کہا! ایک لڑکی رکشے میں بیٹھ گئی۔ دوسری لڑکی بیٹھنے ہی والی تھی، بوڑھے نے رکشے کے پیڈل پر پاوں رکھ کر ابھی دبایا ہی تھا کہ لال رنگ کی اے سی والی بس آتی دکھائی دی۔ ان دونوں میں سے ایک لڑکی رکشے سے نیچے اتر گئی اور سامنے والی لڑکی سے کہنے لگی:
”چھوڑ، دیکھ بس آ گئی ہے، چل آجا بس میں ٹھیک رہے گا۔“
یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی بس کی جانب چل پڑی۔ دوسری لڑکی بھی رکشے سے اترکر جانے لگی، بوڑھے کی امید ٹوٹ گئی۔ مگر پھر وہ دوسری لڑکی رک کر بوڑھے کی طرف دیکھنے لگی۔ تھوڑی دیر کے لئے اس نے کچھ سوچا اور جلدی سے اپنے پرس میں سے ایک دس کا نوٹ نکال کر رکشے والے کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ رکشے والے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا:
”اوہ بٹیا! جب کام ہی نہیں لیا تو پیسے کس بات کے دے رہی ہو؟ مجھے نہیں چاہیے، یہ پیسے تم اپنے پاس ہی رکھو۔“
لڑکی کے پاس جواب دینے کے لئے وقت نہیں تھا، وہ جلدی سے بس میں سوار ہو گئی اور بس ہارن بجاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
میں نے دیکھا بوڑھے کا چہرہ کچھ عجیب سا ہو گیا تھا، لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اورفخرکا احساس بھی، وہ کچھ سوچ بھی رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ وہ خوددار بھی ہے۔ بوڑھا کسی سوچ میں ڈوب گیا، شاید اسے اپنی ناتی یا پوتی یاد آ گئی ہو وہ ایک ہاتھ ہینڈل اور ایک ہاتھ اپنے سر پر رکھے کھڑا تھا۔
کہ اچانک کسی کے چلانے کی آواز آئی:
” ابے تیری تو....!“
یہ ایک پولیس والا تھا جو رکشے والے کو غلیظ قسم کی گالیوں سے نوازتے ہوئے ڈنڈا پٹخ رہا تھا:
”ابھی ہوا کھول دوں گا رکشے کی۔“
پولس والے نے دھمکی دی۔ بے چارے بوڑھے نے گھبرا کر پیچھے دیکھا۔ اس کا رکشا ایک شان دار گاڑی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ غضب یہ تھا کہ گاڑی پر ایک علاقائی پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ رکشا کنارے ہوا اور گاڑی تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ میں نے دھیان دینے کی کوشش کی ، کالے شیشے والی گاڑی پر ، گزشتہ کئی میقاتوں سے جیتنے والی پارٹی کا جھنڈا پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا تھا۔
یہ دیکھ کر مجھے کئی برس پہلے اسی پارٹی کے ذریعے اعلان کردہ ایک اسکیم کی یاد آئی جسے میں نے کئی سال ہوئے اخبار میں پڑھا تھا۔ اس میں ساٹھ سال کی عمر کو پار کرنے والے بزرگوں کو وظیفہ دینے کی بات کہی گئی تھی۔ میرے قدم خود بخود بوڑھے کے جانب بڑھ گئے۔ میں نے اس کا نام پوچھا، اس نے اپنا نام ”جمن شیخ“ بتایا۔
میں نے بوڑھے کو حکومت کی اس اسکیم کے بارے میں بتایا۔
”میں کئی مرتبہ گورنمنٹ آفس گیا تھا، لیکن بہت دیر تک یہاں وہاں لائن میں انتظار کرانے کے بعد انھوں نے نہ جانے کیا کیا کاغذات مانگے جو میرے پاس نہیں ہیں۔“ بوڑھا بتاتے بتاتے روہانسا ہو گیا تھا۔
