بلیک واٹر؛ حکمرانوں کی ذمہ داریاں

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

رائج عالمی قوانين کے عين مطابق حکومت پاکستان کو اس بات کا پورے اختيار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے اندر رہائش پذير اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شخص کی نقل وحرکت اور سرگرميوں کے حوالے سے اپنی مرضی کے قواعد وضوابط اور قوانين مرتب کرے۔

اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں کام کرنے والے امريکی مرينز، نجی سيکورٹی کمپنی کے اہلکار اور ديگر امريکی شہری اس قانون سے مبرا نہيں ہيں۔ جيسا کہ ميں نے پہلے واضح کيا تھا کہ پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والا ہر غير ملکی شہری حکومت پاکستان اور متعلقہ اداروں سے ويزہ حاصل کرتا ہے۔

نجی سيکورٹی گارڈز کا کام عمارتوں اور افراد کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ان پر يہ لازم ہوتا ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کی پابندی کريں، لائسنس شدہ اسلحہ استعمال کريں اور ملک ميں رائج قوانين کے عين مطابق اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوں۔

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ديگر ممالک ميں اپنے شہريوں کی جانب سے قوانين کی خلاف ورزی کی صورت ميں تحفظ فراہم نہيں کرتا۔

ميں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ ہر وہ واقعہ جس کے بارے ميں شواہد موجود ہوں اس کی تحقيق اور تفتيش کی جاتی ہے اور قصوروار افراد کے خلاف امريکی فوج اور سول عدالتوں ميں درج قواعد وضوابط کے مطابق کاروائ بھی کی جاتی ہے۔

اس کی ايک مثال

http://online.wsj.com/article/SB122874862056388125.html

اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی معلومات کے مطابق ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدے کی حد تک ڈين کارپ اور ان کے سب کنٹريکٹر کی جانب سے مقامی لائنسس اور پرمٹ کے قواعد کے ضمن ميں کوئ خلاف ورزی نہيں کی گئ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

گرائیں

محفلین
اچھا فواد، 8 مارچ 2008 کی اس اخباری رپورٹ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ کیا امریکی حکومت نے واقعی یہ مطالبات پاکستان سے کئے تھے؟

یہ سوال آپ کی توجہ چاہتا ہے فواد۔

کچھ اضافہ کر لیجئے۔
اگر امریکی حکومت نے پاکستان سے یہ مطالبات کئے تھے ، تو پاکستانی حکومت کا ردعمل کیا تھا؟
اگر انکار ہوا تھا تو کیا آپ کوئی دستاویز دکھا سکتے ہیں؟
اگر پاکستانی حکومت نے رضامندی ظاہر کی تھی تو اس کا کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس؟

براہ مہربانی لمبی تقریروں اور گول مول بیانات کی بجائے مختصر مگر جامع جواب دیں۔ میں نے قصدا اتنا انتظار کرنے کے بعد آ سے دوبارہ پوچھا ہے۔

شکریہ۔
 

کعنان

محفلین
یہ سوال آپ کی توجہ چاہتا ہے فواد۔

کچھ اضافہ کر لیجئے۔
اگر امریکی حکومت نے پاکستان سے یہ مطالبات کئے تھے ، تو پاکستانی حکومت کا ردعمل کیا تھا؟
اگر انکار ہوا تھا تو کیا آپ کوئی دستاویز دکھا سکتے ہیں؟
اگر پاکستانی حکومت نے رضامندی ظاہر کی تھی تو اس کا کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس؟

براہ مہربانی لمبی تقریروں اور گول مول بیانات کی بجائے مختصر مگر جامع جواب دیں۔ میں نے قصدا اتنا انتظار کرنے کے بعد آ سے دوبارہ پوچھا ہے۔

شکریہ۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

گرائیں صاحب

آپ خود ایک قلم کار ہیں اور آپ کو ہر بات کا پتہ ھے کہ کیا صحیح ھے اور کیا غلط ، فواد صاحب کی یہ جاب ھے اور ان کو سٹیٹ سے اسی کام کے پیسے ملتے ہیں اگر فواد صاحب کو روس والے یہی جاب دیں گے تو وہ آنکھیں بند کر کے ان کی فیور میں لکھیں گے اور امریکہ کو برا بھلا کہیں گے۔
آپ سمجھ دار ہو کے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ فواد صاحب کو آپ اگر یہ پوچھیں کہ وہ جس کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں اس کی چھت کا رنگ کونسا ھے تو وہ سٹیٹ والوں کو پوچھ کے بتائیں گے۔

والسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

خط لکھا گیا تھا یا نہیں اگر ہاں تو وہ کیا تھا


يہ بالکل درست ہے کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے نے ہتھياروں کے لائسنس کے حصول کے ضمن میں معاونت کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

ليکن پاکستان ميں سيکورٹی کی صورت حال اور زمينی حقائق کے پيش نظر يہ کوئ اچنبے کی بات نہيں کہ پاکستان ميں امريکی سفارت خانے نے پاکستانی اور امريکی ملازمين کی حفاظت کو يقينی بنانے کے ليے اضافی اقدامات کو ضروری سمجھا۔ آج پشاور ميں ہونے والے خودکش حملے اور اسلام آباد ميں اقوام متحدہ کے دفتر پر حملے سيکورٹی کے حوالے سے درپيش خطرات کے واضح ثبوت ہيں۔

ميں آپ کی توجہ ميڈيا ميں موجود رپورٹس کی جانب دلواؤں گا جس کے طابق امريکی سفارت خانے کے ترجمان نے واضح کيا ہے کہ سفارت خانے نے اس سال کے آغاز ميں انٹر رسک نامی کمپنی سے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ انھوں نے اس بات کی بھی تصديق کی کہ سفارت خانے نے لائسنسوں کے حصول کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

"معاہدے کی رو سے ہتھياروں کی دستيابی اور لائنسس کا حصول ہماری ذمہ داری ہے۔ ليکن اسلام آباد پوليس نے جن ہتھياروں کی بنياد پر کاروائ کی ہے ان ميں سے کسی کا بھی تعلق ہمارے ساتھ ہونے والے معاہدے سے نہيں تھا"۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ امريکی سفارت خانے کے علاوہ انٹر رسک بے شمار دیگر مغربی اور يورپی ممالک کے سفارت خانوں اور کئ عالمی اور غير سرکاری پاکستانی تنظيموں کو بھی سيکورٹی فراہم کرتی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

یہ سوال آپ کی توجہ چاہتا ہے فواد۔

کچھ اضافہ کر لیجئے۔
اگر امریکی حکومت نے پاکستان سے یہ مطالبات کئے تھے ، تو پاکستانی حکومت کا ردعمل کیا تھا؟
اگر انکار ہوا تھا تو کیا آپ کوئی دستاویز دکھا سکتے ہیں؟
اگر پاکستانی حکومت نے رضامندی ظاہر کی تھی تو اس کا کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس؟

شکریہ۔

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈاکٹر شيريں مزاری نے اپنے کالم ميں جس ايشو کے حوالے سے اظہار خيال کيا تھا، وہ نہ تو کوئ غير معمولی شرائط اور نہ ہی محض پاکستان سے متعلق امريکہ کے خصوصی مطالبات کا آئينہ دار ہے۔

