نوید ناظم
محفلین
بس کر اب خواب دکھانے والے
وہ نہیں لوٹ کے آنے والے
مر گیا کوئی گلی میں اُس کی
یوں نبھاتے ہیں نبھانے والے
رک تو جا، پوچھ تو لے پھر ان سے
مجھ کو محفل سے اٹھانے والے
اک نظر میرے قفس پر بھی ہو
اے پرندوں کو اڑانے والے
تجھ کو ویرانی دعا دیتی ہے
دشت سے ہاتھ ملانے والے
آنکھ خیرہ ہو گئی سورج کی
رخ سے زلفوں کو ہٹانے والے
روشنی میں تُو ہمیشہ کھیلے
جا، مِرے گھر کو جلانے والے
وہ نہیں لوٹ کے آنے والے
مر گیا کوئی گلی میں اُس کی
یوں نبھاتے ہیں نبھانے والے
رک تو جا، پوچھ تو لے پھر ان سے
مجھ کو محفل سے اٹھانے والے
اک نظر میرے قفس پر بھی ہو
اے پرندوں کو اڑانے والے
تجھ کو ویرانی دعا دیتی ہے
دشت سے ہاتھ ملانے والے
آنکھ خیرہ ہو گئی سورج کی
رخ سے زلفوں کو ہٹانے والے
روشنی میں تُو ہمیشہ کھیلے
جا، مِرے گھر کو جلانے والے