امن وسیم

محفلین
السلام علیکم

یہ طویل مضمون رضوان ٱللَّه صاحب کا تحریر کردہ ہے جو ماہنامہ اشراق میں قسط وار شائع ہوا۔ اس مضمون میں موت کے بارے میں مختلف نظریات و عقائد کا تقابل کیا گیا ہے

اس مضمون میں موت، موت کے بعد کے حالات، قیامت، حشر، جنت اور جہنم کے بارے میں (من گھڑت اور ضعیف روایات سے احتراز کرتے ہوئے) قرآن و سنت کے مطابق صحیح عقائد کی وضاحت کی گئی ہے۔

امید ہے تمام محفلین کو یہ سلسلہ پسند آئے گا۔
 

امن وسیم

محفلین
عنوانات کی فہرست

⭕ موت اور زندگی میں فرق
⭕ مرنے کے بعد قصہ ختم یا نئی زندگی
⭕ روح کا معاملہ ( روح کے بارے میں تین عقائد : وصال، تناسخ، اِحیا )

⭕ عقیدہ وصال

⭕ عقیدہ تناسخ
⭕ عقیدہ تناسخ کی تاریخ
⭕ عقیدہ تناسخ بن جانے کی وجوہ
⭕ عقیدہ تناسخ کی نا معقولیت پر دلائل

⭕ عقیدۂ اِحیا
⭕ احیا فی الدنیا
⭕ احیا فی الدنیا کا مقصد
⭕ عقیدۂ اِحیا کی تاریخ
⭕ یہودیت اور عقیدۂ اِحیا
⭕ مسیحیت اور عقیدۂ اِحیا
⭕ اسلام اور عقیدۂ اِحیا

اسلامی عقیدۂ اِحیا کے مطابق چار عالم ( نفوس، دنیا، برزخ، حشر )

⭕ عالم نفوس

⭕ عالم دنیا ( عالم دنیا کے چار اجزاء : مادی زندگی، روحانی زندگی، مادی موت، روحانی موت )

⭕ مادی زندگی
⭕ روحانی زندگی
⭕ مادی موت
⭕ روحانی موت

⭕ عالم برزخ
⭕ عالم برزخ میں تین طرح کے لوگ

عالم حشر

⭕ عالم حشر
⭕ قیامت
⭕ قیامت کی ہولناکیاں
⭕ نئی دنیا
⭕ نیا جسم

⭕ حشر
⭕ عدالت
⭕ پیشی
⭕ عدالت کا ماحول و مزاج
⭕ سماعت سے پہلے
⭕ نامۂ اعمال
⭕ شہادتیں
⭕ فیصلہ
⭕ کامیابی کی خوشی، ناکامی کی حسرت
 

امن وسیم

محفلین
جہنم

⭕ جہنم کی تخلیق کا مقصد
⭕ جہنم کی ابدیت
⭕ جہنم کے احوال
⭕ جہنمیوں کا استقبال
⭕ جنتیوں کا جہنمیوں سے مکالمہ

⭕ جہنم کا طعام
⭕ جہنم کا مشروب
⭕ جہنمیوں کا لباس اور رہائش
⭕ جہنم کی آگ
⭕ جہنمیوں کو ذہنی تکالیف
⭕ جہنمیوں کی محرومیںاں
⭕ جہنم سے نکلنے کی کوشش

جنت

⭕ جنت کا تعارف
⭕ جنت کی ابدیت
⭕ جنت میں درجات
⭕ جنت کی حدود
⭕ جنت میں استقبال
⭕ جنت کے احوال
⭕ جنت کے باغ
⭕ جنت کے محل
⭕ جنتیوں کا لباس
⭕ جنتیوں کیلیے خدمت گار
⭕ جنتیوں کا طعام
⭕ جنتیوں کا مشروب
⭕ جنت کی نہریں
⭕ جنت کی حوریں
⭕ جنتیوں کی خواہشات
⭕ جنت رضوان
⭕ اہل جنت کا شکر
⭕ جنت میں بوریت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

امن وسیم

محفلین
زندگی اور موت میں فرق

زندگی اور موت، ان دونوں کی حقیقت کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب ہر کوئی اپنے اپنے انداز اور علم و تجربہ سے دیتا ہے۔

عام لوگوں کے نزدیک اگر کوئی انسان اُٹھتا بیٹھتا، چلتا پھرتا، کھاتا پیتا ، دوسروں کی سنتا اور اپنی سناتاہے، یا دوسرے لفظوں میں، جب تک اس میں ذرا سی بھی حرکت محسوس ہوتی ہو، وہ زندوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور یہ جان لینے کے بعد کہ زندگی کیا ہے ، موت کو جان لینا اب ان کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ زندگی اور موت، باہم متضاد صفات ہیں ، ان میں سے ایک کو سمجھ لیا جائے تو دوسری خود بخود واضح ہو جاتی ہے۔ جیسے روشنی اور اندھیرے کی مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ روشنی کو جان لینے کے بعد اندھیرے کو آسانی سے جان لیا جا سکتا ہے کہ اندھیرا کچھ بھی نہیں، محض روشنی کا نہ ہونا ہے۔ چنانچہ زندگی اگر حرکت کا نام ہے تو پھر موت بھی ان لوگوں کے ہاں بس جمود ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ۔

بعض حضرات کے نزدیک ان حرکات و سکنات سے قطع نظر ، دماغی حیات اصل زندگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کا دماغ جب تک شعوری کیفیت میں ہوتا اور سمجھ بوجھ کا عمل کرتا رہتا ہے ، اس وقت تک وہ زندہ ہے۔ جب تمام شعوری احساسات ختم ہو جائیں، اُس وقت اس کے جسم کی حالت کیسی ہی کیوں نہ ہو، وہ حقیقت میں مردہ ہی ہے۔ ایسے شخص پر زندگی کے تمام حکم ساقط ہو جاتے اور اس کی اپنی ہر بات بھی معطل ہو کر رہ جاتی ہے۔

کچھ لوگ ایسے شخص کو بھی کہ جس کی دماغی موت کا اعلان ہو چکا ہو، اس وقت تک زندہ جانتے ہیں جب تک دل دھڑک کر اور پھیپھڑے سکڑ پھیل کر اپنی ہستی کا احساس دلاتے رہیں ۔ ان کے نزدیک جب دھڑکنیں تھم جائیں اور سانسیں رک جائیں ، تب جا کر زندگی ختم اور اس کا مسافر عازم عدم ہوتا ہے۔

زندہ کون ہوتا ہے اور مردہ کسے کہتے ہیں ، یہ جان لینے کے بعد دوسرا سوال اٹھتا ہے کہ ہر زندہ کو کیا ضرور ہی مرنا ہے؟ اس کے جواب میں ہر کوئی ایک ہی بات کرے گا کہ موت زندگی کی تلخ ہی سہی، مگر اٹل حقیقت ہے۔ ان دونوں کا رشتہ ایسا لازوال ہے کہ صدیاں بیت گئیں ، مگر زندگی موت سے بے پروا ہوئی اور نہ موت نے اسے اپنے چنگل سے آزاد کیا۔ اس کش مکش میں فاتح بھی ہمیشہ موت ہی رہی۔ یعنی یہ تو بارہا ہوا کہ زندگی ہر دم بھاگتی رہی اور موت اس کے تعاقب میں رہی، یا کبھی زندگی موت کی موت بن کر اس کے مقابل میں بھی آن کھڑی ہوئی، مگر جیت بالآخر موت ہی کے حصے میں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی ہر داستان اس کی فتح کو بیان کرتی، موجودہ دور اسی کے تسلط کی شہادت دیتا، حتیٰ کہ مستقبل بھی اسی کی برتری کی دہائی دیتا نظر آتاہے۔

مذکورہ بالاسطور سے دو چیزیں مزید معلوم ہوتی ہیں:

ایک یہ کہ کون زندہ ہے اور کون مردہ، یہ جاننا انسانی عقل و تجربہ اور اس کے مشاہدے ہی کی چیز ہے اور علم کے انھی ذرائع کی بنیاد پر ہمیشہ سے کسی کے جینے اور مرنے کا فیصلہ ہوتا آیا ہے۔ یہ تجربہ اور معاینہ جتنا بھی مختلف فیہ ہو جائے، بہرحال، زندہ وہی ہے جسے لوگ زندہ سمجھیں اور مردہ وہی ہے جو ان کے ہاں مردہ قرار پائے۔

