ایک پروفیسر کے بارے میں مشہور تھا کہ جب ان سے کوئی سوال پوچھا جاتا تو وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے، جب تک کہ پوری تفصیل اور تسلی سے جواب دے دیں۔ بلکہ بعض اوقات تو سوال پوچھنے والا تنگ آکر اس وقت کو کوستا جب اس نے ان سے سوال کیا تھا۔ ایک صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر صاحب لائبریری میں بیٹھے تھے کہ میرے ذہن میں ایک سوال آیا، جومیں نے غلطی سے پروفیسر صاحب سے پوچھ لیا ۔ میں نے دریافت کیا کہ حضرت یہ بتائیے کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث ؟
پروفیسرصاحب اس وقت کسی کتاب کے مطالعے میں محوتھے۔ میرا سوال سن کر موصوف نے کتاب بند کی ، ایک لمحے کو کچھ سوچا، پھر مسکرا کر گویا ہوئے " میاں ! بلبل مذکر ہے "
میں نے شکریہ ادا کیا اور جواب سے مطمئن ہوگیا۔ اس واقعے کہ کچھ روز بعد ایک شام میرے دروازے پر دستک ہوئی۔گھر میں اس وقت کچھ مہمان بیٹھے تھے۔ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ پروفیسر صاحب موصوف کھڑے ہیں۔ میں نے پوچھا پروفیسر صاحب خیریت تو ہے؟ آپ میرے غریب خانے پر اس وقت ؟ پروفیسر صاحب کہنے لگے " میاں اس روز آپ نے پوچھا تھا کہ بلبل مذکر ہے یا مؤنث ؟ اور میں نے جواب دیا تھا کہ بلبل مذکر ہے ۔ لیکن آج ہی مرزا غالب کا ایک مصرعہ نظر سے گزرا
بلبلیں سن کر میرے نالے غزل خواں ہوگئیں
غالب کا شمار چونکہ اہل زباںاور مستند شعراء میں ہوتا ہے لہذا اس مصرعے کی رو سے بلبل مؤنث ہے۔
میں نے انکے خلوص و محبت کا شکریہ ادا کیا کہ وہ بے چارے میرے سوال کا جواب دینے میرے گھر تشریف لائے۔ ابھی چند روز گزرے تھے کہ ایک صبح میرے دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی۔ میں گہری نیند میں تھا دستک کی آواز سنی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ دروازہ کھولا تو پروفیسر صاحب دروازے پر کھڑے مسکرا رہے تھے۔ میں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور صبح صبح تشریف آوری کا سبب دریافت کیا۔ پروفیسر صاحب فرمانے لگے " میاں ! کچھ روز قبل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ غالب کے مصرع کی رو سے بلبل مؤنث ہے ، لیکن آج صبح جب میں کلیات اقبال پڑھ رہا تھا تو ایک شعر نظر سے گزرا
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
علامہ اقبال چونکہ شاعر مشرق ہےان سے زیادہ مستند کس کی رائے ہوسکتی ہے، لہذا اس شعر کی روشنی میں آپ بلبل کو مذکر ہی سمجھے۔ میں نے پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کیا اور انکے جانے کے بعد خدا کا بھی شکریہ ادا کیا کہ چلو اس بلبل والے قصے سے تو جان چھوٹی، لیکن میرے ایسے نصیب کہاں !!!
ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا ہوگا میں ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن تھا، دروازے پر دستک ہوئی ۔ دروازے پر گیا تو دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کھڑے ہیں ان سے چند فٹ کے فاصلے پر بہت سی کتابیں ایک عدد گدھے پر لدی ہوئی تھیں۔ اس روز پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی میں نے حیرت سے پوچھا " پروفیسر صاحب یہ کیا معاملہ ہے "
فرمانے لگے میاں ! آپ کے سوال پر بہت تحقیق کی ہے اور بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ اس گدھے کے دائیں جانب جو کتابیں لدی ہیں انکی رو سے بلبل مذکر ہے جبکہ بائیں جانب والی کتابوں کی رو سے بلبل مؤنث ہے۔ اب فیصلہ آپ خود ہی کر لیجئے اور مجھےاجازت دیں ایک ضروری کام یاد آگیا ہے
انکے جانے ہی میں نے اللہ سے توبہ کی کہ آج کے بعد پروفیسرصاحب سے کوئی سوال نہ پوچھو گا ۔۔۔