arifkarim
معطل
کبھی کوئی ڈھنگ کی بات بھی کرلیا کریں۔
تنخواہوں کے جھنجھٹ سے بچنے کیلئے صوبائی طور پر ایک حل پیش کیا اور وہ بھی پسند نہیں آیا۔ دال میں کچھ کالا ہے۔
کبھی کوئی ڈھنگ کی بات بھی کرلیا کریں۔
کچھ نہیں پورا دال ہی کالا ہے ۔تنخواہیں کے جھنجھٹ سے بچنے کیلئے صوبائی طور پر ایک حل پیش کیا اور وہ بھی پسند نہیں آیا۔ دال میں کچھ کالا ہے۔
مشورہ تو ٹھیک ہے پر اگر نوٹ چھاپ چھاپ کر لوگ سارے امیر ہو گئے تو بلوچستان میں چھوٹے کام کرنے والے پھر سندھ پنجاب سے بھیجنے پڑیں گے
آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن مرکز میں ہمیشہ پنجاب کی ہی رہی ہے اور بالادست صوبہ ہمیشہ پنجاب ہی رہا ہے ۔ اس وجہ سے یہاں کے لوگ پنجاب کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
ٹی وی اور اخباروں میں تو اب جاکر کچھ کوریج مل رہی ہے ۔ یہاں اگر دھماکہ ہوجائے اور درجن سے زیادہ لوگ بھی مارے جائے ۔ اور کراچی میں کسی فیکٹری میں آگ لگ جائے تو اس کی کوریج بلوچستان کے واقعہ سے زیادہ ہوگی۔
یہاں کے معاملات کو کوریج نہیں دی جاتی کیونکہ یہاں ٹی وی والوں کے لئے بزنس نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی باتوں کا جواب بعد میں دونگا ، مجھے آفس جانا ہے ۔
پاکستان میںگزشتہ بیس برس میں کتنی یونیورسٹیاں بنی ہیں وہ بھی آپ جانتے ہی ہوں گے۔
بھائی سب ایک سے مظلوم ہیں۔ پاکستان میں کوئی طبقہ نہیں جسے انصاف ملتا ہو، روزگار ملتا ہو، سکون ملتا ہو۔ یہ برائیاں تمام پاکستان کی ہیں۔ انہیں صرف بلوچوں کے لئے مخصوص مت سمجھئے۔
کبھی میں سوچتی ہوں کہ سو ارب روپے کی گیس رائلٹی کو یورو میں تبدیل کیا جائے تو یہ ایک بلین یورو بنتے ہیں تقریبا۔ ڈالر میں تبدیل کریں تو سوا سے ڈیڑھ ارب ڈالر بنتے ہوں گے۔
کیا یہ ایک ڈیڑھ بلین ڈالر دینے سے بلوچستان کا مسئلہ آدھا حل ہو سکتا ہے؟
قوموں کی زندگی میں دیڑھ دو بلین ڈالر کوئی معنی نہیں رکھتے۔
پیارے عبداللھ بھائییار یہ کیسی اکائی ہے کیسا ملک ہے جس کو ہر وقت ٹوٹنے کا خطرہ رہتا ہے ہم کیوں منتیں کر کر کے اس ملک کو بچائیں جس کو دیکھو ایک ہی بات سندھ سرحد بلوچستان کشمیر میں ہر دوسرا لیڈر پاکستان کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے الطاف حسین سے لے کر براہمداغ تک تو سندھی وڈیروں سے لے کر پختونستان تک ہر کسی کو آزادی چاہیے اب میں پچھلے 10 سال سے موجود اپنے دل کے خدشات کو خدا حافظ کہتے ہوئے یہ کہوں گا اگر ان سب نے مل کر رہنا ہے تو جی بسم اللہ نہیں تو ختم کرو یہ بھان متی کا کنبہ اور دو سب کو آزادی جاؤ اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا لو ہم پنجاب کی عوام نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا متحد رکھنے کا سب کو اور اپنی بدنامی کا ہر بات کا طعنہ ملامت ہو اپنی ہر ناکامی پر پردہ پنجاب کا لیبل چڑھا لو آسانی سے اگر بلوچستان سندھو دیش پختونستان ہی بنانا ہے تو ہمیں بھی پنجابستان میں رہ کر خوشی ہو گی اور وقت دیکھے گا ہم لوگ ہی ترقی کرتے جائیں گے حال کی طرح اور باقیوں کا حال بنگلہ دیش جیسا ہو گا