دوسرے یہ کہ انسان دنیا میں جیتا ہے اور کچھ وقت گزار کر موت سے جا ملتا ہے، یہ بات جس طرح ہر شک سے بالاتر ہے، اسی طرح اسے حقیقت ماننے والے لوگ صرف وہی نہیں جو کسی نہ کسی درجے میں مذہب سے متعلق ہیں۔ کوئی مذہب پسند ہے یا مذہب بے زار، ہر کوئی اس کی ایسے ہی تصدیق کرتا ہے جیسے چمکتے سورج کا مشاہدہ کرنے والے باہم مختلف لوگ ، بلا تفریق ، اس کے روشن ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
مرنے کے بعد قصہ ختم یا نئی زندگی؟

موت کو طے شدہ امر مان لینے کے بعد معاملہ اس وقت نزاع کا شکار ہو جاتا ہے، جب بات طبیعات سے اٹھ کر مافوق چلی جاتی ہے ۔ یہاں دو قسم کی آرا وجود میں آتی ہیں:

بعض لوگوں کے خیال میں انسان مرتا ہے اور قصہ ختم ہو جاتا ہے،

مگر بعض کے نزدیک یہ موت اصل میں ایک نئے دور کی ابتدا ہے کہ جس میں اسے پھر سے زندگی دی جانی ہے۔

موت کے بعد زندگی دیے جانے کا یہ دعویٰ، کم و بیش ہر مذہب کا متفقہ عقیدہ ہے ۔ قرآن کریم میں بھی دُنیوی زندگی اور موت کا ذکر کرنے کے بعد اسے یوں بیان کیا گیا ہے :

ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ. (المومنون ۲۳: ۱۶)
’’(مرنے کے بعد) پھر تم قیامت کے روز ضرور اٹھائے جاؤ گے۔‘‘


یہ وہ مقام ہے جہاں لامذہبیت مذہب سے جدا ہو جاتی اور بعد از موت زندگی کا شدت سے ردّ کرتی ہے۔ تاہم اس کا اس عقیدے کو ردّ کرنا، خواب و خیال سمجھنا یا پھر اسے ذہنی افیون قرار دے ڈالنا، یہ سب سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں۔ اس لیے کہ لامذہبیت جس علم پر سو فی صد اعتماد کرتی ہے، وہ علم اپنی تمام وسعتوں کے باوجود، محض حواس کا پروردہ اور قیاس کا لے پالک ہے۔ ان میں سے حواس کی حالت تو یہ ہے کہ وہ اس بات کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ مادے سے ماورا کسی شے کا احاطہ کر سکیں اور نہ عقل اتنی پرواز رکھتی ہے کہ ان سے حاصل ہوئے علم سے اوپر اٹھ کر کسی شے کا تصور کرسکے۔ چنانچہ صرف تجربوں اور اندازوں کو علم سمجھنے والوں سے یہ توقع ہرگز نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مو ت کے بعد زندگی کو تسلیم کر لیں گے کہ یہ کسی اندھے سے دیکھنے اور کسی لنگڑے سے بھاگنے کی امید باندھ لینے والی بات ہوگی۔ تاہم، عقل کے پجاریوں اور حواس خمسہ کے ان قیدیوں کو کم سے کم یہ ضرور چاہیے کہ وہ انکار اور ناواقفیت کے درمیان میں حد فاصل قائم رکھیں۔ اس لیے کہ جس شے کا علم نہ ہو، اس کے وجود ہی سے ہم منکر ہو جائیں، یہ کوئی علمی رویہ نہیں۔ ماضی قریب میں بہت سی مادی چیزیں ایسی تھیں جن کے بارے ہم قطعی طور پر ناواقف تھے، حالاں کہ وہ ایک حقیقت تھیں اور باقاعدہ طور پر اپنا وجود رکھتی تھیں، ہاں، اپنی رونمائی میں جہل کے پردے سرک جانے اور لاعلمی کے اندھیرے چھٹ جانے کی وہ منتظر ضرور تھیں۔

بہرکیف، مرنے کے بعد زندگی ہر مذہب کا بنیادی موضوع ہے اور اس کے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے دلائل کی بھی ایک دنیا ہے۔ اس لیے کہ دین صرف محسوسات کو ماننے کا نام نہیں، یہ ا ن سے ماورا حقائق کو عقل اور فکر کے ذریعے سے سمجھنے اور انھیں مان لینے کا بھی داعی ہے۔ نیز ضروری نہیں کہ دلیل وہی ہوتی ہو جسے حِس، مشاہدے اور تجربے کی بنیاد حاصل ہو یا جسے کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا اور مَعمل میں آزمایا جا سکتا ہو ، بلکہ ہر وہ بات دلیل ہو سکتی ہے جو معلوم سے غیرمعلوم تک اور محسوس سے غیرمحسوس تک لے جا سکتی ہو۔مذہب کا دامن اس طرح کے دلائل سے بھرا ہوا ہے اور بعد از موت زندگی کو ثابت کرنے کے لیے وہ ان سے ہٹ کر کسی اور دلیل کا بالکل بھی محتاج نہیں۔ چنانچہ اس مقام پر مذہب اپنا مقدمہ الگ سے قائم کرتا ہے اور اس کی تائید میں بہت سے عقلی اور فطری دلائل بھی مہیا کرتا ہے۔

مذہبی دنیا اس عقیدے پر یقین کیوں رکھتی ہے ، اس کے وجوہ بھی نہایت معقول ہیں:

ایک تو یہ کہ مذہب ان تعلیمات کا داعی ہوتا ہے جو اعلیٰ اقدار یا بنیادی اخلاقیات سے پھوٹتی، منہ زور خواہشات کو لگام دیتی اور اس مقصد کے لیے جان و مال کی قربانی کا تقاضا کرتی ہیں، چنانچہ ان پر عمل کی تحریک پیدا کرنے کے لیے مذہب کے پاس سب سے بڑا محرک یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ایک نئی زندگی کا اثبات کرے۔

دوسرے یہ کہ مذہبی احکام ماننے کی صورت میں مذہب کے پیرووں کو جو نقصان جانب نفس اٹھانا پڑتا ہے، اس کی تلافی کی واحد صورت بھی یہی ہے کہ انھیں نئی زندگی کی نوید دی جائے۔ اُس زندگی کی نوید کہ جو اِن کی قربانیوں کا حاصل، ان کی ریاضتوں کا ثمرہ اور ان کی تمام عزیمتوں کا صلہ ٹھیرے۔ سو اسی طرح کے دیگر وجوہ ہیں کہ تاریخ عالم کے ہر اہم مذہب میں ، وہ عالمی ہو یا علاقائی، مرنے کے بعد زندگی کا عقیدہ بنیادی حیثیت کا حامل رہا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
روح کا معاملہ

دنیاے مذہب میں حیات بعد از موت کو بنیادی نظریہ تسلیم کر لینے کے بعد اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظریہ کیا ہر مذہب میں ایک جیسی اساسات اور تفصیلات رکھتا ہے یا پھر دوسرے نظریات کی طرح اختلاف و انتشار کا شکار اور رطب و یابس کا ایک مجموعہ بن کر رہ گیا ہے ؟آج کے معروف اور زندہ ادیان کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس سوال کا جواب نہایت مایوس کن ملتا ہے اور ادیان کا باہمی اختلاف اس میں بھی اپنا رنگ جماتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بارے میں ایسی پُر پیچ اور اُلجھی ہوئی تعلیمات ملتی ہیں کہ کسی طالب حق کے لیے گوہر مراد کو پا لینا ایسے ہی ہے جیسے گھاس کے ایک بڑے ڈھیر میں سے کوئی باریک سوئی ڈھونڈ نکالنا۔ لیکن اختلاف کی ان بھول بھلیاں سے دامن بچاتے اور فروعی چیزوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ہم اصولی طور پر دیکھیں تو اس مسئلے میں بناے اختلاف صرف ایک سوال ہے، وہ یہ کہ

موت کے بعد انسان کی روح کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا اور اس پر کیا کیا احوال گزرتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ روح انسانی جسم سے علیحدہ ہو کر خدا میں ضم ہو جاتی ہے اور بعض کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ پھر جن کے ہاں ایسا نہیں ہے، ان میں سے بعض کی راے ہے کہ جسم سے الگ ہو جانے کے بعد وہ پھر کسی مادی جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اسے جسم تو ضرور ملے گا، مگر ابھی اور اس دنیا میں نہیں، بلکہ یہ سب کچھ ایک نئی دنیا میں واقع ہو گا۔ موضوع کی اس تقسیم کو اگر مان لیا جائے تو اس ساری بحث کو ہم تین بنیادی عنوانات کے تحت پڑھ سکتے ہیں:

