امن وسیم

محفلین
صفحہ 4 کے عنوانات

⭕ جنت کا تعارف
⭕ جنت کی ابدیت
⭕ جنت میں درجات
⭕ جنت کی حدود
⭕ جنت میں استقبال
⭕ جنت کے احوال
⭕ جنت کے باغ
⭕ جنت کے محل
⭕ جنتیوں کا لباس
⭕ جنت میں خدمتگار
⭕ جنت کا مشرب
⭕ جنت کی نہریں
⭕ جنت کی حوریں
⭕ جنتیوں کی خواہشات
⭕ جنت رضوان
⭕ اہل جنت کا شکر
⭕ جنت میں بوریت
 

امن وسیم

محفلین
جنت کا تعارف

انسان کی فطری خواہش ہے کہ یہ جنت کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی یہ خواہش اس قدر عمومی ہے کہ کوئی شخص مذہب سے بے گانہ اور اخروی جنت کے تصور سے بے پروا بھی ہو، وہ اپنے حصے کی جنت کم سے کم اس دنیا میں ضرور بنا لینا چاہتا ہے۔ دنیوی جنت کے لیے اسباب چاہییں اور پروردگارِ عالم کا اذن چاہیے، مگر اخروی جنت کے لیے ایمان و عمل اور پروردگار کا فضل چاہیے۔ یہ اخروی جنت صرف ان لوگوں کا مقدر بنے گی جو خدا کے سامنے پیش ہونے کا شعور اور اس کی خاطر اپنی جنت جیسی زندگی کو بھی قربان کر دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں گے۔ اس کے برخلاف جو لوگ دنیا کے ہو رہیں اور اسی میں کھو کر اپنے آپ کو آخرت سے بے نیاز کر لیں، وہ اصل جنت سے بالکل محروم رہیں گے:

وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْٓ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.(الزخرف ۴۳: ۷۲)
’’اور یہ و ہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے اپنے اعمال کے صلے میں ۔‘‘

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی، فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی.(النازعات ۷۹: ۴۰۔۴۱)
’’اور جو اپنے رب کے حضور میں پیشی سے ڈرا، اور اپنے نفس کو خواہشوں کی پیروی سے روکا، تو بہشت ہی اُس کا ٹھکانا ہے۔‘‘

جنت ایک پاکیزہ مقام ہے۔ اس کے مساکن، اس میں دی جانے والی زندگی ، اس میں ہونے والی گفتگو، اس میں ملنے والے شراب و طعام اور ازواج، سب پاک ہوں گے، اس لیے اس میں داخل ہونے کی پہلی اور آخری شرط بھی پاک ہونا ہو گی۔ خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جنھوں نے دنیا ہی میں اپنے نفس کی گندگیوں کا ازالہ کر لیا ہو گا۔ وگرنہ بہت سے لوگوں کو قبر کی گھٹن، قیامت کے ہول ، عدالت کے رعب، جزا کے دن کی حسرت و ندامت اور وہاں ہونے والی رسوائی کے ذریعے سے صاف کیا جائے گا۔ اور نہایت بدبخت ہوں گے وہ لوگ کہ جن کی آلودگی کو صرف اورصرف دوزخ کی آگ ہی صاف کر سکے گی۔غرض یہ کہ جنت جیسے پاکیزہ مقام میں گندے نفوس کا داخلہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اس میں جانے والے کے لیے لازم ہو گا کہ وہ اپنے نفس کو آلایشوں سے پاک کر چکا ہو یا اس کے نفس کو بعد ازاں سزا دے کر پاک کر دیا گیا ہو:

جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا، وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۷۶)
’’ہمیشہ رہنے والے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ صلہ ہے ان کا جو پاکیزگی اختیار کریں۔‘‘

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا.(الشمس ۹۱: ۹۔۱۰)
’’فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے آلودہ کر ڈالا۔‘‘

وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(آل عمران ۳: ۷۷)
’’اور اللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف (نگاہ التفات سے) دیکھے گا اور نہ انھیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، بلکہ وہاں ان کے لیے ایک دردناک سزا ہے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت کی ابدیت

جنت کوئی عارضی اور جز وقتی انعام نہیں، بلکہ یہ اس طرح کے ہراندیشے سے مبرا ہو گی ، حتیٰ کہ انقطاع کے ہر شائبے سے بھی پاک ہو گی۔ جو کوئی ایک مرتبہ اس میں داخل ہو جائے گا، وہ اس میں سے نہ کبھی نکالا جائے گا اور نہ اس کو ملنے والے انعامات میں کوئی تعطل آئے گا:

وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ، خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ، عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ.(ہود ۱۱: ۱۰۸)
’’رہے وہ جو نیک بخت ہیں تو وہ جنت میں ہوں گے۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے، جب تک (اُس عالم کے) زمین و آسمان قائم ہیں، الّا یہ کہ تیرا پروردگار کچھ اور چاہے، ایسی عطا کے طور پر جو کبھی منقطع نہ ہو گی۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت میں درجات

جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی کہ کون کتنا زیادہ صالح ہے۔نیکی کی راہ پر چلنے والا کوئی عام مسافر ہو یا اس پرسبقت کرنے والا خدا کا مقرب اور برگزیدہ، ہر کوئی اس میں دائمی طور پر مقیم ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات عجیب محسوس ہو کہ ان میں سے ایک کے پاس عمل کی پونجی کم ہے اور دوسرے کا دامن اس متاع عزیز سے بھرا ہوا ہے اور وہ دونوں جنت میں ابدی طور پر رہنے کے مستحق قرار پائے ہیں۔ اس کے جواب میں قرآن نے واضح کیا ہے کہ جنت میں باقاعدہ درجات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ نیکی میں کمی و بیشی اور اس کی کیفیت کے اعتبار سے وہاں مختلف مقامات ہوں گے۔ سابقین اولین اور عام صالحین کی جنتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی۔ ان میں دی جانے والی نعمتوں میں بھی حد درجہ تفاوت ہوگا۔۱؂ چنانچہ ہر ایک کے لیے جنت کا ابدی اور دائمی ہونا، نہ عجیب معاملہ ہے اور نہ یہ عدل کے خلاف ہی ہے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ عدل اگر اللہ کی صفت ہے تو فضل کرنا بھی اسی کا فعل ہے۔چنانچہ جنت میں جب صالحین خواہش کریں گے کہ ان کے والدین ، ان کی اولاد اور ان کے ازواج جس طرح دنیا میں ان کے ساتھ رہے، اسی طرح یہاں کی مسرت بھری زندگی میں بھی وہ ان کے ساتھ رہیں تو ان کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے انھیں ایک ہی جگہ اکٹھا کر دیا جائے گا۔ اس کی صورت یہ نہیں ہو گی کہ صالحین کو اوپر کے درجے سے اتارا جائے اور نچلے درجے میں ان سب کو اکٹھا کر دیا جائے کہ یہ صالحین کے ساتھ ظلم اور سراسر زیادتی ہو گی۔ بلکہ خدا اپنے فضل سے یہ کرے گا کہ ان کے عزیزوں کو کم تر درجے کی جنت سے اٹھا کر ، محض صالحین کی دل جوئی کے لیے، ان کے ساتھ اکٹھا کر دے گا۔ تاہم ، یہ لازم ہو گا کہ ان کے یہ عزیز اپنے ایمان اور عمل کی بنیاد پر، بڑے درجے میں نہ سہی، مگرجنت میں داخل ہونے کا استحقاق ضرورثابت کر چکے ہوں:

جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآءِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ.(الرعد ۱۳: ۲۳)
’’ابد کے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بھی جو اُن کے آبا و اجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے اِس کے اہل بنیں گے۔‘‘


وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَمَآ اَلَتْنٰھُمْ مِّنْ عَمَلِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ، کُلُّ امْرِیءٍم بِمَا کَسَبَ رَھِیْنٌ.(الطور ۵۲: ۲۱)
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے، اُن کی اس اولاد کو بھی ہم (اُنھی کے درجے میں) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی کمی نہ کریں گے، (اس لیے کہ) ہر ایک اپنی کمائی کے بدلے میں رہن ہے۔‘‘


جنت میں رشتہ داریوں سے ہٹ کر بھی مومنین ایک دوسرے کی رفاقت سے حظ اٹھا سکیں گے۔وہ لوگ جو دینی حوالے سے آپس میں تعلق خاطر رکھیں اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کریں، ان میں سے کم تر درجے والوں کو بڑے درجے والوں کا ساتھ نصیب ہو جائے گا:

وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشَُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ، وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا، ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا.(النساء ۴: ۶۹۔۷۰)
’’جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے، وہی ہیں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔ کیا ہی اچھے ہیں یہ رفیق! یہ اللہ کی عنایت ہے اور (اس کے لیے) اللہ کاعلم کافی ہے۔‘‘


غرض یہ کہ جنت ایک ایسی مستقل اقامت گاہ ہے کہ جس میں مختلف درجات بھی ہوں گے اور ہر دم خدا کا فضل بھی جنت والوں کے شامل حال ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ درجات کے اس فرق کو قرآن کے اس ایک مقام سے بخوبی سمجھ لیا جا سکتا ہے جہاں جنتیوں کے پینے کا ذکر ہوا تو کسی کے لیے ارشاد ہوا کہ وہ خود پئیں گے، کسی کو پلائے جانے کا ذکر ہوا اور کسی کے بارے میں کہا گیا کہ انھیں ان کا رب پلائے گا:

اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ، کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا.(الدھر ۷۶: ۵)
’’وفادار بندے شراب کے جام پئیں گے جن میں آب کافور کی ملونی ہو گی۔‘‘

وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلاً.(الدھر ۷۶: ۱۷)
’’انھیں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جن میں آب زنجبیل کی ملونی ہو گی۔‘‘

وَسَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا.(الدھر ۷۶: ۲۱)
’’ان کا پروردگار انھیں خود (اپنے حضورمیں) شراب طہور پلائے گا۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت کی حدود

جہاں تک اس کی حدوں کی بات ہے تو ظاہر ہے کہ یہ کوئی قیدخانہ نہیں کہ اس میں تنگی کی مصیبت اور گھٹن کا احساس ہو، بلکہ یہ نیک کاروں کی عمر بھر کی کمائی اور ان پر خدا کی بے پایاں نعمتوں کی تعبیر ہے۔ یہ بات خود اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ حدوں سے مطلق بے پروا اور تنگنائیوں سے قطعی ناآشنا ہو۔ قرآن نے اس کی وسعتوں کو کائنات کی وسعتوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایاہے:

وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ، عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَاْلاَرْضُ، اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ.(آل عمران ۳: ۱۳۳)
’’اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت کی طرف بڑھ جانے کے لیے دوڑو جس کی وسعت زمین و آسمان جیسی ہے، پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت میں استقبال

خدا کی عدالت جب صالحین کو ان کی کامیابی کی خوش خبری سنا دے گی تو وہ جنت جس پر ابھی تک ان کا غیبی ایمان تھا، اُن کے بالکل سامنے کر دی جائے گی۔ کسی کوغلط فہمی ہو سکتی تھی کہ شاید یہ ان سے دور ہو گی جو اس کو نزدیک کیا جائے گا۔ اس غلط فہمی کو ذیل کی آیت میں ’غَیْرَ بَعِیْدٍ‘ کہہ کر دور کر دیا گیا ہے۔ یعنی یہ دوری اور پھراس کی نزدیکی ، بس اتنی ہی ہو گی جیسے کسی پرتکلف ضیافت میں دسترخوان پر پڑی رکابی مہمان سے ذرا سی دور ہو اور اُس کی تکریم کے لیے اس کو سرکا کر کچھ آگے کر دیاجائے:

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ.(قٓ ۵۰: ۳۱)
’’اور جنت ان لوگوں کے قریب لائی جائے گی جو خدا سے ڈرنے والے ہیں اور وہ کچھ زیادہ دور نہ ہو گی۔‘‘

جب لوگ جنت کی طرف چل پڑیں گے تو ان کے اعزاز اور ان کی رہنمائی کے لیے روشنی کا خوب انتظام ہو گا۔ ان کے آگے اور ان کے دائیں ان کی روشنی ہو گی جو ان کے ساتھ ساتھ چل رہی ہو گی:

یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُھُمْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ.(الحدید ۵۷: ۱۲)
’’اُس دن جبکہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ اُن کی روشنی ان کے آگے اور ان کے دائیں چل رہی ہے۔‘‘

لوگ جماعتوں کی صورت میں ہوں گے اور فرشتے انھیں اپنے جلو میں لے کر چلے جا رہے ہوں گے۔ یہ نہیں ہو گا کہ جب یہ جنت کے قریب پہنچیں تو اُس وقت دروازے کھولے جائیں اور انھیں اس کے اندر یوں دھکیل دیا جائے جیسے جیل کے پھاٹک کی کھڑکی کو کھول کر مجرموں کو اندر ٹھونس دیا جاتا ہے، بلکہ یہ ابھی دور سے آتے ہوں گے اور جنت کے دروازے پہلے سے کھول دیے جائیں گے۔ گویا یہ خدا کے معزز اور صاحب تکریم مہمان ہیں کہ جن کا وہاں شدت سے انتظار ہو رہا ہے:

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا، حَتّآی اِذَا جَآءُ وْھَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُھَا....(الزمر۳۹:۷۳)
’’جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ، انھیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا، یہاں تک کہ جب و ہ اس کے پاس آئیں گے اور اس کے دروازے کھول کر رکھے گئے ہوں گے...۔‘‘

وَاِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَآبٍ، جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّھُمُ الْاَبْوَابُ.(صٓ ۳۸: ۴۹۔۵۰)
’’بے شک اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے اچھا ٹھکانا ہے، ہمیشہ کے باغ، جن کے دروازے اُن کے لیے کھول کر رکھے گئے ہوں گے۔‘‘

ان کے آنے کی خوشی میں وہاں عید کا سا سامان ہو گا۔ جنت پر مامور فرشتے انھیں خوش آمدید کہیں گے۔ ہر طرف سے مبارک سلامت کی آوازیں آرہی ہوں گی۔ بشارتوں اور خوش خبریوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہو گا۔ اس قدر عزت افزائی اور اس طرح کا خیرمقدم دیکھ کر انھیں دنیا میں خدا کی بندگی میں اٹھایا جانے والا اپنا ہر قدم بہت کم تر محسوس ہو گا اور اُن کی زبان پر بے ساختہ اپنے رب کے لیے شکریہ کے کلمات جاری ہو جائیں گے:

وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ، وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ.(الزمر ۳۹: ۷۳۔۷۴)
’’جنت کے پاسبان انھیں کہیں گے: تم پر سلام ہو، شاد رہو، سو اس میں داخل ہو جاؤ، ہمیشہ کے لیے۔ وہ کہیں گے: اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے کیا ہوا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا‘‘

جنت میں داخل ہو جانے کے بعد بھی سلامتی کی دعائیں اور مبارک بادی کے پیغامات جاری رہیں گے۔ جنت اور دوزخ کے درمیان کی دیوار پر جو برجیاں اور مینارے بنے ہوں گے، ان میں براجمان بڑے بڑے لوگ انھیں جنت میں دیکھ کر سلام کریں گے اور ابدی بادشاہی کی بشارت دیں گے:

وَبَیْنَھُمَا حِجَابٌ وَعَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ کُلًّام بِسِیْمٰھُمْ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ... اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ.(الاعراف ۷: ۴۶،۴۹)
’’ان دونوں گروہوں کے درمیان پردے کی دیوار ہو گی اور دیوار کی برجیوں پر کچھ نمایاں اور ممتاز لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی علامت سے پہچانیں گے اور جنت کے لوگوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو... تم جنت میں داخل رہو، اب نہ تمھارے لیے کوئی خوف ہے اور نہ تم کبھی غم زدہ ہو گے۔‘‘

صالحین کو پہلے پہل جس جنت میں اتارا جائے گا، وہ ان کی مستقل قیام گاہ نہیں ہو گی۔ جس طرح مہمان کے سواری سے اترتے ہی پہلے ہلکی پھلکی تواضع کی جاتی اور ذرا سی دیر کے لیے آرام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اصل کھانے اور اس کی رہایش کا انتظام ہوتا ہے، اسی طرح یہ جنت بھی ان کی اولین ضیافت ہو گی جو یہاں پہنچتے ہی پہلے مرحلے میں ان کو دی جائے گی اور خدا کی فرماں برداری میں کیے جانے والے ان کے سفر کی ساری تکان دور کر دے گی:

اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی، نُزُلاًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۱۹)
’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے کام کیے، اُن کے لیے راحت کے باغ ہیں، اولین ضیافت، جو اُن کو ان کے اعمال کے صلے میں دی جائے گی۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت کے احوال

