بلڈ پریشر پر مفید معلومات

بلڈ پریشر کی بیماری، اس کے اسباب، اس کی تشخیص اور جانچنے کا طرہقہ وغیرہ بہت کچھ مفید باتیں آپ کو بتائی اور سکھائی جائیں گی، اور آخر میں بلڈ پریشر کی دواؤں سے بھی متعارف کرایا جائے گا۔ یہ سلسلہ قسطوں میں جاری رہے گا۔ فی الحال شروع کرتے ہیں۔

بلڈ پریشر کا مضمون دیکھیے
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب

اگر وہی مضمون یہاں بھی چسپاں کر دیتے تو اچھا رہتا۔

اس کے متعلق کچھ معلومات یہاں بھی ہیں۔
 
ضرور، جناب آپ کے حکم کی تعمیل کیجائے گی، لیکن ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس لڑی کو جاری رکھنا ہے اور قسطوں میں بلڈ پریشر سے متعلق بہت سی باتیں لکھنی ہیں، موجودہ مضمون تو یہاں چسپاں کردوں گا، لیکن آئندہ قسطوں کی اشاعت کا وعدہ نہیں کر سکتا، اس کی ایک وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم نے سو زائد ڈاکٹروں کو مذکورہ فورم پر دعوت دے رکھی ہے اور ان کی معلومات سے بھی استفادہ کرنا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ شوق سے اس لڑی کو جاری رکھیں۔ میں اس میں سے غیر ضروری پیغامات کہیں اور منتقل کر دوں گا۔

اوپر میں نے ایک ربط دیا تھا، ایک نظر اسے بھی دیکھ لیجیئے گا۔
 
Blood pressurبلڈ پریشر کیا ہے؟

ڈاکٹری اصطلاح میں بلڈ پریشر سے مراد دل کے پمپ کرنے سے بڑی خونی رگوں پر پڑنے والا دباؤ ہے. مجموعاً آپ کا بلڈ پریشر جتنا کم ہوگا آپ طولانی مدت میں سالم رہیں گے (مگر بہت کم موارد میں کہ جب بہت لو بلڈ پریشر ان کی بیماری کا ایک حصہ ہو)۔

خونی گردش کا نظام Blood Circulating System​

پھیپھڑوں میں موجود ہوا میں پایا جانے والا آکسیجن خون کے ذریعے سپلائی ہوتا ہے. آکسیجن پر مشتمل خون دل میں وارد ہوتا ہے اور دل بھی ایک پمپ کی طرح شریان نامی رگوں کے ذریعے سے بدن کے تمام حصو ں میں اس خون کو پہنچاتا ہے. بڑی خونی رگیں چھوٹی شاخوں میں تقسیم ہوتی ہیں. یہ چھوٹی شاخیں بھی اور چھوٹی شاخوں اور پھر اور چھوٹی شاخوں میں تقسیم ہوتی ہیں اور آخر میں عروق شعریہ (Capillary) نامی باریک رگوں کا ایک شبکہ (Plexus) تشکیل دیتی ہیں. عروق شعریہ کا یہ شبکہ بدن کے تمام خلیات (Cells) کے کنارے سے گزر کر خلیات کو آکسیجن پہنچاتا ہے تاکہ خلیات بھی اپنی ضرورت بھر انرجی (توانائی) حاصل کریں. جب خون اپنا آکسیجن خلیات کو دے دیتا ہے تو بغیر آکسیجن کا ہوکر ورید نامی رگوں کے ذریعے دل میں واپس لوٹ جاتا ہے. پھر دل اس بغیر آکسیجن کے خون کو پھیپھڑوں تک پہنچاتا ہے تا کہ وہاں سے آکسیجن حاصل کرے. ہر دھڑکن میں عضلات قلب منقبض ہوتے ہیں تاکہ خون کو پورے بدن میں پہنچا سکیں. انقباض قلب کے وقت وجود میں آنے والافشار زیادہ سے زیادہ فشار رکھتا ہے کہ جسکو انقباضی فشار Systolic pressur(یا Maximum) کہتے ہیں پھر عضلات قلب ڈھیلے ہوکر پھیل جاتے ہیں اور فشار کم سے کم ہوجاتا ہے کہ جس کو انبساطی فشار Diastolic pressur(یا Minimum) کہا جاتا ہے۔