وصال ، تناسخ اور اِحیا
 

امن وسیم

محفلین
عقیدہ وصال

ان تینوں میں سے وصال کو اس لیے خارج از بحث کیا جا سکتا ہے کہ اس کی حیثیت ایک مستقل نظریے کی نہیں، بلکہ ایک ضمنی اور جزوی ، فکری انحراف کی سی ہے ۔ یہ عقیدہ جہاں بھی پایا جاتا ہے، طفیلی صورت ہی میں پایا جاتا ہے اور اس لحاظ سے یہ تناسخ کا عقیدہ رکھنے والوں کے ہاں بھی ملتا ہے اور احیا کو ماننے والوں کے ہاں بھی۔ دوسرے یہ کہ اس کے مطابق موت کے بعد روح اپنا جسد خاکی چھوڑ کر کسی اور سے نہیں ، خود اپنے خالق سے جا ملتی ہے۔ اور اس کی دلیل ان کے پاس اگر کوئی ہے تو وہ صرف یہ کہ انسان کی روح خدا ہی کا ایک جز یا اس کا عکس ہے کہ جسے کچھ وقت کے لیے دنیا میں بھیجا گیا تھا، اس لیے ضروری ہے کہ جسم سے آزاد ہونے کے بعد یہ پھر اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے۔ گویا اہل وصال کے نزدیک دنیا میں اصلاً کچھ بھی نہیں، صرف خدا ہے اور اسی کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر، یہاں جو کچھ بھی ہے ، وہ سب خداہے۔ اب مذہب جو کہ عابد اور معبود کی تقسیم کو مانتا اور اس بنیاد پر اطاعت کا حکم دیتاہے ، اسے کس طرح تسلیم کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ مان لینے کے بعد تو مذہب کی بنیاد ڈھے جاتی اور یہ اپنے وجود کی علت ہی کھو بیٹھتا ہے۔ لہٰذا، وصال کا اس قدر نامعقول ہونا، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم اس کی تفصیل سے صرف نظر کریں گے اور اپنی بحث کو صرف دو عنوانات تک محدود رکھیں گے :
یعنی تناسخ اور اِحیا۔

________
 

امن وسیم

محفلین
عقیدہ تناسُخ کا تعارف

مذاہب کی ایک بڑی تعداد اس بات کو بطور عقیدہ مانتی ہے کہ انسان کی روح خدا کا جز یا اس کا کوئی عکس نہیں اور نہ موت کے بعد یہ اُس میں ضم ہی ہوتی ہے، بلکہ اس کا اپنا ایک مستقل بالذات وجود اور الگ سے ایک تشخص ہے کہ جس کے ساتھ وہ دوبارہ سے زندگی پا لے گی۔ پھر اس بات پر ان میں اختلاف ہے کہ اسے نئی زندگی کب اور کہاں پر ملتی ہے؟ یعنی کیا یہ حادثہ موت کے متصل بعد اور اِسی دنیا میں واقع ہو جاتا ہے یا اس کے لیے کسی خاص وقت اور نئی دنیا کا انتظار ہوتا ہے؟ یہاں پر دو طرح کی آرا ہیں:

ایک راے یہ ہے کہ انسانی روح جب جسد خاکی سے جدا ہو جاتی ہے تو اس کو اسی دنیا میں کسی نئے مادی قالب میں پھونک دیا جاتا ہے جو کہ حیوانی بھی ہو سکتا ہے اور نباتاتی بھی۱؂ ۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب یہ اس سے بھی جدا ہو جاتی اور کسی تیسرے قالب میں داخل کر دی جاتی ہے ؛ اور یہ سلسلہ ایک خاص وقت تک یونہی چلتا رہتا ہے۔ روح کا اس طرح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتے چلے جانا، مذہبی اصطلاح میں تناسخ یا آواگون (Reincarnation ) کہلاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؂ حیوانی یا نباتاتی، ان دونوں میں سے کس کے اندر اس روح کو پھونکا جائے گا، اس بات کا فیصلہ اس کے کرْم (اعمال) کرتے ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
عقیدہ تناسخ کی تاریخ

اس عقیدے کا وجود نویں صدی قبل مسیح سے پہلے تقریباً ناپید تھا۔ اس کے بعد کا کوئی دور تھا جب اس کی خام صورتیں مختلف مقامات پر ابھرنا شروع ہوئیں، مگر متعین و معروف شکل میں اس کی پیدایش ایک ہندو گھرانے ہی میں ہوئی۔ ہندوؤں کا تصور دین چونکہ بڑی حد تک دیومالائی سا ہے، اس لیے یہ گھرانا اس کی پرداخت کے لیے نہایت موزوں ثابت ہوا۔ کچھ زمانہ گزر گیا تو بدھ مت اور جین مت آگے بڑھے، اس کو کچھ سنوارا، کچھ رنگ روپ بدلا اور پھر گود لے لیا۔ تیسری صدی قبل مسیح میں جب بدھ مت مشرقی ایشیا گیا تو اسے بھی اپنے ساتھ لیتا گیا جہاں تاؤ ازم اس کو متبنّیٰ کر لینے کے لیے بالکل تیار تھا۔ بعدازاں، فکر یونان نے بھی مشرق کا اثر قبول کیا تو اس پختہ عمر ہو چکے تناسخ سے ناتا جوڑ لیا اور کسی حد تک اسی کا ہو رہا۔
 

امن وسیم

محفلین
عقیدۂ تناسخ بن جانے کی تین وجوہ

تناسخ کی ابتدا کب ہوئی اور یہ کن ادوار اور کن مقامات میں اپنی تکمیل کرتا رہا، یہ سب جان لینے کے بعد اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ محض ایک خیال اور واہمے کے باقاعدہ ایک عقیدے کی صورت میں ڈھل جانے کے آخر وجوہ کیا ہوئے؟

ہمیشہ جیتے رہنے کی خواہش، اس کی پہلی وجہ ہوئی۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو دنیا کے بارے میں اس کا علم نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، مگر وقت کے ساتھ وہ بہت کچھ جان لیتا اور یہاں کی چیزوں سے صحیح طور پرفائدہ اٹھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ لیکن طرفہ تماشا ہے کہ عین اس وقت جب وہ عقل و دانش کی بلندیوں پر ہوتا اور تجربات کے گراں قدر خزانوں سے مالامال ہوتا ہے، اس کے قویٰ مضمحل کر دیے جاتے اور سمجھ بوجھ کی تمام صلاحیتیں کند کر دی جاتی ہیں اور آخرکار وہ لمحات بھی آ جاتے ہیں کہ اسے خواہی نخواہی رخت سفر باندھنا اور یہاں سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ اب ، ظاہرہے ، کون چاہے گا کہ ایسے ایسے عروج پا کر پھر سے زوال آشنا ہو جائے اور اس بھرے میلے کو الوداع کہہ دے؟ چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ وہ اس بات کو مان لینے کے باوجود کہ اسے مر جانا ہے ، کبھی مرنا نہیں چاہتا۔ کبھی امرت ڈھونڈتا ہے تو کبھی آب حیات کے فریب میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یوں اپنی آرزوؤں کی تسکین کا سامان کیا کرتا ہے ۲؂ ۔ تناسخ کا عقیدہ بھی اصل میں کچھ نہیں ، اسی طرح کا موہوم سا ایک جتن ہے۔ ایک حشیش ہے جو مست اور بے خود ہو جانے والوں کو دیس نکالا نہیں دیتی، بلکہ ان کے لیے ایک دنیاے خواب بناتی اور انھیں اس میں بسا کر عمر جاوداں بخش دیتی ہے۔

