جاسم محمد
محفلین
بلوچستان کے پسماندہ گاؤں کا سپیس سائنس دان
ڈاکٹر یارجان عبدالصمد کیمبرج یونیورسٹی میں سپیس ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔
رمیشہ علی نامہ نگار، کراچی
ہفتہ 22 جون 2019 0:45
’بچپن میں ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں ہوتی تھی اس لیے پہلی بار جب ہم کراچی آئے تو شہر کی روشنیاں میرے لیے بالکل نئی تھیں، ایسا لگتا تھا جیسے ستارے زمین پر آگئے ہیں۔ اُس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ ایک دن سپیس سائنس پر کام کرنے کا موقع ملے گا۔‘
یہ کہنا تھا برطانیہ کی بہترین کیمبرج یونیورسٹی کے گرافین سینٹر میں بطور سینئیر سائنس دان کام کرنے والے پاکستان کے پہلے سپیس سائنٹسٹ ڈاکٹر یارجان عبدالصمد کا۔
ڈاکٹر یارجان نے ابتدائی تعلیم تربت سے 50 کلومیٹر دور بلیدہ کے سکول میں حاصل کی، جس کے بعد وہ تعلیم کی غرض سے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ کراچی آ گئے۔
انہوں نے کراچی کے علاقے لیاری میں رہائش اختیار کی جہاں کے گورنمنٹ بوائز سکول سے میٹرک مکمل کرنے کے بعد صدر میں واقع ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے انہوں نے خیبرپختونخوا میں غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ برائے انجینئیرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا جہاں سے میٹیریولوجی اور میٹیریل سائنس میں ڈگری حاصل کی۔
امریکہ کی ایک بہترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنی پوسٹ ڈاکٹورل ڈگری برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی۔
ڈاکٹر یارجان نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’جب ہم گاؤں سے پہلی دفعہ کراچی کے لیے نکلے تواس وقت ان کی سوچ بہت چھوٹی تھی۔ نہ کوئی ایکسپوژر تھا اور نہ ہی کسی چیز کی سمجھ بوجھ۔ یہاں تک کہ کراچی کی روشنیاں اور چمک دمک بھی ہمارے لیے نئی تھی‘۔
انہوں نے بتایا کہ جب گاؤں سے نکلے تھے تو اُس وقت یہ نہیں سوچا تھا کہ سائنس کے میدان میں کام کرنا ہے اور ریسرچ کرنی ہے بلکہ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کالج اور یونیورسٹی کیا ہیں، لیکن سخت محنت اور لگن سے ان کے لیے راستے بنتے چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا: ’میری کامیابی میں ایک بڑا کردارغلام اسحاق خان یونیورسٹی میں میرے استادِ محترم پروفیسر فضل احمد خالد کا بھی ہے، جنہوں نے مجھ میں دنیا کی بہترین جامعات میں جا کر ریسرچ کرنے کی لگن پیدا کی۔‘
ڈاکٹر یارجان کیمبرج یونیورسٹی کے گرافین سینٹر میں دیگر سائنس دانوں کے ہمراہ ایسے آلات تخلیق کرتے ہیں جو زیرو گریویٹی میں بھی سیٹلائیٹ اور خلائی جہاز میں کارآمد ثابت ہو سکیں۔
ان آلات کو تیار کرنے کے لیے ائیرکرافٹس استعمال کیے جاتے ہیں جیسے کہ پیرابولک فلائٹ، سائونڈنگ راکٹ اور عنقریب سپیس رائیڈر کا استعمال بھی ممکن ہے۔ ان تجربات کو انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بھی لے جایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے زیرو گریویٹی میں کام کرنے کے تجربے کے حوالے سے بتایا کہ ’زیرو گریویٹی میں کام کرنے کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ انسان اپنا وزن بالکل محسوس نہیں کرتا اور دل و دماغ پر بھی ایک سکون کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اس لیے یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر انسان کو ضرور کرنا چاہیے۔ اس کا دوسرا پہلو مشکلات سے بھرپور ہے۔ وہ آلات جو ہم خلا میں استعمال کرنے کے لیے بناتے ہیں اور ان کے حوالے سے جو تخمینہ لگاتے ہیں وہ زیرو گریویٹی میں جانے کے بعد بالکل مختلف نتائج دیتے ہیں۔ جنہیں سمجھنے اور حل کرنے میں ہمیں اکثر کافی وقت لگ جاتا ہے۔‘
گذشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے سابق وزیر اطلاعات اور نشریات فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان 2022 میں چین کی مدد سے اپنا پہلا سپیں مشن خلا میں بھیجے گا اور اس حوالے سے سپارکو اور ایک چینی کمپنی میں معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔
گذشتہ سال جولائی میں ہی پاکستان نے چین کی مدد سے مدار میں دو سیٹلائیٹ بھی بھیجے ہیں جن میں سے ایک کا نام ’پی آر ایس ایس ون‘ اور دوسرے کا نام ’پاک ٹیس ون اے‘ ہے، جو سپارکو کے انجینئیرز نے تخلیق کیے۔
ان دونوں سیٹلائیٹس کو چین کے جیکوان سیٹلائیٹ لانچ سینٹر کی مدد سے خلا میں بھیجا گیا کیوں کہ پاکستان میں اس وقت سیٹلائیٹ لانچنگ ٹیکنالوجی کی سہولت میسر نہیں۔
ڈاکٹر یارجان سپیس سائنٹسٹ بننے کے خواہش مند پاکستانی ہونہار نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’اگر پاکستان 2022 میں انسان کو خلا میں بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس سے قبل ان آلات پر کام ہونا ضروری ہے جو زیرو گریویٹی میں کام کرسکیں اور پاکستان کا خلائی مشن کامیاب ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس ٹیکنالوجی پر کام کرنے سے نہ صرف پاکستانی نوجوانوں کا رجحان اس طرف بڑھے گا بلکہ طالبِ علم مختلف سپیس پراجیکٹ مقابلوں میں حصہ بھی لیں گے۔‘
پاکستان میں اس وقت صرف تین ادارے ہیں جو سپیں سائنس کے حوالے سے تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب اور دی انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد، لیکن ان تینوں اداروں میں ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کے لیے جو انفراسٹرکچر اور سہولیات درکار ہیں، وہ میسر نہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر یارجان کا کہنا تھا: ’میں اور کچھ دیگر اوورسیز پاکستانی ارادہ رکھتے ہیں کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کریں جس کے تحت پاکستانی طلب علم بہتریں ماحول میں سپیں ٹیکنالوجی کے حوالے سے کام کرسکیں گے۔‘
ڈاکٹر یارجان عبدالصمد کیمبرج یونیورسٹی میں سپیس ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔
رمیشہ علی نامہ نگار، کراچی
ہفتہ 22 جون 2019 0:45
’بچپن میں ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں ہوتی تھی اس لیے پہلی بار جب ہم کراچی آئے تو شہر کی روشنیاں میرے لیے بالکل نئی تھیں، ایسا لگتا تھا جیسے ستارے زمین پر آگئے ہیں۔ اُس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ ایک دن سپیس سائنس پر کام کرنے کا موقع ملے گا۔‘
یہ کہنا تھا برطانیہ کی بہترین کیمبرج یونیورسٹی کے گرافین سینٹر میں بطور سینئیر سائنس دان کام کرنے والے پاکستان کے پہلے سپیس سائنٹسٹ ڈاکٹر یارجان عبدالصمد کا۔
ڈاکٹر یارجان نے ابتدائی تعلیم تربت سے 50 کلومیٹر دور بلیدہ کے سکول میں حاصل کی، جس کے بعد وہ تعلیم کی غرض سے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ کراچی آ گئے۔
انہوں نے کراچی کے علاقے لیاری میں رہائش اختیار کی جہاں کے گورنمنٹ بوائز سکول سے میٹرک مکمل کرنے کے بعد صدر میں واقع ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے انہوں نے خیبرپختونخوا میں غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ برائے انجینئیرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا جہاں سے میٹیریولوجی اور میٹیریل سائنس میں ڈگری حاصل کی۔
امریکہ کی ایک بہترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنی پوسٹ ڈاکٹورل ڈگری برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی۔
ڈاکٹر یارجان نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’جب ہم گاؤں سے پہلی دفعہ کراچی کے لیے نکلے تواس وقت ان کی سوچ بہت چھوٹی تھی۔ نہ کوئی ایکسپوژر تھا اور نہ ہی کسی چیز کی سمجھ بوجھ۔ یہاں تک کہ کراچی کی روشنیاں اور چمک دمک بھی ہمارے لیے نئی تھی‘۔
انہوں نے بتایا کہ جب گاؤں سے نکلے تھے تو اُس وقت یہ نہیں سوچا تھا کہ سائنس کے میدان میں کام کرنا ہے اور ریسرچ کرنی ہے بلکہ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کالج اور یونیورسٹی کیا ہیں، لیکن سخت محنت اور لگن سے ان کے لیے راستے بنتے چلے گئے۔
ان کا کہنا تھا: ’میری کامیابی میں ایک بڑا کردارغلام اسحاق خان یونیورسٹی میں میرے استادِ محترم پروفیسر فضل احمد خالد کا بھی ہے، جنہوں نے مجھ میں دنیا کی بہترین جامعات میں جا کر ریسرچ کرنے کی لگن پیدا کی۔‘
ڈاکٹر یارجان کیمبرج یونیورسٹی کے گرافین سینٹر میں دیگر سائنس دانوں کے ہمراہ ایسے آلات تخلیق کرتے ہیں جو زیرو گریویٹی میں بھی سیٹلائیٹ اور خلائی جہاز میں کارآمد ثابت ہو سکیں۔
ان آلات کو تیار کرنے کے لیے ائیرکرافٹس استعمال کیے جاتے ہیں جیسے کہ پیرابولک فلائٹ، سائونڈنگ راکٹ اور عنقریب سپیس رائیڈر کا استعمال بھی ممکن ہے۔ ان تجربات کو انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بھی لے جایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے زیرو گریویٹی میں کام کرنے کے تجربے کے حوالے سے بتایا کہ ’زیرو گریویٹی میں کام کرنے کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ انسان اپنا وزن بالکل محسوس نہیں کرتا اور دل و دماغ پر بھی ایک سکون کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اس لیے یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر انسان کو ضرور کرنا چاہیے۔ اس کا دوسرا پہلو مشکلات سے بھرپور ہے۔ وہ آلات جو ہم خلا میں استعمال کرنے کے لیے بناتے ہیں اور ان کے حوالے سے جو تخمینہ لگاتے ہیں وہ زیرو گریویٹی میں جانے کے بعد بالکل مختلف نتائج دیتے ہیں۔ جنہیں سمجھنے اور حل کرنے میں ہمیں اکثر کافی وقت لگ جاتا ہے۔‘
گذشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے سابق وزیر اطلاعات اور نشریات فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان 2022 میں چین کی مدد سے اپنا پہلا سپیں مشن خلا میں بھیجے گا اور اس حوالے سے سپارکو اور ایک چینی کمپنی میں معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔
گذشتہ سال جولائی میں ہی پاکستان نے چین کی مدد سے مدار میں دو سیٹلائیٹ بھی بھیجے ہیں جن میں سے ایک کا نام ’پی آر ایس ایس ون‘ اور دوسرے کا نام ’پاک ٹیس ون اے‘ ہے، جو سپارکو کے انجینئیرز نے تخلیق کیے۔
ان دونوں سیٹلائیٹس کو چین کے جیکوان سیٹلائیٹ لانچ سینٹر کی مدد سے خلا میں بھیجا گیا کیوں کہ پاکستان میں اس وقت سیٹلائیٹ لانچنگ ٹیکنالوجی کی سہولت میسر نہیں۔
ڈاکٹر یارجان سپیس سائنٹسٹ بننے کے خواہش مند پاکستانی ہونہار نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’اگر پاکستان 2022 میں انسان کو خلا میں بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس سے قبل ان آلات پر کام ہونا ضروری ہے جو زیرو گریویٹی میں کام کرسکیں اور پاکستان کا خلائی مشن کامیاب ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس ٹیکنالوجی پر کام کرنے سے نہ صرف پاکستانی نوجوانوں کا رجحان اس طرف بڑھے گا بلکہ طالبِ علم مختلف سپیس پراجیکٹ مقابلوں میں حصہ بھی لیں گے۔‘
پاکستان میں اس وقت صرف تین ادارے ہیں جو سپیں سائنس کے حوالے سے تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب اور دی انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد، لیکن ان تینوں اداروں میں ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کے لیے جو انفراسٹرکچر اور سہولیات درکار ہیں، وہ میسر نہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر یارجان کا کہنا تھا: ’میں اور کچھ دیگر اوورسیز پاکستانی ارادہ رکھتے ہیں کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کریں جس کے تحت پاکستانی طلب علم بہتریں ماحول میں سپیں ٹیکنالوجی کے حوالے سے کام کرسکیں گے۔‘