ابو المیزاب اویس
محفلین
بہت ہی لُطف آتا تھا پڑے رہ کرمدینےمیں
بڑا ہی خوشنُما لگتا تھا ہر منظر مدینے میں
وہاں کے پھول کیا کانٹے بھی تھے خوشتر مدینے میں
’’ بلالو پھر مجھے اے شاہِ بَحر و بَر مدینے میں
میں پھر روتا ہوا آؤں ترے در پر مدینے میں‘‘
مرے اللہ نے رکّھا ہے وہ جوہر مدینے میں
سُکون و چین ملتا ہے تو بس جاکر مدینے میں
گلِ امّید کِھلتا ہے ہَوا کھا کر مدینے میں
’’بلالو پھر مجھے اے شاہ بحر و بر مدینے میں
میں پھر روتا ہوا آؤں ترے در پر مدینے میں‘‘
مَزا ملتا تھا مجھکو اے مرے دِلبر مدینے میں
سناتا تھا میں اپنا حال رو رو کر مدینے میں
بَہَل جاتا تھا یوں اپنا دلِ مضطر مدینے میں
’’بلالو پھر مجھے اے شاہِ بحر وبَر مدینے میں
میں پھر روتا ہوا آؤں ترے در پر مدینے میں‘‘
مجھے طیبہ کا سچّا عشق دیدے اے خدائے پاک
غمِ طیبہ میں یہ آنکھیں مری ہردم رہیں نَم ناک
مجھے وہ دن دکھا یارب برائے صاحبِ لَولاک
’’میں پہنچوں کوئےجاناں میں گریباں چاک سینہ چاک
گِرادے کاش مجھکو شوق تڑپاکر مدینے میں‘‘
بڑھو نازوں کے پالو ! جاؤ جاؤ فِی اَمانِ اللہ
مقدَّر کے جِیالو ! جاؤ جاؤ فِی اَمانِ اللہ
مَہِ طیبہ کے ہالو ! جاؤ جاؤ فِی اَمانِ اللہ
’’مدینے جانے والو ! جاؤ جاؤ فی اَمانِ اللہ
کبھی تو اپنا بھی لگ جائے گا بِستر مدینے میں‘‘
مدینے کی زمیں پر بیخودی طاری رہے تم پر
وَفورِ شوق و مَستی میں دُرودِ پاک ہو لب پر
پَھٹا جاتا ہو سینہ اور بَہی جاتی ہو چَشمِ تر
’’سلامِ شوق کہنا حاجیو ! میرا بھی رو رو کر
تمھیں آئے نظر جب روضۂ اَنور مدینے میں‘‘
مُبارَک تم کو خوشیوں کا سویرا قافلے والو
مری نظروں میں چھایاہے اندھیرا قافلے والو
جدائی کے غموں نے مجھکو گھیرا قافلے والو
’’پیامِ شوق لیتے جاؤ میرا قافلے والو
سُنانا داستانِ غم مری روکر مدینے میں‘‘
سبھی کی مشکلیں ہو جاتی ہیں کافور طیبہ سے
کوئی سائل پلٹتا ہی نہیں رَنجور طیبہ سے
زمانے کے ستائے ہوگئے مسرور طیبہ سے
’’مرا غم بھی تو دیکھو مَیں پَڑا ہوں دور طیبہ سے
سُکوں پائے گا میرا یہ دلِ مُضطر مدینے میں‘‘
مرے خوں بار ارمانو ! پکارے جاؤ تم اُن کو
نہ کھوؤ جان مَستانو ! پکارے جاؤ تم ان کو
کریم اُن کو یقیں جانو پکارے جاؤ تم ان کو
’’نہ ہو مایوس دیوانو ! پکارے جاؤ تم ان کو
بلائیں گے تمھیں بھی ایک دن سروَر مدینے میں‘‘
ہماری حَسرتوں کو بھی نکالو یا رسولَ اللہ