انسان کے ذہن کا افسانوی پس منظر، اس عقیدے کے بننے کی دوسری وجہ ہوا۔ انسان کو قدرت کی طرف سے نہایت اعلیٰ درجے کا ذہن عطا ہوا ہے جو اپنی صلاحیتوں کو عمل میں لاتا ہے تو ہزارہا داستانیں تخلیق ہو جاتی ہیں۔ نئی نئی دنیائیں بنتی ہیں کہ جن میں پری زاد کوہ قاف سے اترتی، نقرئی پروں سے اُڑتی پھرتی اور ہر طرف پھول اور ستارے بکھیرتی چلی جاتی ہیں۔ عجیب و غریب جہان آباد ہوتے ہیں کہ جن میں جنات بسیرا کرتے ، بدروحیں خون آشام ہو جاتی اور چڑیلیں بے لباس ہو ہو کر اچھل کود کیا کرتی ہیں۔ اس خواب و خیال پر کیا اعتراض تھا اگر یہ سب تفریح پر موقوف ہوتا۔ مگرکبھی کبھی انسان کا جی چاہتا ہے کہ اس کا تخیل ہر سو پرواز کرے اور اس کی جولانیاں دنیوی ہی نہیں، دینی میدان میں بھی اپنا آپ منوائیں۔ چنانچہ اس کی کہانیوں میں دینی خیالات اب باقاعدہ کرداروں میں ڈھل جاتے اور اس کے مذہبی نظریات چلتے پھرتے جسموں میں بدل جاتے ہیں۔ اور یہ تخلیق اپنے کلائمیکس کو اُس وقت پہنچتی ہے جب حضرتِ انسان شکلیں بدل بدل کر جانور بن جاتے اور عاجز و بے بس جانور آدمیوں کے روپ میں مارے مارے پھرتے ہیں۔۳؂

قدیم انسان کا ٹوٹم (totem) کے ساتھ تعلق، اس عقیدے کے بن جانے کی تیسری وجہ ہوا۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک وقت اس پر ایسا بھی گزرا ہے جب اس نے مظاہر فطرت کی خوب پرستش کی ہے۔ اجرام سماوی ہوں یا درخت اور جانور، ان سب کو اس نے پوجا، ان کے سامنے ڈنڈوت کیے، ان کی علامتیں بنا بنا کر ان کو جھکی جبینوں کی نذریں گزرانی ہیں۔ بلکہ حشیش و حشرات اور شمس و قمر کی تو بات ہی کیا، یہ خدا بنانے پر آ گیا ہے تو اس کے توہمات بھی اس کی الٰہیات میں معبود ٹھیرے ہیں۔ مظاہر فطرت کے ساتھ اس حد تک وابستگی اور اس پر مبنی دینی رویہ، اصل میں یہ وہ چیز تھی جس نے بعد از موت زندگی میں بھی اپنی جھلک دکھائی اور اس بے چارے کو ایک ایسے سلسلے میں پرو دیا کہ جس میں یہ کبھی ایک جسم میں ہوتا ہے تو کبھی دوسرے جسم میں؛ اور وہ دوسرا جسم بالعموم، ٹوٹم یعنی نباتات یا پھر حیوانات ہی میں سے ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲؂ یہ خواہش ویسے تو بڑی ہی معصوم اور نہایت بے ضررہے اور یقیناپوری بھی کر دی جاتی ،مگراسے پورا کردینایہاں کی مجموعی حکمت کے بالکل خلاف ہوتا۔لہٰذا ہوتایہی ہے کہ اس طرح کی تمام آرزوئیں لاحاصل رہ جاتی اوراس طرح کے سب خواب چکناچورہوجاتے ہیں۔

۳؂ ستم یہ ہوتاہے کہ یہ سب کچھ انسان آپ سوچتااورآپ ہی کہتاہے، مگربے دھڑک دوسروں کو خدا کے نام سے سنا دیتا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
عقیدۂ تناسخ کی مزید تین وجوہ

انسان کی ظلم پر روک لگانے کی اپنی سی ایک کوشش، اس عقیدے کے بننے کی چوتھی وجہ ہوئی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا نے کائنات اور اس میں رہنے والوں کو اِصلاح کے اصول پر بنایا ہے، مگر یہاں کے باسی چونکہ صاحب اختیار ہیں، اس لیے بعض اوقات اپنی فطرت کو مسخ کر بیٹھتے اور دنیا کو اصلاح کے بجاے فساد اور امن کے بجاے بدامنی سے بھر دیتے ہیں۔ دنیا کو اس کی اصل پر قائم رکھنے کے لیے اب ضروری ہو جاتا ہے کہ فساد اور بدامنی کے ان کاموں پر اخلاقی قدغنیں لگائی جائیں اور ان کے برے نتیجوں سے لوگوں کو متنبہ کیا جائے۔ اس غرض کے لیے، تاریخ شاہد ہے، ہمیشہ سے چلا آتا آخرت کا عقیدہ نہایت مفید بھی تھا اور آزمودہ بھی۔ لیکن انسان ٹھیرا سدا کا جلد باز اور تھڑدلا! وہ نقد چھوڑ کر ادھار کے چکر میں کیوں پڑتا؟ اس لیے اس کو یہ عقیدہ اس اعتبار سے بے حد ناقص نظر آیا کہ اس میں گناہوں کی سزا اس دنیا میں نہیں دی جاتی، بلکہ اگلی دنیا تک مؤخر کر دی جاتی ہے۔ چنانچہ جلد بازی کی اسی نفسیات نے اس کو مجبور کیا کہ وہ اصل عقیدے کی نوک پلک درست کرے اور مسئلے کا فوری حل دینے کے لیے تناسخ کا عقیدہ گھڑے۔ سو وہ لوگوں کو ڈرانے لگا کہ اسی کائنات میں کہ جس میں تم ایک دولھے کے مانند زندگی بسر کرتے ہو، اگر جور و جفا سے کام لیا تو نباتات اور حیوانات کی طرح کم ذات اور ذلیل ہو کر رہ جاؤ گے۔ تمھارے دوست احباب اور عزیز و اقربا، تمھارے سامنے اٹھکھیلیاں کرتے پھریں گے ، مگر تم ہو گے کہ ان کے سان گمان سے بھی دور رہو گے۔ تمھاری حیثیت نظرانداز کیے ہوئے کسی درخت یا کتے کی سی ہو جائے گی۔ انھیں پھل پھول اور گھنا سایہ دینے اور ان کے پیچھے دم ہلانے، حتیٰ کہ ان کے تلوے تک چاٹنے کے باوجود، تم ان کی نگاہِ التفات سے یک سر محروم رہو گے۔ اور اس طرح اذیت بھرا اور بے بسی میں گھِرا ہوا تمھارا ایک ایک پل نہ گزرنے والی طویل ترین صدیوں میں بدل جائے گا۔ واضح سی بات ہے کہ انسانی حکمت ظلم و عدوان پر روک لگانے کے لیے اس سے زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز کوئی اور ڈراوا نہیں بنا لا سکتی تھی۔ لہٰذا مذہبی پیشواؤں نے اسے خوب استعمال کیا اور عقیدۂ تناسخ کی بنیادیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

دنیامیں پائے جانے والے دکھ دردکی غلط توجیہ، اس عقیدے کے بن جانے کی پانچویں وجہ ہوئی۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں ہر پھول کے دامن میں کانٹے اور خوشی کے پردے میں غم کچھ اس طرح چھپا ہوا ہے کہ ان کو الگ کر دینا کسی کے بس میں نہیں، حالاں کہ اس کے برعکس یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ یہاں کی مسرتیں غموں سے بالکل اجنبی اور پھول کانٹوں سے کوسوں دور ہوتے۔ کہیں ظلم ہوتے نہ ان پر ماتم ہوتے ، دکھ ہوتے نہ پھر درد روتے۔ بالخصوص ، کم سن بچے تو ہمیشہ سکھی رہتے۔ انھیں دردناک بیماریاں آن گھیرتی نہ بھوک کی سختیاں ستاتی اور نہ ان کے استحصال ہی کی کوئی صورت ہوتی کہ اس معصوم اور بے ضرر مخلوق نے آخر کسی کا کیا بگاڑا ہے؟ پھر وہ خدا جوانسان کی پیدایش سے لے کر اس کی موت تک ہر ہر مرحلے میں نہایت مشفق اور مہربان رہا، اتناظالم کیسے ہو گیا کہ بے گناہوں کو بھی ہر وقت کسی نہ کسی عذاب میں گرفتار کیے ہوئے ہے؟ یہ سوالات تھے جن کا جواب بعض کم سوادوں نے کچھ اس طرح ڈھونڈا کہ کسی کا دکھوں میں مبتلا ہونا یا مصائب میں گرفتار ہو جانا، حکمت کے خلاف ہے اور نہ اس پر ہونے والا قدرت کا کوئی ظلم ہے، بلکہ یہ سب اس کے پرانے کرْموں کے نتائج ہیں، یعنی اگلے جنموں میں جو گناہ اس نے کیے ، یہ انھی کا کیا دھرا ہے کہ اِس جنم میں اس کو یہ مصیبتیں اٹھانا پڑ رہی ہیں۔