امريکہ کسی بھی دوسرے ملک ميں کسی بھی دورانيے کے لیے موجود اپنے کسی بھی فوجی کی موجودگی کی صورت ميں اس ملک کی حکومت کے ساتھ ايک معاہدہ کرتا ہے جسے اسٹيٹس آف فورسز اگريمنٹ (ايس – او- ايف – اے) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک بھی جب کسی ملک ميں اپنی فوجی بيجھتے ہيں تو ميزبان ملک کی حکومت سے روٹين ميں ايس – او- ايف – اے کے تحت معاہدے کرتے ہيں۔

يہ مطالبات نہيں بلکہ شرائط اور قواعد وضوابط ہوتے ہیں جن کے اطلاق کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کا رضامند ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ايس – او- ايف – اے اور اس ميں باہمی اتفاق رائے سے طے پانے والے ضوابط کا بنيادی مقصد ان مشترکہ اہداف اور مقاصد کا حصول ہوتا ہے جن پر دونوں ممالک کی حکومتوں کا اتفاق رائے ہوتا ہے۔امريکہ کسی بھی ملک پر اس کی مرضی کے خلاف اس معاہدے کو مسلط نہيں کر سکتا۔

کسی بھی دوسرے معاہدے کی طرح ايس – او- ايف – اے کے حوالے سے سے بھی بحث و مباحثہ، لچک، تراميم، اتفاق رائے اور تحفظات اس سارے عمل کا لازمی حصہ ہے۔ ڈاکٹر شيريں مزاری اپنی رائے رکھتی ہيں اور ايک لکھاری کی حيثيت سے انھوں نے اپنی رائے کا اظہار کيا تھا۔

ليکن ميں يہ نشاندہی ضرور کروں گا کہ انھوں نے اپنی رائے حقائق کی بنياد پر نہيں بلکہ عمومی تاثر کی بنياد پر قائم کی تھی۔ مثال کے طور پر ايس – او- ايف – اے کی بنيادی اساس اور يقين اس بات پر ہوتا ہے کہ کسی بھی امريکی فوجی کی کسی دوسرے ملک ميں موجودگی اس ملک کی حکومت اور امريکی حکومت کے مفاد ميں ہے۔ اس معاہدے کی ابتدا ميں يہ واضح کر ديا جاتا ہے کہ ميزبان ملک اپنی سرحدی حدود اور اس کے اندر رہنے والے ہر فرد پر تمام تر اختيارات اور قوانين کے اطلاق کا حق رکھتا ہے۔

عمومی طور پر ايس – او- ايف – اے اس بات کو تسليم کرتا ہے کہ ايسے تمام کيسز ميزبان ملک کے دائرہ اختيار ميں آئيں گے جو کسی امريکی فوجی کی جانب سے ميزبان ملک ميں قانون شکنی کے کسی واقعے کے حوالے سے ہوں گے۔

ايس – او- ايف – اے کے حوالے سے کانگريس کے ليے تيار کردہ جون 2009 کی يہ رپورٹ پيش ہے جس ميں ايسے درجنوں ممالک کا ذکر ہے جن کا امريکہ کے ساتھ ايس – او- ايف – اے کے تحت معاہدہ ہے۔ آپ ديکھ سکتے ہيں کہ جون 2009 تک کی اس رپورٹ ميں پاکستان کا ذکر موجود نہيں ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1447393&da=y

جہاں تک ڈاکٹر شيريں مزاری کے کالم کے حوالے سے آپ کے سوال کا تعلق ہے تو يہ واضح کر دوں کہ جس وقت يہ آرٹيکل لکھا گيا تھا اس وقت امريکہ ميں بھی ايک مختلف انتظاميہ تھی اور پاکستان ميں بھی صدارت کسی اور کے ہاتھ ميں تھی۔ اس ليے اس ضمن ميں اس وقت کے حوالے سے افواہوں، مذاکرات، حکمت عملی، الزامات اور اخباری رپوٹوں کے متعلق تجزيے اور تبصرے اب تاريخ دانوں کے ہاتھ ميں ہے۔

يہ بات بھی ياد رہے کہ ہر امريکی حکومت کی پاليسی اپنے مخصوص دور کے حوالے سے اس دور کے زمينی حقائق کی مناسبت سے ترتيب دی جاتی ہے۔ ميرا ذاتی خیال يہ ہے کہ ہميں ماضی ميں جھانکنے کی بجائے ان موضوعات پر بات کرنی چاہيے جن کا تعلق موجودہ امريکی حکومت، اسکی پاليسيوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حال اور مستقبل ميں اس کے اثرات سے ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

باسم

محفلین
امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا اس ضمن ميں ڈين کورپ نامی کمپنی سے معاہدہ ہے۔ اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی صوابديد پر ڈين کارپ نے انٹر رسک نامی پاکستانی سيکورٹی کمپنی سے ايک ذيلی معاہدہ کيا۔
سفارت خانے نے اس سال کے آغاز ميں انٹر رسک نامی کمپنی سے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
پہلے بالواسطہ معاہدہ تھا یعنی امریکہ کا اس سے براہ راست کوئی تعلق نہیں اور اب یہ براہ راست ہوچکا ہے۔ گویا پہلے سچ نہیں بولا گیا
اسلام آباد پوليس نے جن ہتھياروں کی بنياد پر کاروائ کی ہے ان ميں سے کسی کا بھی تعلق ہمارے ساتھ ہونے والے معاہدے سے نہيں تھا۔
یہی تو تشویش کی بات ہے کہ ہتھیار معاہدے سے زائد کیوں درآمد کیے گئے اور ان کا تعلق معاہدے سے کیسے نہیں تھا؟
معاہدے کی رو سے ہتھياروں کی دستيابی اور لائسنس کا حصول ہماری ذمہ داری ہے
اور جب سفارت خانہ خود ہتھیار فراہم کررہا تھا تو سفیر، انٹررسک کو ہتھیار درآمد کرنے کی این او سی جاری کرنے کا خط کیوں لکھ رہی ہیں؟
پشاور ميں ہونے والے خودکش حملے اور اسلام آباد ميں اقوام متحدہ کے دفتر پر حملے سيکورٹی کے حوالے سے درپيش خطرات کے واضح ثبوت ہيں۔
(ان ایجنسیز کے آنے سے)سيکورٹی کے حوالے سے درپيش خطرات کے واضح ثبوت ہيں۔
 

گرائیں

محفلین
حسب توقع ، میرے خدشات کے مطابق فواد نے ساری بات یہ کہہ کر گول کر دی کہ

ميرا ذاتی خیال يہ ہے کہ ہميں ماضی ميں جھانکنے کی بجائے ان موضوعات پر بات کرنی چاہيے جن کا تعلق موجودہ امريکی حکومت، اسکی پاليسيوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حال اور مستقبل ميں اس کے اثرات سے ہے۔


حال آنکہ میں نے سرکاری امریکی مؤقف کے بارے میں پوچھا تھا۔ جس طرح امریکی حکومت کے بارے میں کسی اخبار میں غلط خبر چھپنے پر امریکی سفارت خانہ حرکت میں آ کر تردید یا وضاحتی بیان جاری کر دیتا ہے، میرے علم میں ڈاکٹر شیریں مزاری کے اس کالم کے بعد ایسا کوئی بیان امریکی سفارت خانے سے جاری نہیں ہوا تھا، ورنہ فواد اسے ضرور پیش کرتے اور مجھے یقین دلاتے کہ میں ایک عدد سازشی تھیوری پر یقین کر رہا ہوں۔