پیارے عبداللھ بھائی
آپ کا شکریھ کہ آپ اب تک بڑی قربانی دیکر پاکستان کو بچاتے ہوئے آئے ہیں۔ آپ نے پاکستان کو بچانے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ آپ نے پاکستان کو بچانے کے لئے بڑی قربانی دی ہے۔ اسی جذبے کے تحت آپ نے کراچی سے لیکر کشمیر تک پاکستان کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں لگنے والے ہر فیکٹری میں چپڑاسی سے جنرل مئنیجر تک آپ محب وطن پاکستانیوں کو نہ رکھنے پر اس فیکٹری کو بند ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے۔ کہ سندھ میں موجود ہر وصوبائی و وفاقی محکمہ میں آپ کی تعداد دوسرے لوگوں کے مقابلے میں تقریب آدھی ہے۔ سندھ کے ہر تحصیل میں آپ نے کتنی ہی زمین کو اپنا کر اس پر اپنے گوٹھ قائم کر رکھے ہیں۔ پورٹ قاسم سے لیکر اسٹیل مل، ریلوے سے لیکر پولیس تک ہر محکمہ کو آپ نے اپنی جاگیر بنا کر رکھا ہے۔ کیونکہ آپ اس ملک کے مالک ہیں۔ اس لئے آپ کا حق بنتا ہے۔ سندھ میں موجود کسی بھی طبقے کا پنجابی سندھ کے بااثر جاگیردار سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والے کسی عام سے واقعے پر آپ کے مضبوط تے وڈے ادارے کے لوگ تحرک میں آجاتے ہیں۔ آپ پاکستان اور اسلام کے عظیم مفاد میں ہمیں ایسا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں جو نہ تو اپنے حقوق کی پامالی پر رو سکتا ہو اور نہ مذاحمت کر سکے۔ لیکن کیا کریں ہر انسان کی طرح یم بھی غلامی کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہو کہ ہر کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے۔ کیا سندھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے۔ آپ شاید بھول رہیں ہیں۔ کہ سندھ انگریز کے آنے سے پہلے ایک خودمختار قوم تھی۔
ہم پاکستان میں رہنا چاہتے ھیں۔ لیکن غلام کی حیثیت میں نہیں۔ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان چار قوموں کا ایک اتحاد ہے۔ جسے کسی بھی مذھبی نظرئے کے آڑ میں کسی ایک قوم میںنہیںڈھالا جاسکتا۔ آپ یہ ناکام تجربا کر چکے ہیں۔ پھر بھی آپ نہہں سمجھتے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ ہم نے پاکستان کی خاطر چار بھٹوز کی قربانی دی ہے۔ اب یم میں زیادہ برداشت نہیں۔ اب فیصلھ آپ کے ہاتھ میں ہیں۔
جيسا کہ ميں نے پہلے بھی کہا تھا کہ افغانستان ميں بھارت کے اقدامات کا دفاع، وضاحت يا اس کی توجيہہ پيش کرنا ميرے دائرہ کار ميں نہيں آتا ليکن چونکہ اس حوالے سے لامحالہ امريکہ پر بھی الزام لگايا جاتا ہے اس ليے ميں اس پر رائے دينا ضروری سمجھتا ہوں۔
