قسط دوئم
دونوں کو اس کمرے میں رہتے ہوئے ایک ماہ ہوچکا تھا۔ اور نصیر کا دل منصور کے رویے اور حرکتوں کی وجہ سے کھٹا ہوگیا تھا۔ اس کے لیے منصور کا وجود اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔ پہلے اس نے سوچا تھا کہ شاید وہ اپنی زندہ دلی کی بدولت منصور کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اوپر سے منصور کا رویہ اور بھی اس کو بالکل پسند نہ آیا۔ وہ شروع سے یہ اچھے اور خوش مزاج لوگوں سے ملتا آیا تھا۔ اس لیے خود اس کی بھی عادت خوش مزاجی اور ہنسنے بولنے والی تھی۔
اس رات کے بعد سے اس نے منصور سے سلام دعا بھی ختم کردی تھی۔
دوسری طرف منصور وہی اپنے حال میں مگن تھا۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ نصیر اس سے اب بات کیوں نہیں کررہا۔
اس وقت نصیر کمرے کی کھڑکی میں کھڑا ڈوبتے سورج پر نظریں جمایا ہوا تھا۔ جبکہ منصور حسبِ عادت اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف تھا۔
اچانک نصیر بے اخیتار چونک پڑا،،،،،،،، اس کی وجہ منصور کے حلق سے نکلنے والا قہقہ تھا۔ نصیر نے گھور کر اس کی جانب دیکھا۔ لیکن منصور اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کی نظریں اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر تھیں۔
پاگل ہے،،،،،،، نصیر نے دل میں سوچا اور دوبارہ کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرنے لگا۔ ڈوبتے سورج کے ساتھ پرندے اپنے اپنے ٹھکانوں پر لوٹ رہے تھے۔
اس وقت چڑیوں کا چہچہانا نصیر کو کافی خوشگوار محسوس ہورہا تھا۔
اس نے نیچے سڑک پر نظر ڈالی سامنے ہی مین روڈ چل رہا تھا۔ اور ٹریف رواں دواں تھا۔
وہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ گیا۔ چونکہ کے گرمیوں کے دن تھے اس لیے سورج کے ڈوبنے کا وقت سات بجے سے بھی اوپر تھا۔
کھڑکی نے آٹھ بجائے اور نصیر رات کے کھانے کے لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔ سڑھیاں اترتے وقت وہ سوچ رہا تھا کہ آج کھانا کہاں کھایا جائے۔
جس بلڈنگ میں رہائش پذیر تھا اس کے تھوڑے فاصلے پر ہی ایک باربی کیو سینٹر تھا۔ باربی کیو آئیٹم نصیر کو کافی مرغوب تھے۔ اس لیے اس نے رات کے کھانا اسی بار بی کیو سینٹر میں کھایا۔ کھانے کے بعد کولڈرنک پیتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ اس شہر میں اس کی جان پہچان کا کوئی نہیں تھا۔ اسے یہاں آئے ایک ماہ ہی ہوا تھا اور ابھی تو اس نے پوری طرح شہر دیکھا بھی نہیں تھا۔
اس کا تعلق ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔ اس نے وہیں ہوش سنبھالا اور ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔
اس کے گاؤں میں میٹرک تک تعلیم کا انتظام تھا۔ میڑک کے بعد اس نے قریبی شہر کے ایک کالج سے انٹر تک تعلیم جیسے تیسے حاصل کرہی لی۔ اپنے والدین کا وہ اکلوتا لڑکا تھا۔ اس کے علاوہ اس کی ایک بڑی بہن بھی تھی۔ جس کی شادی ہوچکی تھی اور وہ قریبی شہر میں ہی رہتی تھی۔
باپ کے پاس کچھ زمین تھی اس پر ہی کھیتی باڑی کرکے اس نے اپنے بچوں کا پالا پھوسا تھا۔
اور لڑکی کی شادی بھی کری تھی۔
نصیر کو مزید پڑھنے کی خواہش تھی لیکن باپ کی عمر اب ایسی نہیں تھی کہ وہ اکیلے ہی تمام بار سنبھالتا۔
مجبوراً اسے پڑھائی کو چھوڑنا پڑا۔ پہلے تو اس نے کوشش کی تھی کہ اسے کوئی پارٹ ٹائم جاب مل جائے تاکہ وہ باپ کا ہاٹھ بٹاسکے لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا تھا۔
پھر اس کے ماموں نے اس کو اس بڑے شہر میں اپنے ایک جاننے والے کے ذریعے ایک گارمنٹ فیکڑی میں جاب دلادی تھی۔ چونکہ اس کی تعلیم کوئی خاص نہیں تھی اس لیے کوئی بڑی جاب تو اسے نہیں مل سکی۔ لیکن پھر بھی یہ جاب اس کی ضروریات کے لحاظ سے بہتر تھی۔
ابھی وہ اپنے گھر بھی ہر ماہ ایک معقول رقم بھیجتا تھا اور اس کے اپنے پاس بھی خرچہ آرام سے چل جاتا تھا۔ اس کے باپ نے اپنی زمین ٹھیکے پر کسی دوسرے شخص کو دے دی تھی۔
اور خود گاؤں میں ہی ایک چھوٹی سی دکان کھول لی تھی اس طرح ان کا گزارا اب آرام سے ہورہا تھا۔
لیکن نصیر کو ایک بات کا بڑا قلق تھا کہ اس جاب میں اس کے پاس مزید پڑھنے کے لیے وقت بچانا ناممکن تھا۔
کولڈرنک ختم کرکے وہ اٹھ گیا۔ اس کے دماغ میں کچھ آیا ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں جائے اس لیے تھوڑی دیر یونہی سڑکیں ناپنے کے بعد اس نے کمرے کی راہ لی۔ کمرہ اس کو لاک ملا اس کا مطلب تھا کہ منصور موجود نہیں ہے۔
کمرے میں داخلے کے بعد اسے ایک ناگوار سی بو محسوس ہوئی۔ جس میں سگریٹ کے دھوئیں کی بو بھی شامل تھی۔ پہلے پہل تو اسے وہ پوری طرح سمجھ نہیں آئی۔ اس نے ناک سکوڑ کر اسے پھر محسوس کیا اور اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات اور گہرے ہوگئے وہ اس بو کو پہچان چکا تھا۔
یہ کسی اور کی نہیں بلکہ چرس کی بو تھی۔ اس نے دیکھا منصور کے بیڈ کے ساتھ موجود کارنر ٹیبل پر ایک ایش ٹرے پڑا ہوا تھا۔ اور اس میں کافی تعدار میں جلے ہوئے سگریٹ بھی موجود تھے۔
اس نے آج سے پہلے کبھی منصور کو سگریٹ پیتے نہیں دیکھا تھا۔
اس نے جاکر ایک ٹوٹا اٹھایا جو باقی ٹوٹوں سے تھوڑا بڑا تھا اور اس میں موجود تمباکو کو ایش ٹرے میں ہی نکال لیا۔ کوئی شک نہیں اس میں چرس شامل تھی۔
اسی وقت دروازہ کھلا اور منصور جھومتا ہوا سا کمرے میں داخل ہوا۔
تم میری جگہ پر کھڑے کیا کررہے ہو منصور نے جھومتے ہوئے چیخ کر کہا۔
وہ چلتے چلتے نصیر کے قریب پہنچ چکا تھا۔ ساتھ ہی نصیر کو بدبو ایک پھپکا برداشت کرنا پڑا جو منصور کے منہ سے آیا تھا۔
تو تم شراب بھی پیتے ہو۔ اور کیا کیا کرتے ہو تم منصور نے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا۔
تم سے مطلب دفعہ ہوجاؤ ،،،،،،،،، اور اپنے کام سے کام رکھا کرو سمجھے منصور نے نصیر کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا۔
لیکن دوسرے لحمے جھومتا ہوا سا پشت کے بل زمین پر جا گرا۔ وجہ گال پر پڑنے والا تھپڑ تھا۔
منصور کے منہ سے گالیوں کا ایک طوفان نکل پڑا ساتھ ہی اس نے کھڑے ہوکر اپنے پینٹ کی جیب سے ناصرف پستول نکال لیا بلکہ ایک نصیر پر ایک فائر بھی جھونک دیا۔
نشے کی وجہ سے ہاتھ بہک گیا تھا اور گولی نصیر کے بازو کو چھوتی ہوئی پیچھے نکل گئی۔
نصیر نے آگے بڑھ کر منصور کا پستول والا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح منصور کے ہاتھ سے پستول چھین لے۔
دونوں ایک دوسرے سے گھتے ہوئے زمین پر گر پڑے۔
پھر ایک کے بعد ایک تین گولیاں چلیں اور نصیر منصور کو چھوڑ کر ہانپتا ہوا الگ ہٹ گیا۔
سامنے ہی منصور گولیاں پیٹ میں کھائے ٹرپ رہا تھا۔
اور اس کا خون فرش پر پھیلتا جارہا تھا۔ نصیر دہشت سے آنکھے پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔
گولی اس نے نہیں چلائی تھی۔ بلکہ ہاتھا پائی میں منصور سے ہی ٹریگر دب گیا تھا۔
ان کا کمرہ چونکہ کے سب سے اوپری منزل پر تھا۔ اس لیے آواز وہیں گونج کر رہ گئی تھی۔
تڑپتے تڑپتے منصور نے دم توڑ دیا۔
نصیر اب بھی اسے وحشت بھرے انداز میں دیکھ رہا تھا۔