بغرض اصلاح : ’ مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا‘

فاخر

محفلین
نظرثانی کے بعد ایک بار پھر پیش ہے ۔
الف عین اور سید عاطف علی کی خدمت میں:

مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا
خواب میں ہی سہی اس کا تحفہ ملا

مستقل جس کی کرتا تھا میں منتیں
وہ ہمیشہ بصد ناز و عشوہ ملا

جس نے ڈھایا ستم مجھ پہ ہی بارہا
وہ ستم گر مجھے بالمشافہ ملا

الغرض منتیں میری پوری ہوئیں
پیار اس کا مجھے بے تحاشہ ملا

ناز اس دولتِ بے بہا پر ہے اب
ہجر کی شب میں اُس کا جو صدقہ ملا

اے مرے ہم نشیں کیا بتاؤں تجھے
تحفہ ٔ یار میں مجھ کو کیا کیا ملا

جستجو ہے تمہیں گر تو پھر جان لو
’’پے بہ پے عارض و لب کا بوسہ ملا‘‘

لذت ِ ’کیف‘ کو میں بیاں کیا کروں
اُس کے ہونٹوں سے جو جام و مینا ملا

آسمان و زمیں رقص کرنے لگے
جب مرا دلربا مسکراتا ملا

رنج و غم ختم سب ہوگئے دفعتاً
جب مرے رنج وغم کا مسیحا ملا

’آفریں‘ کی صدائیں بھی آنے لگیں
مجھ سے جب ماہ رودلبرانہ ملا

اس کرم پر اسے نذر کے واسطے
میرے دامن میں تو اشک و قطرہ ملا

دل نے چاہا کروں نذر، دل میں مگر
کچھ نہ پاپا بجز آہ و گریہ ملا

 
مدیر کی آخری تدوین:
جستجو ہے تجھے گر تو پھر جان لو
’’پے بہ پے عارض و لب کا بوسہ ملا‘‘

پہلے مصرع میں "تجھے" کو تمہیں" کردیجیے، شتر گُربہ دور ہو جائے گا۔

دل نے چاہا کروں نذر، دل میں مگر
کچھ نہ پاپا بجز آہ و گریہ ملا

دوسرا مصرع جو استادِ محترم نے تجویز کیا ہے وہی رکھیے اور اس کی مناسبت سے پہلے مصرع میں رد وبدل کرلیجیے۔

"کچھ نہ دل میں بجز آہ و گریہ ملا"

اپنے مصرع پر غور کیجیے کہ آپ نے دو جملوں کو بے جا ملا دیا ہے ۔
کچھ نہ پایا بجز آہ و گریہ اور
آہ و گریہ ملا
 

الف عین

لائبریرین
میرے مشوروں پر تو غور اب بھی نہیں کیا گیا، ایک بار پھر پوری غزل کو دیکھ رہا ہوں
مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا
خواب میں ہی سہی اس کا تحفہ ملا
... ٹھیک
مستقل جس کی کرتا تھا میں منتیں
وہ ہمیشہ بصد ناز و عشوہ ملا
.. ٹھیک

جس نے ڈھایا ستم مجھ پہ ہی بارہا
وہ ستم گر مجھے بالمشافہ ملا
... یہ قافیہ استعمال مت کرو جب اس کے معنی پر قابو نہیں ہے تو۔ شعر نکال دو

الغرض منتیں میری پوری ہوئیں
پیار اس کا مجھے بے تحاشہ ملا
... ٹھیک

ناز اس دولتِ بے بہا پر ہے اب
ہجر کی شب میں اُس کا جو صدقہ ملا
... 'اب' اب بھرتی کا ہے، شاید میں نے مصرع تجویز کیا تھا!

اے مرے ہم نشیں کیا بتاؤں تجھے
تحفہ ٔ یار میں مجھ کو کیا کیا ملا
... بے ربط ہے، بوسے کے علاوہ اور کیا ملا؟

جستجو ہے تمہیں گر تو پھر جان لو
’’پے بہ پے عارض و لب کا بوسہ ملا‘‘
... 'گر تو پھر' روانی مخدوش کر رہا ہے
جستجو جو بہت ہے تمہیں، تو سنو/جان لو
یا
ہے تجسس بہت گر تمہیں، جان لو

لذت ِ ’کیف‘ کو میں بیاں کیا کروں
اُس کے ہونٹوں سے جو جام و مینا ملا
... میری پہلی اصلاح پھر دیکھو

آسمان و زمیں رقص کرنے لگے
جب مرا دلربا مسکراتا ملا
... ٹھیک

رنج و غم ختم سب ہوگئے دفعتاً
جب مرے رنج وغم کا مسیحا ملا
... رنج و غم دہرایا کیوں؟ کلفت والا مصرع بہتر تھا، یا یوں کر دو
کلفتیں دور سب ہو گئیں دفعتاً

’آفریں‘ کی صدائیں بھی آنے لگیں
مجھ سے جب ماہ رودلبرانہ ملا
. ۔ٹھیک

اس کرم پر اسے نذر کے واسطے
میرے دامن میں تو اشک و قطرہ ملا
... محض قطرہ، کوکاکولا کا؟ یہ شعر نکال دو، پہلے بھی لکھا تھا
دل نے چاہا کروں نذر، دل میں مگر
کچھ نہ پاپا بجز آہ و گریہ ملا
 

فاخر

محفلین
اس غزل پر میں نے بر وقت توجہ نہ دے سکا ، میں سفر پر (دیوبند) چلا گیا تھاپھر معاً ’’حادثہ فاجعہ‘‘ پیش آگیابناء بریں اس جانب توجہ نہیں ہوسکی۔ خیر الف عین صاحب کے مشورہ کے مطابق اس کے کئی شعر محذوف قرار دیئے گئے جس سے ظاہر ہے کہ وہ ’’غزل مسلسل ‘‘ نہ رہ سکی ۔ البتہ جس قدر مجھے بہتر لگا اس میں ترمیم کیا ہوں۔بعد ترمیم پھر پیش ہے، اساتذہ سخن اس کی اصلاح فرمائیں گے۔



مضطرب روح کو ایک مژدہ ملا
خواب میں ہی سہی اس کا تحفہ ملا

مستقل جس کی کرتا تھا میں منتیں
وہ ہمیشہ بصد ناز و عشوہ ملا

الغرض منتیں میری پوری ہوئیں
پیار اس کا مجھے بے تحاشہ ملا

اے مرے ہم نشیں کیا بتاؤں تجھے
تحفہ ٔ یار میں مجھ کو کیا کیا ملا

گر تجسس ہے تو پھریہ اب جان لو
’’پے بہ پے عارض و لب کا بوسہ ملا‘‘

آسمان و زمیں رقص کرنے لگے
جب مرا دلربا مسکراتا ملا

’آفریں‘ کی صدائیں بھی آنے لگیں
مجھ سے جب ماہ رو دلبرانہ ملا
 

الف عین

لائبریرین
گر تجسس ہے تو پھریہ اب جان لو
روانی متاثر ہے، شاید میں نے پہلے بھی لکھا تھا
ہو تجسس تمہیں گر تو یہ جان لو
باقی اشعار درست ہیں
 
Top