یوسف-2
محفلین
بلا عربی متن والے تراجم ِ قرآن کی افادیت
لوحِ محفوظ میں موجود قرآن مجید کو پہلے لیلة القدر میں نازل کیا گیا پھر یہی قرآن مجید حرف بہ حرف رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر بتدریج نازل کیا گیاہے۔ اِس آخری الہامی کتاب کے بعد چونکہ قیامت تک نہ تو کوئی نبی یا رسول آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی آسمانی صحیفہ نازل ہونے والا ہے۔ اس لئے اس قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اللہ تعا لیٰ کا فرمان ہے کہ : (ترجمہ)اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اُتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاو¿، اپنے سارے ہم نواو¿ں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو ، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھائو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، اور یقیناََ کبھی نہیں کر سکتے، تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو مہیا کی گئی ہے منکرینِ حق کے لئے ۔(سو رة البقرہ: ۳۲۔۴۲)
اسی طرح جب نزولِ قرآن کے ابتدائی ایّام میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کی پہنچائی ہوئی وحی کو یاد رکھنے کے لئے اسے جلدی جلدی دُہرایا کرتے تھے تو اللہ عز و جل کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی کہ (ترجمہ): اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔ اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ (القیامة: ۷۱۔۶۱) آج نہ صرف ہر مسلمان کا یہ جزو ایمان ہے کہ اس وقت جو عربی قرآن مجید دنیا میں موجود ہے، وہ حرف بہ حرف وہی ہے جو تقریباََ چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بلکہ دنیا بھر کے غیر مسلم محققین بھی تاریخی شہادتوں سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ قرآن دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود حرف بہ حرف اپنی اصل حالت میں آج بھی موجود ہے۔ قرآن کا یہ معجزہ تاقیا مت باقی رہنے والا ہے۔ کسی انسان کی یہ مجال نہیں کہ اصل قرآن میں تحریف یا ملا وٹ کر سکے۔
ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مجھے اپنے خواب میں دیکھا، اُس نے یقیناََ مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان کبھی میری شکل میں نہیں آسکتا (صحیح بخاری حدیث۔۰۱۱) ۔ محدثین اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شیطان کسی کے خواب میں آکر یہ بہکا بھی نہیں کہہ سکتا کہ نعو ذُ با للہ وہی رسولِ عربی ہے اوراُس کی فلاں فلاں ہدایت پر عمل کیا جائے۔ لہٰذا اس بات پر اجمائے اُمت ہے کہ جب کبھی کوئی مسلمان ایسا کوئی خواب دیکھے تو اُس خواب پر عمل کرنے سے پہلے تعلیماتِ قرآن و حدیث سے اس کی تصدیق ضرور کر لے۔ عین یہی بات قرآن پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ تو صحیح ہے کہ قرآن مجید تا قیامت اِس دنیا میں اپنی اصل حالت میں بلا تحریف موجود رہے گا، خواہ حفاظ کے سینوں میں محفوظ رہے یاکاغذ کے نسخوں پر۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ کسی انسانی خطا یا شیطانی چال کے باعث ، اغلاط سے پُر کوئی نسخہ قرآن دنیا میں کہیں سامنے نہ آسکے۔ اور جہاں تک غیر عربی زبان میں قرآن کے تراجم کا تعلق ہے، اول تو کوئی ترجمہ، خواہ کتنا ہی مصدقہ اور لفظ بہ لفظ ہی کیوں نہ ہو، قرآن کریم کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ تلاوت ِ کلام پاک ہو یا نماز میں اس کی قراء ت، عربی قرآن کے بغیر ایسا ممکن ہی نہیں۔ البتہ عربی زبان سے نا واقف لوگوں کے لئے ترجمہ قرآن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کی روشنی، عالمِ عرب کی حدود سے باہر پھیلی تو پیغامِ قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے دنیا کی ہر اہم زبان میں قرآن مجید کے تراجم کئے گئے۔ بلکہ ایک ایک زبان میں کئی کئی تراجم بھی کےے گئے۔
ابتدا میں عربی آیات کی سطور کے نیچے متعلقہ زبان میں لفظی ترجمہ لکھا جاتا رہا۔ جب یہ لفظی ترجمہ قرآن کے درست مفہوم کوادا کرنے سے قاصر رہا تو بعد ازاں بامحاورہ ترجمہ کی روایت ڈالی گئی۔ تراجم میں اجتہاد کا یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ آگے ہی بڑھتا رہا۔ کبھی عربی متن کا ترجمہ حاشیہ میں لکھا گیا تو کبھی صفحہ کو عرضاََ دو حصوں میں تقسیم کرکے عربی آیات کے بالمقابل تراجم لکھے گئے ۔ کبھی صفحہ کو طولاََ دو حصہ میں تقسیم کر کے اوپر عربی اور نیچے ترجمہ کتابت کیا گیا۔ بلکہ ایک معتبر مترجم و مفسر نے تو ایک صفحہ پرعربی متن اور اس کے بالمقابل صفحہ پر ترجمہ لکھنے کا رواج بھی ڈالا۔ تراجمِ قرآن کی تازہ ترین شکل، عربی متن کے بغیر ترجمہ کا مختلف زبانوں میں چھاپا جانا ہے۔ یہا ں یہ واضح رہے کہ جب کبھی بھی اور جس ہئیت میں بھی ترجمہ کو شائع کیا گیا، اسے کبھی بھی نہ تو اصل عربی متن کا متبادل سمجھا گیا اور نہ ہی ترجمہ کی خواندگی کو تلاوتِ قرآن سمجھا گیا۔ تراجم کی کثرت کے باجود عجمی مسلمانوں نے بھی تلاوتِ قرآن کے لئے ہمیشہ عربی متن ہی کو استعمال کیا، خواہ وہ اس کے معنی و مطالب سے قطعاََ ناواقف ہی کیوں نہ ہوں۔ ترجمہ کی خواندگی کو ہمیشہ صرف اور صرف قرآن فہمی کے لےے ہی استعمال کیا جاتارہا ہے۔گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
(۱) عربی متن والا قرآن ہی اصل قرآن مجید ہے۔ کسی بھی زبان میں اور کوئی بھی ترجمہ، خواہ وہ کتنا ہی مصدقہ کیوں نہ ہو، اصل عربی قرآن کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ گویا تلاوتِ کلام پاک ہو یا نمازوں میں قراءت کا معاملہ، ہمیشہ صرف اور صرف عربی قرآن ہی پڑھا جائے گا۔
(۲) اصل عربی قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہوا ہے۔حتیٰ کہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی حفاظت سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا کسی بشر کی یہ مجال نہیں کہ اصل عربی قرآن میں تحریف کرسکے۔ نہ گذشتہ 14 صدیوں میں ایسا ہوسکا ہے اور نہ تا قیامت کبھی ایسا ہوسکتا ہے۔
(۳) تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی اور عربی یا عجمی کتاب کو قرآن کے طور پر پیش کرکے مسلمانوں یا غیر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوسکتاہے۔