حقائق سے فرار، چھٹی وجہ ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کے ہاں یہ عقیدہ قائم ہوا۔ خدا کا دیا ہوا کھانے اور اچھی طرح برت لینے کے بعد اُس خدا کا شکر، اسی کے سامنے حاضری اور اپنے عملوں کی جواب دہی کا تصور فطری بھی تھا اور عقلی بھی، مگر اس حقیقت کا اِدراک کرنا اور پھر اسی شعور کے ساتھ زندگی گزارنا اُس شخص کے لیے نہایت مشکل تھا جو اپنے منعم اور پروردگار سے بے پروا ہو چکا ہو۔ لہٰذا اس طرح کے حقیقت گریز شخص کے لیے تناسخ کا عقیدہ ہی محفوظ پناہ گاہ تھا جو جواب دہی کے تصور کو تو تسلیم کرتا تھا، مگرخدائی عدالت سے جاں خلاصی کا مژدہ سنا کر اسے عافیت کا ایک گوشہ بھی فراہم کر دیتا تھا۔
 

امن وسیم

محفلین
عقیدۂ تناسخ کی نامعقولیت پر تین دلائل

اس عقیدے کی پیدایش کے اسباب کوئی سے بھی رہے ہوں، لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کو مانتی اور اس کی بنیاد پر اپنے دین کی وضاحت کرتی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ اسباب سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ دیکھ لیا جائے کہ خود اس عقیدے میں کیا کسی قدر معقولیت بھی پائی جاتی ہے؟ نیز بعد از موت زندگی کے بارے میں پیدا ہو جانے والے تشکک میں کیا تشفی کا کچھ سامان بھی اس کے ذریعے سے ہو سکتا ہے؟لیکن اس نظر سے جب اس کا مطالعہ کیا جائے تو انتہائی درجے کی مایوسی ہوتی ہے ، اس لیے کہ عقل و فطرت کے معیارات پر پورا اترنا تو بہت دور کی بات، اس پہلو سے متعدد اعتراضات اس پر وارد ضرور ہو جاتے ہیں۔ انھی اعتراضات میں سے ہم کچھ کا ذکر ذیل میں کرتے ہیں:

اولاً، یہ عقیدہ ایک بڑے اہم سوال کا جواب نہیں دیتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں وقوع پذیر ہونے والا کوئی بھی فعل جس طرح کچھ فوری اثرات رکھتا ہے ، اسی طرح اس کے بہت سے اثرات دیرپا ہوتے اور کچھ مدت کے بعد ظاہر ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ایک نیکی اور بدی بسا اوقات صدیوں تک کو متاثر کر سکتی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عقیدۂ تناسخ کی رو سے جو کوئی مرتاہے ، اس کے عملوں کی جزا یا سزا اِسی دنیا میں شروع ہو جاتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ عمل جو مرنے کے بعد جاری رہتے ہیں، ان کے اچھے نتائج آخر کس کی جھولی میں پڑیں گے اور ان کے برے نتائج کا ذمہ دار کون شخص ہوگا، بالخصوص اس صورت حال میں کہ جب گناہ کا ارتکاب کرنے والا درخت اور جانور بننے کے چکر سے نکل کر مکتی اور نروان بھی حاصل کر چکا ہو؟

ثانیاً، عمل کا تنوع اور اس میں پائی جانے والی شدت اور نرمی، اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کے نتائج میں بھی تنوع اور درجے کا فرق پایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہرجگہ مختلف انواع کی نیکیوں اور بدیوں میں فرق کیا جاتا اور ان کی جزا اور سزا میں واضح تفاوت رکھا جاتا ہے ۔ یہ کیا ہوا کہ عمل کوئی سا بھی اور کسی بھی درجے کا ہو، بدلہ سب کو یہی ملے کہ وہ گھاس اور جانور یا پھر انسان میں بدل دیاجائے۔ عقل عام اور عدل و انصاف کے تقاضے اس طرح کی یکسانیت کو ماننے سے یک سر انکار کرتے ہیں۔ سو تناسخ کے عقیدے میں پائی جانے والی یہ ایسی کمی ہے جو واضح طور پر اس کو نامعقولیت اور صریح ظلم کی طرف لے جاتی ہے۔

ثالثاً، اگر یہ بات صحیح ہے کہ انسان کی روح اس کے برے عمل کی پاداش میں کسی دھتکارے ہوئے بندر ، اچھل کود کرتے مینڈک یا رینگتے اور گھسٹتے ہوئے حشرات الارض میں ڈال دی جاتی ہے تو یہ بات ماننا پڑے گی کہ اس نئے روپ اور اس کی یادداشت میں شخصیت ، بہرحال انسان ہی کی ہوتی ہو گی، اس لیے کہ یہ نیا روپ اسی طرح تو اس کے جرموں کا بدلہ بن سکے گا؛ اور یہ ایسی معقول بات ہے کہ اہل تناسخ بھی اس کو بعینہٖ تسلیم کرتے ہیں۔ مگراس عقیدے میں اس وقت خلا پیدا ہو جاتا ہے جب پلٹ کر یہ سوال کیاجائے کہ کوئی انسان پچھلے جنم میں جانور تھا اور اچھے عملوں کے نتیجے میں انسان بنا دیا گیا تو اس کی یادداشت میں بھی اُسی جانور کی شخصیت اور اس کا شعور، اس وقت موجود کیوں نہیں ہے؟

اس سلسلے میں ایک تاریخی واقعہ بھی سامنے رہے تو مذکورہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے:
ایک مرتبہ ابن فلاس نامی ایک شخص تناسخ کے ماننے والے کسی صاحب کے پاس گئے۔ ان کے سامنے سیاہ رنگ کی ایک بلی تھی اور عام عادت کے مطابق اس کی آنکھوں سے پانی سا بہ رہا تھا۔ وہ صاحب کبھی اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتے ، کبھی اس کی آنکھوں کو پونچھتے اور پھر ایک دم سے رونے لگتے ۔
ابن فلاس نے پوچھا: حضرت، کیا وجہ ہوئی کہ آپ اس طرح روتے ہیں؟
انھوں نے کہا: کم بخت ، دیکھتے نہیں ہو کہ جب میں اس کو سہلاتا ہوں تب تب یہ روتی ہے ، اس لیے ہو نہ ہو یہ میری والدہ ماجدہ ہیں جو حسرت بھری نگاہوں سے اپنے اس لعل کو دیکھتی اور پھر رونے لگتی ہیں۔
اس کے بعد وہ بلی سے اس طرح ہم کلام ہوئے، جیسے کہ وہ ان کی باتیں خوب سمجھ رہی ہو۔
ابن فلاس نے سوال کیا: آپ ان سے مخاطب ہیں ، کیا یہ آپ کی باتیں کچھ سمجھتی بھی ہے؟
جواب دیا: کیوں نہیں؟
انھوں نے مزید پوچھا : کیا اس کی حسرت بھری آوازیں آپ بھی سمجھ رہے ہیں؟
انھوں نے کہا: بالکل بھی نہیں۔
ابن فلاس فوراً بولے: اگر یہ بلی سب سمجھتی ہے اور آپ کچھ بھی نہیں سمجھتے تو ماننا پڑے گا کہ یہ بلی واقعی کسی وقت میں انسان تھی، مگر آپ بھی ضرور کسی جانور سے بدلے ہوئے ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
عقیدۂ تناسخ کی نامعقولیت پر مزید تین دلائل

رابعاً، تناسخ دنیا میں موجود دکھوں کی توجیہ یوں کرتا ہے کہ پچھلے جنموں کے یہ ہمارے کرم ہیں جن کا نتیجہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں ، حالاں کہ ان کی توجیہ اس سے کہیں بہتر انداز میں کی جاسکتی ہے، یعنی یہ ماننے کے بجاے کہ ہم سابقہ زندگی کے برے عملوں کا نتیجہ پا رہے ہیں، یہ کیوں نہ مان لیں کہ ہم اس زندگی میں اسی زندگی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ یا پھر یہ کیوں نہ مان لیں کہ یہاں کے المیے اصل میں المیے ہیں ہی نہیں، بلکہ ہمارے لیے برپا کیے گئے امتحان کا محض ایک جز ہیں۔واضح سی بات ہے کہ یہ دونوں توجیہات تناسخ کی بیان کردہ توجیہ سے بدرجہا بہتر اور عقل و فطرت کے عین موافق ہیں۔