اس کے بعد اصل جنت کا دور شروع ہو گا۔ ان کی وہ زندگی شروع ہو گی جو موت سے یک سر ناآشنا اور عدم و نیست سے بالکل نا واقف ہو گی۔ ان کی لذت بھری صبحیں کبھی شام میں نہ بدلیں گی۔ انھیں ملنے والی راحتیں ابدی اور اُن پر ہو نے والی نوازشیں مسلسل ہوں گی۔ اور ان کی مسرتوں کے عروج کسی بھی طرح کے زوال سے ہمیشہ بے پروا رہیں گے۔ بس کیف ہو گا اور سرور ہو گا۔ جام ہوں گے اور شباب ہو گا۔ ہرطرف امن ہو گا۔ اطمینان اور راحت کا بسیرا ہو گا۔مغنیوں کے ساز ہواؤں میں سُر بکھیرتے ہوں گے اور رحمت کی گھٹائیں ہر دم امنڈی پڑ رہی ہوں گی۔ ابر کرم آئیں گے۔ ناچیں گے اور گائیں گے اور رم جھم برستے جائیں گے۔ غرض یہ کہ جود و سخا کی ہر داستان وہاں زندہ اور اس کے سارے تخیل حقیقت میں ڈھل جائیں گے۔
جنت خدا کا وہ بیش قیمت انعام ہے جس کا اس دنیا میں کامل طور پر تصور کر لینا ممکن نہیں۔ اس لیے اسے بیان کرنے کے لیے اُس نے تشبیہ کا اسلوب اختیار کیا ہے اور وہاں دی جانے والی نعمتوں کی فراوانی اور آزادی اور خود مختاری کو بیان کرنے کے لیے بادشاہی اور اس کے لوازم کو مستعار لیا ہے۔ مزید یہ کہ قرآن میں اس کے لیے بالعموم ’جنت‘ کا لفظ لایا گیا ہے جو عربی زبان میں باغ کے لیے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان جس قدر بھی متمدن ہو جائے اور فطرت سے منہ موڑ کر بناوٹ میں کھو کر رہ جائے، اس کے باوجود اگر اس سے پوچھا جائے کہ اس کے رہنے کی قابل رشک جگہ کیسی ہو تو وہ جواب میں جو کچھ بھی کہے گا، اس میں ایک باغ کا تصور ضرور موجود ہو گا۔ اس کے نزدیک نعمتوں کا بیان اُس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اس میں چمنستانوں اور گل زاروں کا ذکر نہ کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہوئی کہ خدا نے جب اس کے انعام کا بیان کیا تو اس کی اسی خواہش کی رعایت سے اس میں’’جنت‘‘ کو مرکز ی حیثیت سے بیان کیا۔
باغوں میں بہار آتی ہے۔ ہر درخت برگ و بار لا رہا اور ہر پودا شادابی کا ایک باب رقم کر رہا ہوتا ہے۔ پھر ذرا سی رُت کیا بدلتی ہے کہ گل و بلبل پر اداسی چھانے لگتی ہے۔ لہلہاتے باغ اور ہواؤں سے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے پھول، ساری مستیاں بھول جاتے اور اپنا سب کچھ خزاں کے رنگ میں رنگ دیتے ہیں، یہاں تک کہ باغبانوں کے دل لہو ہو جاتے اور ان کے جگر بھی سوز آشنا ہونے لگتے ہیں۔ یہ بہار کے ساتھ مستقل طور پر جڑی ہوئی خزاں ہے جو اس دنیوی جنت کی ، بہرحال ، ایک تلخ حقیقت ہے ۔ یہ اس لیے ہوتاہے کہ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور جو چیز امتحان کے لیے بنی ہو، اس کے ہمیشہ قائم رہنے کا تصور بالکل نامعقول ہے، چنانچہ پروردگار نے یہ دنیا اور اس کی رونقیں بنائی ہی مرجھا جانے کے لیے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں جو آخرت کی جنت ہو گی ، وہ صالحین کو امتحان کے طور پر نہیں، بلکہ انعام کے طور پر دی جائے گی، اس لیے اس کی بہاریں ہمیشہ کے لیے قائم رہیں گی:

جَنّٰتِ عَدْنِنِ الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بِالْغَیْبِ، اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِیًّا.(مریم ۱۹: ۶۱)
’’ہمیشہ رہنے والے باغوں میں، جن کا خداے رحمٰن نے اپنے بندوں سے وعدہ کر رکھا ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اس کاوعدہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔‘‘


قُلْ اَذٰلِکَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّۃُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ.(الفرقان ۲۵: ۱۵)
’’ان سے پوچھو، کیا یہ (دوزخ) بہتر ہے یا ہمیشہ کی جنت جس کا وعدہ خدا سے ڈرنے والوں سے کیا گیا ہے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت کے باغ

مزید فرمایا ہے کہ وہاں کے درخت ٹُھونٹھ اور مرجھائے ہوئے نہیں، بلکہ سر سبز ہوں گے۔ ان کی ہر طرف پھیلی ہوئی اور نہایت گھنی چھاؤں جنتیوں پر سایہ کیے ہو گی اور ان پر پھلوں کی اس قدر کثرت ہو گی کہ ان کے بوجھ سے شاخیں بھی جھکی پڑ رہی ہوں گی:

وَدَانِیَۃً عَلَیْھِمْ ظِلٰلُھَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْفُھَا تَذْلِیْلاً.(الدھر ۷۶: ۱۴)
’’اُس کے درختوں کے سایے اُن پرجھکے ہوئے اور اُن کے خوشے بالکل اُن کی دسترس میں ہوں گے۔‘‘


ان باغوں کو سر سبز رکھنے کا یہ انتظام ہو گا که وہاں نہریں بہتی اور ندیاں جھومتی ہوں گی۔ کہیں چشمے پھوٹ کر بہ رہے ہوں گے تو کہیں دور گرنے والے جھرنے بھی اپنا اپنا ترنم سنا رہے ہوں گے۔ اور یہ سب کچھ جنت کی رونق کو بھی بڑھائے گا، اور جنتیوں کی تسکین بصارت کا بھی باعث ہو گا:

وَََعَدَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ.(التوبہ ۹: ۷۲)
’’اِن مومن مردوں اور مومن عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے ان باغوں کے لیے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔‘‘


اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ.(الحجر ۱۵: ۴۵)
’’جو خدا سے ڈرنے والے ہیں، وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔‘‘


بلندی پر موجود باغ جس طرح موسم کی سختیوں اور آفتوں سے محفوظ ہوتے ہیں، اسی طرح دیکھنے میں بھی بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ اہل عرب کے ہاں اچھے باغ کا تصور یہی تھا کہ وہ بلندی پر ہو اور اس کے کناروں پر کھجور کے درختوں کی باڑھ ہو۔ اس سے یہ باد سموم اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچے رہیں اور نظروں کے لیے بھی نہایت جاذب ہوں۔ چنانچہ فرمایا ہے:

وُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ نَّاعِمَۃٌ، لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ، فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ.(الغاشیہ ۸۸: ۸۔۱۰)
’’کتنے چہرے اُس دن پُر رونق ہوں گے، اپنی سعی پر راضی، ایک اونچے باغ میں۔‘‘


ان باغات کا موسم بڑا ہی خوش گوار اور معتدل ہو گا۔ وہاں تھپک تھپک کر سلا دینے والی نرم رَو ہوائیں بھی ہوں گی اور صبح دم سہانے خوابوں سے جگا دینے والی باد صبا بھی ہو گی، مگر چہروں کو جھلس دینے والی لو، بیخ و بُن سے اکھاڑ دینے والی صرصر، خون کو جما دینے والی خنک ہواؤں اور سنسناتے ہوئے جھکڑوں کا وہاں گزر تک نہ ہو گا۔ وہاں کا سورج جنتیوں کو روشنی اور قوت بخش حرارت تو مہیا کرے گا، مگر اس میں جلا دینے والی تمازت اور آگ برساتی ہوئی حدت بالکل نہ ہو گی:

لاَ یَرَوْنَ فِیْھَا شَمْسًا وَّلاَ زَمْھَرِیْرًا.(الدھر ۷۶: ۱۳)
’’وہ نہ اُس میں دھوپ کی حدت دیکھیں گے، نہ سرما کی شدت۔‘‘


جنت کے باغات اپنے حسن ، دل فریبی اور موسموں میں تو بے نظیر ہوں گے، ان میں امن و سلامتی کی باد بہاری بھی چلتی ہو گی۔ وہاں نفرت ہوگی نہ کدورت۔ بغض ہو گا اور نہ کسی قسم کا عناد۔ عیب جوئیوں اور بدگمانیوں کا کوئی نشان تک نہ ہو گا۔ یہ تو سپنوں بھری وہ دنیا ہو گی کہ جس میں ہر دم محبت اور الفت کے نغمے گونجتے ہوں گے، یہاں تک کہ فرشتے جنت کی ہر سمت کے دروازوں میں سے جب جب ان پر داخل ہوا کریں گے، سلامتی کی دعائیں کرتے ہوئے داخل ہوا کریں گے:

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا، اِلاَّ قِیْلاً سَلٰمًا سَلٰمًا.(الواقعہ ۵۶: ۲۵۔۲۶)
’’وہ اُس میں کوئی بے ہودہ بات اور کوئی گناہ کی بات نہ سنیں گے۔ صرف مبارک سلامت کے چرچے ہوں گے۔‘‘


وَالْمَلآءِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ، سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ.(الرعد ۱۳: ۲۳۔۲۴)
’’ فرشتے ہر دروازے سے اُن کے پاس آئیں گے۔ (اور کہیں گے): تم لوگوں پر سلامتی ہو، اس لیے کہ تم ثابت قدم رہے۔ سو کیا ہی خوب ہے انجام کار کی یہ کامیابی!‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت کے محل

جنتیوں کے رہنے کے لیے بنائے گئے قصر و ایوان بھی اپنی مثال آپ ہوں گے۔ ان کثیر منزلہ عمارتوں کو صرف اینٹ گارے سے بنا کر نہ چھوڑ دیا گیا ہو گا ، بلکہ ان میں ہر طرح کی سہولیات میسر اور انھیں ہر طرح کی آرایش سے باقاعدہ مزین کیا گیا ہو گا۔ ان دودھ دُھلے، موتیوں سجے اور سونے چاندی سے ڈھلے ہوئے محلوں میں موجود بالا خانے، ان کے تعمیری حسن میں بھی اضافہ کریں گے اور جنتیوں کی تفریح اور ان کی ہوا خوری کا بھی خوب سامان کریں گے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّءَنَّھُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا.(العنکبوت ۲۹: ۵۸)
’’ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، ہم انھیں جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گے۔‘‘

لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِھَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌ.(الزمر ۳۹: ۲۰)
’’البتہ جو اپنے رب سے ڈرے اُن کے لیے بالاخانے ہوں گے اور ان کے اوپر مزید بالاخانے جو آراستہ کیے گئے ہوں گے۔‘‘

جنت کی آرایش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ باغوں کے اندر سے بھی چشمے گزر رہے ہوں گے۔بیٹھنے کے لیے بادشاہوں کے تخت کی طرح اونچی اونچی مسندیں ہوں گی۔ ان کے سامنے بڑے سلیقے سے ظروف سجا دیے گئے ہوں گے۔غالیچے اور قالین آپس میں اس طرح پیوستہ بچھے ہوں گے کہ ان کے درمیان میں کوئی جگہ خالی نہ رہ جائے گی اور مزید یہ کہ اُن پر تکیے اور نہالچے ہر طرف بکھرے پڑے ہوں گے:

فِیْھَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌ، فِیْھَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ، وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ، وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ، وَّ زَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ.(الغاشیہ ۸۸: ۱۲۔۱۶)
’’اُس میں چشمہ رواں ہو گا۔ اُس میں اونچی مسندیں بچھی ہوں گی اور ساغر قرینے سے رکھے ہوئے اور غالیچے ترتیب سے لگے ہوئے اور نہالچے ہر طرف پڑے ہوئے۔‘‘


________
 

امن وسیم

محفلین
جنتیوں کا لباس

اہل جنت کے لباس کے بارے میں یوں نہیں فرمایا کہ وہ کسی چادر اور تہہ بند میں ملبوس ہوں گے، بلکہ ان سے اس وقت کے مصر اور ایران کے بیش قیمت ملبوسات کا وعدہ کیا گیا۔ اس لیے کہ اہل عرب لباس کے معاملے میں انھی ملکوں کی شاہانہ روایات کو عز و شرف کی دلیل جانتے تھے:

عٰلِیَھُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خَُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ وَّحُلُّوْٓا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍ.(الدھر ۷۶: ۲۱)
’’اُن کی اوپر کی پوشاک ہی سبز ریشم اور دیبا و اطلس کی ہے۔ ان کو چاندی کے کنگن پہنا دیے گئے ہیں۔‘‘

یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَھَبٍ وَّلُؤْلُؤًا، وَلِبَاسُھُمْ فِیْھَاحَرِیْرٌ.(الحج۲۲: ۲۳)
’’اُن کو وہاں سونے کے کنگن اور موتیوں کے ہار پہنائے جائیں گے۔ ان کے لباس وہاں ریشم کے ہوں گے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنتیوں کیلیے خدمت گار

وہاں خدمت گاروں کی ایک فوج ہو گی جو ہر وقت چاق و چوبند اور اہل جنت کے اشارۂ ابرو کی منتظر رہے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ خدمت گار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مالکوں کے مزاج آشنا ہوتے اور ان کی ضروریات سے واقف ہوتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ عمر رسیدہ اور بوڑھے بھی ہو جاتے ہیں اور ان میں وہ مستعدی اور ہشیاری باقی نہیں رہتی جس کی توقع ایک جواں سال ملازم سے ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ جنت میں موجود ان خدمت گاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ نو خیز لڑکے ہوں گے اور ہمیشہ اسی سن و سال کے رہیں گے تاکہ اہل جنت کی ضروریات اور ان کے مزاج سے واقف ہو جانے کے ساتھ ساتھ وہ ہمیشہ کے لیے چست و چالاک اور حاضر باش بھی رہیں ۔ مزید یہ کہ وہ بدصورت ہوں گے اور نہ گندے اور اجڈ ہوں گے۔ان کی خوب صورتی اور نظافت کو بیان کرنے کے لیے انھیں موتیوں سے تشبیہ دی ہے اور موتی بھی وہ کہ جو بکھرے ہوئے ہوں۔ گویا اس تشبیہ کو کمال تک پہنچا دیا اور اس طرح ان کے کثیر تعداد میں ہونے اور خدمت بہم پہنچانے کے لیے ان کے ہر دم اور ہر جگہ موجود ہو نے کا بیان بھی کر دیا:

وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ، اِذَا رَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُم لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا.(الدھر ۷۶: ۱۹)
’’اُن کی خدمت میں وہ لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، دوڑتے پھرتے ہوں گے۔ تم اُن کو دیکھو گے تو یہی خیال کرو گے کہ موتی ہیں جو بکھیرتے گئے ہیں۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنتیوں کا طعام

کھانے پینے کے بہترین انتظامات ہوں گے۔ غلمانِ جنت قیمتی دھاتوں سے بنے ہوئے پیالوں اور طشتریوں میں ان کے من پسند کھانے اور مشروبات لیے ہوئے ان کے گرد منڈلا رہے ہوں گے کہ کب آقا اشارہ کریں اور ان لوازمات کو ان کے سامنے پیش کر دیا جائے:

یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَھَبٍ وَّاَکْوَابٍ.(الزخرف ۴۳: ۷۱)
’’اُن کے آگے سونے کی رکابیاں اور سونے کے پیالے پیش کیے جائیں گے۔‘‘

بیان ہوا ہے کہ وہاں کی ہر شے میں اس قدر جاذبیت ہو گی کہ وہ اہل جنت کی طبیعتوں اور ان کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچتی ہو گی۔چنانچہ کھانا بھی صرف جسم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نہیں دیا جائے گا که جو کچھ ملے، حلق سے اتار لیا جائے اور جو کچھ باورچی پکا رکھیں، زہر مار کر لیا جائے۔ کھانے خوب لذت بھرے ہوں گے۔ مشروبات بھی انتہا درجے کے روح افزا ہوں گے۔ ان کی تیاری میں اہل جنت کی اشتہا، ان کے ذوق اور ان کے انتخاب کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے گا:

وَفِیْھَا مَا تَشْتَھِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ.(الزخرف ۴۳: ۷۱)
’’اور اس میں وہ چیزیں ہوں گی جو دل کو بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی ہوں گی۔‘‘

پھل غذائیت کے ساتھ ساتھ لذت کام و دہن کا بھی ذریعہ ہوتے ہیں، اس لیے وہاں ان کا بھی اچھا خاصا انتظام ہو گا۔ یہ انواع و اقسام کے ہوں گے اور ذائقے میں بے نظیر اور لاجواب ہوں گے۔ صرف کھانے کی میز پر نہ ملیں گے، بلکہ باغوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے اہل جنت کو جب طلب ہو گی، وہ ذرا سا ہاتھ بڑھائیں گے اور تازہ پھل درختوں ہی سے توڑ لیں گے۔ انھیں کوئی پتھر اٹھانے اور تاک کر نشانہ لگانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ باغ بھی اپنی ملکیت میں ہوں گے اور پھلوں کے بوجھ سے جھکے ہوئے خوشے بھی ہر وقت پہنچ میں ہوں گے:

لَکُمْ فِیْھَا فاکِھَۃٌ کَثِیْرَۃٌ مِّنْھَا تَاْکُلُوْنَ.(الزخرف۴۳: ۷۳)
’’تمھارے لیے اس میں کثرت سے میوے ہوں گے جن میں سے تم کھاؤ گے۔‘‘

وَدَانِیَۃً عَلَیْھِمْ ظِلٰلُھَا وَ ذُلِّلَتْ قُطُوْفُھَا تَذْلِیْلاً.(الدھر۷۶: ۱۴)
’’اس کے درختوں کے سایے ان پرجھکے ہوئے اور اُن کے خوشے بالکل ان کی دسترس میں ہوں گے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنتیوں کا مشروب

کھانے پینے کے لوازمات اورمختلف اقسام کے میوہ جات ہی پربات ختم نہ ہو گی،اس کے ساتھ ساتھ بادہ وجام کے دوربھی چل رہے ہوں گے۔ پینے والے پینے کے آداب سے واقف ہوں گے۔وہ گلیوں اور چوراہوں میں پیتے اور غل غپاڑہ نہ کرتے پھریں گے۔ان کے لیے خصوصی محفلیںآراستہ کی جائیں گی اوروہ تختوں پربراجمان بڑے ہی شاہانہ اندازمیں اس کا شغل کیا کریں گے:

مُتَّکِئِیْنَ فِیْھَا یَدْعُوْنَ فِیْھَا بِفَاکِھَۃٍ کَثِیْرَۃٍ وَّشَرَابٍ.(آ۳۸: ۵۱)
’’وہ اُن میں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ بہت سے میوے اورمشروبات (اپنے خدام سے)طلب کر رہے ہوں گے۔‘‘

ان محفلوں کا ایک خوب صورت پہلو یہ ہوگاکہ ان میں عزیزواقربا اوردوست واحباب،سب موجود ہوں گے۔ دوزخ کے قیدیوں کے برخلاف،ان میں محبت اورالفت کے رشتے ہوں گے ، اس لیے یہ ایک دوسرے سے رخ پھیر کر نہیں، بلکہ آمنے سامنے بیٹھ کرپئیں گے۔دنیامیں اگران کے درمیان میں کوئی رنجش پیداہوئی بھی ہو گی تو خداے رحمان اس کو ان کے دلوں سے بالکل صاف کردیں گے:

وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ.(الحجر ۱۵: ۴۷)
’’اُن کے سینوں کی کدورتیں ہم نکال دیں گے۔ وہ آمنے سامنے تختوں پربھائی بھائی کی طرح بیٹھے ہوں گے۔‘‘

مے نوشی کی ان مجلسوں میں دی جانے والی شراب ملاوٹ زدہ یاکسی اور کے پیمانے کی بچی ہوئی نہ ہوگی۔یہ خالص بھی ہوگی اورسربمہربھی۔اس پرمشک کی مہرہوگی جوان کی تاثیراورلذت کومحفوظ رکھے گی اوراس کی صراحیاں پہلی مرتبہ انھی کے لیے کھولی جائیں گی:

یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ، خِتٰمُہٗ مِسْکٌ، وَ فِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ.(المطففین۸۳: ۲۵۔۲۶)
’’انھیں سر بند مےِ ناب پلائی جائے گی،جس پر مُشک کی مہر لگی ہوگی۔یہ چیزہے کہ جس کی طلب میں طالبوں کو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے سرگرم ہونا چاہیے۔‘‘

شراب میں مہک اورخوشبو،اس کی تندی وترشی میں اعتدال اور اس کے کیف وسرور میں اضافے کے لیے یہاں جو کچھ ملایا جاتا ہے، جنت میں اس کابھی انتظام ہوگا۔اس غرض سے وہاں تسنیم اورکافورکی اورزنجبیل کی کہ جن کی حقیقت خداہی بہترجانتاہے، ملونی ہوگی۔اس کے ملانے سے شراب کی تیزی جاتی رہے گی اوراس کا مزہ اورسرور دوچند ہو جائیں گے۔ مے نوشی کی تاریخ میں ایک روایت رہی ہے کہ اس کااہتمام لبِ جوکیاجاتاہے۔آنکھوں کے سامنے پانی کے جھرنے گررہے ہوں،ان کے جل ترنگ سے فضالہریں لے رہی ہو اورکناروں پربیٹھے ہوئے اُمرا کے ہاتھ میں چھلکتاہواجام ہوتواس طرح کی محفلوں کوچارچاندلگ جاتے ہیں۔جنت میں بھی تسنیم،کافوراور زنجبیل نام کے خوبصورت چشمے بہ رہے ہوں گے اوراہل جنت ان کے کناروں پربیٹھے ہوئے بادہ وجام سے لطف اندوز ہوا کریں گے:

وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِیْمٍ، عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ.(المطففین۸۳: ۲۷۔۲۸)
’’اور اس میں تسنیم کی ملونی ہوگی۔ ایک خاص چشمہ جس کے کنارے بیٹھ کر خدا کے یہ مقرب بندے پئیں گے۔‘‘

اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا، عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوْنَھَا تَفْجِیْرًا.(الدھر۷۶: ۵۔۶)
’’وفاداربندے شراب کے جام پئیں گے،جن میں آب کافورکی ملونی ہوگی۔یہ ایک چشمہ ہے جس کے پاس (بیٹھ کر) اللہ کے یہ بندے پئیں گے اور جس طرف چاہیں گے، بہ سہولت اُس کی شاخیں نکال لیں گے۔‘‘

وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلاً، عَیْنًا فِیْھَا تُسَمّٰی سَلْسَبِیْلاً.(الدھر ۷۶: ۱۷۔۱۸)
’’اُنھیں وہ شراب وہاں پلائی جائے گی جس میں آب زنجبیل کی ملونی ہوگی۔ یہ بھی جنت میں ایک چشمہ ہے جسے سلسبیل کہا جاتاہے۔‘‘

دنیاکی شراب میں مزے توہیں،مگراس میں جومفاسد پائے جاتے ہیں ،ان سے بھی سب لوگ واقف ہیں۔ اچھا خاصا دانا و بینا آدمی، اس کے پیتے ہی مدہوش ہوجاتا،اول فول بکتا،شرم وحیاکے احساسات کو کھو بیٹھتا، حتیٰ کہ گندی نالیوں اورغلاظت کے ڈھیروں میں لڑھکتا پھرتا ہے۔اس حالت میں وہ وہ حماقتیں اس سے سرزدہوتی ہیں کہ گنوارسے گنوارآدمی بھی اس کافضیحتا کرتے ہیں۔مزیدیہ کہ نشہ اترجائے تونتیجے میں جسم کے قویٰ بھی مضمحل ہوجاتے اور ہاتھ پاؤں ہیں کہ ٹوٹنے لگتے ہیں۔جنت میں دی جانے والی شراب اس لحاظ سے یہاں کی خانہ خراب سے بالکل مختلف ہوگی۔اس میں لذت اورمزہ توحددرجے کا ہوگا،مگراس کوپینے سے جسمانی ضررواقع ہوگااورنہ کسی قسم کاکوئی اخلاقی نقصان ہوگا۔جنتی اسے پیتے چلے جائیں گے،مگرہوش وحواس میں رہیں گے اورمتوالے ہرگزنہ ہوں گے۔ ظاہرہے، جس شراب کو خدا کے وفاداربندے پئیں ،جو جنت میں اہتمام سے پلایاجانے والامشروب ہواورجسے خدا اپنی خصوصی عنایت سے پلائے، اس میں مفاسد ہوبھی کس طرح سکتے ہیں۔ارشاد ہواہے:

یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ،م بَیْضَآءَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ، لَا فِیْھَا غَوْلٌ وَّلَاھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ.(الصافات ۳۷: ۴۵۔۴۷)
’’ اُن کے لیے شراب ناب کے جام گردش میں ہوں گے، بالکل صاف شفاف، پینے والوں کے لیے لذت ہی لذت!نہ اس میں کوئی ضرر ہوگا اورنہ اس سے عقل خراب ہوگی۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت کی حوریں