فواد، براہ مہربانی ان سوالوں کا صرف ہاں یا نہ میں جوب دیں۔


کنعان:: میں آپ سے متفق ہوں مگر میں اس رپورٹ کے بارے میں فواد کا ذاتی مؤقف نہیں امریکی حکومت کا مؤقف جاننا چاہتا ہوں، اور یہ کہ آج تک اس رپورٹ کی تردید کیوں نہیں کی گئی؟
 

گرائیں

محفلین
سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈاکٹر شيريں مزاری نے اپنے کالم ميں جس ايشو کے حوالے سے اظہار خيال کيا تھا، وہ نہ تو کوئ غير معمولی شرائط اور نہ ہی محض پاکستان سے متعلق امريکہ کے خصوصی مطالبات کا آئينہ دار ہے۔

امريکہ کسی بھی دوسرے ملک ميں کسی بھی دورانيے کے لیے موجود اپنے کسی بھی فوجی کی موجودگی کی صورت ميں اس ملک کی حکومت کے ساتھ ايک معاہدہ کرتا ہے جسے اسٹيٹس آف فورسز اگريمنٹ (ايس – او- ايف – اے) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک بھی جب کسی ملک ميں اپنی فوجی بيجھتے ہيں تو ميزبان ملک کی حکومت سے روٹين ميں ايس – او- ايف – اے کے تحت معاہدے کرتے ہيں۔

يہ مطالبات نہيں بلکہ شرائط اور قواعد وضوابط ہوتے ہیں جن کے اطلاق کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کا رضامند ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ايس – او- ايف – اے اور اس ميں باہمی اتفاق رائے سے طے پانے والے ضوابط کا بنيادی مقصد ان مشترکہ اہداف اور مقاصد کا حصول ہوتا ہے جن پر دونوں ممالک کی حکومتوں کا اتفاق رائے ہوتا ہے۔امريکہ کسی بھی ملک پر اس کی مرضی کے خلاف اس معاہدے کو مسلط نہيں کر سکتا۔

کسی بھی دوسرے معاہدے کی طرح ايس – او- ايف – اے کے حوالے سے سے بھی بحث و مباحثہ، لچک، تراميم، اتفاق رائے اور تحفظات اس سارے عمل کا لازمی حصہ ہے۔ ڈاکٹر شيريں مزاری اپنی رائے رکھتی ہيں اور ايک لکھاری کی حيثيت سے انھوں نے اپنی رائے کا اظہار کيا تھا۔

ليکن ميں يہ نشاندہی ضرور کروں گا کہ انھوں نے اپنی رائے حقائق کی بنياد پر نہيں بلکہ عمومی تاثر کی بنياد پر قائم کی تھی۔ مثال کے طور پر ايس – او- ايف – اے کی بنيادی اساس اور يقين اس بات پر ہوتا ہے کہ کسی بھی امريکی فوجی کی کسی دوسرے ملک ميں موجودگی اس ملک کی حکومت اور امريکی حکومت کے مفاد ميں ہے۔ اس معاہدے کی ابتدا ميں يہ واضح کر ديا جاتا ہے کہ ميزبان ملک اپنی سرحدی حدود اور اس کے اندر رہنے والے ہر فرد پر تمام تر اختيارات اور قوانين کے اطلاق کا حق رکھتا ہے۔

عمومی طور پر ايس – او- ايف – اے اس بات کو تسليم کرتا ہے کہ ايسے تمام کيسز ميزبان ملک کے دائرہ اختيار ميں آئيں گے جو کسی امريکی فوجی کی جانب سے ميزبان ملک ميں قانون شکنی کے کسی واقعے کے حوالے سے ہوں گے۔

ايس – او- ايف – اے کے حوالے سے کانگريس کے ليے تيار کردہ جون 2009 کی يہ رپورٹ پيش ہے جس ميں ايسے درجنوں ممالک کا ذکر ہے جن کا امريکہ کے ساتھ ايس – او- ايف – اے کے تحت معاہدہ ہے۔ آپ ديکھ سکتے ہيں کہ جون 2009 تک کی اس رپورٹ ميں پاکستان کا ذکر موجود نہيں ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1447393&da=y

جہاں تک ڈاکٹر شيريں مزاری کے کالم کے حوالے سے آپ کے سوال کا تعلق ہے تو يہ واضح کر دوں کہ جس وقت يہ آرٹيکل لکھا گيا تھا اس وقت امريکہ ميں بھی ايک مختلف انتظاميہ تھی اور پاکستان ميں بھی صدارت کسی اور کے ہاتھ ميں تھی۔ اس ليے اس ضمن ميں اس وقت کے حوالے سے افواہوں، مذاکرات، حکمت عملی، الزامات اور اخباری رپوٹوں کے متعلق تجزيے اور تبصرے اب تاريخ دانوں کے ہاتھ ميں ہے۔

يہ بات بھی ياد رہے کہ ہر امريکی حکومت کی پاليسی اپنے مخصوص دور کے حوالے سے اس دور کے زمينی حقائق کی مناسبت سے ترتيب دی جاتی ہے۔ ميرا ذاتی خیال يہ ہے کہ ہميں ماضی ميں جھانکنے کی بجائے ان موضوعات پر بات کرنی چاہيے جن کا تعلق موجودہ امريکی حکومت، اسکی پاليسيوں کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حال اور مستقبل ميں اس کے اثرات سے ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

آپ کے نشان زدہ جملے اور ڈاکٹر شیریں مزاری کی رپورٹ میں بتائے نکات میں بُعد قطبین ہے۔ ایسا کیوں؟ کون غلط بیانی کر رہا ہے ہے؟ آپ یا ڈاکٹر شیریں مزاری؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میں اس رپورٹ کے بارے میں فواد کا ذاتی مؤقف نہیں امریکی حکومت کا مؤقف جاننا چاہتا ہوں، اور یہ کہ آج تک اس رپورٹ کی تردید کیوں نہیں کی گئی؟

امريکی حکومت کے لیے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ دنيا کے کسی بھی ميڈيا يا اخبار ميں شائع ہونے والے ہر کالم، افواہ يا الزام کا جواب دے۔ جہاں تک اس آرٹيکل کا تعلق ہے جو زير بحث ہے تو اس ضمن میں يہ واضح رہے کہ ڈاکٹر شيريں مزاری نے جس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کيا تھا اس کی بنياد تمام فريقين کی جانب سے کوئ حتمی يا منظور شدہ معاہدہ يا دستاويز نہيں بلکہ ايک ايسی مبينہ بحث يا جاری مذاکرات تھے جو کسی انجام تک نہيں پہنچے تھے۔

ايس – او – ايف – اے کے حوالے سے جو دستاويز ميں نے اس تھريڈ پر پوسٹ کی ہے اس سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مزاری کے الزامات بے بنياد تھے اور انھوں نے اپنے دعوے کے حق ميں کوئ دستاويزی ثبوت بھی پيش نہيں کيا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