بلڈ پریشر دیکھنا​

اکثر لوگوں کا بلڈ پریشر کم سے کم ایک بار ڈاکٹر یا نرس کے ذریعے دیکھا گیا ہے. ممکن ہے کہ آپ نے اپنا بلڈ پریشر اپنے آلہ سے دیکھا ہو۔

اگرچہ بلڈ پریشر دیکھنے کا بہترین آئیڈیل ترین طریقہ بڑی شریانوں میں موجود پریشر کی جانچ کرنا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کام کے لئے تخصص (Specialization) اور مختلف سوئیوں کے استعمال کی ضرورت ہے. پھر بھی بڑی رگوں میں پائے جانے والے پریشر کا ایک دقیق انعکاس ایک سادہ طریقے سے حاصل کیا جاسکتا ہے. یہ سادہ طریقہ ڈاکٹروں کے کلینک میں استعمال ہونے والے نبضی فشار پیما(Sphygmomanometer) کے استعمال کے علاوہ اور کچھ نہیں. اور آج کے زمانے میں بہت سے لوگ اپنے گھروں میں اس سے استفادہ کرتے ہیں. اس اوزار کے استعمال کے لئے پہلے کاف یا بازو بند کو بازو کے گرد لپیٹ کر لگایا جاتا ہے. پھر مخصوص پمپ کے ذریعے اس بازوبند میں ہوا بھر دی جاتی ہے تاکہ خون کی روانی وقتی طور پر بند ہوجائے. پھر ڈاکٹر اپنے آلہ سماع الصدر کو بازوبند کے نیچے شریان پر رکھتا ہے. پھر آہستہ سے ہوا کی پینچ کو کھولتا ہے تاکہ بازوبند کی ہوا دھیرے دھیرے نکل جائے. اسی دوران ڈاکٹر آلہ سماع الصدر سے دوبارہ خون کے رواں ہونے کی آواز (نبض کے کھٹکوں کی صورت میں) سنتا ہے. سب سے پہلے سنائی دینے والی آواز انقباضی فشار (Systolic pressur) کے مطابق ہوتی ہے. چند کھٹکوں کے بعد آوازیں بند ہوتی ہیں تو یہ حالت آپ کے انبساطی فشار (Diastolic pressur)سے مطابقت کرتی ہے۔

جو آوازیں آلہ سماع الصدر میں سنی جاتی ہیں وہ کہنی کے جوڑ کے آگے شریان (Brachial puls) میں موجود خون کی روانی کی وجہ سے وجود میں آتی ہے. ان آوازوں کو کوروٹکوف کی صدائیں کہتے ہیں جو کہ روس کے فوجی ڈاکٹر نیکولائی کوروٹکوف (Nicholai Korotkoff) کے افتخار میں کہ جس نے ١٩٠٥ء میں تقریباً ایک صدی پہلے اس آواز کے سننے کا طریقہ ایجاد کیا ، اس کے نام سے موسوم ہے۔