ہمیں صدمات کی زد سے بچالو یا رسولَ اللہ
بلاکے طیبہ دامن میں چُھپالو یارسولَ اللہ
’’بلالو ہم غریبوں کو بلالو یارسولَ اللہ
پَئے شبّیر و شبّر فاطمہ حیدر مدینے میں‘‘
نظر آجائے جو روضہ مجھے شاہِ دوعالَم کا
ابھی کانٹا نِکل جائے مرے دل سے ہر اِک غم کا
سنبھل جائے یَکایَک حال میری چشمِ پُر نم کا
’’خُدایا ! واسطہ دیتاہوں تجھ کو غوثِ اعظم کا
دکھادے سبز گنبد کا حسیں منظر مدینے میں‘‘
جو مل جائے مدینے میں ٹھکانہ زندگی بھر کا
ہم اپنے آپ کو سمجھیں گے شاہنشہ مقدّر کا
بھرم رکھ لے اِلٰہی ! چشمِ تر اور قَلبِ مُضطر کا
’’وسیلہ تجھ کو بوبکر و عمر عثمان وحیدر کا
اِلہی تو عطا کردے ہمیں بھی گھر مدینے میں‘‘
رسول ُ اللہ کے آگے مجھے یوں شرمساری ہو
یہ چہرہ سُرخ ہو قلب و نظر میں بیقراری ہو
مری اِن پُر خطا آنکھوں سے پَیہَم اشک جاری ہو
’’مدینے جب میں پہنچوں کاش ایسا کیف طاری ہو
کہ روتے روتے گرجاؤں میں غش کھاکر مدینے میں‘‘
نہ میرے آگے سر ڈالے فقیر و تاجوَر آئے
نہ میرے ہاتھ میں فانی جہاں کا مال و زر آئے
مرے سرکار میرا صِرف یہ ارمان بَر آئے
’’نِقابِ رُخ اُلٹ جائے ترا چہرہ نظر آئے
جب آئے کاش تیرا سائلِ بے پر مدینے میں‘‘
کرم کردے کہ اب پوری مری امّید ہوجائے
تری طَلعَت سے یہ دل غَیرتِ خورشید ہوجائے
مدینہ آتے آتے مجھکو تیری دید ہوجائے
’’جو تیری دید ہوجائے تو میری عید ہوجائے
غم اپنا دےمجھے عیدی میں بُلوا کر مدینے میں‘‘
مدینہ میں جہاں پر ہیں سبھی عُشّاق کے ڈیرے
میں جب پہنچاوہاں مَستی میں اِس دنیاسےمنھ پھیرے
خوشی اور غم کے اشکوں نے بنائے اِس طرح گھیرے
’’مدینے جونہی پہنچا اشک جاری ہوگئے میرے
دمِ رُخصت بھی رویا ہِچکیاں بھر کر مدینے میں‘‘
حیاتِ عاشقاں دنیا میں بِالکُل طاق ہوتی ہے
طبیعت اُن کی ہر دم یار کی مُشتاق ہوتی ہے
لِقائے یار زَہرِ ہِجر کا تِریاق ہوتی ہے
’’جدائی کی گھڑی عاشق پہ بیحد شاق ہوتی ہے
وہ روتاہے تڑپ کر ہچکیاں بھر کر مدینے میں‘‘
قَلَق ہے گلشنِ دنیا کے مَتوالے دماغوں میں
ہر اِک بُلبُل ہے نالاں ، گُم ہے ہر گُل غم کے داغوں میں
بَس اِک رونے کی کیفیّت ہے مالی کے چَراغوں میں
’’کہیں بھی سوز ہے دنیا کے گلزاروں میں باغوں میں
فَضا پُر کیف ہے لو دیکھ لو آکر مدینے میں‘‘
مدینے کی کشِش کیا چیز ہے ؟ مت پوچھ اے سائل
کروڑوں لوگ بِن دیکھے اُسے دے بیٹھے اپنا دل
