غالب بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار - مرزا غالب

فرخ منظور

لائبریرین
[poem]بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار

وفورِ اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در، در و دیوار

نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مَقدمِ یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

ہوئی ہے کس قدر ارزانئ مئے جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار

جو ہے تجھے سرِ سودائے انتظار، تو آ
کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار

ہجومِ گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار

وہ آ رہا مرے ہم سایہ میں، تو سائے سے
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار

نظر میں کھٹکے ہے بِن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار

نہ پوچھ بے خودئِ عیشِ مَقدمِ سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار

نہ کہہ کسی سے کہ غالب نہیں زمانے میں
حریف رازِ محبت مگر در و دیوار[/poem]
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مہربانی فرما کر اس شعر کے بارے میں‌کچھ بتا دے شکریہ


وفورِ عشق نے کاشانہ کا کیا یہ رنگ

کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار

سرخ لفظ کو میں‌نے کسی اور جگہ پر بھی پوچھا تھا اس بارے میں‌بتا دے ان میں‌فرق کیا ہے
 

فاتح

لائبریرین
مہربانی فرما کر اس شعر کے بارے میں‌کچھ بتا دے شکریہ


وفورِ عشق نے کاشانہ کا کیا یہ رنگ

کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار

سرخ لفظ کو میں‌نے کسی اور جگہ پر بھی پوچھا تھا اس بارے میں‌بتا دے ان میں‌فرق کیا ہے

معنی کے اعتبار سے ان دونوں اصطلاحات میں کوئی فرق نہیں اور ہر دو طرح‌استعمال کی جا سکتی ہیں لیکن یہ غالب کے کلام کی خوبصورتی ہے کہ اس نے دو الفاظ کے الٹ پھیر سے معنی آفرینی کا سمندر بہا دیا ہے۔

اس مصرع میں 'عشق' ٹائپنگ کی غلطی ہے۔ یہاں اصل لفظ 'اشک' ہے جس کا مطلب ہے 'آنسو'۔

غالب کہتا ہے کہ میں اتنا رویا ہوں کہ میرے آنسوؤں کی زیادتی کے باعث ایک سیلاب آ گیا ہے جس میں بہہ کر میرا گھر تباہ ہو گیا ہے اور جہاں کبھی دروازہ ہوا کرتا تھا اب دیوار ٹوٹ کر وہاں آ گئی ہے اور دیواریں بہہ جانے کے باعث دروازے بن گئے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ فاتح! - میں نے یہ غزل اعجاز صاحب اور جویریہ صاحبہ کے مرتب کردہ نسخے سے اٹھائی تھی وہاں‌ اشک کی بجائے "عشق" اور اسی شعر میں" کاشانے" کی جگہ "کاشانہ" درج ہے جو کہ غلط ہے - اعجاز صاحب اور جویریہ صاحبہ سے گزارش ہے کہ اس شعر کی اپنے نسخے میں تصحیح کر لیں - بہت شکریہ!
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ فاتح! - میں نے یہ غزل اعجاز صاحب اور جویریہ صاحبہ کے مرتب کردہ نسخے سے اٹھائی تھی وہاں‌ اشک کی بجائے "عشق" اور اسی شعر میں" کاشانے" کی جگہ "کاشانہ" درج ہے جو کہ غلط ہے - اعجاز صاحب اور جویریہ صاحبہ سے گزارش ہے کہ اس شعر کی اپنے نسخے میں تصحیح کر لیں - بہت شکریہ!


بہت شکریہ فرخ صاحب، نشاندہی کیلیئے، واقعی اس "نسخۂ نیٹ" میں یہ غلطی ہے کہ 'اشک' کی جگہ 'عشق' لکھا گیا ہے، جب کہ شائع شدہ دواوین میں 'اشک' ہی ہے۔

اعجاز صاحب کو اسکی تصیح ضرور کرنی چاہیئے تا کہ آئندہ یہ غلطی نہ ہو۔

ایک واقعہ یاد آ گیا، کسی مولوی صاحب کے سامنے کسی نے غالب کا شعر غلط پڑھ دیا، چیں بچیں ہو کر فرمایا، میاں یہ غالب کا کلام ہے کوئی قرآن حدیث تھوڑی ہے کہ جسطرح چاہے پڑھ دیا۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ خوب فرمایا قبلہ ! :) لیکن ایک اور غلطی بھی ہے کہ نیٹ والے نسخے میں "کاشانہ" لکھا گیا ہے جبکہ باقی سب دواوین میں "کاشانے" ہے-
 
Top