نبضی فشار پیما (Sphygmomanometer)میں موجود پارہ والے درجہ سے ہم سسٹولک یا ڈسٹولک پریشر کی جانچ اور یاد داشت کر سکتے ہیں. بازوبند میں استعمال ہونے والے پریشر کو پارہ والے ملی لیٹر (mmHg) سے ناپتے ہیں، یعنی پارہ شیشے کے ٹیوب میں ہوا کے دباؤ سے اوپر چڑھتا ہے۔ بلڈ پریشر دیکھنے کا یہ طریقہ چونکہ کہ ایک غیر مستقیم طریقہ ہے اس لئے دقیق طور پر بلڈ پریشر کی مقدار کی نشاندہی نہیں کر سکتا ہے. یہاں تک کہ کبھی کبھی حاصل شدہ عدد واقعی عدد سے بہت متفاوت ہوتا ہے. خاصکر ان افراد میں جو بڑے بازو والے ہوتے ہیں . اگر آپ کے بازوؤں کی گولائی کا محیط ۵۰ سینٹی میٹر سے زیادہ ہو تو آلہ کا بازوبند ہوا بھرنے پر خون کی روانی کو کافی اور مناسب طور پر بند نہیں کر سکے گا. نتیجةً حاصل ہونے والا یہ عدد واقعی بلڈ پریشر کے میزان سے زیادہ ہوگا. پھر بھی کئی سالوں میں یہ مشخص ہو چکا ہے کہ بلڈ پریشر دیکھنے کا یہ غیر مستقیم طریقہ قلبی یا دماغی (مغزی) سکتہ میں افراد کے مبتلا ہونے کے احتمال کی پیش بینی کا ایک دقیق وسیلہ ہے۔

حال ہی میں بلڈ پریشر دیکھنے کے لئے چھوٹے اور الیکٹرانک آلات بنائے گئے ہیں کہ جن میں پارہ کا استعمال نہیں ہے. اگرچہ بہت سے یہ نئے آلات پارہ کے ذریعے کام کرنے والے آلات کی طرح دقت ِ کافی نہیں رکھتے اور ان میں کچھ برطانیہ کی بلڈ پریشر ٹیم کی جانب سے تائید شدہ ہیں.ان آلات میں پارہ والا اسکیل نہ ہونے کے باوجود حاصل شدہ عدد کو یہ پارہ والے ملی میٹر میں ظاہر کرتے ہیں۔

ان آلات کا کام تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے لیکن ان کے طرز کار میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے. معمولاً ڈاکٹر بیٹھنے کو کہتا ہے اور بازوبند اوپری بازو اور سطح قلب میں باندھ دیا جاتا ہے. شخص کو آرام اور استرخاء کی حالت میں رہنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

ہر ایک کا بلڈ پریشر بہت ہی تغیر پذیر ہوتا ہے اور اگر اضطراب کا احساس اور اسٹریس ہوتو بلڈ پریشر بڑھنے کا امکان ہوتا ہے اس لئے بلڈ پریشر دیکھتے وقت جہاں تک ممکن ہومریض پرُ آرام اور مطمئن رہے. احتمالا ً آپ کا ڈاکٹر جب پہلی بار آپ کا بلڈ پریشر دیکھتا ہے تو اس کو بنیادی بلڈ پریشر کے عنوان سے لکھ لیتا ہے. اگر یہ اعداد آپس میں بہت متفاوت ہوں تو ڈاکٹر آپ سے چاہے گا کہ آیندہ دنوں میں تیسری یا چوتھی بار بلڈ پریشر دکھانے کے لئے اس کی کلینک کی طرف رجوع کریں. یہ امر خاصکر اس وقت اہمیت رکھتا ہے جب حاصل شدہ عدد طبعی (نارمل) بلڈ پریشر کے میزان سے فقط تھوڑا زیادہ ہو. چند شواہد موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ چوتھی وزٹ (Vsit) اور اس کے بعد کا لکھا جانیوالا بلڈ پریشر پہلی وزٹ میں لئے گئے بلڈ پریشر سے کم ہوتا ہے (لیکن اس مورد میں کچھ استثناء ات بھی موجود ہیں) بعض استثنائی موارد کے علاوہ دونوں ہاتھ میں بلڈ پریشر ایک جیسا ہوتا ہے اس لئے بلڈ پریشر یکھتے وقت جس ہاتھ سے بھی آسانی ہوبلڈ پریشر کی جانچ کریں. دونوں ہاتھ کا بلڈ پریشر دیکھنا اچھا ہے تاکہ اطمینان ہوجائے کہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اگر آپ کا بازو معمولی حد سے بڑا ہے (33cmسینٹی میٹر سے زیادہ) تو چاہیے کہ بڑے بازوبند کا استعمال کریں ورنہ امکان ہے کہ آپ کا بلڈ پریشر اشتباہاً زیادہ سمجھ لیا جائے. تقریباً ہائی بلڈ پریشر کے ١٥ فیصدی افراد کا بازو 33cm سینٹی میٹر سے زیادہ ہوتا ہے. اس لئے بازو کے مناسب بازو بند کا استعمال بڑی اہمیت کا حامل ہے تاکہ آپ کا بلڈ پریشر دقیقاً ثبت ہوسکے۔