فرض کیجیے کہ جنت میں سب کچھ ہوتا، مگر وہاں کے باسی اپنے جیون ساتھیوں سے محروم ہوتے تو لازم ہے کہ وہ جنت جنت ہو کر بھی ویران اور سونی ہوتی۔ وہاں کے آدم سب کچھ پا کر بھی وصال یار کے لیے تڑپتے اور حوائیں ہجر و فراق میں سسکتیں اور رویا کرتیں۔ بلکہ جب بھی شراب و کباب کی محفلیں آراستہ ہوتیں تو ان سے حظ اٹھانا تو دور کی بات، یہ تنہائیاں انھیں مزید اضطراب اور بے کلی میں مبتلا کر دیا کرتیں۔ سو جنت میں جہاں بہت سی دوسری چیزوں کا ذکر ہوا، وہاں اہل جنت کو ان کے رفیق اور ہم نشین دیے جانے کا مژدہ بھی سنایا گیا۔۱؂ انھیں بتایا گیا کہ وہاں کی رعنائیوں اور رنگینیوں میں اور زیادہ رنگ بھرنے کے لیے نازنینوں کی رفاقت بھی میسر ہو گی۔ ان کی خدمت میں انواع و اقسام کے کھانے ہی پیش نہ کیے جائیں گے، اپنے قیس کو لقمے بنا بنا کر کھلانے والی لیلائیں بھی ان کے ساتھ ہوں گی۔ صرف پینے کے لوازمات نہ ہوں گے، جن پر خود پیالوں کے سینے بھی دھڑک اُٹھیں ، وہ نازک اندام ساقی بھی وہاں موجود ہوں گے۔
حسن کی ان شہزادیوں کا قرآن نے تفصیل سے تعارف کرایا ہے۲؂ اور ان کے وہ خصائل بیان کیے ہیں جو کسی بھی فرہاد کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اُٹھے ، اپنا تیشا اٹھائے ، کوہ ستوں کھو دے اور جوے شیر نکال دکھا ئے۔ ان کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ وہ مرد آشنا اور کسی کی چھوڑی ہوئی نہ ہوں گی۔ ان کے قریب ہونا تو درکنار، اہل جنت سے پہلے انھیں کسی نے چھوا تک نہ ہو گا۔ فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہے۔ وہ عام عورتوں جیسے نسوانی عوارض سے مبرا اور جسمانی تبدیلیوں سے بالکل پاک ہوں گی۔ ان کاحسن و جمال اگر اپنی مثال آپ ہو گا تو یہ زوال سے بھی یک سر ناآشنا ہو گا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی جوانی میں فرق آئے گا نہ دل ربائی میں۔ پہلی ملاقات پر یہ جس طرح کی ہوں گی، ہرمرتبہ ملنے پر اسی طرح کی ملیں گی:

لَمْ یَطْمِثْھُنَّ اِنْسٌ قَبْلَھُمْ وَلَاجَآنٌّ.(الرحمٰن ۵۵: ۵۶)
’’ان (عورتوں) کو اُن سے پہلے کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہ لگایا ہو گا ۔‘‘


یہ ایک سے زیادہ ہوں گی، اس لیے ہو سکتا تھا کہ ان کے درمیان میں سوتنوں کی چشمک اور جلاپا ہو۔ مگر ان پری چہروں میں وہ کمزوریاں ہی نہ ہوں گی جو باہمی حسد کو پیدا کیا کرتی ہیں۔ ایک بے حد حسیں ہو اور دوسری انتہا درجے کی بدصورت ہو، ایک میں دل کو لبھانے اور پھر اسے چرا لینے کی ہر ادا ہو اور دوسری مزاج کی درشت اور طبیعت کی آدم بے زار ہو، ایک جوان ہو، شباب کی نمایاں مثال ہو اور دوسری بڑھاپے کی طرف مائل ہو زوال اور تنزل کی نظیر ہو اور اس کے بال بال میں چاندی بھی جھلک آئی ہو، یہی چیزیں ہوتی ہیں جن سے مرد کا میلان ایک طرف ہونے لگتا اور پھر لازمی نتیجے کے طور پر عورتوں کے درمیان میں حسد اور رشک پیدا ہونے لگتا ہے۔ جنت کی عورتوں میں اس طرح کا تفاوت بالکل نہیں ہو گا۔ حسینائیں تو سب ہوں گی اور دل ربائی بھی ہر ایک کی فطرت میں ہو گی، اس کے ساتھ ساتھ وہ سب ہم سن بھی ہوں گی۔ چنانچہ اہل جنت کے ہاں نہ ایک کی طرف رجحان اور دوسری سے بے زاری پیدا ہو گی اور نہ ان عورتوں میں باہمی چپقلش کا احساس پیدا ہو گا۔ یہ سب آپس میں شیر و شکر اور جنتیوں کی دل جوئی کرتی ہوں گی۔ قرآن مجید نے ’وَکَوَاعِبَ اَتْرَابًا‘ اور ’عُرُبًا اَتْرَابًا‘ کے الفاظ استعمال کر کے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
یہ عورتیں صرف حسن و جمال کی مالک نہ ہوں گی، عصمت کی دیویاں اور عفت کی مورتیاں بھی ہوں گی ۔خوب صورت نہیں، خوب سیرت بھی ہوں گی۔ یہ اخلاق باختہ نہیں، پاکیزہ ہوں گی۔ جفا کار اور بے وفا نہیں، باوفا، شرمیلی اور باحیا ہوں گی۔ قرآن مجید میں ان کے غزال چشم ہونے اور سنہری اور سفید رنگ ہونے کا ذکر ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ ان کی شرمگیں نگاہوں کا اور موتیوں کے مانند ان کے اچھوتے اور محفوظ ہونے کا بھی ذکر ہوا:

وَحُوْرٌ عِیْنٌ،کَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنَوْنِ.(الواقعہ ۵۶: ۲۲۔۲۳)
’’اور اُن کے لیے آہو چشم گوریاں ہوں گی، چھپا کر رکھے ہوئے موتیوں کی طرح۔‘‘


وَعِنْدَھُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ، کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ.(الصافات ۳۷: ۴۸۔۴۹)
’’اُن کے پاس نیچی نگاہوں والی غزال چشم حوریں ہوں گی گویا کہ (شترمرغ کے) چھپے ہوئے انڈے ہیں۔‘‘


فِیْھِنَّ خَیْرٰتٌ حِسَانٌ، فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ، حُوْرٌ مَّقْصُوْرَاتٌ فِی الْخِیَامِ، فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمََا تُکَذِّبٰنِ.(الرحمن ۵۵: ۷۰۔۷۳)
’’اُن میں خوب سیرت، خوب صورت بیویاں۔ پھر تم اپنے رب کی کن کن شانوں کو جھٹلاؤ گے!خیموں میں ٹھیرائی ہوئی گوریاں۔ پھر تم اپنے رب کی کن کن شانوں کو جھٹلاؤ گے!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

- ۱؂ واضح رہے کہ جنت میں اباحیت بالکل نہ ہو گی کہ جو کوئی جنسی جذبے سے مغلوب ہوا وہ جانوروں کی طرح جدھر کو سینگ سمایا، ادھر کو ہو لیا، بلکہ جس طرح یہاں نکاح کے ذریعے سے افراد ایک دوسرے کے ساتھ مخصوص ہو جاتے اور ایک رشتے میں بندھ جاتے ہیں، اسی طرح وہاں بھی یہ رشتہ باقاعدہ بنایا جائے گا:

وَزَوَّجْنٰھُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ.(الطور۵۲: ۲۰)
’’اور آہو چشم گوریاں ہم نے اُن سے بیاہ دی ہوں گی۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲؂ مرد و زن، دونوں کو جیون ساتھی ملنے چاہییں، مگر جنت کے بیان میں صرف عورتوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ مرد کے لیے عورت بنیادی طور پر ایک نعمت ہے اور مرد اس کے لیے ایک ضرورت۔ جنت چونکہ اپنی حقیقت میں سراسر نعمت ہے، اس لیے یہی موزوں ہوا که اس کے بیان کے ذیل میں صرف عورتوں کا ذکر کیا جائے:

اِنَّآ اَنْشَاْنٰھُنَّ اِنْشَآءً، فَجَعَلْنٰھُنَّ اَبْکَارًا، عُرُبًا اَتْرَابًا. (الواقعہ ۵۶: ۳۵۔ ۳۷)
’’ہم نے اُنھیں ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہو گا اور اُنھیں کنواری، دل ربا اور ہم سن بنا دیا ہو گا۔‘‘