”بیٹا! میں کئی مرتبہ ان کے یہاں گیا، لیکن جب ایک بار انھوں نے مجھے دھکا دے کر یہ کہتے ہوئے نکال دیا کہ ”چل سالے جھوٹے! سالا جھوٹ بول کر مفت میں پیسے لینا چاہتا ہے، حرام خور! چل بھاگ یہاں سے۔“ تو پھر میری دوبارہ ہمت نہیں ہوئی۔ “
"آفس سے باہر میری ایک ایجنٹ سے بھی ملاقات ہوئی جوبتا رہا تھا کہ اگر میں پانچ ہزار کا انتظام کر لوں تووہ میرے لئے نقلی کاغذات بنوا سکتا ہے"
بوڑھا کہہ رہا تھا۔
’اچھا‘ میں نے حیرت کا اظہار کیا۔
‘ جی میاں، آج کل تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایجنٹ نے یہ بھی بتایا کہ اس نے بہت سے جوانوں کے بھی نقلی کاغذات بنوائے ہیں جو آرام سے اس اسکیم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں،اور ان میں سے بہت سے تو اسی گورنمنٹ آفس میں کام کرنے والوں کے رشتہ دار بھی ہیں۔‘
دھوپ شدت کی تھی، اتنی زیادہ کہ ایک قدم بھی چلنے کی ہمت نہ تھی۔ شاید اسی وجہ سے جو سڑک کل تک اژدحام کا منظر ہوا کرتی تھی آج بالکل خالی خالی تھی، اکا دکا آدمی ہی نظر آ رہے تھے۔ انھیں بھی میری ہی طرح ہی کہیں اہم کام کے لئے جانا ہوگا۔ ورنہ اتنی گرمی میں گھروں سے لوگ باہر عموماً نہیں نکلتے بلکہ اپنے اپنے مکانوں میں دبکے پڑے اے۔سی اور کولر کے کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ آج رکشے والے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ پسینے سے شرابور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ جب ضرورت نہ ہو تو کم بخت رکشے والے ہر جگہ چیختے نظر آئیں گے: ”بٹلہ ہاوس“ ، ”اوکھلا ہیڈ“ ، ”غفار منزل“ ، لیکن پتا نہیں آج انھیں کیا ہو گیا ہے؟ اگر ضروری کام نہ ہو تا تو اتنی چلچلاتی دھوپ اور چہروں کو جھلسا دینے والی گرمی میں میں کبھی باہر نہ نکلتا، لیکن کبھی کبھی بہت ساری چیزوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں بھی یہی سوچ کر نہ چاہتے ہوئے بھی بدقت تمام پیدل چل کر ”لاجپت نگر“ کے لئے جامعہ کے بس اسٹاپ پر پہنچا تھا۔ دھوپ سے بچنے کے لئے میں اسٹاپ پر بنی کرسی نما سیٹ پر بیٹھ گیا۔
کچھ اور لوگ بھی بس کے انتظار میں تھے، کچھ مختلف موضوعات پر اپنے احباب سے گفتگو میں محو تھے تو کچھ گرمی کی شدت سے موسم کو کوس رہے تھے۔ ایک دو نوجوان جو چہرے بشرے سے طالب علم معلوم ہوتے تھے ہنسی مذاق اور ایک دوسرے سے ”تفریح لینے“ میں مصروف تھے۔ بغل ہی میں ایک نوجوان اخبار بینی میں منہمک تھا۔ اخبار بینی کا شوق تو مجھے بھی ہے، لیکن میرا ذہن خدا جانے کیوں آج اس جانب نہیں جا رہا تھا۔ میں تو ایک اور ہی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔
میں دراصل اس بوڑھے کو دیکھ رہا تھا جو مجھ سے چند قدم آگے ہی اپنا رکشا لئے کھڑا تھا۔انتہائی لاغر اور کمزور ، رکشے کے کیریر پر اک گندی سی پانی کی بوتل لٹک رہی تھی۔ بوڑھے نے اس میں سے پانی کے چند گھونٹ اپنے حلق میں ڈالے، شاید وہ گرمی سے بہت پریشان تھا، ا س کے کرتے پر نمکین پسینا جذب ہونے سے سفید سفید دھاریاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ بار بار اپنے کندھے پر پڑے ایک گمچھے سے پسینا پونچھتا اور بڑی پر امید نگاہوں سے کبھی دائیں ،کبھی بائیں تو کبھی بس اسٹاپ کی طرف نظر دوڑاتا۔ شاید وہ سواری کی تلاش میں تھا، لیکن کوئی سواری تھی ہی نہیں، بجلی کے بنے رکشے اس کے سامنے سے ہارن بجاتے ہوئے گزر جاتے اور وہ دیکھتا رہ جاتا۔ میں اسے دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا کہ اس ضعیفی میں وہ کیوں کر گرمی میں رکشا چلانے پر مجبور ہے؟ کیا اس کا کوئی نہیں دنیا میں؟ اس نے اور بہت سارے پیشے چھوڑ کر یہی پیشہ کیوں اختیار کیا؟ پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے بیٹے اور باپ میں نہ بنتی ہو اور بیٹوں نے بوڑھے کو فالتو چیز سمجھ کر گھر سے ہی نکال دیا ہو۔ آخر وہ کس کے لئے اتنی محنت کر رہا ہے؟ کیا محض اپنے لئے یا پھر اپنے گھر والوں کے لئے؟ اس بڑھاپے میں تو اسے آرام کرنا چاہیے تھا۔
میں نہ جانے کیا کیا سوچنے لگ گیا، میرے خیالات کا تسلسل تو تب ٹوٹا جب دو لڑکوں نے رکشے والے سے کہیں جانے کے لئے کہا۔ بوڑھا ابھی جواب دینے ہی والا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکا بول پڑا:
”ابے اس گرمی میں کہاں جائے گا یہ بڈھا؟ کہیں راستے میں مر مرا گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔“
دوسرے نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کی اور لڑکے آپس میں گپیں لگاتے ہوئے آ گے بڑھ گئے۔
ابھی ان لڑکوں نے کچھ ہی قدم آگے بڑھائے ہونگے کہ دو لڑکیاں سامنے والی سڑک کو عبور کرتے ہوئے رکشے والے تک آئیں اور اس سے کہیں جانے کے لئے کہا۔ دونوں میں سے ایک لڑکی کسی اونچے گھرانے کی دکھائی دے رہی تھی۔ بوڑھے نے بڑی آس سے ”ہاں“ کہا! ایک لڑکی رکشے میں بیٹھ گئی۔ دوسری لڑکی بیٹھنے ہی والی تھی، بوڑھے نے رکشے کے پیڈل پر پاوں رکھ کر ابھی دبایا ہی تھا کہ لال رنگ کی اے سی والی بس آتی دکھائی دی۔ ان دونوں میں سے ایک لڑکی رکشے سے نیچے اتر گئی اور سامنے والی لڑکی سے کہنے لگی:
”چھوڑ، دیکھ بس آ گئی ہے، چل آجا بس میں ٹھیک رہے گا۔“
یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی بس کی جانب چل پڑی۔ دوسری لڑکی بھی رکشے سے اترکر جانے لگی، بوڑھے کی امید ٹوٹ گئی۔ مگر پھر وہ دوسری لڑکی رک کر بوڑھے کی طرف دیکھنے لگی۔ تھوڑی دیر کے لئے اس نے کچھ سوچا اور جلدی سے اپنے پرس میں سے ایک دس کا نوٹ نکال کر رکشے والے کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ رکشے والے نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا:
”اوہ بٹیا! جب کام ہی نہیں لیا تو پیسے کس بات کے دے رہی ہو؟ مجھے نہیں چاہیے، یہ پیسے تم اپنے پاس ہی رکھو۔“
لڑکی کے پاس جواب دینے کے لئے وقت نہیں تھا، وہ جلدی سے بس میں سوار ہو گئی اور بس ہارن بجاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