گرائیں

محفلین
امريکی حکومت کے لیے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ دنيا کے کسی بھی ميڈيا يا اخبار ميں شائع ہونے والے ہر کالم، افواہ يا الزام کا جواب دے۔ جہاں تک اس آرٹيکل کا تعلق ہے جو زير بحث ہے تو اس ضمن میں يہ واضح رہے کہ ڈاکٹر شيريں مزاری نے جس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کيا تھا اس کی بنياد تمام فريقين کی جانب سے کوئ حتمی يا منظور شدہ معاہدہ يا دستاويز نہيں بلکہ ايک ايسی مبينہ بحث يا جاری مذاکرات تھے جو کسی انجام تک نہيں پہنچے تھے۔
ايس – او – ايف – اے کے حوالے سے جو دستاويز ميں نے اس تھريڈ پر پوسٹ کی ہے اس سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مزاری کے الزامات بے بنياد تھے اور انھوں نے اپنے دعوے کے حق ميں کوئ دستاويزی ثبوت بھی پيش نہيں کيا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

تصدیق کا شکریہ۔

ایس او ایف اے کی دستاویز جون 2009 کی ہے۔ ہم مارچ 2008 اور شائد اس سے پہلے کے دونوں حکومتوں کے درمیاں ہونے والے روابط کی بات کر رہے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

تصدیق کا شکریہ۔

ایس او ایف اے کی دستاویز جون 2009 کی ہے۔ ہم مارچ 2008 اور شائد اس سے پہلے کے دونوں حکومتوں کے درمیاں ہونے والے روابط کی بات کر رہے ہیں۔

جب کوئ الزام عائد کرتا ہے اور پھر اس الزام کی بنياد پر کہانی يا کالم تيار کرتا ہے تو پھر ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی اسی فرد پر عائد ہوتی ہے۔ ڈاکٹر شيريں مزاری نے اپنے الزامات يا اپنے کالم کو درست ثابت کرنے کے لیے کوئ شہادت يا ثبوت فراہم نہيں کيا۔

ميں چاہوں گا کہ آپ ميری پوسٹ دوبارہ پڑھيں۔ ميں نے اس بات کی تصديق نہيں کی کہ امريکی حکومت نے مطالبات پيش کیے تھے۔ چونکہ ميں ڈاکٹر شيريں مزاری کے کالم کے حوالے سے بات کر رہا تھا اس ليے ميں نے لفظ "مبينہ" استعمال کيا تھا۔

ميں نے سال 2009 کی رپورٹ کا حوالہ اس ليے ديا ہے کہ پاکستان اور امريکہ کے درميان ايس – او – ايف – اے کے حوالے سے کوئ معاہدہ موجود نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

گوہر

محفلین
کیری لوگر بل کا متن… دہشت گردوں کے خاتمے کی کوششیں، مدارس کے نصاب کی نگرانی اور منی لانڈرنگ روکنا شرائط میں شامل

