بلا عنوان از امینہ بتول

نور وجدان

لائبریرین
(پرانی تحریروں میں سے ایک)

تھیم: نارمل
"بلا عنوان"
تحریر : امینہ بتول

رات کی سیاہ ناگن پوری طرح اپنا پھن پھیلا چکی تھی اور مکمل شہر بلیک آؤٹ تھا. اس سمے نقرئ چاندنی کا بھی کوئی وجود نہ تھا کیونکہ دھویں اور گرد کے بادل چھائے ہوئے تھے. میں نے جیب سے نھنی منی سی ٹارچ نکالی اور عمارت کے ملبے پہ ڈالی..
منوں ملبہ ہٹانا تھا اور میرے ہاتھ ابھی اتنے بڑے اور طاقتور نہ تھے. میں سوچتا رہا کہ یہ ملبہ کیسے اٹھاؤں.. گھنگھور کالی رات اور خاموش تاریکی کے خوفناک سائے...... مجھے ملبہ ہٹانے کے لیے صبح کی سفیدی تک انتظار کرنا تھا... سنسناتی سرسراتی رات میں یہ ممکن نہ تھا.
اس تاریک رات کا ہر لمحہ سانس بن کر میرے اندر اتر رہا تھا مگر نجانے کیوں مجھے وحشت نہیں ہو رہی تھی. دکھ اور اذیت کی کوئ دھمالیں میرے وجود میں جنبش نہیں کر رہی تھیں. فزکس کے پروفیسر نے جو آخری لیکچر دیا تھا، اس میں انھوں نے بتایا تھا کہ جو ذی روح روشنی کی رفتار سے آگے ٹریول کر لے تو سب کچھ ریورس ہو کر نارمل ہو جاتا ہے.
شاید اس "انجیکشن" نے میرے لیے یہی کام کر دکھایا. میرا ریزسٹنس پوٹینشل ایسے مقام پہ آ چکا تھا جہاں زندگی کی اذیت ناک جدایئاں ایک ایسا dead sea بن جاتی ہیں کہ ڈوبنے والا ان میں ڈوب ہی نہیں سکتا. میں ایک "ٹھہراؤ" کے کنارے آ چکا تھا..
میری پیاری ماں کا دھندلا عکس آہستہ آہستہ رات کے اندھیرے میں گم ہونے لگا...
انابیہ میری محبت..! جو کچھ سالوں بعد میری بیوی بننے والی تھی، رات کے دھوئیں میں تحلیل ہو رہی تھی اور میں اسے کھو کر بھی کچھ محسوس نہیں کر رہا تھا...
ارمغان،، میرا آٹھ سالہ چھوٹا بھائی، جو ہمیشہ اپنے نوڈلز میرے لیے بچاتا تھا، وہ بھی رات کے فسوں میں تبدیل ہو رہا تھا...
سب کچھ میری آ نکھوں کے سامنے تحلیل ہو رہا تھا مگر میرا دماغ مجھے درد کا کوئی سگنل نہیں دے رہا تھا. رزسٹنس پوٹینشل کے انجکشن کے زیر اثر میرا دماغ روشنی کی رفتار سے آگے لہروں سے synchronized ہی تھا. کائنات کی گردشیں میرے اندر کوئی تلاطم پیدا نہ کر سکی تھیں.
میں نے اپنا فون نکالا، انٹرنیٹ کنکشن آن کیا اور ملبے کی چند تصاویر سوشل میڈیا پہ اپڈیٹ کر کے کیپشن لکھا:
"I am normal". God bless them
اس کے ساتھ ہی میں نے رزسٹنس پوٹینشل کا انجکشن فراہم کرنے والا لنک بھی شئر کر دیا.
چند ہی گھنٹوں میں میری پوسٹ وائرل ہو چکی تھی.

رات کا فسوں آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا...
...........................
وہ دونوں ایک لیب میں موجود تھے. جہاں نیم تاریکی اور خنکی تھی.
"کیا تمھیں یقین ہے کہ تمھارا یہ انجکشن کام کرے گا؟"
"سو فیصد. اس انجکش کا محلول انسان میں رزسٹنس پوٹینشل کی ایسی توانائی داخل کر دیتا ہے کہ اس کے دماغ کی لہریں کائنات میں وقت کی رفتار سے آگے بڑھ کر ہر چیز نارمل کر دیتی ہیں.. پورا دماغ کائنات سے synchronized ہوتا ہے.. یہ شعاعیں عام انسان کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں. یہ درد سے چھٹکارا دے کر انسان کو بے حس کر دیتی ہیں کیونکہ انسان کے دماغ کا رابطہ ایسی دنیا سے قائم ہو جاتا ہے جہاں درد اور حس کا کوئی وجود نہیں.
"اگر ایسا ہو گیا تو شاید کچھ عرصے بعد نوبیل انعام تمھیں مل جائے" ایک ساتھی نے دوسرے سے کہا.
بیئر کے گلاس ایک دوسرے سے ٹکرانے کی آواز گونجی. "cheers".
..........................
شام کی مقدس زیرزمین پہ صبح کے چھینٹے پڑے تو میں نے اپنے اکڑے ہوئے جسم کو سیدھا کیا جو ساری رات سے ایک ہی پوزیشن میں تھا.
حیرت در حیرت.. میں نے پہلو بدلنے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ مجھے کوئی درد محسوس نہیں ہوا تھا...
اب ملبہ ہٹانا تھا...گزشتہ رات کے فضائی حملوں کے بعد دور دور تک قبرستانوں اور سرد خانوں جیسی خاموشی تھی. سورج کی ہلکی ہلکی کرنوں میں مجھے ہر طرف ملبہ ہی ملبہ دکھائی دیا. میں نے بیگ سے ایک اوزار نکالا اور ملبہ کھودنا شروع کیا.. میرے ہاتھ کانپ نہیں رہے تھے.
تھوڑی دیر بعد میری ماں کی لاش برآمد ہوئی... اس کے چہرے پہ میرے انتظار کی تحریر لکھی تھی... گرد اور خون سے اٹی لاش... میں نے اپنے ہاتھوں سے ماں کو صاف کیا... میرے ہاتھ اب بھی نہیں کانپے تھے....
اسے جھاڑ کر میں نے دیکھا تو ماں کی تین انگلیاں ٹوٹ کر علیحدہ ہو چکی تھیں اور کہیں ملبے میں دبی پڑی تھیں... مجھے وہ انگلیاں ڈھونڈنی تھیں.. انھوں نے برسوں مجھے کھانا کھلایا تھا...
میرے رزسٹنس پوٹینشل کا توازن تھوڑا سا بگڑا اور میں نے بایئں پسلی میں ذرا سی اینٹھن محسوس کی..
انگلیاں ڈھونڈیں، مگر نہیں ملیں....!
ملبے کے دوسرے سرے تلے انابیہ سوئی پڑی تھی.. اسکے ہونٹ، بال اور چہرہ بھی پوری طرح سفید تھا. میں نے اپنی جیکٹ اتار کر اسکے سینے پہ ڈال دی. میری پسلی کی اینٹھن اب سینے تک پہنچ چکی تھی. رزسٹنس پوٹینشل کا لیول کم ہو رہا تھا اور میرا دماغ لامحدود waves اور زمان و مکان کی توانائی سے اپنا ربط پہلے جیسا برقرار نہیں رکھ پا رہا تھا..
پھر ارمغان کی نھنی منی سی لاش نکال کر میں نے گود میں اٹھا لی.. میرا رزسٹنس لیول کم ہوتے ہوتے آخری حد تک پہنچ چکا تھا.. لامحدود کا sync میرے دماغ سے قائم نہ رہا تھا. کائنات کی گردشیں آہستہ آہستہ میرے اندر سرایت کرنے لگی..
درد جیت گیا...!
میرا مصنوعی رزسٹنس پوٹینشل ہار گیا... میں پورے جسم میں درد اور اینٹھن محسوس کرنے لگا...
میں نے تینوں کی لاشیں دفنایئں اور ملبے کے ایک کونے میں بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے اپنا سٹیٹس edit کیا:
"آئ ایم ابنارمل".
باقی پوری دنیا نارمل تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں.. ایک راز بتاؤں، بے حس اور بے درد ہونے کے لیے رزسٹنس پوٹینشل کا انجکن لگوانا ضروری نہیں... یہ ہر دفعہ کام نہیں کرتا.
I know, you all are normal....! Don't pretend.
 

شمشاد

لائبریرین
ایک راز بتاؤں، بے حس اور بے درد ہونے کے لیے رزسٹنس پوٹینشل کا انجکن لگوانا ضروری نہیں... یہ ہر دفعہ کام نہیں کرتا.

ایک خوبصورت اور آنکھوں میں آنسو بھر لانے والی تحریر۔
شریک محفل کرنے کے لیے متشکر۔

(پتاری سے بہت کچھ برآمد ہو رہا ہے)
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
رات کی سیاہ ناگن پوری طرح اپنا پھن پھیلا چکی تھی اور مکمل شہر بلیک آؤٹ تھا. اس سمے نقرئ چاندنی کا بھی کوئی وجود نہ تھا کیونکہ دھویں اور گرد کے بادل چھائے ہوئے تھے. میں نے جیب سے نھنی منی سی ٹارچ نکالی اور عمارت کے ملبے پہ ڈالی..
منوں ملبہ ہٹانا تھا اور میرے ہاتھ ابھی اتنے بڑے اور طاقتور نہ تھے. میں سوچتا رہا کہ یہ ملبہ کیسے اٹھاؤں.. گھنگھور کالی رات اور خاموش تاریکی کے خوفناک سائے...... مجھے ملبہ ہٹانے کے لیے صبح کی سفیدی تک انتظار کرنا تھا... سنسناتی سرسراتی رات میں یہ ممکن نہ تھا.
اس تاریک رات کا ہر لمحہ سانس بن کر میرے اندر اتر رہا تھا مگر نجانے کیوں مجھے وحشت نہیں ہو رہی تھی. دکھ اور اذیت کی کوئ دھمالیں میرے وجود میں جنبش نہیں کر رہی تھیں. فزکس کے پروفیسر نے جو آخری لیکچر دیا تھا، اس میں انھوں نے بتایا تھا کہ جو ذی روح روشنی کی رفتار سے آگے ٹریول کر لے تو سب کچھ ریورس ہو کر نارمل ہو جاتا ہے.
شاید اس "انجیکشن" نے میرے لیے یہی کام کر دکھایا. میرا ریزسٹنس پوٹینشل ایسے مقام پہ آ چکا تھا جہاں زندگی کی اذیت ناک جدایئاں ایک ایسا dead sea بن جاتی ہیں کہ ڈوبنے والا ان میں ڈوب ہی نہیں سکتا. میں ایک "ٹھہراؤ" کے کنارے آ چکا تھا..
میری پیاری ماں کا دھندلا عکس آہستہ آہستہ رات کے اندھیرے میں گم ہونے لگا...
انابیہ میری محبت..! جو کچھ سالوں بعد میری بیوی بننے والی تھی، رات کے دھوئیں میں تحلیل ہو رہی تھی اور میں اسے کھو کر بھی کچھ محسوس نہیں کر رہا تھا...
ارمغان،، میرا آٹھ سالہ چھوٹا بھائی، جو ہمیشہ اپنے نوڈلز میرے لیے بچاتا تھا، وہ بھی رات کے فسوں میں تبدیل ہو رہا تھا...
سب کچھ میری آ نکھوں کے سامنے تحلیل ہو رہا تھا مگر میرا دماغ مجھے درد کا کوئی سگنل نہیں دے رہا تھا. رزسٹنس پوٹینشل کے انجکشن کے زیر اثر میرا دماغ روشنی کی رفتار سے آگے لہروں سے synchronized ہی تھا. کائنات کی گردشیں میرے اندر کوئی تلاطم پیدا نہ کر سکی تھیں.
میں نے اپنا فون نکالا، انٹرنیٹ کنکشن آن کیا اور ملبے کی چند تصاویر سوشل میڈیا پہ اپڈیٹ کر کے کیپشن لکھا:
"I am normal". God bless them
اس کے ساتھ ہی میں نے رزسٹنس پوٹینشل کا انجکشن فراہم کرنے والا لنک بھی شئر کر دیا.
چند ہی گھنٹوں میں میری پوسٹ وائرل ہو چکی تھی.

رات کا فسوں آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا...
...........................
وہ دونوں ایک لیب میں موجود تھے. جہاں نیم تاریکی اور خنکی تھی.
"کیا تمھیں یقین ہے کہ تمھارا یہ انجکشن کام کرے گا؟"
"سو فیصد. اس انجکش کا محلول انسان میں رزسٹنس پوٹینشل کی ایسی توانائی داخل کر دیتا ہے کہ اس کے دماغ کی لہریں کائنات میں وقت کی رفتار سے آگے بڑھ کر ہر چیز نارمل کر دیتی ہیں.. پورا دماغ کائنات سے synchronized ہوتا ہے.. یہ شعاعیں عام انسان کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں. یہ درد سے چھٹکارا دے کر انسان کو بے حس کر دیتی ہیں کیونکہ انسان کے دماغ کا رابطہ ایسی دنیا سے قائم ہو جاتا ہے جہاں درد اور حس کا کوئی وجود نہیں.
"اگر ایسا ہو گیا تو شاید کچھ عرصے بعد نوبیل انعام تمھیں مل جائے" ایک ساتھی نے دوسرے سے کہا.
بیئر کے گلاس ایک دوسرے سے ٹکرانے کی آواز گونجی. "cheers".
..........................
شام کی مقدس زیرزمین پہ صبح کے چھینٹے پڑے تو میں نے اپنے اکڑے ہوئے جسم کو سیدھا کیا جو ساری رات سے ایک ہی پوزیشن میں تھا.
حیرت در حیرت.. میں نے پہلو بدلنے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ مجھے کوئی درد محسوس نہیں ہوا تھا...
اب ملبہ ہٹانا تھا...گزشتہ رات کے فضائی حملوں کے بعد دور دور تک قبرستانوں اور سرد خانوں جیسی خاموشی تھی. سورج کی ہلکی ہلکی کرنوں میں مجھے ہر طرف ملبہ ہی ملبہ دکھائی دیا. میں نے بیگ سے ایک اوزار نکالا اور ملبہ کھودنا شروع کیا.. میرے ہاتھ کانپ نہیں رہے تھے.
تھوڑی دیر بعد میری ماں کی لاش برآمد ہوئی... اس کے چہرے پہ میرے انتظار کی تحریر لکھی تھی... گرد اور خون سے اٹی لاش... میں نے اپنے ہاتھوں سے ماں کو صاف کیا... میرے ہاتھ اب بھی نہیں کانپے تھے....
اسے جھاڑ کر میں نے دیکھا تو ماں کی تین انگلیاں ٹوٹ کر علیحدہ ہو چکی تھیں اور کہیں ملبے میں دبی پڑی تھیں... مجھے وہ انگلیاں ڈھونڈنی تھیں.. انھوں نے برسوں مجھے کھانا کھلایا تھا...
میرے رزسٹنس پوٹینشل کا توازن تھوڑا سا بگڑا اور میں نے بایئں پسلی میں ذرا سی اینٹھن محسوس کی..
انگلیاں ڈھونڈیں، مگر نہیں ملیں....!
ملبے کے دوسرے سرے تلے انابیہ سوئی پڑی تھی.. اسکے ہونٹ، بال اور چہرہ بھی پوری طرح سفید تھا. میں نے اپنی جیکٹ اتار کر اسکے سینے پہ ڈال دی. میری پسلی کی اینٹھن اب سینے تک پہنچ چکی تھی. رزسٹنس پوٹینشل کا لیول کم ہو رہا تھا اور میرا دماغ لامحدود waves اور زمان و مکان کی توانائی سے اپنا ربط پہلے جیسا برقرار نہیں رکھ پا رہا تھا..
پھر ارمغان کی نھنی منی سی لاش نکال کر میں نے گود میں اٹھا لی.. میرا رزسٹنس لیول کم ہوتے ہوتے آخری حد تک پہنچ چکا تھا.. لامحدود کا sync میرے دماغ سے قائم نہ رہا تھا. کائنات کی گردشیں آہستہ آہستہ میرے اندر سرایت کرنے لگی..
درد جیت گیا...!
میرا مصنوعی رزسٹنس پوٹینشل ہار گیا... میں پورے جسم میں درد اور اینٹھن محسوس کرنے لگا...
میں نے تینوں کی لاشیں دفنایئں اور ملبے کے ایک کونے میں بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے اپنا سٹیٹس edit کیا:
"آئ ایم ابنارمل".
باقی پوری دنیا نارمل تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں.. ایک راز بتاؤں، بے حس اور بے درد ہونے کے لیے رزسٹنس پوٹینشل کا انجکن لگوانا ضروری نہیں... یہ ہر دفعہ کام نہیں کرتا.
I know, you all are normal....! Don't pretend.
بہترین تحریر۔ انسان اور درد کا رشتہ ازل سے قائم ہے۔ درد انسان کو جہاں حقیقی زندگی سے آشنائی بخشتا ہے وہیں احترامِ آدمیت سے بھی روشناس کرواتا ہے۔ اس رشتے کو کمزور کرنا کسی رزسٹنس پوٹینشل کے انجکشن کے بس کی بات نہیں۔
شئیر کرنے کا بہت شکریہ نور۔
 

سیما علی

لائبریرین
تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا!!!
احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا!!!
بہت دل گداز تحریر ہے،
ایک کامیاب تحریر کا وصف ہے۔ جو دل کو چھو جائے، جو آنکھ کو نم کردے۔درد کے بغیر انسان، انسان نہیں۔اور یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں ممتاز کرتا ہے اور اشرف المخلوقات کے درجہ پہ پہنچاتی ہے
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار!!!!!
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک راز بتاؤں، بے حس اور بے درد ہونے کے لیے رزسٹنس پوٹینشل کا انجکن لگوانا ضروری نہیں... یہ ہر دفعہ کام نہیں کرتا.

ایک خوبصورت اور آنکھوں میں آنسو بھر لانے والی تحریر۔
شریک محفل کرنے کے لیے متشکر۔

(پتاری سے بہت کچھ برآمد ہو رہا ہے)
میں دیگر لوگوں کی بھی شئیر کرتی رہی گی. یہ تحریر امینہ بتول کی ہے. بہت اچھا لکھتی ہیں وہ:)
یہ تحریر شئیر کی تھی ... یہ افسانہ لکھا بہت اچھا گیا ہے:)
 

نور وجدان

لائبریرین
بہترین تحریر۔ انسان اور درد کا رشتہ ازل سے قائم ہے۔ درد انسان کو جہاں حقیقی زندگی سے آشنائی بخشتا ہے وہیں احترامِ آدمیت سے بھی روشناس کرواتا ہے۔ اس رشتے کو کمزور کرنا کسی رزسٹنس پوٹینشل کے انجکشن کے بس کی بات نہیں۔
شئیر کرنے کا بہت شکریہ نور۔
درد سے رشتہ کمزور کرنا کسی رزسٹنس پوسٹینشل کے انجیکشن کے بس کی بات نہیں ♥♥♥
 

نور وجدان

لائبریرین
تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا!!!
احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا!!!
بہت دل گداز تحریر ہے،
ایک کامیاب تحریر کا وصف ہے۔ جو دل کو چھو جائے، جو آنکھ کو نم کردے۔درد کے بغیر انسان، انسان نہیں۔اور یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں ممتاز کرتا ہے اور اشرف المخلوقات کے درجہ پہ پہنچاتی ہے
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار!!!!!
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
حقیقتا ایک کامیاب تحریر ہے ...
 
Top