اس ايشو کے حوالے سے ميرا نقطہ نظر يہ ہے کہ جب آپ الزام لگاتے ہيں تو پھر اس کا ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی آپ پر عائد ہوتی ہے۔ ناقابل ترديد ثبوت اور بے بنياد جذباتی بحث ميں فرق ہوتا ہے۔ اگر کچھ پاکستانی سياست دان يہ سمجھتے ہيں کہ بھارت پاکستان کے اندر کچھ گروہوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور ان الزامات کے ضمن ميں ثبوت بھی پيش کر سکتے ہيں تو پھر ايسے کئ عالمی فورمز موجود ہيں جہاں پر يہ ايشو اٹھايا جا سکتا ہے۔
امريکہ کی جانب سے اس ايشو کو نظرانداز کرنے کا سوال ہی پيدا نہيں ہوتا اس ليے کہ ابھی تک حکومت پاکستان کی جانب سے سرکاری سطح پر کوئ رپورٹ يا ثبوت نہيں فراہم کيا گيا۔ ميں يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ يہ امريکہ ہی ہے جو پاکستان کو مستحکم کرنے کے ليے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے۔ امريکی حکومت ايسے کسی اقدام کی حمايت نہيں کرے گی جس سے پاکستان سميت خطے کے کسی بھی ملک ميں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے۔ اور يہی اصول تمام ممالک پر لاگو ہوتا ہے۔ اسی بات کا اعادہ رچرڈ ہالبورک نے بھی جيو ٹی وی پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں کيا تھا۔
جہاں تک حاليہ اخباری رپورٹوں ميں رحمان ملک کی جانب سے بند کمرے ميں ممبران قومی اسمبلی کو ثبوت فراہم کرنے کا تعلق ہے تو ميرے نزديک يہ بات خاصی حيران کن ہے کہ يہ مبينہ ثبوت تو حاليہ دنوں ميں ممبران قومی اسمبلی کو فراہم کيے گئے ہيں ليکن انھی ميں سے کچھ ممبران اسمبلی تو پچھلے کئ مہينوں سے ميڈيا پر يہ الزامات لگا رہے ہيں۔ کيا اس کا مطلب يہ ہے کہ اب تک جو الزامات ان کی طرف سے لگائے گئے ہيں وہ بغير کسی ثبوت کے لگائے گئے تھے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
بھیا پنجاب کی تعریف کریں گے تو آپ کی بات کی سمجھ آئے گی۔ کیا آپ کی پنجاب کی تعریف صادق آباد سے لیکر حسن ابدال تک وسیع ہے یا پھر چند ایک اضلاع تک محدود ہے؟نہیں اس سے میں اتفاق نہیں کرتا۔ 2001 سے پہلے پنجاب کے عوام کی زندگی کا معیار باقی صوبوں سے بہت زیادہ بہتر تھا۔ اب یہ ایک دوسری بحث ہے کہ کیا پنجاب کے علاقائی اور صوبائی قیادت نے کم از کم اپنے صوبے اور علاقے کے لیے کام کیا ہے، اور باقی صوبوں کی قیادت نے خود ہی سب کچھ کھایا ہے۔
فواد، بلوچستان کے مسئلہ پر امریکی اور بھارتی مداخلت حقیقت ہیں۔ ان معاملات کے باہر نکلنے کا وقت شائد اب آچکا ہے۔ جو موجودہ حکومتی اقدامات کئے گئے ہیں وہ تو صرف زمین ہموار کرنے کی غرض سے ہیں وگرنہ اس موضوع پر بات تو بہت پہلے ہو چکی ہے۔ اب شائد امریکہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست بننے دینا چاہتا ہے یا اسے ایک باجگزار ریاست کے طور پر دیکھنے کا چلن ہی جاری رکھا جائے گا۔ امریکی قیادت کی ذرا سی کوتاہ اندیشی شائد ایک ایسے چین ری ایکشن کو جنم دے جائے جس کا روکناپھر کسی کے بس میں نہ ہو۔ رچرڈ ہالبروک کے ساتھ کیا گیا سلوک صرف پہلی قسط ہے۔