ناعمہ عزیز
لائبریرین
وہ تمام مخلوقات جو دنیا میں بھیجیں گئیں ان میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا ، ہم بحیثیت انسان کسی دنیاوی رتبوں کو ترستے ہیں ان کے لیے کوششیں کرتے ہیں ، لیکن جو رتبہ ہمیں ملا ہے اس کا مان کیسے رکھنا ہے ہم یہ نہیں جان پاتے ، وہ بھی ایسی ہی تھی ، جس کے قول و فعل میں تضاد تھا ، جس کے اندر دل ایک ہی تھا دماغ ایک ہی تھا لیکن اس کی سوچ دو ٹکروں میں بٹی تھی ، ایک منفی تھی اور اتنہائی منفی تھی ، ایک مثبت تھی اور اس کی شدت بھی کچھ کم نا تھی ، وہ سوال بھی خود سے کرتی تھی جواب بھی خود ہی دیتی تھی اور خود ہی اپنے آپ کو مطمئن بھی کر لیتی تھی ۔
جب سارے راستے بند ہو جائیں تو بندے کو ڈوب کے مر جانا چاہئے ، اس کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں رہتا ، نا اس کو لوگ زندہ رہنے دیتے ہیں ، ایسے گھٹ گھٹ کے جینے سے کیا لینا ؟ اور خاص طور پر جب سب کو لگتا ہو کو کہ ہم نے اپنے راستے خود ہی خود پر بند کیے ہیں ۔۔
نہیں بابا ! جہاں سارے راستے بند ہو جاتے ہیں وہاں بھی امید کا دامن ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہئے ، بندہ ساری زندگی امید کے سہارے ہی تو گزار دیتا ہے ، تو کیا ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ یہ راستے جو بند ہو گئے ہیں کھل جائیں گے؟
وہ خود سے ہی ہم کلام تھی
نہیں ہم یہ امید کیسے کر سکتے ہیں ؟
وہ زندگی جس کا انتخاب ہمارے لئے اللہ سائیں کرتے ہیں ،اور وہ زندگی جس کا انتخاب ہماری خواہشات کی بنیاد پر ہم خود کرتے ہیں دونوں میں بڑا فرق ہے ! جب ہم خود پھولوں کو ٹھکرا کر کانٹوں پر سفر کرتے ہیں ، جب ہم عام رستے کے بجائے صحرا کو سفر کے لئے چنتے ہیں تو پھر امید کاہے کی رکھیں ؟اور جب صحرا کا انتخاب کر ہی لیا جائے اور یہ بھی نا معلوم ہو کہ رستہ کونسا ہے تو پھر بھٹکنے کے علاوہ اور بچتا ہی کیا ہے ؟
تو پھر ہمیں اللہ سائیں سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں رستہ دکھا دے ۔
اس نے خود ہی اپنے سوال کا جوا ب دیا ، یہ اس کا رحمانی روپ تھا !
نہیں مجھے نہیں دعا کرنی ، مجھے کچھ نہیں مانگنا ، میں اللہ سائیں سے ناراض ہوں !
رب سے بھی کوئی ناراض ہوتا ہے کیا ؟
ہاں میں ہوں ، میں ہو گئی ہوں !
مجھے نہیں بات کرنی، مجھے کوئی کلام نہیں کرنا ، مجھے کوئی بات نہیں پوچھنی ، مجھے کوئی سوال نہیں کرنا !
اللہ سائیں سے ناراض نہیں ہوتے پگلی!
ہاں نا ہوتے ہوں گے لوگ ! میں تو ہوں نا ، مجھے نہیں بات کرنی ، بس دیکھ لیا بات کر کے ، اس نے کوئی نہیں سنی ، کوئی نہیں مانی ، میں نے کہا مجھے پناہ چاہئے ، اس نے نہیں دی ، اس نے مجھے ناکامیوں کا سامنا کرنے کو اکیلا چھوڑ دیا ، اس نے مجھے دنیا کے طعنے سننے کو اکیلا کر دیا ، اس نے میرے لئے راستے بند کر دئیے ، اس نے مجھے ذلت کے اتھاہ گہرائیوں میں د ھکیل دیا ، اس نے مجھے کچھ نہیں دیا ، اس نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیا ، اس نے مجھے اکیلا کر دیا ، تنہا چھوڑ دیا ، اس نے مجھے اتنا آزمایا ، مجھے رلایا ، میں نے پھر پناہ مانگی اس نے نہیں دی ،
اب بس مجھے اس سے کوئی کلام نہیں کرنا ہے۔
وہ اپنی ضد پر قائم تھی ، اور جب اس نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے تو پھر میں اکیلے ہی دیکھ لوں گی ، مجھے کسی کا کوئی احسان نہیں لینا ہے اللہ کا بھی نہیں ۔
ایسا نہیں کہتے ہیں ، وہ خود ہی وکیل تھی اور خود ہی جج کی سیٹ پر براجمان تھی ،
اس نے تمھیں اکیلا نہیں چھوڑا ہے ، اس نے تمھیں سکھایا ہے ، اس نے تمھیں دکھایا ہے کہ تم کتنی طاقتور ہو، اس نے تمھیں دہکتی آگ میں پھینکا ہے تو اس لئے کہ تم کندن بن جاؤ اور جانتی ہو سب کندن نہیں بنتے ہیں ! اس نے تمھیں کھلے سمندر میں چھوڑا ہے تو اس لئے کہ تم تیرنا سیکھ لو، اور ہر کسے کے پاس تیرنے کا فن تو نہیں ہوتا نا ؟
دیکھو جب ہم کسی جانور کو پالتے ہیں تو اسے سدھاتے ہیں نا ، اسے سکھاتے ہیں جیسا کام ہم اس سے لینا چاہتے ہیں ،
جب ہمیں کسی سے کوئی اہم کام لینا ہوتا ہے تو ہم اسے سخت سے سخت آزمائش سے گزارتے ہیں تاکہ وہ سخت جان ہو جائے اور جو کام اس سے لیا جانا ہو وہ اسے بخوبی بنھا سکے۔۔
اور اب وہ چپ ہو گئی تھی !
لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ بات اسے تب تک سمجھ نہیں آئے گی جب تک وہ سمجھنے کے قابل نہیں ہو جاتی ۔۔
تحریر : ناعمہ عزیز
جب سارے راستے بند ہو جائیں تو بندے کو ڈوب کے مر جانا چاہئے ، اس کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں رہتا ، نا اس کو لوگ زندہ رہنے دیتے ہیں ، ایسے گھٹ گھٹ کے جینے سے کیا لینا ؟ اور خاص طور پر جب سب کو لگتا ہو کو کہ ہم نے اپنے راستے خود ہی خود پر بند کیے ہیں ۔۔
نہیں بابا ! جہاں سارے راستے بند ہو جاتے ہیں وہاں بھی امید کا دامن ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہئے ، بندہ ساری زندگی امید کے سہارے ہی تو گزار دیتا ہے ، تو کیا ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ یہ راستے جو بند ہو گئے ہیں کھل جائیں گے؟
وہ خود سے ہی ہم کلام تھی
نہیں ہم یہ امید کیسے کر سکتے ہیں ؟
وہ زندگی جس کا انتخاب ہمارے لئے اللہ سائیں کرتے ہیں ،اور وہ زندگی جس کا انتخاب ہماری خواہشات کی بنیاد پر ہم خود کرتے ہیں دونوں میں بڑا فرق ہے ! جب ہم خود پھولوں کو ٹھکرا کر کانٹوں پر سفر کرتے ہیں ، جب ہم عام رستے کے بجائے صحرا کو سفر کے لئے چنتے ہیں تو پھر امید کاہے کی رکھیں ؟اور جب صحرا کا انتخاب کر ہی لیا جائے اور یہ بھی نا معلوم ہو کہ رستہ کونسا ہے تو پھر بھٹکنے کے علاوہ اور بچتا ہی کیا ہے ؟
تو پھر ہمیں اللہ سائیں سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں رستہ دکھا دے ۔
اس نے خود ہی اپنے سوال کا جوا ب دیا ، یہ اس کا رحمانی روپ تھا !
