بلا عنوان

آج کلاس ٹیسٹ تھا۔ استاد صاحب بدستور چہرے پر سنجیدگی اور تھوڑی سی سختی لیے کمرہ جماعت میں داخل ہوئے۔ بچے۔۔۔۔جو کچھ ادھر اور کچھ ادھر مصروف تھے، ادب سے جگہ چھوڑ کر فوراً سے ڈیسکوں پر جا پہچنے اور وہ جو ڈیسکوں پر بیٹھے تھے فوراً ادب سے اٹھ کھڑے ہوئے۔​
"کلاس سٹینڈ۔۔۔" مانیٹر نے آواز لگائی
خاموشی اور خاموشی سے کشید ہوتا سکوت۔۔۔۔ سارےکمرے کی فضا پر کسی دبیز چادر کی طرح مسلط ہوگیا تھا۔
" سبھی بچے پیپر باہر نکال لیں، کتابیں بند اور بیگ میں۔ فوراً ۔" کسی فوجی آمر کی طرح حکم صادر کرتے ہوئے استاد صاحب کے چہرے کا تناو کچھ اور بڑھ گیا ۔۔۔ اس کے بعد وہ وائٹ بورڈ کی جانب متوجہ ہو کر ٹیسٹ کے سوالات لکھنے لگے۔ ٹیسٹ کا نام سن کر ہی کچھ بچے گھر سے نہیں آئے تھے، کچھ کے پیٹ میں درد شروع ہونے لگا تھا، کچھ شاید اس جلدی میں تھے کہ واش روم کا بہانہ بنا کر کھسک جائیں جب کہ کچھ پڑھاکو پوری مستعدی سے قلم کاغذ سنبھالے سیدھے ہو گئے تھے۔
سوالات لکھنے کے بعد استاد صاحب نے عینک کے شیشوں کے اوپر سے جھانکتے ہوئے ساری کلاس کا طائرانہ جائزہ لیا۔ پھر بڑی شانِ بے نیازی سے ایک چکرڈیسکوں کی دائیں رو اور ایک بائیں رومیں لگا کر اطمینان کیا کہ کسی کی کتاب کھلی نہ ہو۔ حسبِ معمول کئی بچوں کی کتابیں ڈیسک میں چھپی ہوئی ملیں، کئی نے تو جواب والے حصے میں کاغذ بھی رکھ لیے تھے کہ حسبِ موقع جلدی سے نقل کر لیں گے۔استاد صاحب بھی گھاگ تھے، پکڑ لی ساری دو نمبری، کہ یہی روزانہ کا معمول تھا۔
اس کے بعد وہ ڈائس پر کھڑے ہو کر سب کا جائزہ لینے لگے۔ ایک بچے نے گردن موڑ کر پیچھے دیکھنا چاہا، استاد کی للکار سے وہ سہم کر دوبارہ سے "کام سے کام" کے مقولے پر عمل کرنے لگا۔ ایک نے دوسرا کا ٹیسٹ پکڑنے کی کوشش کی اور اپنی جانب بڑھتی استاد کے قدموں کی چاپ سن کر ، سہم کر واپس ایسا ہی ہوگیا جیسے بالکل دودھ کا دھلا ہو۔
استاد صاحب جہاں رکتے قریبی ڈیسک کے طلبہ تیر کی طرح سیدھے ہوجاتے اور جہاں سے گزرجاتے بچے سکون کا سانس لیتے۔کمرہ جماعت میں چکر لگاتے ہوئے ان کی نظر قدموں سے ٹکرانے والے ایک جہاز پر پڑی۔۔۔۔ استعمال شدہ کاغذ کا جہاز۔۔۔۔ جہاز کے پر انھیں اپنے بچپن تک دراز ہوتے معلوم ہوئے۔۔۔۔۔ جہاز کے پر۔۔۔۔۔ہوا میں بلند ہوتے، اسے چیرتے، پھاڑتے،تیز تیز اوپر لے جاتے، ہوا میں گھماتے پر۔۔۔ اقبال کے شاہین سے زیادہ تیز اور زیادہ بلند پرواز۔۔۔۔
استاد صاحب کے دماغ کے نہاں خانوں سے بچپن کی نجانے کتنی ہی یادیں جھانکنے لگی تھیں ۔۔۔۔ اور پھر ان یادوں نے یلغار کردی تھی۔۔۔۔۔
بچپن۔۔۔۔! بے فکری کا بچپن، سکول کی استعمال شدہ کاپیوں اور اخبارات کو جہازاور کشتیان، مینڈک بناتا بچپن۔ تیز ہوا اور بارش میں والدین کی ڈانٹ سننے کے باوجود حوصلہ پکڑتا، موسموں سے لڑتا بچپن۔ بوتلوں کے ڈھکن میں بوتل کا پائپ پھنسا کر اینٹ سے چوٹ لگا کر اسے ہوا میں اچھالتا، خوشیاں مناتا جھومتا، گاتا، پتنگ کے پیچھے چھتوں کو پھلانگتا اورشاپر کے چھوٹے ٹکڑوں میں بھاری کنکر رکھ کر فضا میں اڑاتا بچپن۔۔۔۔۔۔۔
استاد صاحب نے جہاز کو اٹھا کر اس پر پھونک ماری۔۔۔۔۔۔جہاز کے پر پھڑ پھڑا ئے، وہ اڑنے کے لیے تیار تھا۔ استاد صاحب کا دل بھی ساتھ اڑنا چاہتا تھا پروہ ساری جماعت کے سامنے اسے کیسے اڑائیں ؟ اور باہر جا کر بھی کیسے اڑائیں ؟ مگر دل تو بچہ ہی جی۔۔۔! ایک دم سے سارے تحفظات جذبات پر غالب آگئے۔ استاد صاحب نے پروں پر پھونک مار کراسے اڑا دیا۔ جہاز چھوٹی سے پرواز کے بعد آخری بینچوں کے پاس جا گرا۔ ایک خواب حقیقت سے ہم کنار ہوا۔۔۔ کلاس میں کچھ کام چور بچے جو استاد صاحب کی جانب کن اکھیوں سے دیکھ رہے تھے۔ان میں سے ایک اٹھ کھڑا ہوا۔
"یہ بھی لیں سر۔" اس نے بڑے پیار اور مان سے ڈیسک سے ایک جہاز نکال کر آگے کر دیا۔ استاد صاحب کے چہرے پر آتی مسکراہٹ کو دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ چند بچے اور اٹھ کھڑے ہوئے اور جہاز آگے کر دیے۔ استاد صاحب حیران ہوئے کہ اتنے جہاز۔۔۔۔چھپا کہاں رکھے تھے انھوں نے؟ مگر اس وقت تفکر پر سرشاری کا غلبہ تھا۔ انھوں نے ایک اور جہاز لے کر ہوا کے دوش پر چھوڑ دیا۔ استاد صاحب کی حوصلہ افزا مسکراہٹ دیکھ کر متوالے اٹھ کھڑے ہوئے ، کسی نے بیگ سے جہاز نکالا، کسی نے ڈیسک سے اور کسی نے ڈیسک کے نیچے پڑے جہاز کے پر جلدی جلدی سیدھے کیے اور کمرے میں اڑا دیا۔ اب ہر طرف جہاز اڑ رہے تھے، مسکراہٹیں بکھر رہی تھیں، قہقہے لگ رہے تھے، بچے ایک دوسرے سے مذاق کر رہے تھے اور استاد صاحب اس ساری صورتِ حال سے محظوظ ہو رہے تھے۔ بچوں کے چہروں پر سجی سچی ہنسی اور بچپن کی بے فکری انھیں ان کے بچپن کی یادوں سے ہمکنار کر رہی تھی، سرشار کر رہی تھی اور وہ نجانے کیسے اچانک اتنے دن بعد اتنی روحانی خوشی محسوس کر رہے تھے۔۔۔کچھ دیر ادھر سے ادھر اڑتے جہازوں میں وہ خود بھی اڑتے رہے تھے پھر تیزی سے امتحان میں بہتر نتیجہ نہ دینے کی صورت میں الاونس کٹ جانے اور بچوں کے فیل ہو جانے کا خوف انھیں زبردستی خوابوں کی دنیا سے حقیقت میں گھسیٹ لایا اور ان کا لہجہ نیم سنجیدہ ہوگیا۔
" بس کرو بیٹا۔ چھوڑو یہ جہاز اور دوبارہ سے ٹیسٹ کرنا شروع کرو، وقت تھوڑا ہے، شاباش۔۔۔! "​
انھوں نے حکم صادر فرمایا
اس کے بعد وہ پھر سے کلاس میں چکر لگانے لگے تھے جبکہ پہلے سے زیادہ جہاز ان کے جوتے سے ٹکرانے لگے تھے۔۔۔۔!
خرم​
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
ماشاء اللہ
کیا خوب تحریر ہے
بچپن کے دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
اللہ سوہنا سدا قلم کو روشن الفاظ تحریر کرنے کی توفیق سے نوازتا رہے آمین
بہت دعائیں
 