قرآن کو سمجھنے سمجھانے کے لئے دیگر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہ کوشش جاری رہے گی۔انسانی کاوش ہونے کے سبب ایک ہی زبان کے مختلف تراجم کہیں کہیں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور باہم متضاد بھی۔ لیکن قرآنی الفاظ و آیات کے ایسے ترجموں کو جو باہم مختلف یا متضاد ہونے کے باوجود قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات اور اجمائے اُمت کے یکسر خلاف نہ ہوں، بالکلیہ مسترد نہیں کیاجاسکتا ۔ ہاں اگر کوئی ترجمہ یا مفہوم قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات اور اجمائے اُمت کے برعکس ہو تو اسے بلا شبہ مسترد کردیا جائے گا۔ جیسے خاتمة النبیّین کا وہ مفہوم و مطلب جو قادیانی حضرات بیان کرتے ہیں، پوری اُمت مسلمہ کے لےے قابلِ قبول نہیں۔ دلچسپ اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قادیانی حضرات بھی اپنے ترجمہ میں وہی عربی قرآن شائع کرتے ہیں، جو متفقہ طور پردرست ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تراجمِ قرآن کی کتابوں میں ساتھ ساتھ عربی عبارت کے لکھنے یا نہ لکھنے سے ترجمہ کے مصدقہ ہونے یا نہ ہونے کا کوئی تعلق نہیں۔ قرآن وحدیث میں جہاں غیر عربی زبانوں میں ترجمہ کو منع نہیں کیا گیا وہیں ایسی کوئی شرط بھی نظر نہیں آتی کہ ترجمہ قرآن کے ساتھ لازماََ عربی عبارت بھی درج کی جائے۔
ترجمہ کے ساتھ لازماََ عربی عبارت لکھے جانے کی احتیاط علمائے کرام نے وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اختیار کی تھی، جو اپنی جگہ بالکل درست تھی ۔کیونکہ آج سے محض سو سال قبل تک ہر چھپی ہوئی عبارت نہ صرف یہ کہ مصدقہ تصور کی جاتی تھی بلکہ عام قارئین کے لئے یہ ممکن بھی نہ تھا کہ وہ چھپی ہوئی عبارت کے مصدقہ ہونے کو چیک کر سکیں۔ لیکن آج صورتحال قدرے تبدیل ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں ایک علمی انقلاب آچکا ہے۔ دنیا ایک عالمی گائوں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی نے اس قدر فروغ پا لیا ہے کہ دنیا کا ہر علم محض جنبشِ انگلی سے کمپیوٹر اسکرین کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ ایسے میں جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے قرآنی علم کو بھی سہل الحصول بنانے کی غرض سے متعدد جدتیں اختیارکی ہیں۔ ایک طرف الیکٹرانک میڈیم میں بذریعہ انٹر نیٹ، جدید سرچ انجن کی بدولت قرآن کے الفاظ و معنی کے مطلوبہ مواد کی سُرعت و سہولت کے ساتھ دستیابی کو ممکن بنایا گیا ہے تو دوسری جانب پرنٹ میڈیم یعنی جرائد اور کتب کے روایتی تصورات میں بھی تبدیلی پیدا کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عربی متن پر مشتمل قرآن پاک کے پروٹوکول کا ایک خاص معیار بنا ہوا ہے، جس پر ہم لوگ اکثر اوقات پورا نہیں اترتے۔ لہٰذا عملاََ ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن کی تعلیمات سے دور رہ کر ہی گذارتے ہیں۔ ایسے میں بلا عربی متن والے تراجمِ قرآن پر مبنی کتب کی سب سے بڑی افادیت یہ ہے کہ اسے پڑھنے کے لئے کسی خاص اہتمام جیسے وضو وغیرہ کی شرعاََ ضرورت نہیں پڑتی اور شب و روز کی مختلف گہما گہمی میں جب اور جہاں چاہیں ،دیگر کتابوں کی طرح ان تراجم قرآن سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اس پس منظر میں قرآن کے عربی متن کے بغیر محض ترجموں پر مبنی کتب فروغ پاتی جارہی ہیں۔ خود ہمارے ملک میں عربی اور انگریزی کے ایسے کئی تراجم شائع ہوچکے ہیں، جن میں عربی متن کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے کرام اپنی سابقہ رائے سے رجوع فرمائیں۔ عربی عبارت کے ساتھ ترجمہ شائع کرنا بلا شبہ افضل ہے لیکن بلا عربی متن والے ترجموں کے ذریعہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ تک پیغامِ قرآن کی آسان رسائی کی بھی ہمت افزائی کی جانی چاہئے تاکہ مملکت کے اہم مناصب تک پہنچنے والے یہ جدید تعلیم یافتہ افراد بھی قرآنی تعلیمات سے کسی نہ کسی حد تک ضرور آگاہ ہو سکیں۔
پیغامِ قرآن پبلی کیشن کی جانب سے ایک ایسی ہی کاوش پیغامِ قرآن کے نام سے عوام کے سامنے آئی ہے۔ قرآن مجید کے مستند اوربامحاورہ اردو مفہوم کی موضوعاتی درجہ بندی، ذیلی عنوانات اور فہرستِ مضامین کی اضافی خوبیوں سے مزین اس کتاب کی مقبولیت اور مانگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔اس مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو زبان میں متعدد بامحاورہ تراجمِ قرآن کی موجودگی کے باوجودآج ایک عام اردو دا ںقاری کو قرآن کے ترجمہ کے مطالعہ کے دوران ایک نامانوس سی اجنبیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتب و رسائل کو آسانی کے ساتھ پڑھنے کی اہلیت رکھنے والا قاری بھی جب قرآن کا مطالعہ ترجمہ کے ساتھ شروع کرتا ہے تو چندصفحات کے مطالعہ کے بعد ہی اس کی توجہ بھٹکنے لگتی ہے۔ پیغامِ قرآن درحقیقت قارئین کی اسی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرتب کی گئی ہے۔ اگرآپ کثیر المطالعہ ہیں تو پیغامِ قرآن کے اس نسخہ کو بآسانی چند نشستوں میں ختم کرسکتے ہیں۔ دراصل ہم یا تو ایک ہی موضوع پر لکھی گئی کتاب کو روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں یا پھر ایسے کتب و جرائد کو جس کے متنوع موضوعات کی درجہ بندی واضح طور پر دکھائی دے۔ کتاب کے آغاز میں روایتی طور پر فہرستِ مضامین موجود ہو۔ ہر باب کے طویل متن کو مختصر نثر پاروں میں تقسیم کیا گیا ہو اور قارئین کی دلچسپی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ذیلی عنوانات یا سرخیاں بھی دی گئی ہوں۔ جب کہ تقریری اندازِبیان میں نازل ہونے والی قرآن مجید کی سورتوں کو تحریرِ مسلسل میں مرتب کیا گیا ہے۔ گویا قرآن اپنی بصری ہیئت میں بھی ان عام کتابوں جیسی نہیں ہے، جنہیں ہم روز و شب روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں۔
پیغامِ قرآن کے اصل متن اور ایک عام بامحاورہ ترجمہ قرآن میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ پیغامِ قرآن میں آیات کی ترتیب کو تبدیل کیے بغیر ہر پارے کی جملہ آیات کو مختلف پیراگراف میں تقسیم کرکے ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں اور پارہ کے آغاز میں ایسے تمام ذیلی عنوانات کی فہرست بھی دی گئی ہے ،تاکہ قارئین کو دورانِ مطالعہ کسی قسم کی اجنبیت محسوس نہ ہو اور وہ پیغامِ قرآن کو بھی اسی سہولت کے ساتھ پڑھ سکیں جس کے وہ عام مطالعہ کے دوران عادی ہیں۔ ہر پیراگراف کے آخر میں سورت اور آیت کا حوالہ بھی درج ہے تاکہ پیغامِ قرآن کے مطالعہ کے دوران اگر کہیں مزید وضاحت کی ضرورت محسوس ہو تو قرآن پاک کے اصل عربی متن اور دیگر تراجم و تفاسیر سے بآسانی رجوع کیا جاسکے۔
اللہ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغامِ قرآن کو پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس عظیم کام میں مصروفِ عمل افراد اوراداروں کی دامے ،درمے، قدمے، سخنے معاونت کی توفیق بھی دے۔ آمین ثمّ آمین۔