نہیں مجھے نہیں دعا کرنی ، مجھے کچھ نہیں مانگنا ، میں اللہ سائیں سے ناراض ہوں !
رب سے بھی کوئی ناراض ہوتا ہے کیا ؟
ہاں میں ہوں ، میں ہو گئی ہوں !
مجھے نہیں بات کرنی، مجھے کوئی کلام نہیں کرنا ، مجھے کوئی بات نہیں پوچھنی ، مجھے کوئی سوال نہیں کرنا !
اللہ سائیں سے ناراض نہیں ہوتے پگلی!
ہاں نا ہوتے ہوں گے لوگ ! میں تو ہوں نا ، مجھے نہیں بات کرنی ، بس دیکھ لیا بات کر کے ، اس نے کوئی نہیں سنی ، کوئی نہیں مانی ، میں نے کہا مجھے پناہ چاہئے ، اس نے نہیں دی ، اس نے مجھے ناکامیوں کا سامنا کرنے کو اکیلا چھوڑ دیا ، اس نے مجھے دنیا کے طعنے سننے کو اکیلا کر دیا ، اس نے میرے لئے راستے بند کر دئیے ، اس نے مجھے ذلت کے اتھاہ گہرائیوں میں د ھکیل دیا ، اس نے مجھے کچھ نہیں دیا ، اس نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیا ، اس نے مجھے اکیلا کر دیا ، تنہا چھوڑ دیا ، اس نے مجھے اتنا آزمایا ، مجھے رلایا ، میں نے پھر پناہ مانگی اس نے نہیں دی ،
اب بس مجھے اس سے کوئی کلام نہیں کرنا ہے۔
وہ اپنی ضد پر قائم تھی ، اور جب اس نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے تو پھر میں اکیلے ہی دیکھ لوں گی ، مجھے کسی کا کوئی احسان نہیں لینا ہے اللہ کا بھی نہیں ۔
ایسا نہیں کہتے ہیں ، وہ خود ہی وکیل تھی اور خود ہی جج کی سیٹ پر براجمان تھی ،
اس نے تمھیں اکیلا نہیں چھوڑا ہے ، اس نے تمھیں سکھایا ہے ، اس نے تمھیں دکھایا ہے کہ تم کتنی طاقتور ہو، اس نے تمھیں دہکتی آگ میں پھینکا ہے تو اس لئے کہ تم کندن بن جاؤ اور جانتی ہو سب کندن نہیں بنتے ہیں ! اس نے تمھیں کھلے سمندر میں چھوڑا ہے تو اس لئے کہ تم تیرنا سیکھ لو، اور ہر کسے کے پاس تیرنے کا فن تو نہیں ہوتا نا ؟
دیکھو جب ہم کسی جانور کو پالتے ہیں تو اسے سدھاتے ہیں نا ، اسے سکھاتے ہیں جیسا کام ہم اس سے لینا چاہتے ہیں ،
جب ہمیں کسی سے کوئی اہم کام لینا ہوتا ہے تو ہم اسے سخت سے سخت آزمائش سے گزارتے ہیں تاکہ وہ سخت جان ہو جائے اور جو کام اس سے لیا جانا ہو وہ اسے بخوبی بنھا سکے۔۔
اور اب وہ چپ ہو گئی تھی !
لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ بات اسے تب تک سمجھ نہیں آئے گی جب تک وہ سمجھنے کے قابل نہیں ہو جاتی ۔۔
تحریر : ناعمہ عزیز
آخری تدوین: