سید اسد محمود
محفلین
عراق پر اتحادی افواج کے حملے کو ایک دھائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، لیکن عراق کے دارالخلافہ بغداد کی محصور زندگی اب بھی کچھ خاص تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ بغداد کا شمار دنیا کے چند بدترین امن و امان کی صورتحال سے دوچار شہروں میں کیا جاتا ہے جہاں کا میعار زندگی انتہائی پست سمجھا جاتا ہے۔ اتحادی افواج کے حملے نے بغداد کو افراتفری اور لوٹ مار کے لئے ضرب المثل بنا دیا 2005ء کترینہ نامی طوفان کی تباہی کے بعد امریکی شہر نیو اورلینز میں لوٹ مار اور لاقانونیت کا بازار گرم ہوا تھا جب اخبارات و الیکٹرانک میڈیا میں یہ الفاظ گشت کررہے تھے کہ لٹیروں نے نیو اورلینز کو بغداد بنا دیا۔۔
لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دریائے دجلہ کہ کنارے آباد یہ شہر کبھی انتہائی پرسکون اور پر امن شہر بھی تھا۔ یہ تصاویر 1932ء کی ہیں جب عراق نے دس سالوں پر محیط برطانوی راج کے تسلط سے نئی نئی آزادی حاصل کی تھی۔ اس دور کا بغداد سلطنت عثمانیہ کے زیر تسلط رہنے کی وجہ سے جدید ترک اور قدیم عرب فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج تھا۔ اس دور میں بھی عراق میں فرقہ وارنہ اور مذہبی کشیدگی موجود تھی مگر بعد کے عشروں میں اس نے زیادہ شدت اختیار کرلی۔
1932ء کے بغداد کی یہ تصاویر مارٹسن کلیکشن لائیبریری آف کانگریس سے لی گئی ہیں جس میں بغداد ایک نئے دور ﴿تیل کی دریافت﴾ کے دھانے پر اپنے تشخص کے لئے جدوجہد کرتا ہوا نظر آئے گا ۔
راہ گیر میدان مسجد کے سامنے سے گزرتے ہوئے۔
عراقی فرمانرواں شاہ فیصل اول جنہوں نے عراق پر 1921ء سے 1933ء تک حکومت کی اپنے بھائی امیر عبداللہ کے ساتھ ۔۔۔
کرکوک میں عراقی نیشنل پیٹرولیم کمپنی کے تیل کے کنووں کے نزدیک زیر زمین گیس کا اخراج ۔۔ عراق کے تیل کے زخائر ہمیشہ سے سامراجی قوتوں کو للچاتے رہے ہیں۔۔ جنگ عظیم اول کے دوران بھی برطانوی اور فرانسیسی افواج کے درمیان وجہ نزع یہی زخائر رہے۔ نیز 2003ء میں بغداد میں امریکی افواج نے صرف عراقی تیل کی وزارت کے دفاتر کو محفوظ کیا اور باقی بغداد لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا جس سے امریکوں کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہداف واضح ہو گئے تھے۔
عراقی فوج کے افسران لیگ آف نیشن میں عراق کی شمولیت کا جشن مناتے ہوئے۔۔
راہ گیر دریائے دجلہ پر قائم پل پر سے گزرتے ہوئے۔
بغداد کی ایک سڑک
دریائے دجلہ کے کنارے کشتی پر تربوز کی دوکان۔
ترکی ٹوپی پہنے ایک شخص بغداد کی سڑک پر رواداوں۔
ظروف ساز ۔۔
چائے یا قہوہ فروش۔۔۔ اُر کے اسٹیشن پر
سلطنت عثمانیہ کے دور میں قائم کی گئی اہل تشیع کی مشہور حیدرخانہ مسجد میں ایک شخص بچے کو کچھ سمجھاتے ہوئے۔
دریائے دجلہ کا کنارہ۔۔
قوفا نامی روایتی کشتی جو 1970ء تک دجلہ کو پار کرنے کے لئے استعمال ہوتی رہی۔
عراقی عجائب گھر۔ بابل کے قدیم نوادرات کا گھر۔ اس عجائب گھر کے نوادرات 2003ء میں بڑی بے دردی سے لوٹ مار کی نظر ہوئے۔
1927ء میں قائم شدہ رائل کالج آف میڈیسن کی عمارت۔
دریائی گودی۔۔
کیفل کے نزدیک یہودی رابی ایزاکیل کے مقبرے کے سامنے عبادت کرتے ہوئے۔۔ 1930ء عراقی کی یہودی آبادی جو دنیا کی سب سے قدیم یہودی آبادی کہلاتی تھی 120000 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔
سڑک کا تعمیراتی کام جاری ہے۔
پرانہ عثمانی قلعہ ۔۔ عثمانی ترکوں نے 1534ء میں بغداد پر قبضہ کیا تھا یہ قبضہ 1924ء تک برطانوی حملہ تک قائم رہا ۔۔
بغداد کی اسکائٰ لائن۔
لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دریائے دجلہ کہ کنارے آباد یہ شہر کبھی انتہائی پرسکون اور پر امن شہر بھی تھا۔ یہ تصاویر 1932ء کی ہیں جب عراق نے دس سالوں پر محیط برطانوی راج کے تسلط سے نئی نئی آزادی حاصل کی تھی۔ اس دور کا بغداد سلطنت عثمانیہ کے زیر تسلط رہنے کی وجہ سے جدید ترک اور قدیم عرب فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج تھا۔ اس دور میں بھی عراق میں فرقہ وارنہ اور مذہبی کشیدگی موجود تھی مگر بعد کے عشروں میں اس نے زیادہ شدت اختیار کرلی۔
1932ء کے بغداد کی یہ تصاویر مارٹسن کلیکشن لائیبریری آف کانگریس سے لی گئی ہیں جس میں بغداد ایک نئے دور ﴿تیل کی دریافت﴾ کے دھانے پر اپنے تشخص کے لئے جدوجہد کرتا ہوا نظر آئے گا ۔
راہ گیر میدان مسجد کے سامنے سے گزرتے ہوئے۔
عراقی فرمانرواں شاہ فیصل اول جنہوں نے عراق پر 1921ء سے 1933ء تک حکومت کی اپنے بھائی امیر عبداللہ کے ساتھ ۔۔۔
کرکوک میں عراقی نیشنل پیٹرولیم کمپنی کے تیل کے کنووں کے نزدیک زیر زمین گیس کا اخراج ۔۔ عراق کے تیل کے زخائر ہمیشہ سے سامراجی قوتوں کو للچاتے رہے ہیں۔۔ جنگ عظیم اول کے دوران بھی برطانوی اور فرانسیسی افواج کے درمیان وجہ نزع یہی زخائر رہے۔ نیز 2003ء میں بغداد میں امریکی افواج نے صرف عراقی تیل کی وزارت کے دفاتر کو محفوظ کیا اور باقی بغداد لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا جس سے امریکوں کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہداف واضح ہو گئے تھے۔
راہ گیر دریائے دجلہ پر قائم پل پر سے گزرتے ہوئے۔
بغداد کی ایک سڑک
دریائے دجلہ کے کنارے کشتی پر تربوز کی دوکان۔
ترکی ٹوپی پہنے ایک شخص بغداد کی سڑک پر رواداوں۔
ظروف ساز ۔۔
چائے یا قہوہ فروش۔۔۔ اُر کے اسٹیشن پر
سلطنت عثمانیہ کے دور میں قائم کی گئی اہل تشیع کی مشہور حیدرخانہ مسجد میں ایک شخص بچے کو کچھ سمجھاتے ہوئے۔
دریائے دجلہ کا کنارہ۔۔
قوفا نامی روایتی کشتی جو 1970ء تک دجلہ کو پار کرنے کے لئے استعمال ہوتی رہی۔
عراقی عجائب گھر۔ بابل کے قدیم نوادرات کا گھر۔ اس عجائب گھر کے نوادرات 2003ء میں بڑی بے دردی سے لوٹ مار کی نظر ہوئے۔
1927ء میں قائم شدہ رائل کالج آف میڈیسن کی عمارت۔
دریائی گودی۔۔
کیفل کے نزدیک یہودی رابی ایزاکیل کے مقبرے کے سامنے عبادت کرتے ہوئے۔۔ 1930ء عراقی کی یہودی آبادی جو دنیا کی سب سے قدیم یہودی آبادی کہلاتی تھی 120000 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔
سڑک کا تعمیراتی کام جاری ہے۔
پرانہ عثمانی قلعہ ۔۔ عثمانی ترکوں نے 1534ء میں بغداد پر قبضہ کیا تھا یہ قبضہ 1924ء تک برطانوی حملہ تک قائم رہا ۔۔
بغداد کی اسکائٰ لائن۔