سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 24 اپریل 2013
از طرف: سید انور محمود
نوٹ: یہ مضمون مارچ 2013 میں لکھا گیا تھا
پیارئے پاکستانیوں ہر بچے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے والد کی خوبیوں کو بیان کرئے۔ میں بھی آج اپنے والد کی خوبیوں سے آپکوآگاہ کرونگا۔ تاکہ آپکو اور دنیا کو معلوم ہوسکے کہ میرئے والد میں کیا کیا خوبیاں ہیں۔
میرئے دادا حاکم علی زرداری کا تعلق ایک متوسط درجے کے زمیندار گھرانے سے تھا، میرئے دادا کی تین اولادیں ہیں، میرئے والد ان کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ میرئے والدآصف علی زرداری اس وقت پاکستان کے صدر ہیں جبکہ میری دو پھوپیاں فریال تالپور اور عذرا پیچوہو قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ میرے والد نےابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرکس اسکول کراچی سے حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے دادو میں قائم کیڈٹ کالج پٹارو سے 1974 میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ بعد میں انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی ادارے میں بھی داخلہ لیا جو میرئے اوربہت سارے لوگوں کے ڈھونڈے کے باوجودآج تک نہیں ملا۔ میرئے دادا جان نے کراچی میں بمبینو چیمبر قائم کرکے بمبینو اور اسکالا سینما قائم کیا، اسکے علاوہ ڈسڑی بیو ٹرز کا بزنس بھی شروع کیا ۔ اسلیے میرئے والد نے انیس سو اڑسٹھ میں ایک اردو فلم ’منزل دور نہیں‘ میں چائلڈ سٹار کے طور پر بھی اداکاری کی۔
سیاست سے میرئے والد آصف زرداری کا دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ بس ایک مرتبہ انیس سو پچاسی کے غیرجماعتی انتخابات میں انہوں نے نواب شاہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔مگر یہ کاغذات واپس لے لئے گئے تھے۔ اٹھارہ دسمبر انیس سو ستاسی کو میرئے والد کی شادی میری والدہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوئی ۔ اگرچہ اس وقت میرئے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا خاندان ضیا حکومت کے عتاب کا شکار تھا مگر میرئے دادا نے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا اسلیے میرئے والد مطمین تھے۔ انیس سو اٹھاسی میں جب میری والدہ بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں تو ہمارا خاندان وزیر اعظم ہاؤس میں منتقل ہوگیا اور میرے والد کی سیاسی زندگی باضابطہ طور پر شروع ہوگئی۔ صرف 20 مہینوں کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بے پناہ بدعنوانی کے باعث میری والدہ بے نظیر کی حکومت کو ختم کردیا اور اپنے خصوصی اختیارت کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کو ختم کرتے ہوئے نئے الیکشن کروائے ۔ انیس سو نوے کےانتخابات میں میرے والد رکن قومی اسمبلی بنے۔انیس سو ترانوے میں وہ نگراں وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں وزیر بنے ۔ انیس سو ترانوے میں ہماری پارٹی کے دوسرے دور میں رکن قومی اسمبلی اور وزیر ماحولیات و سرمایہ کاری رہے۔ میری والدہ کی دوسری حکومت کے ساتھ میرے ماموں میر مرتضی بھٹوکے شدید اختلافات تھے اور وہ میرئے والد آصف زرداری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ بیس ستمبر انیس سو چھیانوے کومیرے ماموں میر مرتضی بھٹوکو انکے چھ ساتھیوں کے ہمراہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیاجبکہ اس وقت اس کی بہن ملک کی وزیر اعظم اور چیف ایگزیکٹیو تھی۔ پانچ نومبر 1996 کو ہماری دوسری حکومت کی برطرفی کے بعد میرے والدآصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں بھی آیا۔ میرےوالد پر کرپشن کے الزامات تو ہماری پہلی حکومت سے ہی لگنے شروع ہوگے تھے اور ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب بھی دیا گیا اگر یہ خطاب ان کو آج دیا جاے تو لازمی مسٹر ہنڈریڈپرسینٹ دیا جا سکتا ہے۔میرئے والد آصف زرداری کو سب سے پہلے اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے انیس سو نوے میں ایک برطانوی تاجر مرتضٰی بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر آٹھ لاکھ ڈالر اینٹھنے کی سازش کی ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق غلام اسحاق خان نے میری والدہ بے نظیر اوروالد آصف زرداری پر کرپشن کے انیس ریفرینسز فائل کئے لیکن ان میں سے کوئی ثابت نہیں ہو سکا۔ ہوتا کیسے والد نےکچا کام ہی نہیں کیا تھا۔
نواز شریف حکومت کے دوسرے دور میں میرے والد آصف زرداری پر اسٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا ، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور اسپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد الزام لگاے گے۔ یہ بھی الزام لگا کہ آصف زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکہ میں نو، بلجیم اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لئے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔ اس دوران انہوں نے تقریبا دس سال قید میں کاٹے اور 2004 میں سارے مقدمات میں بری ہونے کے بعد انکو رہا کردیا گیا- جیل میں انہوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کام کئے، اور کافی بدماش اورڈاکوں کو اپنا دوست بنالیا۔
ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو میری والدہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعدپیپلز پارٹی کے اراکین نے مھجے پیپلز پارٹی کا نیا چیئر مین بنادیااوراس موقع پر یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ میری تعلیم مکمل ہونے تک پارٹی کی قیادت میرے والد آصف زرداری کو شریک چیئر مین کی حیثیت سے کرینگے۔ اکتوبر دو ہزار سات میں متعارف کرائے گئے این آر او نے بھی ہمارے لیےاہم کردار ادا کیا۔ این آر او ختم ہونے کے بعد ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف زرداری پر بے نظیر حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔ دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ شروع میں اندازہ یہ تھا کہ میرئے والد آصف زرداری صرف پارٹی قیادت پر توجہ مرکوز رکھیں گے ۔ مگر انہوں نے ملک کا صدر بننے کا فیصلہ کرلیا آخر اس قوم کی مزید کھال بھی تو اتارنی تھی۔ پیپلزپارٹی نے با ظابطہ طور پر انکو 6 ستمبر 2008 کے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا۔ عموماً صدر نامزد ہونے والے سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جاتے ہیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ پیپلز پارٹی کے فعال سربراہ بھی رہے۔ میرے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل ضیاالحق کی کابینہ کے ایک سابق وزیر یوسف رضا گیلانی کو میرے والد نے وزیراعظم مقرر کیا۔ ہماری پانچ سال سےفرینڈلی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف شروع شروع میں میرے والد سے کافی میٹنگ کررہے تھے لیکن شاید انکو یاد نہیں تھا کہ جہاں نواز ختم ہوتا ہے وہاں سے زرداری شروع ہوتاہے۔ نواز شریف نے مشرف کے معزول کیے ہوے ججوں کے بارے میں بھوربن اور اسلام آباد معاہدے کیے، مگر تھوڑے عرصے بعد میرے والدآصف زرداری ان معاہدوں سے پھر گے اور کہا کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے جن میں ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ قریباً پانچ سو برس پہلے عظیم سیاسی شاطر میکاولی یہی بات کہہ چکا ہے کہ کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار کی بساط پر وعدے اور اصول کی اوقات ایک چال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