دلِ بے اِختیار اپنا بھی اُس کی سَمت ہے مائل
’’وہاں اِک سانس مل جائے یہی ہے زیست کا حاصِل
وہ قسمت کا دھنی ہے جو رہا دم بھر مدینے میں‘‘
ارے زاہد ! یہ کیا ہے ، کیا جُنوں ہی چھاگیا تجھ پہ
بتا تیری سمجھ میں کیوں نہیں آتی حقیقت یہ
بَہارِ خُلد قرباں ہے گُلِ طیبہ کی نَکہت پہ
’’مدینہ جنّتُ الفِردوس سے بھی ہے حسیں تَر کہ
رسولُ اللہ کا ہے روضۂ انور مدینے میں‘‘
کہو کیونکر یہاں ہم در بدر کی ٹھوکریں کھائیں
سہارا کس سے مانگیں کس کو اپناحال بَتلائیں
یہ کب تک دُکھ اٹھائیں کب تلک رنج و اَلم کھائیں
’’چلو چوکھٹ پہ ان کی رکھ کے سر قربان ہوجائیں
حیاتِ جاوِدانی پائیں گے مَر کر مدینے میں‘‘
مرے اندر مَحبّت میں تڑپنے کا قرینہ ہو
مدینے کی مَحبّت میں مرا مَرنا ہو جینا ہو
مجھے حاصل فنا فِی العِشق کا ایسا خزینہ ہو
’’مرا سینہ مدینہ ہو مدینہ میرا سینہ ہو
مدینہ دل کے اندر ہو دلِ مُضطر مدینے میں‘‘
مری یہ آرزو ہے جو کہ سب پر ہوچکی ہے فاش
مدینہ میں ہمیشہ کیلئے ہو میری بٗود وباش
مگر تیری رِضا پر ہے نچھاور میرا تن، من، لاش
’’پَئے تبلیغِ سنّت تو جہاں رکّھے ، مگر اے کاش
میں خوابوں میں پہنچتاہی رہوں اکثر مدینے میں‘‘
نہ مجھکو جامِ عِشرت دے نہ مجھکو نام وشُہرت دے
نہ مُلکوں کی سِفارت دے نہ آفاقی سِیاحت دے
نہ دنیا کی مَسرَّت دے نہ بیچینی سے راحت دے
’’نہ دولت دے نہ ثَروَت دے مجھے بس یہ سعادت دے
ترے قدموں میں مَرجاؤں میں روروکر مدینے میں‘‘
مری نظروں میں اب جَچتا نہیں دنیاکایہ گلشن
بھلا اِس کیلئے کیونکر لٹاؤں اپنا تن من دھن
پُکارے جارہی ہے اب مرے سینے کی ہر دھڑکن
’’عطا کردو عطا کردو بقیعِ پاک میں مَدفَن
لَحَد بن جائے میری یا شہِ کوثر مدینے میں‘‘
مرے آقا یقینًا تم ہو فیض وجُود کے مَخزَن
جو ملتاہے کسی کو تم سے ہی ملتاہے وہ قَطعًا
عُبیدِ قادری کی بھی کرو تقدیر یوں روشن
’’عطا کردو عطا کردو بقیعِ پاک میں مَدفَن
لحد بن جائے میری یاشہِ کوثر مدینے میں‘‘
مدینہ جاکے خوش ہوتاہے جو بھی غم کا مارا ہے
مدینہ دنیا بھر کے بے سہاروں کا سہارا ہے
زبانِ خلق کہتی ہے وہ بیچاروں کا چارہ ہے
’’مدینہ مجھکو اے عطؔار ! جان ودل سے پیارا ہے
کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبَر مدینے میں‘‘
نعتیہ استغاثہ : مولانا الیاس عطؔار قادری
تضمین نگار: محمد مشاہدرضا عبیداؔلقادری گونڈہ یوپی