اگر چہ بلڈ پریشر دیکھنے کے لئے معمولاً یہ کسی سے نہیں کہا جاتا کہ کھڑے ہوکر اس امر کو انجام دے لیکن کچھ ایسے مواقع بھی ہیں کہ جب کھڑے ہو بلڈ پریشر کی جانچ کرنا چاہیے. مثال کے لئے ذیابیطس شکر ی میں مبتلا افراد، دراز عمر افراد اور وہ لوگ جو کھڑے ہونے پر سر چکرانے یا دوسری مشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں.ذیابیطس شکری میں مبتلا افراد کا بلڈ پریشر ان کے کھڑے ہوتے وقت وقتی طور پر گھٹ جاتا ہے. طبعی طور پر بیٹھے اور کھڑے رہنے کی صورت میں بلڈ پریشر میں کوئی بدلاؤ نہیں ہونا چاہیے لیکن بعض موارد میں جیسے ذیابیطسی افراد میں یہ حالت پیدا ہوجاتی ہے، کہ بلڈ پریشر گھٹ جانے کی اس حالت کو Positional hypotention کہتے ہیں۔

اگلا درس مندرجہ ذیل لنک پر ہے۔

بلڈ پریشر کا اگلا مضمون دیکھیے
 
شمشاد بھائی در اصل میرے نٹ کی اسپیڈ کم ہے اور جو لنک آپ نے دیا ہے وہ کھل نہیں پا رہا ہے، کمپیوٹر ہینگ کرجاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ڈاکٹر صاحب بلا شبہ آپ بہت مفید معلومات دے رہے ہیں۔ اسے جاری رکھیے گا کہ بہت سوں کا بھلا ہو گا۔

میں نے جو ربط دیا ہے وہ اردو محفل کا ہی ایک دھاگہ ہے۔ جس کا راستہ مندرجہ ذیل ہے :

فورم + روز مرہ زندگی کے منتخب موضوعات + طب اور صحت + بلڈ پریشر - خون کا دباؤ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمممم اچھی معلومات ہیں۔ شریک محفل کرنے کا شکریہ ڈاکٹر انکل:)
ویسے مجھے پتا نہیں ہے کہ میں آپ کو انکل کہوں یا لالہ؟؟؟؟
میں نے بھی کافی بار چیک کیا میرا بلڈ پریشر بھی ہائی ہو جاتا ہے اکثر جب کبھی کوئی ایسی خبر یا بات سن لوں جس کی دل و ماغ کو توقع نہیں ہوتی۔:(
 
ناعمہ عزیز
آپ کو اختیار ہے آپ جو چاہیں کہیں، ہاں آپ کے علم کے لیے بتا دیتا ہوں کہ میری عمر تیس بتیس سال سے زیادہ نہیں ہے۔
آپ نے بتایا کہ آپ کا بلڈ پریشر کبھی کبھی ہائی ہوتا ہے، لیکن اگر عام حالات میں نارمل رہتا ہے تو اسے نارمل ہی سمجھا جائے گا۔
آگے چل کر ہائی بلڈ پریشر سے بچاؤ کی تدابیر بھی لکھوں گا اور سب سے آخر میں دواؤں کا تذکرہ کروں گا۔ سبھی دوستوں سے گذارش ہے کہ بلڈ پریشر سے متعلق جو سوالات آپ کے ذہن میں ہوں، انھیں دریافت کریں۔
بلڈ پریشر کے ذیل میں جو سوالات آپ کے ذہن میں ہوں یہاں دریافت کریں
حوصلہ افزائی کے لیے شکریہ
 
