بلیک ہول – سائنس اور مذہب
13/04/2019 خورشید ندیم
جو نا قابلِ دید تھا، سائنس نے اسے قابلِ دید بنا دیا۔
سائنس دان کی آنکھیں مسرت سے بھیگ گئیں جب اس نے پہلی بار بلیک ہول کی تصویر دیکھی۔ ”ہم نے وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جسے ایک نسل پہلے نا ممکن سمجھا جاتا تھا“ سائنس دان نے انکشاف کیا۔
اہلِ سائنس کہتے ہیں کہ کہکشاؤں کے مرکز میں کہیں خلا ہوتا ہے۔ جو شے اس کے قریب جاتی ہے، اس کا رزق بن جاتی ہے۔ فطرت کے سب اصول اس مقام پر بے بس ہو جاتے ہیں۔ اس خلا۔ ”بلیک ہول“ کے ارد گرد ایک دائرہ ہے۔ یہاں سے گزرنے والی کوئی شے اس کی کشش کی تاب نہیں لا سکتی اور اس خلا کی وسعتوں میں گم ہو جاتی ہے۔ کوئی ایسی دور بین، اب تک ایجاد نہیں ہو سکی جو اس کو دیکھ سکے۔ آٹھ طاقت ور ترین دور بینیں ایک ساتھ استعمال ہوئیں تب کہیں اسے دیکھنا ممکن ہوا۔ یہ بلیک ہول دنیا سے پچاس کروڑ کھرب کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ اس کی لمبائی چار سو ارب کلو میٹر ہے۔ یہ زمین کے حجم سے تیس لاکھ گنا ہے۔ اہلِ سائنس اس کامیابی پر سرشار ہیں۔ دنیا والوں کو اس کی خبر دی گئی تو واشنگٹن، برسلز، شنگھائی اور ٹوکیو سمیت آٹھ مقامات پر بیک وقت پریس کانفرنس کی گئی۔
میں سائنس کا طالبِ علم نہیں ہوں۔ جو سمجھ سکا سادہ لفظوں میں بیان کر دیا۔ یہ ادراک البتہ کر سکتا ہوں کہ سائنس دانوں کی یہ مسرت بے جا نہیں ہے۔ کائنات کے سربستہ رازوں کو جاننے کے لیے، صدیوں سے جاری سفر کا یہ اہم پڑاؤ ہے۔ میں سماجیات کا ایک طالب علم ہوں اور اس نسبت سے یہ جانتا ہوں کہ سائنسی دریافت کا یہ عمل انسان کے تصورِ کائنات سے لے کر اس کی تہذیب اور کلچر تک سب معاملات پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے پہیہ ایجاد ہوا تو اس نے انسانی تہذیب کو بدل ڈالا۔ صنعتی انقلاب کے بعد، دنیا وہ نہیں رہی، جو اس سے پہلے تھی۔ سائنس کا کوئی منکر بھی اس تبدیلی کا انکار نہیں کر سکتا۔ میں ”بھاپ کے انجن“ کے سوا اس تہذیبی تبدیلی کی کوئی دوسری وجہ بھی دریافت نہیں کر سکا۔
سماجیات کا یہ طالب علم اس سائنسی عمل سے چند نتائج اخذ کرتا ہے۔
1۔ انسانی تہذیب کی باگ گزشتہ چند صدیوں سے سائنس کے ہاتھ میں ہے۔ وہی اس کا رخ متعین کر رہی ہے۔ اس دنیا میں مجھے کوئی دوسری ایسی قوت دکھائی نہیں دے رہی جو سائنس کے ہاتھ سے یہ باگ چھین سکے۔ یہ عمل جاری ہے اور جاری رہے گا۔
2۔ سائنس کی ہر دریافت منزل نہیں پڑاؤ ہے۔ کسی سائنسی دریافت کے نتیجے میں ان سوالات کے حتمی جواب نہیں مل سکتے جو روزِ اول سے مذہب و فلسفہ کے پیشِ نظر ہیں۔ اگر کوئی ایسے پڑاؤ کو منزل قرار دیتا ہے اور اس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے مذہب و فلسفہ کو لا تعلق کر دیا تو وہ عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے اور یہ ایک غیر علمی رویہ ہے۔ جب سائنس دان یہ کہتا ہے کہ ہم نے وہ کچھ حاصل کیا جو ایک نسل سے پہلے نا ممکن تھا تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو سائنس دان کو آج نا ممکن دکھائی دے رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ آنے والی نسل کے لیے یہ ممکن ہو جائے۔ حقیقی سائنس دانوں کو اس بات کا اعتراف ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی معلومات کی بنیاد پر کبھی حتمی دعویٰ نہیں کرتے۔
3۔ وہ تصورِ علم اب متروک ہوتا جا رہا ہے، جس نے گزشتہ چند صدیوں سے انسان کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ یہ تصور حواس سے حاصل ہونے والے علم ہی کو حقیقی شمار کرتا تھا۔ اب وہ کچھ قابلِ دید ہو گیا ہے جو پہلے ہماری بصارت کی حدود سے باہر تھا۔ اب یہ کہنا کہ جو آج دکھائی نہیں دیتا، وہ وجود نہیں رکھتا، خود سائنس کے نزدیک ایک غیر علمی بات ہے۔
4۔ سائنس نے طبیعات اور ما بعدالطبیعات کے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ اب مسلمانوں کا وہ علمِ کلام بڑی حد تک متروک ہوتا جا رہا ہے، جسے حسی علم کو بنیاد مان کر مرتب کیا گیا تھا۔ برِ صغیر میں سر سید احمد خان نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ اس ضمن کی آخری علمی کاوش علامہ اقبال کے خطبات ہیں ’جنہوں نے علم بالوحی اور علم بالحواس میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ دن شاید اب دور نہیں جب بیسویں صدی کا ہمارا علمِ کلام ماضی کی داستان بن جائے۔
یہ علمی ارتقا اس نقطہ نظر کو بھی رد کر رہا ہے جو سائنس کو علمی مسلمہ مان کر مذہب کی تعبیر کرتا ہے۔ سائنسی تحقیقات کا مذہبی مسلمات کے خلاف نہ ہونا اور ان کا مذہبی علم کے لیے بنیاد بننا، دو مختلف باتیں ہیں۔ یہ ایک شکست خوردہ ذہنیت ہے کہ سائنس کی دریافتوں کا ماخذ مذہبی کتابوں میں تلاش کیا جائے۔ سائنس فطرت کے کسی قانون کو بے نقاب کرتی ہے تو ہم کہتے ہیں یہ تو پہلے ہی ہماری مذہبی کتابوں میں لکھا تھا۔ اس استدلال کے لیے علم کی دنیا میں کوئی قبولیت نہیں۔
5۔ جیسے جیسے سائنسی دریافت کا عمل طبیعات سے ما بعدالطبیعات کی طرف بڑھ رہا ہے، مذہب کے دفاع کے لیے نئی کمک کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب اصلاً ایک ما بعد الطبیعاتی عمل ہے۔ گویا علمِ جدید کے ساتھ مذہب کو اپنا تعلق نئی بنیادوں پر استوار کرنا پڑے گا۔ سادہ لفظوں میں مذہب کو ایک نئے علم کلام کی ضرورت ہے۔ سائنس کا علم ارتقا پذیر ہے۔ نیوٹن کے دور میں یہ کہا گیا کہ کائنات کی تخلیقی اکائی مادہ ہے۔ آئن سٹائن کی آمد نے اس تصور کو بدل دیا اور کہا گیا کہ یہ مادہ نہیں، توانائی ہے۔ اب بعض اہلِ سائنس شعور کو تخلیق کی بنیادی اکائی قرار دے رہے ہیں۔
6۔ جدید دنیا اور مسلم دنیا میں علم کا غیر معمولی تفاوت پیدا ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ درمیان میں صدیاں حائل ہیں۔ اس صورتِ حال میں مسلم غلبے کی بات دیوانے کا ایک خواب ہے۔ الا یہ کہ جدید دنیا مسلمان ہونے کا اعلان کر دے۔ اس کا دروازہ ظاہر ہے کہ ہر وقت کھلا ہے۔ موجودہ مذہبی تقسیم اگر برقرار رہتی ہے تو پھر مسلم غلبے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ مایوسی کی بات نہیں، امر واقعہ کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے۔ ہمارے لیے عروج ممکن ہے، اگر ہم علم میں اپنی برتری ثابت کر سکیں۔ اخلاقی برتری بھی عروج کا دروازہ کھول سکتی ہے مگر مسلم معاشرے اس باب میں بھی کوئی امتیاز نہیں رکھتے۔
ایک رویہ یہ بھی ہے کہ سائنسی تحقیق کے اس عمل ہی کو مشتبہ بنا دیا جائے۔ میں نہیں جان سکا کہ جہازوں میں سفر کرتے، ہاتھوں میں موبائل فون اٹھائے اور ہزاروں میل کے فاصلے پر نمودار ہونے والا ایک منظر پلک جھپکنے میں یہاں دیکھتے ہوئے کوئی ذی شعور یہ بات کہنے کی جسارت کر سکتا۔ ٹیکنالوجی سائنسی دریافتوں کے عملی اظہار ہی کا تو نام ہے۔ سائنسی عمل اگر غیر حقیقی ہے تو ٹیکنالوجی کے یہ مظاہر کیسے حقیقی ہو گئے؟
بلیک ہول کی تصویر پہلا واقعہ نہیں جس سے یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ علم کی دنیا میں اٹھنے والا ہر بڑا قدم دراصل ان باتوں کی تذکیر ہے۔ تہذیب کی باگ سائنس کے ہاتھ میں جا چکی۔ ہم تو مقلدِ محض ہیں اور ہمارے پاس تقلید کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ جب ہم ای میل اور وٹس ایپ کو استعمال کرتے ہوئے سائنس کو برا بھلا کہتے ہیں تو دراصل اپنے طرز عمل سے اپنی بات کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ بلیک ہول کی تصویر مذہب سے متصادم عمل نہیں ہے۔ یہ مذہب کی شکست بھی نہیں ہے۔ اس مقدمے کو واضح کرنے کے لیے ہی نئے علمِ کلام کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ توفیق میسر نہیں۔ سائنس دانوں سے الجھنے کے بجائے اس توفیق کے لیے دعا کرنی چاہیے۔
بشکریہ دنیا۔