خامساً، اگر حقیقت یہی ہے کہ انسانی روحیں درختوں اور جانوروں میں داخل ہوتی اور اچھے عملوں کی وجہ سے انسانی جسموں میں لوٹ آتی ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ دنیا میں انسانی آبادی کے مسلسل بڑھتے چلے جانے کی پھر وجہ کیا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر دور اور ہر زمانے میں اس کی آبادی ایک جیسی رہتی یا جو کبھی کم ہوتی بھی تو کبھی زیادہ بھی ہو جاتی، لیکن مسلسل بڑھتی ہرگز نہ چلی جاتی۔چنانچہ اس صورت حال میں معقول بات یہ نہیں کہ گنی چنی کچھ روحیں ہیں جو لوٹ لوٹ کر آیا کرتی ہیں، بلکہ معقول بات یہ ہے کہ ہر آن نئی ارواح جو تناسخ کے چکر سے قطعی طور پر بے نیاز ہیں اس جہاں میں پیدا ہوتی، نئے انسانی قالب ڈھونڈتی، انھیں اپنا مستقر بنا لیتی ، کچھ مدت کے لیے ان میں بسیرا کرتی اور پھر انھیں چھوڑ کر کہیں دور چلی جاتی ہیں۔

سادساً، موت کے بعد نئی زندگی کوئی ایسی شے نہیں کہ جس کا انسانی آنکھ نے مشاہدہ کیا ہو یا اس کی عقل و دانش ہی کبھی اس کا احاطہ کر سکی ہو ، اس لیے یہ بات طے ہے کہ اس کے بارے میں اگر کوئی علم حاصل ہو سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف ما بعد الطبیعیات کے کسی ذریعے سے حاصل ہو سکتا ہے۔ عام طور پر اہل مذہب کے ہاں یہ ذریعہ آسمان سے اترنے والی الہامی ہدایت ہے جس میں خدا ہمیشہ سے مافوق الادراک دنیاؤں کی خبر دیتا اور اس نوعیت کے بہت سے حقائق کو واضح کرتا رہا ہے۔مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ ان باتوں کی وحی وہ سب کی طرف براہ راست نہیں کرتا، بلکہ اس کام کے لیے وہ کسی نہ کسی نمائندے کا انتخاب کرتاہے۔ لہٰذا عقیدۂ تناسخ پر اس پہلو سے بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ عالم میں کسی خدائی نمائندے نے بھی کیا اس کے بارے میں کبھی کوئی بات کی؟ آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک ، کسی ایک ہی نے اس کی طرف دعوت دی ہو یا اِن پر اترنے والی الہامی کتابوں، حتیٰ کہ کسی صحیفے میں اس کا ذکر تک ہوا ہو؟ اور اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو بذات خود یہ بات اس عقیدے کی نامعقولیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اور یہ مانے بغیر چارا نہیں کہ یہ ماوراے طبیعیات وہ دعویٰ ہے جس کے پیچھے محض انسانی کاوش کار فرما ہے ۔

________
 

امن وسیم

محفلین
عقیدہ اِحیا

دنیاے مذاہب میں تناسخ کے مقابل میں ایک ایسا نظریہ پایا جاتاہے جس کو لوگوں کی بہت بڑی تعداد دینی عقیدے کے طور پر مانتی اور پھر اسی کی روشنی میں اپنے دنیوی معاملات اور مذہبی رسومات کو انجام دیتی ہے۔ اس عقیدے کے مطابق بھی انسانی روح دوبارہ سے زندگی پائے گی، مگر اسی دنیا میں اور یہیں کے کسی مادی جسم میں نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک نئی دنیا اور نیا جسم بنایا جائے گا جو نباتاتی اور حیواناتی کے بجاے انسانی خصائص ہی کا حامل ایک جسم ہو گا۔ مزید یہ کہ جسم دیے جانے کا یہ عمل بار بار بھی نہیں ہو گا، بلکہ صرف ایک مرتبہ اور وہ بھی اس دنیا کے خاتمے کے بعد ہو گا۔ اس عقیدے کو اِحیا (Resurrection) کا عقیدہ کہتے ہیں۔
 

امن وسیم

محفلین
اِحیا فی الدنیا

اس سے پہلے کہ احیا کا تفصیلی مطالعہ کریں، ہم ایک ضمنی بات عرض کرنا چاہتے ہیں۔ اس عقیدے کے مطابق نئی زندگی دیے جانے کا عمل اپنی کامل صورت میں تو ایک مرتبہ اور وہ بھی اُس وقت ہو گا جب اس دنیا کی جگہ نئی دنیا آباد کی جائے گی، مگر بعض اوقات یہ عمل اپنی کم تر سطح پر اِس دنیا میں بھی ہوا کرتا ہے۔ مرنے والے کو پھر سے زندگی ملتی ہے ، وہ مردوں میں سے جی اٹھتا ہے اور پھر باقی ماندہ وقت اپنی سابق حیثیت ہی میں گزار کر چلا جاتا ہے۔ احیا کی اس محدود اور ناقص شکل کو ہم ’’Resuscitation‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔ یہ نظریہ بھی کسی نہ کسی رنگ میں مذہبی لوگوں کے ہاں موجود رہا ہے اور اس کی تاریخی حیثیت بیان کرنے کے لیے کتاب مقدس اور قرآن مجید میں بیان کردہ کئی واقعات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر عہدنامہ عتیق میں ہے:

’’اور اس (ایلیاہ) نے خداوند سے فریاد کی اور کہا: اے خداوند میرے خدا ، کیا تو نے اس بیوہ پر بھی جس کے ہاں میں ٹکا ہوا ہوں، اس کے بیٹے کو مار ڈالنے سے بلا نازل کی؟ اور اس نے اپنے آپ کو تین بار اس لڑکے پر پسار کر خداوند سے فریاد کی اور کہا: اے خداوند میرے خدا ، میں تیری منت کرتا ہوں کہ اس لڑکے کی جان اس میں پھر آجائے۔ اور خداوند نے ایلیاہ کی فریاد سنی اور لڑکے کی جان اس میں پھر آ گئی اور وہ جی اٹھا۔‘‘ (۱۔سلاطین۱۷: ۲۰۔۲۲)

دوبارہ زندہ ہوجانے کا ایک واقعہ انجیل میں اس طرح بیان ہوا ہے:

’’جب وہ (یسوع) شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھا ایک مردہ کو باہر لیے جاتے تھے ۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا، اور وہ بیوہ تھی۔اور شہر کے بہتیرے لوگ اس کے ساتھ تھے۔ اسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا، اور اس سے کہا کہ مت رو۔ پھر اس کے پاس آ کر جنازہ کو چھوا، اور اٹھانے والے کھڑے ہو گئے ، اور اس نے کہا : ’’اے جوان میں تجھ سے کہتا ہوں اٹھ!‘‘ تو وہ مردہ اٹھ بیٹھا، اور بولنے لگا، اور اس نے اسے اس کی ماں کو سونپ دیا۔‘‘ (لوقا ۷: ۱۲۔۱۵)

سیدنا مسیح علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کر دینے کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے ۔ فرق بس اتنا ہے کہ انجیل کے مذکورہ بیان سے ان کی بندگی کے بارے میں جو غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی، قرآن نے چند الفاظ کے بر وقت استعمال سے اسے بالکل صاف کر دیا ہے۔ ارشاد ہوا ہے:

وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ.(اٰل عمرٰن ۳: ۴۹)
’’اور میں مردوں کو اٹھا کھڑا کرتا ہوں، اللہ کے اذن سے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
اِحیا فی الدنیا کا مقصد