ام اویس

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے کلاس روم میں پہنچا دیا

لیکن مجھے کچھ اور بھی دکھائی دے رہا ہے آپ بھی دیکھیں ذرا

کچھ دیر ادھر سے ادھر اڑتے جہازوں میں وہ خود بھی اڑتے رہے تھے
اچانک ان کی نظر ایک ایسے جہاز پر پڑی جس پر باریک سیاہ دھاریاں سی نظر آرہی تھی ان کی نظروں کے سامنے پی آئی اے ، ائیر بلو ، امریٹس سے لے کر میراج ، جے ایف تھنڈر ، ایف سکسٹین سبھی جہاز گھومنے لگے ۔ اُڑاتے اُڑاتے یک لخت ہاتھ کو روک لیا اور جونہی اسے غور سے دیکھا تو اس پر آج کے ٹیسٹ سے متعلق سوالات کے جواب نہایت فنکاری سے صفحے کے چاروں طرف لکھے گئے تھے ۔ انہوں نے ایک اور اڑتے ہوئے جہاز کو فضا سے ہی چابکدستی سے کیچ کیا کھولنے پر وہاں بھی نقل کرنے والوں کی مہارت کے ثبوت ان کی روحانی خوشی کوملیا میٹ کرنے کو تیار تھے
استاد محترم کی خدمت میں فخر سے اپنے سُدھ جہاز پیش کرتے بچوں نے بدلتے حالات کی نزاکت کو فورا بھانپ لیا اور اپنی اپنی سیٹوں پر یوں دبک گئے جیسے شہری علاقے پر گولہ باری کے وقت لوگ مورچوں میں چھپ جاتے ہیں ۔
استاد صاحب نے جہاز کو اپنی مٹھی میں مروڑا مسکراہٹ کا گلا گھونٹا ، لمبا سانس لیا اور چہرے پر سنجیدگی کی چھاپ لیے حسب سابق کمرے کے چکر لگانے لگے
 
Top