ہائی بلڈ پریشر کے علائم اور نشانیاں
ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا افراد کو اکثر کوئی علامت یا شکایت نہیں ہوتی. بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنے بلڈ پریشر کو محسوس کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ کس وقت اوپر چڑھتا ہے، لیکن وہ احتمالاً اپنی ہیجانی افسردگیوں کو محسوس کرتے ہیں کہ ان صورتوں میں بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے اور نہیں بھی۔
بلڈ پریشر کسی قسم کی علامت اور نشانیاں نہیں رکھتا ، یہ حقیقت باعث بنتی ہے کہ کئی سالوں تک ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا اور اس سے بے خبر رہیں اور جب تک کہ یہ بلڈ پریشر قلب، دماغ(مغز) اور گردوں پر اثر انداز نہیں ہوتا اس مرض میں مبتلا ہونے سے بے خبر ہوتے ہیں. لوگ قلبی، دماغی (مغزی) اور کلیوی (گردے کی) بیماری یا وخیم حالت میں مبتلا ہونے کے بعد ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ممکن ہے کہ وہ تھوڑے دماغی سکتہ میں مبتلا ہوئے ہوںیا درد قلب سے ہمکنار ہوئے ہوں. قلبی ناکفایتی کا مریض لیٹنے یا سونے کی صورت میں سانس کی تنگی کا احساس کر سکتا ہے، جبکہ کلیوی (گردے کی) کی ناکفایتی کے مریض مفرط خستگی اور تندی تنفس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
یہ مشکلات اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ بلڈ پریشر کئی سالوں تک بڑھا ہوا تھا اور شخص اس سے بے خبر تھا اور آج خطرناک امراض میں گرفتار ہوگیا. ڈاکٹروں کا سمجھنا ہے کہ٣٠ سال سے زیادہ عمر کے افراد منظم طور پر اپنے بلڈ پریشر کی جانچ کراتے رہیں. اگر ان کا بلڈ پریشر نارمل ہو تو ہر٣ یا ٤ سال پر اپنے بلڈ پریشر کی دوبارہ جانچ کرائیں. لیکن جولوگ بارڈرلائن ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں یعنی ان کا بلڈپریشر١٤٠٩٠ اور ١٦٠٩٠ کے درمیان ہو تو تھوڑے فاصلوں پہ مثلاً ہر٦ مہینے بعد ایک بار اپنے بلڈ پریشر کی جانچ کرائیں۔
اس کے ذیل میں دیگر مفید معلومات یہاں درج ہیں۔
 
عنقریب منیر میڈیکل ریسرچ سینٹر کی جانب سے میڈیکل سائنس کا اردو زبان میں ایک ڈسٹینس کورس کرایا جائے گا۔ میں نے اردو زبان میں میڈیکل فیلڈ میں مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں لکھیں جو کورس کے نصاب میں داخل ہیں۔ کورس میں شرکت کرنے والوں کو ان کی پی ڈی ایف فائل ارسال کی جائے گی اور کورس کے اختتام پر سرٹی فیکیٹ بھی دیا جائے گا۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ناعمہ عزیز
آپ کو اختیار ہے آپ جو چاہیں کہیں، ہاں آپ کے علم کے لیے بتا دیتا ہوں کہ میری عمر تیس بتیس سال سے زیادہ نہیں ہے۔
آپ نے بتایا کہ آپ کا بلڈ پریشر کبھی کبھی ہائی ہوتا ہے، لیکن اگر عام حالات میں نارمل رہتا ہے تو اسے نارمل ہی سمجھا جائے گا۔
آگے چل کر ہائی بلڈ پریشر سے بچاؤ کی تدابیر بھی لکھوں گا اور سب سے آخر میں دواؤں کا تذکرہ کروں گا۔ سبھی دوستوں سے گذارش ہے کہ بلڈ پریشر سے متعلق جو سوالات آپ کے ذہن میں ہوں، انھیں دریافت کریں۔
بلڈ پریشر کے ذیل میں جو سوالات آپ کے ذہن میں ہوں یہاں دریافت کریں
حوصلہ افزائی کے لیے شکریہ
شکریہ :)
پھر تو میں آپ کو لالہ ہی کہہ لیتی ہوں:)
 