مردے کو یوں زندہ کیا جانا، بذات خود کوئی عقیدہ یا مستقل نظریہ نہیں کہ جس پر اس حیثیت سے ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہو، بلکہ یہ آیندہ ہونے والے اِحیا ہی کی ، جیسا کہ قرآن نے مزید وضاحت کی ہے، ایک عملی شہادت ہے۔ اس کے ذریعے سے لوگوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ متنبہ رہیں ، کسی روز اسی طرح سب مردوں میں جان ڈال دی جائے گی اور ان کو اپنے پروردگار کے سامنے جواب دہ ہونا ہو گا ۔
اس سلسلے میں قرآن نے بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ قتل کے کسی معاملے میں جب ان سے کہا گیا کہ وہ ایک گائے کو ذبح کریں اور پھر اس پر قسمیں کھائیں تو انھوں نے جھوٹی قسمیں کھائیں اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگے۔ ۴؂ اس پر اللہ نے فیصلہ کیا کہ وہ حقیقت کو ظاہر کر کے رہے گا۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ مردے کو اُسی گائے کا ایک ٹکڑا مارا جائے جو قسمیں کھانے کے لیے ذبح کی گئی ہے۔ جب یہ عمل کیا گیا تو وہ مردہ پھر سے زندہ ہو گیا۔ مردے کو یوں زندہ کر دینے کا ایک مقصد قاتل کا پتا دینا تھا، اس کا دوسرا مقصد لوگوں کو آخرت میں دی جانے والی زندگی کی شہادت دینا بھی تھا۔ چنانچہ فرمایا:
’کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ‘، ’’اللہ اسی طرح مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔‘‘۵؂

قرآن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ایک مشاہدے کا بھی ذکر ہوا ہے جو قلبی اطمینان کے لیے انھیں کرایا گیا۔ اللہ نے حکم دیا کہ تم چار پرندے لے کر انھیں اپنے ساتھ ہلا لو ( مانوس کر لو ) ۔ پھر ان کو ذبح کر کے ہر پہاڑی پر ان میں سے ایک حصہ رکھ دو۔ اس کے بعد ان کو بلاؤ تو وہ دوڑتے ہوئے تمھارے پاس آجائیں گے۔ پھر اس سارے عمل کو دکھانے کی اصل غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘، ’’اور (آیندہ کے لیے) یہ بات خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بہت زبردست ہے ، (اس لیے وہ مردوں کو زندہ کر لے گا)، وہ بڑاحکمت والا ہے، (اس لیے وہ ان کو ضرور زندہ کرے گا)۔۶؂

قرآن نے اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان کیا ہے جو ہے تو عالم رؤیا کا ایک مشاہدہ ، مگر اس سے مذکورہ غایت پر روشنی ضرور پڑتی ہے۔ ایک صاحب جو غالباً حزقی ایل نبی تھے، کسی تباہ حال بستی پر سے گزرے۔ وہاں کی ویرانی کو دیکھا تو دل میں استعجاب پیدا ہوا کہ یہاں کے باسیوں کو خدا کس طرح زندہ کر لے گا۔ اس پر خدا نے انھیں سو سال کی موت دے کر پھر زندہ کیا اور ان سے پوچھا: تم کتنی مدت ایسے ہی پڑے رہے ؟ انھوں نے اندازہ کیا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم، فرمایا: بلکہ تم پر سو سال اسی حالت میں گزر چکے ۔ اس کے بعد ان کو کھانے پینے کے سامان اور گدھے کی طرف متوجہ کیا ۔انھوں نے دیکھا کہ کھانے پینے کا سامان ویسے ہی پڑا ہے اور گدھا ہڈیوں کے ڈھانچے میں بدل گیا ہے۔ وہ اس بات پر ابھی حیران تھے کہ خدا نے ان کے سامنے گدھے کو زندہ کر کے بھی دکھا دیا۔ موت کے بعد زندہ کیے جانے کا یہ منظر دیکھنا ہی تھا کہ وہ پکار اٹھے:
’اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘، ’’(کہ میرا تردد دور ہو گیا اور) میں نے جان لیا کہ اللہ واقعی سب کچھ کردینے پر قادر ہے۔‘‘۷؂

معلوم ہوا کہ مردوں کو اس طرح زندہ کر دینا خالص ایک خدائی فعل تھا اور اس کا مقصد بھی بالکل واضح تھا۔ نیز یہ بھی واضح تھا کہ اس طرح دی جانے والی زندگی ابدی نہیں ہوتی، بلکہ دوبارہ سے جی اٹھنے والے اِن مردوں کو بھی کچھ مدت کے بعد عام لوگوں کی طرح مر جانا ہوتا ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ لوگوں نے جس طرح اس فعل کے مقصد سے یک سر اعراض کیا، اسی طرح اس کو الگ سے ایک عقیدے کی شکل بھی دے دی۔ چنانچہ اس سے خدا کی قدرت پر استدلال کیا ہوتا، الٹا بعض مردوں کو خدا مان لیا گیا اور اس بنیاد پر مذہبی رہنماؤں نے پوری پوری رام لیلائیں لکھ ماریں۔ اب کسی کے کرشنا نظروں سے اوجھل ہو کر امر ہو گئے ہیں تو کسی کے ہاں یسوع مسیح مردوں میں سے جی کر زندہ و جاوید ہو گئے ہیں۔ اور اگر کسی کے ’’خدا‘‘ ابھی تک زندہ نہیں ہو سکے تو کچھ حرج نہیں، مستقبل میں ان کے واپس آ جانے کی امید ضرور باقی ہے۔ ایک کنواری اس جھیل میں نہا کر حاملہ ہو گی جس میں ان کے پیشوا کا بیج رکھا گیا ہے۔ اس طرح وہ اس کے بیٹوں کو جنم دے گی جو دنیا میں آ جائیں گے تو سب دکھوں کو دور کر دیں گے۔ نظروں سے اوجھل ہو جانے والی طلسماتی روایت اور مستقبل کی سہانی امیدیں ، جب دونوں گڈمڈ ہوئیں تو کچھ حضرات وہ بھی ہوئے جن کو اُس مسیحا کا شدت سے انتظار رہنے لگا جو مرے نہیں ، بلکہ روپوش ہو گئے ہیں۔قیامت سے پہلے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے ، خدائی علم کو بلند کریں گے اور ظلم کی ہر روایت کو توڑ کر رکھ دیں گے۔ گویا مذہبی داستانوں کا ایک سلسلہ ہے جو مردوں کو زندہ کرنے کے خدائی فعل اور اس کے مقصد سے انحراف کرتے ہوئے گھڑ لیا گیا ہے۔

بہرحال، اِحیا کی اس ضمنی گفتگو کے بعد ہم سلسلۂ کلام وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں سے یہ ٹوٹا تھا۔ ہم نے دیکھ لیا تھا کہ عقیدۂ اِحیا کیا ہے اور تناسخ سے یہ کس طرح مختلف ہے ۔ اب ہم اس کی تاریخ اور مختلف ادیان میں اس کے بارے میں پائی جانے والی تعلیمات کا ذکر کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴؂ یہ اصل میں قسامہ کاایک واقعہ تھا۔بنی اسرائیل میں اندھے قتل کاسراغ لگانے کے لیے عام طورپریہ طریقہ مقرر تھاکہ کسی گائے کوذبح کیاجاتااورپھراس کے خون پرقسمیں کھائی جاتیں۔

۵؂ البقرہ ۲:۷۳۔
۶؂ البقرہ ۲: ۲۶۰۔
۷؂ البقرہ ۲: ۲۵۹۔
 

امن وسیم

محفلین
عقیدۂ احیا کی تاریخ

احیاکے بارے میں اگر کہاجائے کہ انسانی تاریخ کایہ قدیم ترین عقیدہ ہے تو یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا، اس لیے کہ جس طرح معلوم تاریخ اس کی اطلاع دیتی اور آج کی مذہبی روایتیں اس کی شہادت دیتی ہیں، اسی طرح سینہ بہ سینہ علم، گرد میں اَٹی ہوئی آڑھی ترچھی لکیریں اور صدیوں پرانے کتبات بھی اس کے قدیم ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اس عقیدے کی ابتدا اس طرح نہیں ہوئی کہ کسی پنڈت اور سوامی، کسی ربی اور پادری یا کسی فقیہ اور صوفی نے اس کو بنایا اور پھر گرد و پیش میں رواج دے دیا ہو، بلکہ یہ انسان کی عقل کا ابتدائی تجزیہ اور اس کے شعور کی اولین دریافت ہے۔ نیز یہ عقیدہ چند ادیان تک محدود، کسی خاص نسل اور مقام سے متعلق رہا ہو، ایسا بھی نہیں ہے، بلکہ یافث کی نسل ہو یا پھر حام و سام کی اولاد، دجلہ و فرات کے باسی ہوں یا نیل و ہمالا کے رہایشی، حتیٰ کہ دین ابراہیمی کی ہر شاخ، ان سب میں یہ عقیدہ کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہا ہے۔چنانچہ ان حقائق کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس عقیدے کی تاریخ اتنی ہی پرانی اور مسلسل ہے، جتنی خود انسان کی اپنی تاریخ۔
اگر یہ بات طے شدہ مان لی جائے کہ احیا کا عقیدہ شروع سے چلا آتا ہے تو تناسخ پر اس کی پیدایش کے حوالے سے ہونے والے تمام اعتراضات، کم سے کم اس عقیدے پر وارد نہیں ہوتے۔ اس لیے اب ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ اس کی تفصیلات کیا ہیں اور مختلف مذاہب میں اس کے بارے میں پائی جانے والی تعلیمات کیا کچھ ہیں۔اس سلسلے میں بھی تمام ادیان کا استقصا کرنے کے بجاے ہمیں صرف ابراہیمی ادیان تک اپنی بحث کو محدود رکھنا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
یہودیت اور عقیدۂ احیا