واشنگٹن: …(روزنامہ جنگ)
ذیل میں جمعرات24 ستمبر 2009ء کو سینیٹ سے پاس ہونے والے کیری لوگربل کا متن پیش کیا جارہا ہے۔ یہ ہاؤس آف ریپریز نٹیٹوو میں پیش کیا جارہا ہے، اور اگر یہ بغیرکسی ترمیم کے منظور ہوگیا تو صدر اوباما کے پاس قانون دستخط کے لیے بھیج دیاجائے گا، جس کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ s.1707 پاکستان کے ساتھ تعلقات کے فروغ ایکٹ برائے 2009 ء (مستغرق، متفق یاسینیٹ سے منظور) SEC. 203 کچھ امداد کے حوالے سے متعین حدود…
(a) سیکورٹی تعلقات میں معاونت کی حدود: مالی سال 2012 ء سے 2014ء کے لیے، پاکستان کومالی سال میں اس وقت تک کوئی سیکورٹی تعلقات میں معاونت فراہم نہیں کی جائے گی،جب تک سیکریٹری آف اسٹیٹ، صدر مملکت کی ہدایت پرسب سیکشن (c) میں درج ہدایات کے مطابق منظوری نہ دے دیں۔
(b) اسلحہ کی فراہمی کی حدود: …مالی سال 2012ء سے 2014ء تک کے لیے، پاکستان کواس وقت تک بڑا دفاعی سامان کی فروخت کا اجازت نامہ یا لائسنس، دی آرم ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ (22 usc 2751et seq.) کے مطابق جاری نہیں کیا جائے گا ، جب تک امریکی وزیر خارجہ امریکی صدرکی ہدایت کے مطابق، سب سیکشن
(c) میں درج ضروریات کے مطابق منظوری نہ دے دیں :
(c) تصدیق کاعمل:… اس سب سیکشن کے تصدیقی عمل کے لیے ضروری ہے کہ اسے سیکریٹری آف اسٹیٹ ، صدرکی ہدایت کے مطابق منظورکریں گے، کانگریس کی کمیٹیزکے مطابق کہ
(1) امریکا، حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے متعلق مواد کی منتقلی کے نیٹ ورک کو منہدم کرنے میں کردار ادا کرے، مثلاً اس سے متعلقہ معلومات فراہم کرے یا پاکستانی قومی رفاقت جو اس نیٹ ورک کے ساتھ ہے تک یا براہ راست رسائی دے۔ حکومت پاکستان نے موجودہ مالی سال کے دوران مسلسل اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اب بھی دہشت گرد گروپوں کے خلاف موثر کوششیں کررہی ہے۔ سیکشن 201میں امداد کے جن مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کے تحت حکومت پاکستان نے مندرجہ ذیل امور میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
(الف) مدد روکنا:… پاکستانی فوج یا کسی انٹیلی جنس ایجنسی میں موجود عناصر کی جانب سے انتہا پسندوں یا دہشتگرد گروپوں ، خصوصی طور پر وہ گروپ جنہوں نے افغانستان میں امریکی یا اتحادی افواج پر حملے کئے ہوں،یا پڑوسی ممالک کے لوگوں یا علاقوں پر حملوں میں ملوث ہوں
(ب) القاعدہ ، طالبان اور متعلقہ گروپوں جیسے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد سے بچاؤ اور پاکستانی حدود میں کارروائیاں سے روکنا ، سرحد پر پڑوسی ممالک میں حملوں کی روک تھام ، قبائلی علاقوں میں دہشت گرد کیمپوں کی بندش ،ملک کے مختلف حصوں بشمول کوئٹہ اور مرید کے میں موجود دہشت گرد ٹھکانوں کا مکمل خاتمہ، اہم دہشت گردوں کے بارے میں فراہم کردہ خفیہ معلومات کے بعد کارروائی کرنا،
(ج)انسداد دہشتگردی اور اینٹی منی لانڈرنگ قانون کو مضبوط بنانا،
(3) پاکستان کی سیکورٹی فورسز پاکستان میں عدالتی و سیاسی معاملات میں عملاً یا کسی اور طریقے سے دخل اندازی نہیں کرینگی۔ بعض ادائیگیاں
(1) عام طور پر ان کا تعلق پیرا گراف
(2) سے ان فنڈز میں سے کسی کا تعلق مالی سال 2010ء سے 2014ء تک کے مالی سال سے نہیں ہے یا اس فنڈ کا کوئی تعلق پاکستان کے کاؤنٹر انسرجینسی کیسے بلیٹی فنڈ سے بھی نہیں ہوگا جو سپلی مینٹل ایپرو پری ایشن ایکٹ 2009ء (پبلک لاء 32-III کے تحت قائم ہے) اس کا دا ئرہ کار ان ادائیگیوں تک وسیع ہوگا جن کا تعلق
(الف) لیٹر آف آفر اینڈ ایکسپٹینس (Letter Of Offer And Acceptnce)، PK-D- NAP سے ہے۔ جن پر امریکا اور پاکستان نے 30ستمبر 2006ء کو دستخط کئے تھے اور
(ب)پاکستان اور امریکا کی حکومتوں کے درمیان 30ستمبر 2006کو دستخط شدہ لیٹر آف آفر اینڈ ایکسپٹنس PK-D-NAPاور
(ج) (Letter Of Offer And Acceptnce)، PK-D- NAP جس پر امریکی حکومت اور حکومت پاکستان کی جانب سے 30ستمبر 2006ء کو دستخط ہوئے تھے۔ استثنیٰ:… مالی سال 2010ء سے 2014ء تک کیلئے جو فنڈز سیکورٹی میں مدد دینے کے لئے مختص کئے گئے ہیں وہ تعمیرات اور متعلقہ سرگرمیوں کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں جن کی وضاحت Letter Of Offer And Acceptnce کے پیرا گراف (1) میں کی گئی ہے۔ تحریری دستاویز:… وزیر خارجہ صدر کی ہدایت کے تحت مختص رقم میں سیکشن (B)-A) اور (D) کے تحت ایک سال کے لئے کمی کرسکتے ہیں وزیر خارجہ یہ اقدام اس وقت اٹھائیں گے جب انہیں خیال ہوگا کہ یہ اقدام امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔ تحریری دستاویز کا نوٹس:… وزیر خارجہ کو صدر کی ہدایت کے مطابق رقوم میں کمی کا اختیار پیرا گراف (1) کے مطابق اس وقت تک استعمال نہیں کرسکیں گے جب تک کانگریس کی متعلقہ کمیٹی کو اس سلسلے میں سات روز کے اندر تحریر نوٹس نہ مل جائے جس میں رقوم میں کمی کی وجوہات درج ہوں یہ نوٹس کلاسیفائیڈ یا نان کلاسیفائیڈ شکل میں ضرورت کے مطابق پیش کیا جائے گا۔
(ف) مناسب کانگریسی کمیٹیوں کی تعریف: اس حصے میں مناسب کانگریسی کمیٹیوں کی اصطلاح سے مراد ایوان نمائندگان کی نمبر 1 کمیٹی برائے خارجہ امور‘ کمیٹی برائے مسلح افواج‘ کمیٹی برائے حکومتی اصلاحات اور فروگذاشت‘ 2 سینیٹ کی امور خارجہ تعلقات کمیٹی‘ مسلح افواج کمیٹی اور نتیجہ کمیٹی برائے انٹیلی جنس ہیں۔ سیکشن 204 خانہ جنگی سے نمٹنے کی پاکستانی صلاحیت کا فنڈ (ایف) مالی سال 2010 (1) عمومی طور پر۔ برائے مالی سال 2010 کیلئے ریاست کے محکمہ نے ضمنی تخصیص ایکٹ 2009 (بپلک لا 111-32) کے تحت پاکستان کی خانہ جنگی سے نمٹنے کی صلاحیت کافنڈ قائم کر دیا گیا ہے۔ (اس کے بعد اسے صرف فنڈ لکھا جائے گا) پر مشتمل ہو گا۔ مناسب رقم پر جو اس سب سیکشن پرعملدرآمد کیلئے ہو گی (جو شاہد شامل نہیں ہو گی اس مناسب رقم میں 70 ایکٹ کے عنوان نمبر ایک پر عملدرآمد کیلئے ہے۔ (ب) وزیر خارجہ کو دستیاب رقم بصورت دیگر اس سب سیکشن پر عملدرآمد کیلئے ہو گی۔