گذشتہ ساڑھےچار سال سے زائد سے میرئے والد آصف زرداری صدر ہیں اور ہماری حکومت کو پانچ سال ہورہے ہیں، اس حکومت نے وہ وہ کارنامے انجام دیے ہیں کہ آنے والی تاریخ میں اگر کرپشن ، بدامنی، بری گورننس کے اوپرکوئی کتاب لکھی گی تو مورخ کو صرف اس حکومت کی تاریخ میں سب کچھ مل جایگا۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران بدترین کرپشن ‘ بری گورننس ‘ طویل لوڈشیڈنگ ‘ غربت کیساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ‘ قومی ملکیتی ادارے تباہ ہوئے ۔ کارنامہ تو ایک سے بڑھ کر ایک ہے، کرپشن پیپلزپارٹی کی حکومت میں فیشن رہی ہے۔ میرئے والد آصف زرداری، دو وزیراعظم ، وفاقی اور صوبائی وزرا نے ملکر تاریخ میں کرپشن اور بری گورننس کے حوالے سے ماضی کے کرپشن کےتمام ریکارڈ توڑڈالے اور دنیا کی کرپٹ ترین اقوام میں پاکستان کا درجہ اوپر کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ جن اداروں کو روک ٹوک کرنا چاہیے تھی انکو ساتھ ملالیا لہذاکرپشن پر کوئی روک ٹوک نہ رہی اسلیے قومی احتساب بیورو اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی جیسے انسداد بدعنوانی کے ادارے کرپشن بڑھانے میں شانہ بشانہ رہے۔ یہ ادارے بااثر ملزموں کے ثبوت ختم کرنےاور انہیں بچانے میں پیش پیش رہے۔ یہ ہی وجہ ہے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 2012 کیلئے 18 ویں سالانہ کرپشن درجہ بندی جاری کی جس میں 176 ممالک میں پاکستان 139 ویں نمبر پر تھا۔ ہمارئے دور حکومت پاکستان کو کرپشن ‘ ٹیکس چوری اور بری گورننس کے باعث 8500 ارب سے زائد کی کثیر رقم کانقصان اٹھانا پڑا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق گیلانی حکومت کے دوران 2008 سے 2011 تک پتہ چلنے والے کرپشن کیسوں کا مجموعہ 2 ہزار 765 ارب روپے ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی وزیر خزانہ نے خود ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب سے زائد کی کرپشن کی تصدیق کی جو چار سال میں 2 ہزار ارب روپے بنتی ہے ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 2010 میں 315 ارب کی کرپشن کی نشاندہی کی۔ گردشی قرضے 19 کروڑ سے زائد ہیں۔ پی آئی اے ‘ پاکستان اسٹیل ملز ‘ ریلوے ‘ سوئی سدرن ‘ سوئی ناردرن گیس اور پی ایس او جیسے قومی ادارے آج تباہی کے دھانے پر ہیں۔ ۔ چیئرمین نیب ایڈمرل ( ر ) فصیح بخاری نے بھی اعتراف کیا کہ کرپشن سے ملک کو یومیہ 12 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 70 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود 2011کے سروے کے مطابق کم آمدن ‘ معاشی بدحالی اور مہنگائی کی وجہ سے 58 فیصد پاکستانی کو خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ 2011 میں اسلامی ترقیاتی بینک نے خبردار کیا کہ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہو چکی ہے جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 10 کروڑ پاکستانی غذائی بحران سے دوچار ہیں۔معاشی طور پر ملک کا برا حال ہے۔ ڈالر آج سو روپے کا ہوچکا ہے اور پاکستان 65 ارب ڈالر کا مقروض۔
ہماری پارٹی کےپانچ سالا دور میں ملک بھر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے ہزاروں افراد کے علاوہ صرف کراچی میں ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ افراد قتل ہوئے، کو ئٹہ میں دو مرتبہ ہزارہ برادری کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ملک جو کبھی امن وامان کا گہوارا ہوا کرتا تھا آج یہ جرائم پیشہ افراد، دہشت گردوں، بھتہ خوروں، لٹیروں اور سفاک قاتلوں کے مکمل قبضہ میں ہے۔ مسجدوں، امام بارگاہوں، اسپتالوں میں پاکستانیوں کا قتل عام، پاکستانیوں کی حفاظت پہ مامور پولیس والوں، فوجیوں کو نشانہ بنا کر مارنا، پاکستان کی بیش قیمت املاک کی تباہی اور فوجی اڈوں پر حملے ہونا ایک عام بات ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور پوراملک بغیرکسی قانون کے چل رہا ہے۔ دوسری طرف عدالتوں کے فیصلے کچھ بھی ہوں مگر میں نہ مانو کے اصول پر ہر فیصلہ کو رد کیا سوائے ہمارئے کرپٹ وزیراعظم گیلانی کی نہ اہلی کےکیونکہ اس مرتبہ ہم ایک سیاسی شہید کے نام پر انتخابات لڑیں گے ۔میرئے والد آصف زرداری بھی کچھ کم نہیں انہوں نے کہا تم نے ہمارا ایک کرپٹ باہر کیا ہے لو بھگتو اس سے بھی بڑے کو،تم نے استثنیٰ کی ہماری بات نا مانی اب کے ہم پہلے سے ٹہرے راجہ رینٹل ملزم کو وزیراعظم بناتے ہیں۔ اس راجہ میں تو بجلی کی سی مہارت ہےجس نے صرف ایک محکمے سے چار سو ارب چھاپنے کا ہنر دکھا کر ثابت کر دیا تھا ۔اب دیکھنا کیسے نوٹ چھاپنےکی مشین کام کریگی کہ تم گیلانی کو بھول جاؤ گے۔ آنے والے الیکشن میں ہمارئےسابق کرپٹ وزیراعظم گیلانی انتخابی مہم چلاینگے اور ووٹوں میں اپنے کرپشن کی مہارت دیکھانے کی کوشش کرینگے۔
لکھنے کو تو اور بھی کافی کارنامے ہیں لیکن مضمون پہلے ہی کافی لمبا ہوگیا ہے باقی کارنامےآیندہ مگر اتنا ضرور کہونگا کہ میرئے والد نے انیس سو اڑسٹھ میں ایک اردو فلم ’منزل دور نہیں‘ میں چائلڈ سٹار کے طور پرصرف اداکاری کی تھی لیکن اس پانچ سال میں انہوں نے حقیقت میں ثابت کردیا کہ کرپشن میں ان کی "منزل دور نہیں" رہی۔ آنے والے الیکشن میں اب آپ کی مرضی کسے ووٹ دینگےمگر کل ایک فقیر صدا لگاکر بھیک مانگ رہا تھا اور لوگوں کو کہہ رہا تھا کہ ائے لوگوں اگر تم نے مھجے خیرات نہ دی تو میں ووٹ پیپلز پارٹی کو دئے دونگا اور پھر یقین زرداری آئندہ پانچ سال میں تمیں اس قابل کردیگا کہ تم بھی میرئے ساتھ ساتھ صدا لگارہے ہوگے۔ اب فیصلہ آپ کےہاتھ میں ہے اگر فقیر کے ساتھ صدا نہیں لگانی تو اسکو خیرات دیں درنہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں۔
از طرف: سید انور محمود
نوٹ: یہ مضمون مارچ 2013 میں لکھا گیا تھا
بلاول کا زرداری پر ایک مضمون
پیارئے پاکستانیوں ہر بچے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے والد کی خوبیوں کو بیان کرئے۔ میں بھی آج اپنے والد کی خوبیوں سے آپکوآگاہ کرونگا۔ تاکہ آپکو اور دنیا کو معلوم ہوسکے کہ میرئے والد میں کیا کیا خوبیاں ہیں۔
میرئے دادا حاکم علی زرداری کا تعلق ایک متوسط درجے کے زمیندار گھرانے سے تھا، میرئے دادا کی تین اولادیں ہیں، میرئے والد ان کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ میرئے والدآصف علی زرداری اس وقت پاکستان کے صدر ہیں جبکہ میری دو پھوپیاں فریال تالپور اور عذرا پیچوہو قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ میرے والد نےابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرکس اسکول کراچی سے حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے دادو میں قائم کیڈٹ کالج پٹارو سے 1974 میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ بعد میں انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی ادارے میں بھی داخلہ لیا جو میرئے اوربہت سارے لوگوں کے ڈھونڈے کے باوجودآج تک نہیں ملا۔ میرئے دادا جان نے کراچی میں بمبینو چیمبر قائم کرکے بمبینو اور اسکالا سینما قائم کیا، اسکے علاوہ ڈسڑی بیو ٹرز کا بزنس بھی شروع کیا ۔ اسلیے میرئے والد نے انیس سو اڑسٹھ میں ایک اردو فلم ’منزل دور نہیں‘ میں چائلڈ سٹار کے طور پر بھی اداکاری کی۔