لوحِ محفوظ میں موجود قرآن مجید کو پہلے لیلة القدر میں نازل کیا گیا پھر یہی قرآن مجید حرف بہ حرف رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر بتدریج نازل کیا گیاہے۔ اِس آخری الہامی کتاب کے بعد چونکہ قیامت تک نہ تو کوئی نبی یا رسول آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی آسمانی صحیفہ نازل ہونے والا ہے۔ اس لئے اس قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اللہ تعا لیٰ کا فرمان ہے کہ : (ترجمہ)اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اُتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاو¿، اپنے سارے ہم نواو¿ں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو ، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھائو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، اور یقیناََ کبھی نہیں کر سکتے، تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو مہیا کی گئی ہے منکرینِ حق کے لئے ۔(سو رة البقرہ: ۳۲۔۴۲)
اسی طرح جب نزولِ قرآن کے ابتدائی ایّام میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کی پہنچائی ہوئی وحی کو یاد رکھنے کے لئے اسے جلدی جلدی دُہرایا کرتے تھے تو اللہ عز و جل کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی کہ (ترجمہ): اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔ اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ (القیامة: ۷۱۔۶۱) آج نہ صرف ہر مسلمان کا یہ جزو ایمان ہے کہ اس وقت جو عربی قرآن مجید دنیا میں موجود ہے، وہ حرف بہ حرف وہی ہے جو تقریباََ چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بلکہ دنیا بھر کے غیر مسلم محققین بھی تاریخی شہادتوں سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ قرآن دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود حرف بہ حرف اپنی اصل حالت میں آج بھی موجود ہے۔ قرآن کا یہ معجزہ تاقیا مت باقی رہنے والا ہے۔ کسی انسان کی یہ مجال نہیں کہ اصل قرآن میں تحریف یا ملا وٹ کر سکے۔
ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مجھے اپنے خواب میں دیکھا، اُس نے یقیناََ مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان کبھی میری شکل میں نہیں آسکتا (صحیح بخاری حدیث۔۰۱۱) ۔ محدثین اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شیطان کسی کے خواب میں آکر یہ بہکا بھی نہیں کہہ سکتا کہ نعو ذُ با للہ وہی رسولِ عربی ہے اوراُس کی فلاں فلاں ہدایت پر عمل کیا جائے۔ لہٰذا اس بات پر اجمائے اُمت ہے کہ جب کبھی کوئی مسلمان ایسا کوئی خواب دیکھے تو اُس خواب پر عمل کرنے سے پہلے تعلیماتِ قرآن و حدیث سے اس کی تصدیق ضرور کر لے۔ عین یہی بات قرآن پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ تو صحیح ہے کہ قرآن مجید تا قیامت اِس دنیا میں اپنی اصل حالت میں بلا تحریف موجود رہے گا، خواہ حفاظ کے سینوں میں محفوظ رہے یاکاغذ کے نسخوں پر۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ کسی انسانی خطا یا شیطانی چال کے باعث ، اغلاط سے پُر کوئی نسخہ قرآن دنیا میں کہیں سامنے نہ آسکے۔ اور جہاں تک غیر عربی زبان میں قرآن کے تراجم کا تعلق ہے، اول تو کوئی ترجمہ، خواہ کتنا ہی مصدقہ اور لفظ بہ لفظ ہی کیوں نہ ہو، قرآن کریم کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ تلاوت ِ کلام پاک ہو یا نماز میں اس کی قراء ت، عربی قرآن کے بغیر ایسا ممکن ہی نہیں۔ البتہ عربی زبان سے نا واقف لوگوں کے لئے ترجمہ قرآن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کی روشنی، عالمِ عرب کی حدود سے باہر پھیلی تو پیغامِ قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے دنیا کی ہر اہم زبان میں قرآن مجید کے تراجم کئے گئے۔ بلکہ ایک ایک زبان میں کئی کئی تراجم بھی کےے گئے۔
ابتدا میں عربی آیات کی سطور کے نیچے متعلقہ زبان میں لفظی ترجمہ لکھا جاتا رہا۔ جب یہ لفظی ترجمہ قرآن کے درست مفہوم کوادا کرنے سے قاصر رہا تو بعد ازاں بامحاورہ ترجمہ کی روایت ڈالی گئی۔ تراجم میں اجتہاد کا یہ سلسلہ رُکا نہیں بلکہ آگے ہی بڑھتا رہا۔ کبھی عربی متن کا ترجمہ حاشیہ میں لکھا گیا تو کبھی صفحہ کو عرضاََ دو حصوں میں تقسیم کرکے عربی آیات کے بالمقابل تراجم لکھے گئے ۔ کبھی صفحہ کو طولاََ دو حصہ میں تقسیم کر کے اوپر عربی اور نیچے ترجمہ کتابت کیا گیا۔ بلکہ ایک معتبر مترجم و مفسر نے تو ایک صفحہ پرعربی متن اور اس کے بالمقابل صفحہ پر ترجمہ لکھنے کا رواج بھی ڈالا۔ تراجمِ قرآن کی تازہ ترین شکل، عربی متن کے بغیر ترجمہ کا مختلف زبانوں میں چھاپا جانا ہے۔ یہا ں یہ واضح رہے کہ جب کبھی بھی اور جس ہئیت میں بھی ترجمہ کو شائع کیا گیا، اسے کبھی بھی نہ تو اصل عربی متن کا متبادل سمجھا گیا اور نہ ہی ترجمہ کی خواندگی کو تلاوتِ قرآن سمجھا گیا۔ تراجم کی کثرت کے باجود عجمی مسلمانوں نے بھی تلاوتِ قرآن کے لئے ہمیشہ عربی متن ہی کو استعمال کیا، خواہ وہ اس کے معنی و مطالب سے قطعاََ ناواقف ہی کیوں نہ ہوں۔ ترجمہ کی خواندگی کو ہمیشہ صرف اور صرف قرآن فہمی کے لےے ہی استعمال کیا جاتارہا ہے۔گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
(۱) عربی متن والا قرآن ہی اصل قرآن مجید ہے۔ کسی بھی زبان میں اور کوئی بھی ترجمہ، خواہ وہ کتنا ہی مصدقہ کیوں نہ ہو، اصل عربی قرآن کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ گویا تلاوتِ کلام پاک ہو یا نمازوں میں قراءت کا معاملہ، ہمیشہ صرف اور صرف عربی قرآن ہی پڑھا جائے گا۔
(۲) اصل عربی قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہوا ہے۔حتیٰ کہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی حفاظت سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا کسی بشر کی یہ مجال نہیں کہ اصل عربی قرآن میں تحریف کرسکے۔ نہ گذشتہ 14 صدیوں میں ایسا ہوسکا ہے اور نہ تا قیامت کبھی ایسا ہوسکتا ہے۔
(۳) تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی اور عربی یا عجمی کتاب کو قرآن کے طور پر پیش کرکے مسلمانوں یا غیر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوسکتاہے۔
قرآن کو سمجھنے سمجھانے کے لئے دیگر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہ کوشش جاری رہے گی۔انسانی کاوش ہونے کے سبب ایک ہی زبان کے مختلف تراجم کہیں کہیں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور باہم متضاد بھی۔ لیکن قرآنی الفاظ و آیات کے ایسے ترجموں کو جو باہم مختلف یا متضاد ہونے کے باوجود قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات اور اجمائے اُمت کے یکسر خلاف نہ ہوں، بالکلیہ مسترد نہیں کیاجاسکتا ۔ ہاں اگر کوئی ترجمہ یا مفہوم قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات اور اجمائے اُمت کے برعکس ہو تو اسے بلا شبہ مسترد کردیا جائے گا۔ جیسے خاتمة النبیّین کا وہ مفہوم و مطلب جو قادیانی حضرات بیان کرتے ہیں، پوری اُمت مسلمہ کے لےے قابلِ قبول نہیں۔ دلچسپ اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قادیانی حضرات بھی اپنے ترجمہ میں وہی عربی قرآن شائع کرتے ہیں، جو متفقہ طور پردرست ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تراجمِ قرآن کی کتابوں میں ساتھ ساتھ عربی عبارت کے لکھنے یا نہ لکھنے سے ترجمہ کے مصدقہ ہونے یا نہ ہونے کا کوئی تعلق نہیں۔ قرآن وحدیث میں جہاں غیر عربی زبانوں میں ترجمہ کو منع نہیں کیا گیا وہیں ایسی کوئی شرط بھی نظر نہیں آتی کہ ترجمہ قرآن کے ساتھ لازماََ عربی عبارت بھی درج کی جائے۔
ترجمہ کے ساتھ لازماََ عربی عبارت لکھے جانے کی احتیاط علمائے کرام نے وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اختیار کی تھی، جو اپنی جگہ بالکل درست تھی ۔کیونکہ آج سے محض سو سال قبل تک ہر چھپی ہوئی عبارت نہ صرف یہ کہ مصدقہ تصور کی جاتی تھی بلکہ عام قارئین کے لئے یہ ممکن بھی نہ تھا کہ وہ چھپی ہوئی عبارت کے مصدقہ ہونے کو چیک کر سکیں۔ لیکن آج صورتحال قدرے تبدیل ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں ایک علمی انقلاب آچکا ہے۔ دنیا ایک عالمی گائوں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی نے اس قدر فروغ پا لیا ہے کہ دنیا کا ہر علم محض جنبشِ انگلی سے کمپیوٹر اسکرین کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ ایسے میں جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے قرآنی علم کو بھی سہل الحصول بنانے کی غرض سے متعدد جدتیں اختیارکی ہیں۔ ایک طرف الیکٹرانک میڈیم میں بذریعہ انٹر نیٹ، جدید سرچ انجن کی بدولت قرآن کے الفاظ و معنی کے مطلوبہ مواد کی سُرعت و سہولت کے ساتھ دستیابی کو ممکن بنایا گیا ہے تو دوسری جانب پرنٹ میڈیم یعنی جرائد اور کتب کے روایتی تصورات میں بھی تبدیلی پیدا کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عربی متن پر مشتمل قرآن پاک کے پروٹوکول کا ایک خاص معیار بنا ہوا ہے، جس پر ہم لوگ اکثر اوقات پورا نہیں اترتے۔ لہٰذا عملاََ ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن کی تعلیمات سے دور رہ کر ہی گذارتے ہیں۔ ایسے میں بلا عربی متن والے تراجمِ قرآن پر مبنی کتب کی سب سے بڑی افادیت یہ ہے کہ اسے پڑھنے کے لئے کسی خاص اہتمام جیسے وضو وغیرہ کی شرعاََ ضرورت نہیں پڑتی اور شب و روز کی مختلف گہما گہمی میں جب اور جہاں چاہیں ،دیگر کتابوں کی طرح ان تراجم قرآن سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اس پس منظر میں قرآن کے عربی متن کے بغیر محض ترجموں پر مبنی کتب فروغ پاتی جارہی ہیں۔ خود ہمارے ملک میں عربی اور انگریزی کے ایسے کئی تراجم شائع ہوچکے ہیں، جن میں عربی متن کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے کرام اپنی سابقہ رائے سے رجوع فرمائیں۔ عربی عبارت کے ساتھ ترجمہ شائع کرنا بلا شبہ افضل ہے لیکن بلا عربی متن والے ترجموں کے ذریعہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ تک پیغامِ قرآن کی آسان رسائی کی بھی ہمت افزائی کی جانی چاہئے تاکہ مملکت کے اہم مناصب تک پہنچنے والے یہ جدید تعلیم یافتہ افراد بھی قرآنی تعلیمات سے کسی نہ کسی حد تک ضرور آگاہ ہو سکیں۔
پیغامِ قرآن پبلی کیشن کی جانب سے ایک ایسی ہی کاوش پیغامِ قرآن کے نام سے عوام کے سامنے آئی ہے۔ قرآن مجید کے مستند اوربامحاورہ اردو مفہوم کی موضوعاتی درجہ بندی، ذیلی عنوانات اور فہرستِ مضامین کی اضافی خوبیوں سے مزین اس کتاب کی مقبولیت اور مانگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔اس مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو زبان میں متعدد بامحاورہ تراجمِ قرآن کی موجودگی کے باوجودآج ایک عام اردو دا ںقاری کو قرآن کے ترجمہ کے مطالعہ کے دوران ایک نامانوس سی اجنبیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتب و رسائل کو آسانی کے ساتھ پڑھنے کی اہلیت رکھنے والا قاری بھی جب قرآن کا مطالعہ ترجمہ کے ساتھ شروع کرتا ہے تو چندصفحات کے مطالعہ کے بعد ہی اس کی توجہ بھٹکنے لگتی ہے۔ پیغامِ قرآن درحقیقت قارئین کی اسی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرتب کی گئی ہے۔ اگرآپ کثیر المطالعہ ہیں تو پیغامِ قرآن کے اس نسخہ کو بآسانی چند نشستوں میں ختم کرسکتے ہیں۔ دراصل ہم یا تو ایک ہی موضوع پر لکھی گئی کتاب کو روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں یا پھر ایسے کتب و جرائد کو جس کے متنوع موضوعات کی درجہ بندی واضح طور پر دکھائی دے۔ کتاب کے آغاز میں روایتی طور پر فہرستِ مضامین موجود ہو۔ ہر باب کے طویل متن کو مختصر نثر پاروں میں تقسیم کیا گیا ہو اور قارئین کی دلچسپی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ذیلی عنوانات یا سرخیاں بھی دی گئی ہوں۔ جب کہ تقریری اندازِبیان میں نازل ہونے والی قرآن مجید کی سورتوں کو تحریرِ مسلسل میں مرتب کیا گیا ہے۔ گویا قرآن اپنی بصری ہیئت میں بھی ان عام کتابوں جیسی نہیں ہے، جنہیں ہم روز و شب روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں۔
پیغامِ قرآن کے اصل متن اور ایک عام بامحاورہ ترجمہ قرآن میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ پیغامِ قرآن میں آیات کی ترتیب کو تبدیل کیے بغیر ہر پارے کی جملہ آیات کو مختلف پیراگراف میں تقسیم کرکے ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں اور پارہ کے آغاز میں ایسے تمام ذیلی عنوانات کی فہرست بھی دی گئی ہے ،تاکہ قارئین کو دورانِ مطالعہ کسی قسم کی اجنبیت محسوس نہ ہو اور وہ پیغامِ قرآن کو بھی اسی سہولت کے ساتھ پڑھ سکیں جس کے وہ عام مطالعہ کے دوران عادی ہیں۔ ہر پیراگراف کے آخر میں سورت اور آیت کا حوالہ بھی درج ہے تاکہ پیغامِ قرآن کے مطالعہ کے دوران اگر کہیں مزید وضاحت کی ضرورت محسوس ہو تو قرآن پاک کے اصل عربی متن اور دیگر تراجم و تفاسیر سے بآسانی رجوع کیا جاسکے۔
اللہ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغامِ قرآن کو پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس عظیم کام میں مصروفِ عمل افراد اوراداروں کی دامے ،درمے، قدمے، سخنے معاونت کی توفیق بھی دے۔ آمین ثمّ آمین۔