(2) فنڈ کے مقاصد … فنڈز کی رقم اس سب سیکشن پرعملدرآمد کیلئے کسی بھی مالی سال دستیاب ہو گی اور اس کا استعمال وزیر خارجہ‘ وزیر دفاع کی اتفاق/ مشاورت سے کریں گے اور یہ پاکستان کی انسداد خانہ جنگی صلاحیت کے فروغ اور استحکام پر انہی شرائط کے تحت صرف ہو گی۔ ماسوائے اس سب سیکشن جو مالی سال 2009 کیلئے دستیاب فنڈ اور رقوم پر لاگو ہو گا۔
(3) ٹرانسفر اتھارٹی …
(الف) عمومی طور پر: امریکی وزیر خارجہ کسی بھی مالی سال کیلئے پاکستان انسداد خانہ جنگی فنڈ جو ضمنی تخصیص ایکٹ 2009 کے تحت قائم کیا گیا ہے‘ کو رقوم منتقل کرنے کی مجاز ہوں گی اور اگر وزیر دفاع کے اتفاق رائے سے یہ طے پائے کہ فنڈ کی ان مقاصد کیلئے مزید ضرورت نہیں جن کیلئے جاری کئے گئے تھے تو وہ وزیر خارجہ یہ رقوم واپس کر سکتے ہیں۔
(ب) منتقل فنڈ کا استعمال۔ سیکشن 203 کی ذیلی شق (د) اور (ع) کے تحت پیرا گراف (الف) میں دی گئی اتھارٹی اگر فنڈ منتقل کرتی ہے تو انہی اوقات اور مقاصد کے تحت پاکستان انسداد خانہ جنگی فنڈ کے لئے استعمال ہو گی۔
(ج) دوسری اتھارٹیوں سے تعلقات۔ اس سب سیکشن کے تحت معاونت فراہم کرنے والی اتھارٹی اضافی طور پر دیگر ممالک کو بھی امداد کی فراہمی کا اختیار رکھے گی۔ (د) نوٹیفکیشن۔ وزیر خارجہ سب پیرا گراف (اے) کے تحت فنڈز کی فراہمی سے کم از کم 15 روز قبل کانگریس کی کمیٹیوں کو تحریری طور پر فنڈز کی منتقلی کی تفصیلات سے آگاہ کریں گی۔
(ر) نوٹیفکیشن کی فراہمی۔ اس سیکشن کے تحت کسی نوٹیفکیشن کی ضرورت کی صورت میں کلاسیفائیڈ یا غیر کلاسیفائیڈ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ (س) کانگریسی کمیٹیوں کی وضاحت۔ اس سیکشن کے تحت مجاز کانگریشنل کمیٹیوں سے مراد (1) ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی اور خارجہ تعلقات کمیٹی (2) سینیٹ کی آرمڈ سروسز اور خارجہ تعلقات کمیٹی ہے۔ سیکشن 205… فراہم کی گئی امداد کا سویلین کنٹرول … ضروریات (1) مالی سال 2010 سے مالی سال 2014 کے دوران حکومت پاکستان کو سیکورٹی کیلئے فراہم کی گئی براہ راست نقد امداد پاکستان کی سویلین حکومت کے سویلین حکام کو فراہم کی جائے گی۔ کیری لوگر بل کی سیکشن 205 کے تحت مخصوص امدادی پیکیج پر سویلین کنٹرول کی شرط … کیری لوگر بل میں سیکشن 205 کے تحت پاکستان کو امداد کی فراہمی کیلئے سویلین کنٹرول کی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ (ا) شرائط :
(1) عمومی طور پر 2010ء سے 2014ء تک حکومت پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ملنے والی سیکورٹی معاملات سے متعلقہ کیش امداد یا دیگر نان اسسٹنس (غیر امدادی) ادائیگیاں صرف پاکستان کی سویلین حکومت کی سویلین اتھارٹی کو دی جائیگی۔
(2) دستاویزی کارروائی مالی سال 2010-2014ء تک امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع کی معاونت اور تعاون سے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ امریکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کو دی جانے والی غیر امدادی (Non-Assistance) ادائیگیوں کی حتمی دستاویزات پاکستان کی سویلین حکومت کی سویلین اتھارٹی کو وصول ہو چکی ہیں۔
(ب) شرائط میں چھوٹ :
(1) سیکورٹی سے متعلق امداد، بل کے مطابق امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع سے مشاورت کے بعد ذیلی سیکشن (a) کے تحت سیکورٹی سے متعلق امداد پر عائد شرائط کو ختم کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ یہ سیکورٹی امداد امریکی بجٹ کے فنکشن نمبر 150 (بین الاقوامی معاملات) سے دی جا رہی ہو اور امریکی وزیر خارجہ کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو اس امر کی یقین دہانی کرائیں کہ شرائط میں چھوٹ امریکہ کی قومی سلامتی کیلئے ضروری اور امریکی مفاد میں ہیں۔
(2) غیر امدادی (Non-Assistance) ادائیگیاں امریکی وزیر دفاع، وزیر خارجہ کی مشاورت سے ذیلی سیکشن (a) کے تحت ایسی غیر امدادی ادائیگیاں جو بجٹ فنکشن 050 (قومی دفاع) کے اکاؤنٹس سے کی جا رہی ہوں۔ پر عائد شرائط کو ختم کر سکتے ہیں۔ تاہم اس چھوٹ کیلئے وزیر دفاع کو کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو یقین دہانی کرانا ہو گی۔ کہ پابندیاں میں چھوٹ امریکہ کے قومی مفاد کیلئے اہم ہے۔ (ج) بعض مخصوص سرگرمیوں پر سیکشن (205) کا اطلاق۔ درج ذیل سرگرمیوں پر سیکشن 205 کے کسی حصے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
(1) ایسی کوئی بھی سرگرمی جس کی رپورٹنگ 1947 کے قومی سلامتی ایکٹ (50U.S.C. 413 et Seq) کے تحت کیا جانا ضروری ہے۔
(2) جمہوری انتخابات یا جمہوری عمل میں عوام کی شرکت کی فروغ کیلئے دی جانے والی امداد،
(3) ایسی امداد یا ادائیگیاں جن کا وزیر خارجہ تعین کریں اور کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو یقین دہانی کرائیں کہ مذکورہ امداد یا ادائیگیوں کو ختم کرنے سے جمہوریت حکومت اقتدار میں آ گئی ہے۔
(4) مالی سال 2005ء میں رونلڈ ڈبلیو ریگن نیشنل ڈیفنس آتھورائزیشن ایکٹ کی سیکشن (208 ) (ترمیم شدہ) کے تحت ہونے والی ادائیگیاں
( Public Law 108-375, 118 Stat 2086 ، (5 امریکی محکمہ دفاع اور وزارت دفاع اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مابین کراس سروسنگ معاہدے کے تحت کی جانے والی ادائیگیاں،
(6) مالی سال 2009ء کیلئے ڈنکن ہنٹر نیشنل ڈیفنس آتھورائزیشن ایکٹ کی سیکشن (943) کے تحت کی جانے والی ادائیگیاں Public Law 110-417, 122 Stat 4578
(د) ”اصطلاحات“ کی وضاحت / تعریف سیکشن 205 میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی تعریف / وضاحت اس طرح ہے۔
(1) ”متعلقہ کانگریس کمیٹیوں“ سے مراد ایوان نمائندگان اخراجات سے متعلق کمیٹیاں، آرمڈ سروسز اور فارن افیئرز کی کمیٹیاں سینٹ کی اخراجات سے متعلق کمیٹیاں، آرمڈ سروسز اور فارن افیئرز کمیٹیاں ہیں۔
(2) ”پاکستان کی سویلین حکومت“ کی اصطلاح میں ایسی پاکستانی حکومت شامل نہیں ۔جس کے باقاعدہ منتخب سربراہ کو فوجی بغاوت یا فوجی حکم نامے کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا ہو۔ عنوان III حکمت عملی، احتساب، مانیٹرنگ اور دیگر شرائط … سیکشن 301 حکمت عملی رپورٹس …