سیاست سے میرئے والد آصف زرداری کا دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ بس ایک مرتبہ انیس سو پچاسی کے غیرجماعتی انتخابات میں انہوں نے نواب شاہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔مگر یہ کاغذات واپس لے لئے گئے تھے۔ اٹھارہ دسمبر انیس سو ستاسی کو میرئے والد کی شادی میری والدہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوئی ۔ اگرچہ اس وقت میرئے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا خاندان ضیا حکومت کے عتاب کا شکار تھا مگر میرئے دادا نے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا اسلیے میرئے والد مطمین تھے۔ انیس سو اٹھاسی میں جب میری والدہ بے نظیر بھٹو برسرِ اقتدار آئیں تو ہمارا خاندان وزیر اعظم ہاؤس میں منتقل ہوگیا اور میرے والد کی سیاسی زندگی باضابطہ طور پر شروع ہوگئی۔ صرف 20 مہینوں کے بعد اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بے پناہ بدعنوانی کے باعث میری والدہ بے نظیر کی حکومت کو ختم کردیا اور اپنے خصوصی اختیارت کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کو ختم کرتے ہوئے نئے الیکشن کروائے ۔ انیس سو نوے کےانتخابات میں میرے والد رکن قومی اسمبلی بنے۔انیس سو ترانوے میں وہ نگراں وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں وزیر بنے ۔ انیس سو ترانوے میں ہماری پارٹی کے دوسرے دور میں رکن قومی اسمبلی اور وزیر ماحولیات و سرمایہ کاری رہے۔ میری والدہ کی دوسری حکومت کے ساتھ میرے ماموں میر مرتضی بھٹوکے شدید اختلافات تھے اور وہ میرئے والد آصف زرداری کو پسند نہیں کرتے تھے۔ بیس ستمبر انیس سو چھیانوے کومیرے ماموں میر مرتضی بھٹوکو انکے چھ ساتھیوں کے ہمراہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیاجبکہ اس وقت اس کی بہن ملک کی وزیر اعظم اور چیف ایگزیکٹیو تھی۔ پانچ نومبر 1996 کو ہماری دوسری حکومت کی برطرفی کے بعد میرے والدآصف زرداری کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں بھی آیا۔ میرےوالد پر کرپشن کے الزامات تو ہماری پہلی حکومت سے ہی لگنے شروع ہوگے تھے اور ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب بھی دیا گیا اگر یہ خطاب ان کو آج دیا جاے تو لازمی مسٹر ہنڈریڈپرسینٹ دیا جا سکتا ہے۔میرئے والد آصف زرداری کو سب سے پہلے اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے انیس سو نوے میں ایک برطانوی تاجر مرتضٰی بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر آٹھ لاکھ ڈالر اینٹھنے کی سازش کی ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق غلام اسحاق خان نے میری والدہ بے نظیر اوروالد آصف زرداری پر کرپشن کے انیس ریفرینسز فائل کئے لیکن ان میں سے کوئی ثابت نہیں ہو سکا۔ ہوتا کیسے والد نےکچا کام ہی نہیں کیا تھا۔
نواز شریف حکومت کے دوسرے دور میں میرے والد آصف زرداری پر اسٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا ، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور اسپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد الزام لگاے گے۔ یہ بھی الزام لگا کہ آصف زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکہ میں نو، بلجیم اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لئے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔ اس دوران انہوں نے تقریبا دس سال قید میں کاٹے اور 2004 میں سارے مقدمات میں بری ہونے کے بعد انکو رہا کردیا گیا- جیل میں انہوں نے قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کام کئے، اور کافی بدماش اورڈاکوں کو اپنا دوست بنالیا۔
ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو میری والدہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعدپیپلز پارٹی کے اراکین نے مھجے پیپلز پارٹی کا نیا چیئر مین بنادیااوراس موقع پر یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ میری تعلیم مکمل ہونے تک پارٹی کی قیادت میرے والد آصف زرداری کو شریک چیئر مین کی حیثیت سے کرینگے۔ اکتوبر دو ہزار سات میں متعارف کرائے گئے این آر او نے بھی ہمارے لیےاہم کردار ادا کیا۔ این آر او ختم ہونے کے بعد ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف زرداری پر بے نظیر حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کرنے کے الزامات ہیں۔ دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ شروع میں اندازہ یہ تھا کہ میرئے والد آصف زرداری صرف پارٹی قیادت پر توجہ مرکوز رکھیں گے ۔ مگر انہوں نے ملک کا صدر بننے کا فیصلہ کرلیا آخر اس قوم کی مزید کھال بھی تو اتارنی تھی۔ پیپلزپارٹی نے با ظابطہ طور پر انکو 6 ستمبر 2008 کے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا۔ عموماً صدر نامزد ہونے والے سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جاتے ہیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ پیپلز پارٹی کے فعال سربراہ بھی رہے۔ میرے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل ضیاالحق کی کابینہ کے ایک سابق وزیر یوسف رضا گیلانی کو میرے والد نے وزیراعظم مقرر کیا۔ ہماری پانچ سال سےفرینڈلی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف شروع شروع میں میرے والد سے کافی میٹنگ کررہے تھے لیکن شاید انکو یاد نہیں تھا کہ جہاں نواز ختم ہوتا ہے وہاں سے زرداری شروع ہوتاہے۔ نواز شریف نے مشرف کے معزول کیے ہوے ججوں کے بارے میں بھوربن اور اسلام آباد معاہدے کیے، مگر تھوڑے عرصے بعد میرے والدآصف زرداری ان معاہدوں سے پھر گے اور کہا کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے جن میں ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ قریباً پانچ سو برس پہلے عظیم سیاسی شاطر میکاولی یہی بات کہہ چکا ہے کہ کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اقتدار کی بساط پر وعدے اور اصول کی اوقات ایک چال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
گذشتہ ساڑھےچار سال سے زائد سے میرئے والد آصف زرداری صدر ہیں اور ہماری حکومت کو پانچ سال ہورہے ہیں، اس حکومت نے وہ وہ کارنامے انجام دیے ہیں کہ آنے والی تاریخ میں اگر کرپشن ، بدامنی، بری گورننس کے اوپرکوئی کتاب لکھی گی تو مورخ کو صرف اس حکومت کی تاریخ میں سب کچھ مل جایگا۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران بدترین کرپشن ‘ بری گورننس ‘ طویل لوڈشیڈنگ ‘ غربت کیساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ‘ قومی ملکیتی ادارے تباہ ہوئے ۔ کارنامہ تو ایک سے بڑھ کر ایک ہے، کرپشن پیپلزپارٹی کی حکومت میں فیشن رہی ہے۔ میرئے والد آصف زرداری، دو وزیراعظم ، وفاقی اور صوبائی وزرا نے ملکر تاریخ میں کرپشن اور بری گورننس کے حوالے سے ماضی کے کرپشن کےتمام ریکارڈ توڑڈالے اور دنیا کی کرپٹ ترین اقوام میں پاکستان کا درجہ اوپر کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ جن اداروں کو روک ٹوک کرنا چاہیے تھی انکو ساتھ ملالیا لہذاکرپشن پر کوئی روک ٹوک نہ رہی اسلیے قومی احتساب بیورو اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی جیسے انسداد بدعنوانی کے ادارے کرپشن بڑھانے میں شانہ بشانہ رہے۔ یہ ادارے بااثر ملزموں کے ثبوت ختم کرنےاور انہیں بچانے میں پیش پیش رہے۔ یہ ہی وجہ ہے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 2012 کیلئے 18 ویں سالانہ کرپشن درجہ بندی جاری کی جس میں 176 ممالک میں پاکستان 139 ویں نمبر پر تھا۔ ہمارئے دور حکومت پاکستان کو کرپشن ‘ ٹیکس چوری اور بری گورننس کے باعث 8500 ارب سے زائد کی کثیر رقم کانقصان اٹھانا پڑا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق گیلانی حکومت کے دوران 2008 سے 2011 تک پتہ چلنے والے کرپشن کیسوں کا مجموعہ 2 ہزار 765 ارب روپے ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی وزیر خزانہ نے خود ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب سے زائد کی کرپشن کی تصدیق کی جو چار سال میں 2 ہزار ارب روپے بنتی ہے ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 2010 میں 315 ارب کی کرپشن کی نشاندہی کی۔ گردشی قرضے 19 کروڑ سے زائد ہیں۔ پی آئی اے ‘ پاکستان اسٹیل ملز ‘ ریلوے ‘ سوئی سدرن ‘ سوئی ناردرن گیس اور پی ایس او جیسے قومی ادارے آج تباہی کے دھانے پر ہیں۔ ۔ چیئرمین نیب ایڈمرل ( ر ) فصیح بخاری نے بھی اعتراف کیا کہ کرپشن سے ملک کو یومیہ 12 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 70 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود 2011کے سروے کے مطابق کم آمدن ‘ معاشی بدحالی اور مہنگائی کی وجہ سے 58 فیصد پاکستانی کو خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ 2011 میں اسلامی ترقیاتی بینک نے خبردار کیا کہ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہو چکی ہے جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 10 کروڑ پاکستانی غذائی بحران سے دوچار ہیں۔معاشی طور پر ملک کا برا حال ہے۔ ڈالر آج سو روپے کا ہوچکا ہے اور پاکستان 65 ارب ڈالر کا مقروض۔
ہماری پارٹی کےپانچ سالا دور میں ملک بھر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے ہزاروں افراد کے علاوہ صرف کراچی میں ساڑھے پانچ ہزار سے زیادہ افراد قتل ہوئے، کو ئٹہ میں دو مرتبہ ہزارہ برادری کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ملک جو کبھی امن وامان کا گہوارا ہوا کرتا تھا آج یہ جرائم پیشہ افراد، دہشت گردوں، بھتہ خوروں، لٹیروں اور سفاک قاتلوں کے مکمل قبضہ میں ہے۔ مسجدوں، امام بارگاہوں، اسپتالوں میں پاکستانیوں کا قتل عام، پاکستانیوں کی حفاظت پہ مامور پولیس والوں، فوجیوں کو نشانہ بنا کر مارنا، پاکستان کی بیش قیمت املاک کی تباہی اور فوجی اڈوں پر حملے ہونا ایک عام بات ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور پوراملک بغیرکسی قانون کے چل رہا ہے۔ دوسری طرف عدالتوں کے فیصلے کچھ بھی ہوں مگر میں نہ مانو کے اصول پر ہر فیصلہ کو رد کیا سوائے ہمارئے کرپٹ وزیراعظم گیلانی کی نہ اہلی کےکیونکہ اس مرتبہ ہم ایک سیاسی شہید کے نام پر انتخابات لڑیں گے ۔میرئے والد آصف زرداری بھی کچھ کم نہیں انہوں نے کہا تم نے ہمارا ایک کرپٹ باہر کیا ہے لو بھگتو اس سے بھی بڑے کو،تم نے استثنیٰ کی ہماری بات نا مانی اب کے ہم پہلے سے ٹہرے راجہ رینٹل ملزم کو وزیراعظم بناتے ہیں۔ اس راجہ میں تو بجلی کی سی مہارت ہےجس نے صرف ایک محکمے سے چار سو ارب چھاپنے کا ہنر دکھا کر ثابت کر دیا تھا ۔اب دیکھنا کیسے نوٹ چھاپنےکی مشین کام کریگی کہ تم گیلانی کو بھول جاؤ گے۔ آنے والے الیکشن میں ہمارئےسابق کرپٹ وزیراعظم گیلانی انتخابی مہم چلاینگے اور ووٹوں میں اپنے کرپشن کی مہارت دیکھانے کی کوشش کرینگے۔
لکھنے کو تو اور بھی کافی کارنامے ہیں لیکن مضمون پہلے ہی کافی لمبا ہوگیا ہے باقی کارنامےآیندہ مگر اتنا ضرور کہونگا کہ میرئے والد نے انیس سو اڑسٹھ میں ایک اردو فلم ’منزل دور نہیں‘ میں چائلڈ سٹار کے طور پرصرف اداکاری کی تھی لیکن اس پانچ سال میں انہوں نے حقیقت میں ثابت کردیا کہ کرپشن میں ان کی "منزل دور نہیں" رہی۔ آنے والے الیکشن میں اب آپ کی مرضی کسے ووٹ دینگےمگر کل ایک فقیر صدا لگاکر بھیک مانگ رہا تھا اور لوگوں کو کہہ رہا تھا کہ ائے لوگوں اگر تم نے مھجے خیرات نہ دی تو میں ووٹ پیپلز پارٹی کو دئے دونگا اور پھر یقین زرداری آئندہ پانچ سال میں تمیں اس قابل کردیگا کہ تم بھی میرئے ساتھ ساتھ صدا لگارہے ہوگے۔ اب فیصلہ آپ کےہاتھ میں ہے اگر فقیر کے ساتھ صدا نہیں لگانی تو اسکو خیرات دیں درنہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں۔