یہود کی روایتی سرکشی، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے کھلا انحراف اور اپنے چنیدہ قوم ہونے کا بے جا زعم، یہ وہ بنیادی عامل تھے جن کی وجہ سے ان کا مذہب بہت جلد اپنی حقیقت کھو بیٹھا اور محض ایک قوم اور اس کی عصبیت کا ترجمان بن کر رہ گیا۔ ان کے ہاں مذہبی اعمال اور رسومات کا مقصد اب صرف یہ تھا کہ کسی طرح دنیا میں کامیابی مل سکے اور قومی حیثیت میں ایک برتر مقام حاصل کیا جا سکے۔ جہاں تک فرد کی ذاتی نجات کا معاملہ ہے ، اس کی حیثیت ان کے نزدیک ثانوی یا اس سے بھی کچھ کم رہ گئی تھی۔ یہی وجہ ہوئی کہ ان کے ابتدائی دور کے لٹریچر میں حیات بعد از موت کی تفصیلات ناپید، مگر ان کے برگزیدہ اور چنیدہ ہونے کا زعم کافی پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ تورات میں، جو پانچ کتابوں کا مجموعہ ہے، احیاے موتیٰ کا ذکر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ بس موت کے بعد ایک طرح کی زندگی کا تصور ہے، جو اس میں پایا جاتا ہے۔ کتاب پیدایش میں ہے:

’’تب ابرہام (علیہ السلام) نے دم چھوڑ دیا اور خوب بڑھاپے میں نہایت ضعیف اور پوری عمر کا ہو کر وفات پائی اور اپنے بزرگوں میں جا ملا۔‘‘ (۲۵: ۸)


’’اپنے بزرگوں میں جا ملا‘‘، یہ الفاظ صرف یہ بتا رہے ہیں کہ موت کے بعد معاملہ بالکل ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ ایک نوعیت کی زندگی ، بہرحال مردوں کو حاصل رہتی ہے۔۸؂


البتہ، تورات کے بجاے کتاب مقدس کے دوسرے مقامات پر اس بارے میں کچھ زیادہ وضاحت پائی جاتی ہے۔ ایک جگہ یوں بیان ہواہے:

’’وہ کون سا آدمی ہے جو جیتا ہی رہے گا اور موت کو نہ دیکھے گا اور اپنی جان کو پاتال کے ہاتھ سے بچا لے گا؟‘‘ (زبور ۸۹: ۴۸)

کتاب مقدس میں اس طرح کے مواقع پرایک عبرانی لفظ ’’Sheol‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر مترجمین اس کا ترجمہ ’پاتال ‘ یا پھر ’قبر‘ سے کرتے ہیں۔ یہ مردوں کے رہنے کے لیے انڈر ورلڈ قسم کی ایک جگہ ہے، جہاں انھیں احیا سے پہلے رکھاجاتاہے۔
یہ موت کے متصل بعد زندگی کا تصور ہوا، اب دیکھتے ہیں کہ مردوں کو باقاعدہ طور پر نئی زندگی دیے جانے کے بارے میں پرانا عہدنامہ کیا کہتا ہے۔ ارشاد ہواہے:

’’خداوند مارتا ہے اور جِلاتا ہے۔ وہی قبر میں اتارتا اور اس سے نکالتا ہے۔‘‘ (۱۔ سموئیل ۲: ۶)


مردوں کا یہ اِحیا، ایک اور مقام پر یوں بیان ہوا ہے:

’’تیرے مردے جی اٹھیں گے۔ میری لاشیں اٹھ کھڑی ہوں گی۔ تم جو خاک میں جا بسے ہو، جاگو اور گاؤ، کیونکہ تیری اوس اُس اوس کی مانند ہے جو نباتات پر پڑتی ہے، اور زمین مردوں کو اگل دے گی۔‘‘ (یسعیاہ ۲۶: ۱۹)


مردوں میں دوبارہ روح پھونکنے کا مقصد، کیا ان کی جزا اور سزا ہے، اس کی وضاحت ذیل کی عبارت سے بہ خوبی ہو جاتی ہے:

’’اور جو خاک میں سو رہے ہیں، ان میں سے بہتیرے جاگ اٹھیں گے۔ بعض حیات ابدی کے لیے اور بعض رسوائی اور ذلّتِ ابدی کے لیے۔‘‘ (دانیال ۱۲: ۲)


مذکورہ حوالہ جات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ یہودی لٹریچر میں بہت کچھ گھپلا ہو جانے کے باوجود اِحیا کا عقیدہ اس قدر واضح ہے کہ یہودیت کے حوالے سے اس کا انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں، اور کچھ لوگوں کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے کہ یہ عقیدہ کتاب مقدس کا نہیں ، بلکہ یہودیت کے اندر بعد میں پیدا ہو جانے والا عقیدہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸؂ انھی سے ملتے جلتے الفاظ تورات کے دوسرے مقامات پر بھی بہ آسانی دیکھ لیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کتاب پیدائش کا باب ۲۵ آیت۱۷ اورباب۴۹ آیت۳۳۔
 

امن وسیم

محفلین
مسیحیت اور عقیدۂ اِحیا

جہاں تک مسیحی دنیا کا معاملہ ہے ، وہ یہود کے برعکس احیاے موتیٰ کا ایک واضح تصور رکھتی اور ان کی کتابیں اس کے بارے میں اپنے اندر بہت سے شواہد رکھتی ہیں۔ مسیحی حضرات چونکہ پرانا عہدنامہ بھی عام طور پر مانتے ہیں ، اس لیے احیا کے جو دلائل یہودیت کے حوالے سے بیان ہوئے، وہ ان کے ہاں بھی حجت ٹھیرتے ہیں، تاہم مزید وضاحت کے لیے ہم یہاں عہدنامہ جدید سے بھی کچھ حوالہ جات نقل کیے دیتے ہیں۔ انجیل مقدس میں بیان ہواہے:

’’اس سے تعجب نہ کرو، کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں، اس کی آواز سن کر نکلیں گے ۔ جنھوں نے نیکی کی ہے ، زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے، سزا کی قیامت کے واسطے۔‘‘۹؂

اناجیل کے علاوہ دوسرے مقامات پر یہ عقیدہ اس طرح بیان ہوا ہے:

’’...اور خدا سے اسی بات کی امید رکھتا ہوں جس کے وہ خود بھی منتظر ہیں کہ راست بازوں اور ناراستوں، دونوں کی قیامت ہوگی۔‘‘۰۱؂

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۹؂ یوحنا ۵: ۲۸۔۲۹۔لوقا کی انجیل باب۱۴کی آیت۱۴ اورانجیل متّی باب۲۵کی آیت ۳۱سے ۴۶ تک میں بھی اس مضمون کو دیکھ لیاجاسکتاہے۔

۰۱؂ اعمال۲۴:۱۵۔اس کے علاوہ ۲۔کرنتھیوں باب۵ آیت۱۰ اورعبرانیوں باب۹آیت ۲۷ میں بھی مردوں کے جی اٹھنے اور ان کی جزا و سزا کا ذکر موجود ہے۔
________
 

امن وسیم

محفلین
اب تک ہم نے عقیدہ اِحیا کی تاریخ کا مطالعہ کیا۔ اور مختلف مذاہب میں اس عقیدہ کی موجودگی کے ثبوت پیش کیے۔ اب ہم عقیدہ اِحیا کے صحیح اسلامی تصور کی وضاحت کریں گے۔

مزید عنوانات اگلے صفحے پر :
 
Top