(اے) پاکستان کی امداد سے متعلق حکمت عملی کی رپورٹ۔ اس ایکٹ کے نافذالعمل ہونے سے 45 روز کے اندر سیکرٹری خارجہ کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو پاکستان کی امداد سے متعلق امریکی حکمت عملی اور پالیسی کے حوالے سے رپورٹ پیش کرے گا۔ رپورٹ میں درج ذیل چیزیں شامل ہوں گی۔
(1) پاکستان کو امریکی امداد کے اصولی مقاصد …
(2) مخصوص پروگراموں، منصوبوں اور سیکشن 101 کے تحت وضع کردہ سرگرمیوں کی عمومی تفصیل اور ان منصوبوں، پروگراموں اور سرگرمیوں کے لئے مالی سال 2010ء سے 2014ء تک مختص کردہ فنڈز کی تفصیلات۔
(3) ایکٹ کے تحت پروگرام کی مانیٹرنگ آپریشنز، ریسرچ اور منظور کردہ امداد کے تجزیئے کا منصوبہ۔
(4) پاکستان کے قومی، علاقائی، مقامی حکام، پاکستان سول سوسائٹی کے ارکان، نجی شعبہ، سول، مذہبی اور قبائلی رہنماؤں کے کردار کی تفصیلات جو ان پروگراموں، منصوبوں کی نشاندہی اور ان پر عملدرآمد میں تعاون کریں گے جن کے لئے اس ایکٹ کے تحت امداد دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ حکمت عملی وضع کرنے کے لئے ایسے نمائندوں سے مشاورت کی تفصیل:
5: اس ایکٹ کے تحت اٹھائے گئے اور اٹھائے جانے والے اقدامات سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ امداد افراد اور دہشت گرد تنظیموں سے الحاق رکھنے والے اداروں تک نہ پہنچے۔
6: اس ایکٹ کے تحت پاکستان کو فراہم کردہ امداد کی سطح کا تخمینہ لگانے کیلئے اسے مندرجہ ذیل کیٹیگریوں میں تقسیم کیاگیا جسے میلینیم چیلنج اکاؤنٹ امداد (Assistance) کے لئے اہل امیدوار ملک کے تعین کے طریقہ کار کے حوالے سے سالانہ معیاری رپورٹ (Criteria Report) میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ کیٹیگریز مندرجہ ذیل ہیں۔ (I) عوامی آزادی (II) سیاسی حقوق (III) آزادی اظہار رائے اور احتساب (IV) حکومت کی موثریت (V) قانون کی بالادستی (VI) بدعنوانی پر قابو (VII) بیماریوں کی شرح (VIII) شعبہ صحت پر خرچ (IX) لڑکیوں کی پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے کی شرح (X) پرائمری تعلیم پر بجٹ (XI) قدرتی وسائل کا استعمال (XII) کاروباری مشکلات کے خاتمے (XIII) لینڈ رائٹس اور ان تک رسائی (XIV) تجارتی پالیسی (XV) ریگولیٹری کوالٹی (XVI) مہنگائی پر قابو(XVII) مالی پالیسی
7: پاکستان کے پاس پہلے سے موجود ہیلی کاپٹرز کی تبدیلی اور اس حوالے سے تربیت اور ان کی درستگی کے لئے سفارشات اور تجزیہ بھی کیا جائے گا۔
(B) علاقائی حکمت عملی کی تفصیلی رپورٹ … کانگریس کی فہم و فراست: یہ کانگریس کی فہم و فراست ہے کہ امریکی قومی سلامتی کے مقاصد کے حصول، پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لئے ایک تفصیلی ترقیاتی منصوبے کی ضرورت ہے جس میں دیگر متعلقہ حکومتوں کے تعاون و اشتراک سے قومی طاقت کے تمام عناصر کو اس مقصد کے لئے استعمال میں لایا جائے۔ پاکستان کی دیرپا خوشحالی اور سلامتی کے لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے مابین مضبوط تعلقات ہوں۔ علاقائی سلامتی کی تفصیلی حکمت عملی : پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لئے صدر پاکستانی حکومت اور دیگر علاقائی حکومتوں اور اداروں کے اشتراک سے علاقائی سلامتی کی حکمت عملی ترتیب دینگے۔ پاک افغان سرحدی علاقوں فاٹا، صوبہ سرحد، بلوچستان اور پنجاب کے علاقوں میں اس علاقائی سلامتی کی حکمت عملی پر موثر عملدرآمد اور انسداد دہشت گردی کے لئے موثر کوششیں عمل میں لائی جائیں گی۔
3: رپورٹ: عمومی طور پر اس ایکٹ کے لاگو ہونے کے 180 روز کے اندر اندر صدر علاقائی سلامتی کی حکمت عملی کے حوالے سے رپورٹ کانگریس کمیٹی کو جمع کروائیں گے جس کے مندرجات میں علاقائی سلامتی کی حکمت عملی کی رپورٹ کی کاپی، اہداف کا تعین اور تجویز کردہ وقت اور حکمت عملی پر عمل کے لئے بجٹ کی تفصیل شامل ہے۔
(ب) رپورٹ میں ریجنل سیکورٹی کی جامع حکمت عملی کی ایک نقل شامل ہوگی جس میں اہداف سمیت حکمت عملی پر عملدرآمد کیلئے مجوزہ وقت اور بجٹ کی تفصیلات شامل ہوں گی۔
(C)مناسب کانگریسی کمیٹی کی تعریف … اس پیراگراف کے مطابق مناسب کانگریسی کمیٹی کا مطلب۔
(i ) ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے Appropriations ‘امورکمیٹی برائے مسلح افواج ‘کمیٹی برائے خارجہ امور اور مستقل سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس ہوگا اور
(ii) سینٹ کی کمیٹی برائے Appropriations‘ کمیٹی برائے مسلح افواج‘ کمیٹی برائے خارجہ امور اور مستقل سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس ہوگا۔
(C) سکیورٹی میں مدد کے حوالے سے منصوبہ: اس قانون کے بنائے جانے کے 180 دن کے اندر وزیر خارجہ مناسب کانگریسی کمیٹی کے سامنے وہ منصوبہ پیش کریں گے جس کیلئے فنڈز مختص کئے جائیں گے اور یہ مالی سال 2010ء سے 2014ء تک ہرسال ہوگا‘ اس منصوبے میں یہ بتایا جائے گا کہ رقم کا استعمال کس طرح سے سیکشن 204 میں مذکورہ رقوم سے متعلقہ ہے۔ سیکشن :302 مانیٹرنگ رپورٹس (a) سیکشن 301(اے) پر عمل کرتے ہوئے Pakistan Assistance Strategy Report پیش کئے جانے کے 180 دن کے اندر (ششماہی) اور بعدازاں 30 ستمبر 2014ء تک ششماہی بنیادوں پر سیکرٹری خارجہ کی طرف سے سیکرٹری دفاع کے ساتھ مشاورت کے بعد مناسب کانگریسی کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے گی جس میں اس طرح (180 دنوں میں) میں فراہم کی گئی مدد/ معاونت کی تفصیلات ہوں گی۔ اس رپورٹ میں درج ذیل تفصیلات ہوں گی۔ (1) جس عرصے کیلئے یہ رپورٹ ہوگی اس عرصے کے دوران اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت کسی پروگرام ‘ پراجیکٹ اور سرگرمی کے ذریعے فراہم کی گئی معاونت اور اس کے ساتھ ساتھ جس علاقے میں ایسا کیا گیا ہوگا اس کا حدود اربعہ اس رپورٹ میں شامل ہوگا اور اس میں اس رقم کا بھی ذکر ہوگا جو اس کے لئے خرچ ہوگی‘ جہاں تک پہلی رپورٹ کا تعلق ہے تو اس میں مالی سال 2009ء میں پاکستان کی معاونت کیلئے فراہم کی گئی رقوم کی تفصیل ہوگی اور اس میں بھی ہر پروگرام ‘ پراجیکٹ اور سرگرمی کے بارے میں بتایا جائے گا۔
(2) رپورٹ کے عرصے کے دوران اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت پراجیکٹ شروع کرنے والے ایسے امریکی یا کسی اور ملک کے شہریوں یا تنظیموں کی فہرست بھی رپورٹ میں شامل ہوگی جو ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم /فنڈز حاصل کریں گے اور یہ فہرست کسی کلاسیفائیڈ ضمیمہ میں دی جاسکتی ہے تاکہ اگر کوئی سکیورٹی رسک ہوتو اس سے بچا جاسکے اور اس میں اس کو خفیہ رکھنے کا جواز بھی دیا جائے گا
(3) رپورٹ میں سیکشن 301 (اے) کی ذیلی شق (3) میں مذکورہ منصوبے کے بارے میں تازہ ترین اپ ڈیٹس/پیش رفت اور اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت دی گئی معاونت کے اثرات کی بہتری کے لئے اقدامات کی تفصیل بھی شامل ہوگی۔
(4) رپورٹ میں ایک جائزہ بھی پیش کیا جائے گا جس میں اس ایکٹ کے تحت فراہم کی گئی معاونت کے موثر/اثر پذیری کا احاطہ کیا گیا ہوگا اور اس میں سیکشن 301 (اے) کی ذیلی شق 3 میں بتائے گئے طریقہ کار کو مد نظر رکھ کر مطلوبہ مقاصد کے حصول یا نتائج کا جائزہ لیا گیا ہوگا اور اس سب سیکشن کے پیراگراف 3 کے تحت اس میں ہونیوالی پیش رفت یا اپ ڈیٹ بھی بیان کی جائے گی جوکہ یہ جانچنے کیلئے کہ آیا مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ہیں یا نہیں ایک منظم مربوط بنیاد فراہم کرے گی‘ اس رپورٹ میں ہر پروگرام اور پراجیکٹ کی تکمیل کا عرصہ بھی بتایا جائے گا۔
(5) امریکا کی طرف سے مالیاتی فزیکل ‘ تکنیکی یا انسانی وسائل کے حوالے سے کوئی کمی وبیشی جوکہ ان فنڈز پر موثر استعمال یا مانیٹرنگ میں رکاوٹ ہوگی ‘کے بارے میں بھی اس رپورٹ میں ذکر کیا جائے گا۔
(6) امریکا کی دوطرفہ یا کثیر الطرفہ معاونت کے منفی اثرات کا ذکر بھی اس رپورٹ میں شامل ہوگا اور اس حوالے سے اگر کوئی ہوگی تو پھر تبدیلی کیلئے سفارشات بھی دی جائیں گی اور جس علاقے کیلئے یہ فنڈز یا معاونت ہوگی اس کی انجذابی صلاحیت /گنجائش بھی رپورٹ میں مذکور ہوگی۔
(7) رپورٹ میں اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت ہونے والے اخراجات کے ضیاع‘ فراڈ یا غلط استعمال کے حوالے سے کوئی واقعہ یا رپورٹ بھی شامل کی جائے گی۔
( 8۔ ان فنڈز کی رقم جوکہ سیکشن 102 کے تحت استعمال کیلئے مختص کی گئی اور جوکہ رپورٹ کے عرصے کے دوران انتظامی اخراجات یا آڈٹ یا سیکشن 103 یا 101 (سی) کی ذیلی شق 2 کے تحت حاصل اختیارات کے ذریعے استعمال کی گئی کی تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل ہوں گی۔
(9) سیکشن 101 (سی) کی ذیلی شق 5 کے تحت قائم/ مقرر کردہ چیف آف مشن فنڈ کی طرف سے کئے گئے اخراجات جوکہ اس عرصے کے دوران کئے گئے ہوں گے جس کیلئے رپورٹ تیار کی گئی ہے اس رپورٹ میں شامل ہوں گے اس میں ان اخراجات کا مقصد بھی بتایا جائے گا اور اس میں چیف آف مشن کی طرف سے ایک لاکھ ڈالر سے زائد کے اخراجات کے وصول کنندگان کی فہرست بھی شامل ہوگی۔
(10) اس ایکٹ کے ٹائٹل ایک کے تحت پاکستان کو فراہم کی گئی معاونت کا حساب کتاب (اکاؤنٹنگ) جوکہ سیکشن 301 (اے) کی ذیلی شق 6 میں دی گئی مختلف کٹییگریز میں تقسیم کی گئی ہے کی تفصیل بھی رپورٹ میں بیان کی جائے گی۔
(11) اس رپورٹ میں درج ذیل مقاصد کیلئے حکومت پاکستان کی طرف سے کی گئی کوششوں کے جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔ (الف) فاٹا یا بندو بستی علاقوں میں القاعدہ ‘ طالبان یادیگر انتہا پسند اور دہشت گرد گروپوں کے خاتمے‘ ان کو غیر موثر یا شکست دینے کیلئے کی گئی کوششیں۔ (ب) ایسی قوتوں کے پاکستان میں موجود محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کیلئے کی گئی کوششیں … (ج) لشکر طیبہ اور جیش محمد کے تربیتی مراکزکی بندش (د) دہشت گرد اور انتہا پسند گروپوں کوہر قسم کی مدد و تعاون کا خاتمہ (ر) ہمسایہ ممالک میں حملوں کی روک تھام کیلئے کوششیں / اقدامات (س) مدارس کے نصاب کی نگرانی میں اضافہ اور طالبان یا دہشت گرد یا انتہا پسند گروپوں سے تعلق رکھنے والے مدارس کی بندش کیلئے کی گئی کوششیں۔ (ش) انسداد منی لانڈرنگ قوانین اور دہشت گردی کے انسداد کیلئے فنڈز کے استعمال میں بہتری یا اضافے کی کوششیں یا اقدامات مالیاتی ایکشن ٹاسک فورس کیلئے مبصر کا درجہ اور دہشت گردی کیلئے مالی وسائل کی فراہمی روکنے کیلئے اقوام متحدہ کے بین الاقوامی کنونشن پر عملدرآمد کیلئے کی گئی کوششیں۔
(12) پاکستا ن کی طرف سے جوہری عدم پھیلاؤ (جوہری مواد اور مہارت) کیلئے کی گئی کوششوں کی جامع تفصیل بھی اس رپورٹ میں شامل ہوگی۔
(13) اس رپورٹ میں ایک جائزہ بھی پیش کیا جائے گا تاکہ آیا پاکستان کو فراہم کی گئی معاونت اس کے جوہری پروگرام کی توسیع میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مددگار ثابت ہوئی ہے یانہیں‘ آیا امریکی معاونت کے انحراف یا پاکستان کے وسائل کی Realloction جوکہ بصورت دیگر پاکستان کے جوہری پروگرام سے غیر متعلقہ سرگرمیوں پر خرچ ہوں گے۔
(14) رپورٹ میں سیکشن 202 (بی) کے تحت مختص کئے گئے اور خرچ کئے گئے فنڈز کی جامع تفصیلات بھی شامل ہوں گی۔
(15) اس رپورٹ میں حکومت پاکستان کا فوج پر موثر سویلین کنٹرول‘ بشمول سویلین ایگزیکٹو لیڈرز اور پارلیمنٹ کا فوجی /ملٹری بجٹ کی نگرانی اور منظوری ‘ کمانڈ کے تسلسل ‘ سینئر فوجی افسروں کی ترقی میں عمل دخل کی تفصیلات ‘سٹریٹجک پلاننگ میں سویلین عمل دخل اور سول انتظامیہ میں فوجی مداخلت کی تفصیلات بھی شامل ہوں گی۔ (b) حکومتی احتساب دفتر کی رپورٹس … پاکستان معاونت لائحہ عمل رپورٹ: سیکشن 301 (اے) کے تحت پاکستان معاونت لائحہ عمل رپورٹ پیش کئے جانے کے ایک سال کے اندر کنٹرولر جنرل آف امریکا مناسب کانگریسی کمیٹی کو ایک رپورٹ پیش کرے گا جس میں درج ذیل تفصیلات مذکور ہوں گی۔ (الف) پاکستان معاونت لائحہ عمل رپورٹ کا جائزہ اور اس حوالے سے رائے (ب) اس ایکٹ کے تحت مقاصد کے حصول کیلئے امریکی کوششوں کو موثر بنانے کیلئے اگر کنٹرولر جنرل کوئی اضافی اقدامات مناسب سمجھتا ہے تو وہ بھی بیان کئے جائیں گے۔ (پ) آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ (22 یو ایس سی) کی شق 22 کے تحت دی گئی گرانٹ کے مطابق پاکستان کی طرف سے کئے گئے اخراجات کی مفصل رپورٹ بھی پیش کی جائے گی۔

کیری لوگر بل کا متن تو آپکی خدمت میں حاضر ہے امید ہے کہ اسکو مدنظر رکھ کر آ پنی آرا قائم کرسکتے ہیں۔
 
Top