ناعمہ عزیز
لیکن آپ مجھے یہ بتائیں کہ لالہ کا مطلب کیا ہوتا ہے، میں اس کا معنی نہیں جانتا اور آپ کو میرے لیے یہ لفظ کیوں اچھا لگتا ہے۔
 
بلڈ پریشر سے متعلق آج کا نیا مضمون شایع ہو چکا ہے، جس میں شامل ہیں: تمام امتحانات، بغیر دوا کے علاج، نمک کا استعمال کم کرنا، وزن کو کنٹرول کرنا، ورزشی تمرینات انجام دینا، پوٹاشیم کا استعمال، اور یہی وہ احتیاطی تدابیر ہیں جن کی مدد سے ہائی بلڈ پریشر سے بچا جا سکتا ہے، لہذا ان کا مطالعہ کریں اور ان پر ضرور عمل کریں۔ یہ باتیں اس صفحے کے آخر میں لکھی گئی ہیں۔
کل کی گفتگو دواؤں سے متعلق ہوگی اور وہی اس آرٹیکل کی جان ہوگی، جس میں دواؤں کے گروپ کا تذکرہ ہوگا۔ بلڈ پریشر کی دوا استعمال کرنے والوں کے لیے کل کے مضمون کا مطالعہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
 
ادویاتی معالجہ، بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا، طویل مدت علاج، علاج کی پیگیری، اینٹی ہائپرٹنسیو یا دافع بلڈپریشر دوائیں، تھیازائڈ کی مدر بول دوائیں، بٹابلاکر دوائیںBeta Blocker، کیلشیمی قنال کو بند کرنے والی دوائیں Calcium Channel Blocker، مبدلِ انجیوٹنسین انزائم کو مہار کرنے والی دوائیں ACE Inhibitors، الفابلوکر دوائیں Alfa Blocker، مرکزی عصب پر اثر انداز دوائیںSympathetic Inhibitors، اینٹی ہائپر ٹنسیو آخذہ سے مانع دوائیں Angiotensin 2 receptor antagonist، دواؤں سے ترکیبی علاج یہاں لکھا گیا ہے۔
 