____________
 

امن وسیم

محفلین
جنتیوں کی خواہشات

وہاں اہل جنت کی خوشی کا اس قدر لحاظ ہو گا کہ ان میں سے ہر ایک کی ذاتی آرزوئیں پوری کرنے کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ ہر کسی کے ارمانوں کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے، سو اس کے لیے ویسی ہی دنیا بنا دی جائے گی۔ کسی کو جنت میں بیٹھ کر باتیں کرنا اور خوش گپیوں میں مگن رہنا اچھا لگے گا تو کسی کو دوستوں سے ملاقاتیں کرنا اور ان کے ساتھ ضیافتیں اڑانا۔کسی کو چاند راتوں میں نشستیں جمانا اور ماضی کی داستانوں سے حظ اٹھانا مسرت دے گا اور کسی کو مزاح کی محفلیں بپا کرنا اور خوب خوب مزے اڑانا۔ کوئی لفظوں کی شاعری سے لطف اندوز ہونا چاہے گا اور کوئی جسم کی شاعری سے شاد کام ہونا۔ کسی کا ذوق ہو گا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے پتھر تراشے اور کسی کا اشتیاق ہو گا کہ خود صنم بن کر رہ جائے۔ کسی کی انگلیاں بے تاب ہوئی جائیں گی کہ بے جان تاروں میں روح پھونک دیں اور کسی کا گلہ لحن داؤدی کو گانے اور ہم نواؤں کو سنانے کے لیے تڑپتا ہو گا۔ کوئی موے قلم سے ہر سو رنگ بکھیرتا ہو گا اور کسی کا من رنگ اور شباب میں ڈوب جانے کو کرتا ہو گا۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے جنھیں وہاں جا کر بھی فلسفے کی اُلجھنوں میں اُلجھنا اچھا لگے گا اور کچھ وہ بھی ہوں گے جنھیں فقہی مسائل میں اتر کر دور کی کوڑی لانا اور بال کی کھال اتارنا بھلا لگے گا۔کسی کو سونا چاندی پا لینے کے بعد بھی کیمیاگری کا سودا ہوا کرے گا اور کسی کو ڈھیروں مال کا مالک ہو جانے کے بعد بھی تجارت اور سوداگری کا نشہ ہوا کرے گا۔ کسی کا دل چاہے گا که وہ سوت کاتے اور کھڈی بنے اور کسی کا دل چاہے گا که وہ کھال اور پوست سے پاپوش سیے۔ کوئی آب و گِل کو کام میں لا کر دانا اُگانا چاہے گا تو کوئی چاہے گا که وہ آتش اور آہن سے کھیلے اور تیر و تفنگ ڈھا لے۔ غرض یہ کہ جو جنتی جس طرح بھی شادمان ہونا چاہے گا، جنت میں اس کا انتظام کر دیا جائے گا:

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَھُمْ فِیْ رَوْضَۃٍ یُّحْبَرُوْنَ.(الروم ۳۰: ۱۵)
’’پھر جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے، وہ ایک شان دار باغ میں شاداں و فرحاں رکھے جائیں گے۔‘‘


اہل جنت کی نعمتیں ان کی قیام گاہوں تک محدود نہ ہوں گی، بلکہ وہ جس طرف نظر اٹھا کر دیکھیں گے، اپنے لیے انعام ہی انعام پائیں گے۔ حد نگاہ تک ان کی بادشاہی کی دھوم مچی ہو گی۔ جہاں چاہیں گے فروکش ہوں گے، جب دل میں آئے گی، کوچ کریں گے اور کوئی رکاوٹ ان کے سامنے نہ ہو گی۔ رکاوٹیں تو ان کے سامنے ہوتی ہیں جن کی بادشاہیاں ناقص ہوں اور کسی خاص علاقے تک محدود ہو کر رہ جائیں۔ اس کے مقابلے میں اہل جنت اُس بادشاہی کے وارث ٹھیرائے جائیں گے جو بہت بڑی بھی ہے اور کسی نقص کے بغیر بھی۔ اس کی کامل ترین تعبیر قرآن کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہاں نہ ماضی کا کوئی غم ہو گا اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ مزید یہ کہ پروردگار اہل جنت پر اِتمام نعمت کرے گا اور انھیں اس شاہانہ طرز کی صرف ایک نہیں، دو دو جنتیں عطا فرمائے گا:

وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْکًا کَبِیْرًا.(الدھر ۷۶: ۲۰)
’’اور دیکھو گے تو جہاں دیکھو گے، وہاں بڑی نعمت اور بڑی بادشاہی دیکھو گے۔‘‘


وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآءُ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ.(الزمر ۳۹: ۷۴)
’’اور وہ کہیں گے کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو اس زمین کا وارث بنا دیا۔ اب ہم جنت میں ، جہاں چاہیں، ٹھیریں (تو یہ صلہ ہوگااُن کا)، سو نیک عمل کرنے والوں کا یہ کیا ہی اچھا صلہ ہے!‘‘


وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ، فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ.(الرحمٰن ۵۵: ۴۶۔۴۷)
’’اور جو اپنے رب کے حضور میں پیشی سے ڈرتے رہے، اُن کے لیے دو باغ ہیں۔‘‘


وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ.(البقرہ۲: ۲۷۷)
’’اور (وہاں) اُن کے لیے کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ وہ کوئی غم کبھی کھائیں گے۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت کی نہریں

کھانے پینے کے یہ لوازمات وافر مقدار میں اور بے حد و حساب ہوں گے اور ان میں کسی کمی یا انقطاع کا کوئی سوال نہ ہو گا۔ ایک طرف اگر پانی کی نہریں ہوں گی تو دوسری طرف دودھ اور شہد اور شراب کی بھی نہریں بہتی ہوں گی۔ مزید یہ کہ ہر چیز آلودگی سے مبرا اور مضر اثرات سے بالکل پاک ہو گی۔ پانی میں گدلا پن ہو یا نقصان دہ اجزا کی آمیزش ہو، دودھ میں گوبر یا خون کے اثرات ہوں، شراب میں تلخی اور شعور کھو جانے کی مصیبت ہو، یا شہد میں گھاس پھوس اور موم نظر آتی ہو، جنت کی نعمتوں میں ایسا کچھ نہ ہو گا:

مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَآ اَنْھٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ وَاَنْھٰرٌ مِّنْ لَبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ وَاَنْھٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ وَاَنْھٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفَّی، وَلَھُمْ فِیْھَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ.(محمد ۴۷: ۱۵)
’’وہ جنت جس کا وعدہ خدا سے ڈرنے والوں کے ساتھ کیا گیا ہے، اُس کی مثال یہ ہے کہ اُس میں پانی کی نہریں ہیں جس میں کوئی بغیر نہیں ہوا ہو گا اور دودھ کی نہریں ہیں جس کے ذائقے میں ذرا فرق نہیں آیا ہو گا اور شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے یکسر لذت ہو گی اور شہد کی نہریں ہیں جو بالکل صاف شفاف ہو گا اور اُن کے لیے اُس میں ہر قسم کے پھل ہیں اور اُن کے پروردگار کی طرف سے مغفرت بھی۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت رضوان

مہربانیوں کا یہ سلسلہ اسی پر بس نہیں ہو گا۔انھیں ایک اور نعمت سے کہ جس کو خدا نے اپنی رضوان سے تعبیر کیا ہے، نوازا جائے گا۔ خدا کی یہی رضوان ہے جو دنیا میں صالحین کی زندگیوں کا اصل مقصد اور ان کی کوششوں کا مدعا رہتی ہے۔ یہ دنیا میں اسی کی خاطر جیتے ہیں، بلکہ دنیا میں تو یہ لوگ فقط رہتے ہیں، جیتے صرف اور صرف خدا کی رضوان ہیں۔ جنت وہ مقام ہے جہاں یہ بیش قیمت اور نایاب نعمت ، اپنی کامل صورت میں ان کو حاصل ہو جائے گی:

وَعَدَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ، ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ.(التوبہ ۹: ۷۲)
’’ان مومن مردوں اور مومن عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے اُن باغوں کے لیے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے، اور ابد کے باغوں میں پاکیزہ مکانوں کے لیے۔ اور خدا کی خوشنودی، وہ سب سے بڑھ کر ہے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘


کھانے پینے کے لوازمات، عیش و طرب کے انتظامات اور رضاے الٰہی کے انعامات کی، چاہے نامکمل اور ناقص ہی سہی، ایک طرح کی واقفیت ہمیں ضرور ہوتی ہے۔ پروردگار عالم کی ایک رحمت وہ ہے کہ جس کا اس دنیا میں دھندلا سا تصور کر لینا بھی محال ہے۔ جب یہ برسے گی تو وہ وہ برکتیں نازل ہوں گی کہ سمیٹنا بھی چاہیں تو نہ سمیٹ سکیں۔ ظاہر ہے کہ اہل جنت کے لیے یہ بہت بڑی رحمت ہو گی کہ ان کا رب انھیں سلام بھیجے، اُس کی نظر التفات ہر دم ان پر رہا کرے اور یہ اُس کے انوار کی جھلک دیکھا کریں اور اس کی تجلیات کا مشاہدہ کیا کریں۔ ان کے نزدیک یہ رحمت اتنی گراں مایہ ہو گی کہ انھیں اس کے سامنے کائنات کی ہر شے کم تر، بلکہ خود جنت کی ہر چیز فرو تر اور بے قدر محسوس ہو گی۔ صالحین کا اصل رزق یہی ہو گا، اس لیے صبح و شام انھیں اس رزق سے نوازا جائے گا:

سَلٰمٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ.(یٰسٓ ۳۶: ۵۸)
’’اُنھیں اُس پروردگار کی طرف سے سلام کہلایا جائے گا جس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘


وَلَھُمْ رِزْقُھُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا.(مریم ۱۹: ۶۲)
’’اُن کا رزق ان کے لیے صبح و شام اُس میں مہیا ہو گا۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
اہل جنت کا شکر

اہل جنت کو اب یہی زیبا ہو گا کہ وہ اپنے رب کی اِن تمام عنایتوں پر اُس کا شکر بجا لائیں۔ چنانچہ وہ ہر دم ان کا چرچا کریں گے اور اُس کی حمد کے ترانے پڑھیں گے اور اپنے عجز کا اظہار اور اُس کے کرم کی باتیں کریں گے۔ لیکن دوسری طرف بھی ان کا وہ پروردگار ہو گا جو سب قدر دانوں سے بڑھ کر قدردان ہے۔ وہ کبھی نہیں چاہے گا که اُس کے بندے اِس احساس میں زندگی گزاریں کہ یہ سب حاصل کرنے میں ان کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ یہ تو محض خیرات تھی جو ان کی جھولی میں ڈال دی گئی ۔ظاہر ہے ، یہ احساس وہ چیز ہے جسے انسان دل سے نہیں، بلکہ انتہائی ناگواری سے قبول کرتا ہے۔ چنانچہ ان کے شکریے اور عجز و انکساری کے جواب میں اعلان کرا دیا جائے گا کہ یہ جنت تمھیں محض ہماری عنایت سے نہیں ملی، بلکہ اس میں اصل عامل تمھارے اپنے نیک عمل ہیں۔ یہ محض ہمارا فضل نہیں ہے، بلکہ تمھاری ریاضتوں اور جفاکشیوں کا ثمرہ اور تمھاری عمر بھر کی اپنی کمائی ہے۔ گویا وہی ہو گا کو ایک سخی دل اور قدردان مالک اور اس کے محنتی اور عاجز غلام کے درمیان میں ہوتا ہے۔ غلام اپنی محنت کے بعد بھی کسرنفسی دکھاتا ہے اور مالک اپنی نوازشوں کے باوجود اُس کے کام کی تعریف کر کے اس کی قدر بڑھا تا ہے:

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا، وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُ لَقَدْ جَآءَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ، وَ نُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.(الاعراف ۷: ۴۳)
’’اور وہ کہیں گے: اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اس راستے کی ہدایت بخشی، اور اگر اللہ ہدایت نہ بخشا تو ہم یہ راستہ خود نہیں پا سکتے تھے۔ ہمارے پروردگار کے بھیجے ہوئے رسول بالکل سچی بات لے کر آئے تھے۔ (اُس وقت) ندا آئے گی کہ یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کے صلے میں وارث بنائے گئے ہو۔‘‘
 

امن وسیم

محفلین
جنت میں بوریت

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ انسان کی طبیعت ہے کہ وہ معمول اور یکسانیت سے جلد ہی اُکتا جاتا اور ہر روز اپنے اندر ایک نئی آرزو اور ایک نئی خواہش پال لیتا ہے۔ کیا ایسا تو نہیں ہو گا کہ اہل جنت کو دیے جانے والے لذیذ کھانے، رنگ و شباب سے بھرپور ان کی محفلیں اور رحمت برساتے ان کے شب و روز، ان کو اُکتاہٹ کا شکار کر دیں؟ اور یہ ان سب چیزوں کا مزہ کھو بیٹھیں اور ان کے بجاے کچھ اور چاہنے لگیں؟اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ اکتاہٹ کا یہ جذبہ دو ہی صورتوں میں پیدا ہوتا ہے: ایک یہ کہ چیزیں اتنی گنی چنی ہوں کہ بار بار کے استعمال سے آدمی کا جی بھر جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ ایک جیسی ہی رہیں اور آخرکار دل سے اتر جائیں۔
پروردگار عالم نے انسان کی اس کمزوری کا یا اسے خوبی کہہ لیجیے، جنت میں بھی لحاظ رکھا هے اور اس پہلی صورت کا جواب دو طرح سے دیا ہے: ایک یہ کہ اس نے واضح کر دیا ہے کہ جو چیزیں تم کو گن کر بتا دی گئی ہیں وہ وہاں کی نعمتوں کا ایک مختصر اور اجمالی سا تعارف ہے۔ وگرنہ تمھارے لیے وہ کچھ تیار رکھا گیا ہے کہ جس کا تمھیں سان گمان بھی نہیں۔ دوسرے یہ کہ جنت آرزوؤں کی تکمیل کا مقام ہے، اس لیے ان چیزوں کے علاوہ جو تمھارے دل میں آرزو پیدا ہو گی، فوراً پوری کی جائے گی:

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآءًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۱۷)
’’سو کسی کو پتا نہیں کہ اُن کے اعمال کے صلے میں اُن کے لیے آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔‘‘


وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ، لَھُمْ مَّا یَشَآءُ وْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ، ذٰلِکَ ھُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ.(الشورٰی ۴۲: ۲۲)
’’جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے، وہ بہشت کے باغیچوں میں ہوں گے۔ اُن کے لیے، جو کچھ چاہیں گے، اُن کے پروردگار کے پاس موجود ہو گا۔ سب سے بڑا فضل درحقیقت یہی ہے۔‘‘


قرآن نے جی اُکتا جانے کی دوسر ی صورت کا جواب بھی دو طرح سے دیا ہے: پہلے یہ بتایا ہے کہ وہاں کی نعمتیں ایک حالت پر نہیں ہوں گی، بلکہ ان میں ہر دم ارتقا ہوتا رہے گا۔ جنتی کھانے کے لیے جب دوسری مرتبہ ہاتھ بڑھائیں گے تو خیال کریں گے کہ یہ سب تو ہم پہلے سے کھائے ہوئے ہیں، مگر کھانے کے بعد معلوم ہو گا کہ اس ظاہری مشابہت کے باوجود، یہ سب لذت اور ذائقے میں بالکل نیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اہل جنت کی ہر خواہش پوری کر دینے کے بعد ان پر مزید ایک فضل کرنے کا وعدہ فرمایا۔ اور اس کی تفصیل کرنا تو دور کی بات، اس کے بارے میں اشارے کنایے میں بھی کچھ نہیں بتایا۔ارشاد ہوا تو صرف یہ کہ تمھیں دینے کے لیے ہمارے پاس مزید بھی بہت کچھ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس ارشاد میں پایا جانے والا اِبہام ہی اصل شے ہے۔ دینے والا دینے کا وعدہ کرتا ہو اور یہ نہ بتاتا ہو کہ وہ کیا کچھ دے گا تو سننے والوں کے لیے یہی بات کفایت کرتی ہے کہ دینے والاعالم کا پروردگار ہے، اس لیے وہ جو کچھ بھی دے گا، وہ اتنا زیادہ ہو گا کہ انھیں راضی کر دے گا:

کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا.(البقرہ ۲: ۲۵)
’’اُن کا کوئی پھل جب اُنھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا تو کہیں گے: یہ وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا، دراں حالیکہ اُن کو یہ اُس سے ملتا جلتا دیا جائے گا۔‘‘


لَھُمْ مَّا یَّشَآءُ وْنَ فِیْھَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ.(قٓ ۵۰: ۳۵)
’’اُنھیں وہاں جو چاہیں گے، ملے گا اور ہمارے پاس مزید بھی بہت کچھ ہے۔‘‘


اے پروردگار، تیرے فضل کے بھروسے پر ہم بھی اس جنت کی طلب رکھتے ہیں !!

________
 
Top