بس اسٹاپ پر ۔۔۔۔ایک افسانہ برائے تنقید ،تبصرہ و اصلاح

ماہا عطا

محفلین
بھلکڑ تو سچ میں ہی
ghayab.gif
ہو گئے۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
فراز روحانی بابا کی دو اصلاحوں سے بالکل اتفاق رکھتا ہوں۔ ’دبکے‘ رہنا واقعی سردی کے ساتھ مخصوص ہے÷ اور ’امید نہیں ٹوٹتی، آس ٹوٹنے کا محاورہ ہے۔ باقی اصلاحیں بھی درست ہیں، لیکن ان کی زیادہ ضرورت نہیں سمجھتا۔ جیسے بس سٹاپ پر بنی کرسی یا ’انتظار گاہ‘ کا اضافہ کچھ غیر ضروری لگا۔
 
فراز روحانی بابا کی دو اصلاحوں سے بالکل اتفاق رکھتا ہوں۔ ’دبکے‘ رہنا واقعی سردی کے ساتھ مخصوص ہے÷ اور ’امید نہیں ٹوٹتی، آس ٹوٹنے کا محاورہ ہے۔ باقی اصلاحیں بھی درست ہیں، لیکن ان کی زیادہ ضرورت نہیں سمجھتا۔ جیسے بس سٹاپ پر بنی کرسی یا ’انتظار گاہ‘ کا اضافہ کچھ غیر ضروری لگا۔

استادِ محترم کیا واقعی اس تحریر کو اس حالت میں افسانے کی فہرست میں رکھا جا سکتا ہے؟
 
بہت اچھا لکھ رہے ہیں @محمد علم اللہ اصلاحی بھائی۔ معاشرے کی دکھتی رگوں پر یوں ہی چوٹیں لگاتے رہیے۔ کہانی کو پھیلا کر لکھیے اور کل کے ساتھ جزئیات کا بھی خیال رکھیے۔ کہانی کا آخر چونکا دینے والا ہو تو قاری لطف اٹھاتا ہے، لیکن ایسا ضروری بھی نہیں۔

خوش رہیے
 
رکشہ کی تلاش تو بس اسٹاپ تک جانے کے لئے تھی نا اور آٹو جہاں تک جانا تھا اس کے لئے جی رکشہ انسان کھینچتا ہے جبکہ آٹو ایندھن سے :)
اوہ شاید میں اس لیے واقف نہیں تھا اس فرق سے کہ ہمارے یہاں صرف رکشہ کا لفظ ہی استعمال ہوتا رہا ہے جو کہ موٹر سے چلتے ہیں۔ میں نے اپنی پیدائش سے اب تک انسان سے کھچنے والے رکشے پاکستان میں نہیں دیکھے الحمداللہ۔
اب چائینا کی مہربانی سے نئی اور سستی چیز "چِنگ چی" آئی ہے جو کہ زیادہ گنجائش بھی رکھتی ہے اور کھنچنے کے لیے ویسپا رکشے کے مہنگے انجن کے بجائے موٹر بائک منسلک ہوتا ہے۔ تو ہم اب جا رہے ہیں رکشے سے چنگ چی کی طرف، جو کاؤنٹر کے دونوں طرف والوں کے لیے مناسب ہے قیمتاََ۔
 
محمدعلم اللہ اصلاحی

یہاں آپ کی تحریر کو redraft کر دوں تو اُس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، سوائے اس کے کہ آپ کو ایک لکھا لکھایا مضمون مل جائے اور آپ اس کو اپنے نام سے شائع کروا کر خوش ہو جائیں۔ میں یہاں اغلاط کی نشاندہی کروں گا اور جملوں کو بہتر بنانے میں کچھ تجاویز دوں گا، اس کے بعد کا کام آپ کو خود کرنا ہے۔
دھوپ شدت کی تھی، اتنی زیادہ کہ ایک قدم بھی چلنے کی ہمت نہ تھی۔
غیر ضروری طور پر طویل اور ڈھیلا جملہ ہے۔ افسانہ کہانی وغیرہ کو ابتدا سے ایسا چست ہونا چاہئے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لے۔ ’’دھوپ اتنی شدید تھی کہ قدم بھر چلنا دوبھر ہو رہا تھا‘‘

شاید اسی وجہ سے جو سڑک کل تک اژدحام کا منظر ہوا کرتی تھی آج بالکل خالی خالی تھی
کل تک کا کیا مقام ہوا؟ آج صبح سویرے بھی تو یہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ شاید کا کوئی جواز نہیں۔ دھوپ کی شدت اس ویرانی کا کافی و شافی جواز فراہم کرتی ہے۔ درست لفظ ’’ازدحام‘‘ ہے یعنی بھیڑ۔ ازدحام کا منظر کوئی چیز نہیں ہے۔ ’’وہی سڑک کہ جہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی ویران پڑی تھی‘‘۔