ادویاتی معالجہ کی ایک جھلک یہاں بھی پیش کی جا رہی ہے
١٩٥٠ویں دہائی تک کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے ڈاکٹر، لوگوں کا بلڈپریشر کم کر سکے. ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کا اختتام دماغی سکتہ، قلبی اور گردے کی نا کفایتی پر ہوتا تھا اور اطباء ان کی امداد پہ قادر نہ تھے، وہ صرف دیکھتے رہ جاتے تھے. ١٩٥٠ویں دہائی کے اواخر اور١٩٦٠ویںدہائی کے اوائل میںان اینٹی ہائپر ٹنسیو داؤں تک رسائی حاصل ہوئی جو بلڈ پریشر کو گھٹاکر بہت سے انسانوں کی زندگی کی نجات کا سبب بنیں. اس کے باوجود وہ بہت سی ابتدائی دوائیں جو آج مستعمل نہیں ہیں، شدید جانبی عوارض (Side efect)رکھتی تھیں اور صرف ان مریضوں میں استعمال ہوتی تھیں جن کا بلڈ پریشر بہت زیادہ ہوتا تھا۔
١٩٧٠ویں دہائی کے دوران وہ دوائیں جو کم جانبی عوارض رکھتی تھیں، بازار میں آئیں. اسطرح وہ افراد جو خفیف بلڈ پریشر کے مریض تھے ان دواؤں سے مستفید ہو سکے.آج ہم جانتے ہیں کہ اینٹی ہائپرٹنسیودواؤں سے علاج٣٥ سے ٤٠ فیصدی دماغی سکتہ کے وقوع کو گھٹا تا ہے اور تقریباً ٢٠ سے ٢٥ فیصدی قلبی عروقی بیماریوں کو بھی کم کرتا ہے۔
البتہ ممکن ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض دوسرے اسباب سے بھی قلبی سکتہ کے مریض ہوجائیں. مثلاً دخانیات کے استعمال یا کلسٹرول کے زیادہ ہونے کی وجہ سے قلبی سکتہ ہو سکتا ہے. پھر بھی یہ کہنا ٹھیک ہے بلڈپریشر کو کنٹرول کر کے ہائی بلڈپریشر کے عوارض سے بچا جا سکتا ہے۔
بہت کم جانبی عوارض والی اور قابل توجہ اثر رکھنے والی دوا کا وجود میں آناکم سے کم دوسری عالمی جنگ کے بعدطبی دنیا میں ایک عظیم ترقی شمار ہوتا ہے اور اینٹی بایوٹکس کی دریافت سے برپا ہونے والے انقلاب سے قابل مقایسہ ہے۔
اسی طرح دیکھنے میں آیا کہ اینٹی ہائپرٹنسیو دوائیں ذیابیطس کے مریضو میں گردوں کے نقصانات اور آنکھوں کے شبکیہ پر وارد ہونے والے صدمات کو گھٹانے یا روکنے میں موثر ہیں۔
اس کے علاوہ ان اینٹی ہائپرٹنسیو دواؤں سے علاج کرنا، سکتہ کے مریضوں میں قلبی ناکفایتی کے وقوع کے احتمال کو گھٹا سکتا ہے۔
١٩٩٧ئ میں یورپ میں ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ مجزا ہائی بلڈ پریشر کے مریض جنکا بلڈ پریشر١٦٠٩٠ سے زیادہ ہے ان کی عمر سے قطع نظر کرتے ہوئے، اینٹی ہائپرٹنسیو دواؤں سے ان کا علاج کرنا چاہیے۔
اینٹی ہائپرٹنسیو دواؤں سے معالجہ خاصکر ٦٠ سے٨٠ سال کی عمر کے ان لوگوں میںموثر ہے جنھیں دماغی سکتہ ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے. سن دراز افراد زیادہ تر دماغی سکتہ ہونے کے احتمال سے پریشان ہوتے ہیں. لیکن انھیں اطمینان دلایا جا سکتا ہے کہ اینٹی ہائپرٹنسیو دواؤں کے استعمال سے کافی حدتک دماغی سکتہ کے خطرے کو روکا جاسکتا ہے۔
لیکن تفصیل اس صفحے کے آخر میں لکھی گئی ہے۔
 
بلڈ پریشر سے متعلق خاص مواقع، حاملگی، بلڈ پریشر کا تھوڑا بڑھ جانا، پیرا اکلیمپسیا یا حاملگی کی مسمومیت، باقاعدہ کنٹرول، مناسب دوائیں، دمہ، قلبی درد، قلبی سکتہ، دماغی (مغزی) سکتہ کے بعد، افسردگی، مانع حمل دواؤں کا استعمال، ذیابیطس، بچوں میں بلڈپریشر، سن دراز افراد اس صفحے کے آخر میں لکھی گئے ہیں۔اور کل کے مضمون میں مارکٹ میں دستیاب دواؤں سے متعارف کرایا جائے گا۔
 
Top