میں نے دیکھا بوڑھے کا چہرہ کچھ عجیب سا ہو گیا تھا، لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اورفخرکا احساس بھی، وہ کچھ سوچ بھی رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ وہ خوددار بھی ہے۔ بوڑھا کسی سوچ میں ڈوب گیا، شاید اسے اپنی ناتی یا پوتی یاد آ گئی ہو وہ ایک ہاتھ ہینڈل اور ایک ہاتھ اپنے سر پر رکھے کھڑا تھا۔
کہ اچانک کسی کے چلانے کی آواز آئی:
” ابے تیری تو....!“
یہ ایک پولیس والا تھا جو رکشے والے کو غلیظ قسم کی گالیوں سے نوازتے ہوئے ڈنڈا پٹخ رہا تھا:
”ابھی ہوا کھول دوں گا رکشے کی۔“
پولس والے نے دھمکی دی۔ بے چارے بوڑھے نے گھبرا کر پیچھے دیکھا۔ اس کا رکشا ایک شان دار گاڑی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ غضب یہ تھا کہ گاڑی پر ایک علاقائی پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ رکشا کنارے ہوا اور گاڑی تیزی سے آگے بڑھ گئی۔ میں نے دھیان دینے کی کوشش کی ، کالے شیشے والی گاڑی پر ، گزشتہ کئی میقاتوں سے جیتنے والی پارٹی کا جھنڈا پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا تھا۔
یہ دیکھ کر مجھے کئی برس پہلے اسی پارٹی کے ذریعے اعلان کردہ ایک اسکیم کی یاد آئی جسے میں نے کئی سال ہوئے اخبار میں پڑھا تھا۔ اس میں ساٹھ سال کی عمر کو پار کرنے والے بزرگوں کو وظیفہ دینے کی بات کہی گئی تھی۔ میرے قدم خود بخود بوڑھے کے جانب بڑھ گئے۔ میں نے اس کا نام پوچھا، اس نے اپنا نام ”جمن شیخ“ بتایا۔
میں نے بوڑھے کو حکومت کی اس اسکیم کے بارے میں بتایا۔
”میں کئی مرتبہ گورنمنٹ آفس گیا تھا، لیکن بہت دیر تک یہاں وہاں لائن میں انتظار کرانے کے بعد انھوں نے نہ جانے کیا کیا کاغذات مانگے جو میرے پاس نہیں ہیں۔“ بوڑھا بتاتے بتاتے روہانسا ہو گیا تھا۔
”بیٹا! میں کئی مرتبہ ان کے یہاں گیا، لیکن جب ایک بار انھوں نے مجھے دھکا دے کر یہ کہتے ہوئے نکال دیا کہ ”چل سالے جھوٹے! سالا جھوٹ بول کر مفت میں پیسے لینا چاہتا ہے، حرام خور! چل بھاگ یہاں سے۔“ تو پھر میری دوبارہ ہمت نہیں ہوئی۔ “
"آفس سے باہر میری ایک ایجنٹ سے بھی ملاقات ہوئی جوبتا رہا تھا کہ اگر میں پانچ ہزار کا انتظام کر لوں تووہ میرے لئے نقلی کاغذات بنوا سکتا ہے"
بوڑھا کہہ رہا تھا۔
’اچھا‘ میں نے حیرت کا اظہار کیا۔
‘ جی میاں، آج کل تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایجنٹ نے یہ بھی بتایا کہ اس نے بہت سے جوانوں کے بھی نقلی کاغذات بنوائے ہیں جو آرام سے اس اسکیم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں،اور ان میں سے بہت سے تو اسی گورنمنٹ آفس میں کام کرنے والوں کے رشتہ دار بھی ہیں۔‘
یہ کہ کر بوڑھے نے آسان کی طرف دیکھا اس کے ماتھے پر پسینے کے چند قطرے نمودار ہوئے اور اس کی قسمت کی طرح ٹیڑھی میڑھی لکیر بناتے ہوئے اس کی داڑھی میں جذب ہو گئے ۔
بوڑھا کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا لیکن میرے اندر اس کی مزید باتیں سننے کی سکت نہ تھی اور میں بوجھل قدموں سے آٹو لیکر لاجپت نگر کے لئے نکل پڑا مگر میرے ذہن میں علامہ اقبال کا یہ شعر گردش کر رہا تھا :
تو قادر و عادل ہے مگر ترے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات