زیدی صاحب قبلہ بات اتنی سادہ نہیں ہے حضور
چلیں شروع سے شروع کرتے ہیں۔
کوئی زائر، کسی مزار پر رکھے ڈبے میں پیسے کیوں ڈالتا ہے۔ ظاہر ہے بھئی نیک نیتی سے ڈالتا ہے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی نیت سے ڈالتا ہے اور صاحبِ مزار کے نام پر ڈالتا ہے۔ گو بہت سے مسلمانوں کو اس سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہاں تک سب درست ہے۔ اور چونکہ ثواب نیت ہی پر مل جاتا ہے سو چندہ دینے والے کو ثواب مل گیا، درست۔
لیکن اس سے آگے جو اسلام کہتا ہے کہ غور و فکر بھی کرو تو تھوڑا سے غور و فکر کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس مثال سے ظاہر ہے، یہ سارا چندہ محکمہ اوقاف کے پاس جاتا ہے، اور وہ ہے سرکاری، اب سرکار جس چیز کے ساتھ سرکاری اور پاکستانی سرکاری جڑ جائے اس کا حشر ہر کہ و مہ، ہر خاص و عام، ہر خواندہ و ناخواندہ کو علم ہے۔ جبری سرکاری زکوۃ کے نظام ہی کو لے لیں، اُس کا مصرف کیا ہے؟ آپ لاکھ اپنی سوچ مثبت رکھیں لیکن کیا آپ صد فی صد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جبری سرکاری زکوۃ صحیح استعمال ہوتی ہے؟ اگر نہیں ہوتی تو پھر رضاکارانہ سرکاری چندے کا مصرف کیسے صحیح ہوگا؟
حکومت شریف چاہے کسی شریف کی ہو یا شہید کی یا غازی کی، ہم سب پاکستانی جانتے ہیں کہ وہ ان چندوں سے اکھٹی ہونے والی رقم سے کئی گنا زیادہ ٹیکسوں سے اکھٹی ہوئی رقم کو بھی صحیح استعمال نہیں کرتے جو کہ وہ زبردستی لیتے ہیں اور اپنے اللوں تللوں پر خرچ کرتے ہیں تو ہم رضاکارانہ طور پر اللہ کے نام پر، صاحبِ مزار کے واسطے سے حکومت کے خزانے میں جو رقم بھیجتے ہیں اس کا حساب اُن سے کون لینے والا ہے؟ اور جو لے سکتا ہے اُس سے تو وہ ڈرتے نہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اللہ کی راہ میں اپنے صدقات وغیرہ خود مستحقین کو دیں، ہمارے اردگرد بیمار ہی بیمار ہیں، یتیم ہی یتیم ہیں، نادار ہی نادار ہیں، کیا ہی اچھا ہو ہم ان کا علاج کروا دیں، یتیموں بیواؤں کی کفالت کر لیں، کسی سفید پوش کو آنسوؤں اور سسکیوں اور آہوں سے نجات دلا دیں؟
ثواب تو پہلی صورت میں بھی ملتا ہے لیکن دنیا کسی کی بہتر نہیں ہوتی بلکہ الٹا ظالم کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں۔ ثواب دوسری صورت میں بھی ملے گا اور کسی بیکس، نادار، غریب، لاچار، بیمار، بیوہ، یتیم کی دعائیں منافع میں۔ اللہ ہی جانے کونسی صورت بہتر ہے، کونسی سوچ "مثبت" ہے؟