اکا دکا آدمی ہی نظر آ رہے تھے۔
’’سورج گویا آگ برسا رہا تھا۔ سڑک پر اکا دکا راہگیر دکھائی دے رہے تھے جو کسی مجبوری کے عالم میں گھروں سے نکلے ہوں گے۔‘‘

انھیں بھی میری ہی طرح ہی کہیں اہم کام کے لئے جانا ہوگا۔ ورنہ اتنی گرمی میں گھروں سے لوگ باہر عموماً نہیں نکلتے بلکہ اپنے اپنے مکانوں میں دبکے پڑے اے۔سی اور کولر کے کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔
یہ جملے قطعاً زائد ہیں۔

آج رکشے والے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
’’اور تو اور کوئی رکشے والا بھی نہیں تھا‘‘

پسینے سے شرابور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ
یہ جملہ بھی زائد ہے۔

جب ضرورت نہ ہو تو کم بخت رکشے والے ہر جگہ چیختے نظر آئیں گے: ”بٹلہ ہاوس“ ، ”اوکھلا ہیڈ“ ، ”غفار منزل“
’’جو صبح شام ادھر ادھر گھاں گھاں کرتے اور انجن سے بھی بلند آواز میں ’’بٹلہ ہاؤس، اوکھلا ہیڈ، غفار منزل ۔۔ اکیلی سواری ۔۔۔‘‘ کا شور مچا رہے ہوتے ہیں۔‘‘

لیکن پتا نہیں آج انھیں کیا ہو گیا ہے؟
یہ جملہ بھی زائد ہے۔ ’’گرمی اور دھوپ کی شدت ایسی ہے کہ روزی روٹی کی فکر رکھنے والے بھی اس دوپہر میں کہیں دبک جاتے ہیں۔‘‘

اگر ضروری کام نہ ہو تا تو اتنی چلچلاتی دھوپ اور چہروں کو جھلسا دینے والی گرمی میں میں کبھی باہر نہ نکلتا، لیکن کبھی کبھی بہت ساری چیزوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں بھی یہی سوچ کر نہ چاہتے ہوئے بھی بدقت تمام پیدل چل کر ”لاجپت نگر“ کے لئے جامعہ کے بس اسٹاپ پر پہنچا تھا۔

غیرضروری تفصیلات سے احتراز کیا کریں۔ لاجپت نگر کو واوین میں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کا قاری جانتا ہے کہ لاجپت نگر کہاں ہے۔کہانی میں کوئی رنگ بھریں وورنہ آپ کا قاری آپ کو پسینہ پونچھتا چھوڑ کر اپنی راہ لے گا۔ ’’میرا مسئلہ روزی روٹی کا نہیں تھا، گلابی چہرے والی روزی تھی، جس کی فون کال پر میں دھوپ میں جھلستا، پسینے میں شرابور، اکھڑتی سانسوں کو سنبھالتا بس سٹاپ تک پہنچا ۔۔۔‘‘

دھوپ سے بچنے کے لئے میں اسٹاپ پر بنی کرسی نما سیٹ پر بیٹھ گیا۔
دھوپ سے بچنے کے لئے یہ بات بہت انداز میں پہلے دہرائی جا چکی۔ ’’۔۔۔ اور بس سٹاپ پہ گڑے سنگی بینچ پر تقریباً ڈھے گیا‘‘
کچھ اور لوگ بھی بس کے انتظار میں تھے، کچھ مختلف موضوعات پر اپنے احباب سے گفتگو میں محو تھے تو کچھ گرمی کی شدت سے موسم کو کوس رہے تھے۔ ایک دو نوجوان جو چہرے بشرے سے طالب علم معلوم ہوتے تھے ہنسی مذاق اور ایک دوسرے سے ”تفریح لینے“ میں مصروف تھے۔ بغل ہی میں ایک نوجوان اخبار بینی میں منہمک تھا۔ اخبار بینی کا شوق تو مجھے بھی ہے، لیکن میرا ذہن خدا جانے کیوں آج اس جانب نہیں جا رہا تھا۔ میں تو ایک اور ہی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔
پھر وہی غیرضروری اور اکتا دینے والی تفصیلات۔ یا تو خود کو ان میں ملوث کیجئے یا مختصر طور پر لکھ دیجئے اور آگے گزر جائیے۔بغل میں: یہ کوئی مقامی لہجہ ہو تو ہو معروف ادبی پیرائے میں اس کے معانی مختلف ہیں۔ ’’بھیڑ وہاں بھی نہیں تھی، چند لوگ تھے۔ کچھ تو میری طرح اکتائے ہوئے انداز میں موسم کو کوس رہے تھے۔ کچھ لڑکے بالے موسم کو نظر انداز کرنے کی کوشش میں ایک دوجے کو چھیڑ رہے تھے۔ ایک نوجوان اخبار میں منہمک تھا۔ اخبار کا شوق تو مجھے بھی ہے مگر اس وقت طبیعت ادھر نہیں آ رہی تھی۔‘‘
میں دراصل اس بوڑھے کو دیکھ رہا تھا جو مجھ سے چند قدم آگے ہی اپنا رکشا لئے کھڑا تھا۔انتہائی لاغر اور کمزور
یہاں ’’دراصل‘‘ جیسے لفظ کی ضرورت آپ کو شاید اخبار نہ دیکھنے کا جواز پیش کرنے کو پڑی؟ اس کی کوئی ضرورت نہیں، کہ آپ کہانی میں ہر منظر، ہر حرکت اور ہر مکالمے کا جواز بھی پیش کریں۔ جہاں جواز پیش کرنا ضروری ہو، اسے سیاق و سباق میں لائیں الگ سے دراصل وغیرہ کا سہارا لینا تحریر کو کمزور کرتا ہے۔ اگر آپ کا اس وقت اپنے پڑھنے کو جی نہیں چاہ رہا تو نہ سہی، یہاں کسی کیوں کیسے کی ضرورت نہیں۔ لاغر اور کمزور کی صفت بوڑھے کی ہے اس کو بوڑھے کے ساتھ لکھیں، نہ کہ رکشے کے ساتھ۔ ’’میں چند قدم پرے کھڑے رکشے والے لاغر اور کمزور بوڑھے کو دیکھنے لگا‘‘ یا میری نظر اس پر پڑی۔

، رکشے کے کیریر پر اک گندی سی پانی کی بوتل لٹک رہی تھی۔ بوڑھے نے اس میں سے پانی کے چند گھونٹ اپنے حلق میں ڈالے،
گھونٹ حلق میں ڈالا نہیں جاتا، لیا جاتا ہے یا بھرا جاتا ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست ہی جملے کو سنوارتی ہے یا بگاڑتی ہے۔لفظوں کا انتخاب لکھاری کے محسوسات کو قاری تک پہنچانے کا قرینہ بناتا ہے۔’’اس نے رکشے کے کیریر سے ٹنگی ایک گندی سی بوتل میں سے کچھ پانی حلق میں انڈیلا۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح آگے چلتے جائیے اور اپنی تحریر کا اتنی سختی سے جائزہ لیجئے کہ یہ آپ کے کسی ازلی ابدی حریف کی تحریر ہے اور آپ کو اس کی کوئی چھوٹی سی غلطی بھی معاف نہیں کرنی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے تنقیدی وقار پر بھی حرف نہیں آنے دینا۔
وقت ملا تو بقیہ کو بھی دیکھ لوں گا، نہیں تو ۔۔۔ پیشگی معذرت قبول فرمائیے۔


محمدعلم اللہ اصلاحی
الف عین
 

ماہا عطا

محفلین
السلام علیکم @
محمدعلم اللہ اصلاحی​
بھیا آپ نے بہت آچھی تحریر لکھی ۔۔۔۔۔معاشرے کی تلخ حقیقت کو بخوبی بیان کیا ہے۔۔۔۔۔​
پتہ میں جب ایسی کوئی تھڑیر پڑھوں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے سچ کچھ کہنے یہ تبّرہ کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔۔۔۔
پتہ نہیں کیوں ہمارا معاشرہ ایسا کیوں ہے۔۔۔۔اور یہ ضعف لوگ اس عمر میں اتنی محنت کیوں جبکہ انھیں آرام کرنا چاہیے۔۔۔۔
میں کیا کہوں مزید بس سمجھ لیں آپ کی تحریر پڑھ کے تھوڑی اداس ہو گئی تھی۔۔۔۔
لیکن آپ سے کہا تھا نا تبصرہ ضرور کرون گی۔۔۔۔
خوش رہیں بھیا
 
السلام علیکم @
محمدعلم اللہ اصلاحی​
بھیا آپ نے بہت آچھی تحریر لکھی ۔۔۔ ۔۔معاشرے کی تلخ حقیقت کو بخوبی بیان کیا ہے۔۔۔ ۔۔
پتہ میں جب ایسی کوئی تھڑیر پڑھوں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے سچ کچھ کہنے یہ تبّرہ کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔۔۔ ۔
پتہ نہیں کیوں ہمارا معاشرہ ایسا کیوں ہے۔۔۔ ۔اور یہ ضعف لوگ اس عمر میں اتنی محنت کیوں جبکہ انھیں آرام کرنا چاہیے۔۔۔ ۔
میں کیا کہوں مزید بس سمجھ لیں آپ کی تحریر پڑھ کے تھوڑی اداس ہو گئی تھی۔۔۔ ۔
لیکن آپ سے کہا تھا نا تبصرہ ضرور کرون گی۔۔۔ ۔
خوش رہیں بھیا

ماہا عطا اداس نہ ہوا کرو دنیا میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے ۔
 
Top