جنت کا تعارف
انسان کی فطری خواہش ہے کہ یہ جنت کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی یہ خواہش اس قدر عمومی ہے کہ کوئی شخص مذہب سے بے گانہ اور اخروی جنت کے تصور سے بے پروا بھی ہو، وہ اپنے حصے کی جنت کم سے کم اس دنیا میں ضرور بنا لینا چاہتا ہے۔ دنیوی جنت کے لیے اسباب چاہییں اور پروردگارِ عالم کا اذن چاہیے، مگر اخروی جنت کے لیے ایمان و عمل اور پروردگار کا فضل چاہیے۔ یہ اخروی جنت صرف ان لوگوں کا مقدر بنے گی جو خدا کے سامنے پیش ہونے کا شعور اور اس کی خاطر اپنی جنت جیسی زندگی کو بھی قربان کر دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں گے۔ اس کے برخلاف جو لوگ دنیا کے ہو رہیں اور اسی میں کھو کر اپنے آپ کو آخرت سے بے نیاز کر لیں، وہ اصل جنت سے بالکل محروم رہیں گے:
وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْٓ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.(الزخرف ۴۳: ۷۲)
’’اور یہ و ہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے اپنے اعمال کے صلے میں ۔‘‘
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی، فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی.(النازعات ۷۹: ۴۰۔۴۱)
’’اور جو اپنے رب کے حضور میں پیشی سے ڈرا، اور اپنے نفس کو خواہشوں کی پیروی سے روکا، تو بہشت ہی اُس کا ٹھکانا ہے۔‘‘
جنت ایک پاکیزہ مقام ہے۔ اس کے مساکن، اس میں دی جانے والی زندگی ، اس میں ہونے والی گفتگو، اس میں ملنے والے شراب و طعام اور ازواج، سب پاک ہوں گے، اس لیے اس میں داخل ہونے کی پہلی اور آخری شرط بھی پاک ہونا ہو گی۔ خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جنھوں نے دنیا ہی میں اپنے نفس کی گندگیوں کا ازالہ کر لیا ہو گا۔ وگرنہ بہت سے لوگوں کو قبر کی گھٹن، قیامت کے ہول ، عدالت کے رعب، جزا کے دن کی حسرت و ندامت اور وہاں ہونے والی رسوائی کے ذریعے سے صاف کیا جائے گا۔ اور نہایت بدبخت ہوں گے وہ لوگ کہ جن کی آلودگی کو صرف اورصرف دوزخ کی آگ ہی صاف کر سکے گی۔غرض یہ کہ جنت جیسے پاکیزہ مقام میں گندے نفوس کا داخلہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اس میں جانے والے کے لیے لازم ہو گا کہ وہ اپنے نفس کو آلایشوں سے پاک کر چکا ہو یا اس کے نفس کو بعد ازاں سزا دے کر پاک کر دیا گیا ہو:
جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا، وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۷۶)
’’ہمیشہ رہنے والے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ صلہ ہے ان کا جو پاکیزگی اختیار کریں۔‘‘
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا.(الشمس ۹۱: ۹۔۱۰)
’’فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے آلودہ کر ڈالا۔‘‘
وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(آل عمران ۳: ۷۷)
’’اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف (نگاہ التفات سے) دیکھے گا اور نہ انھیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، بلکہ وہاں ان کے لیے ایک دردناک سزا ہے۔‘‘